نمازِ زلزلہ

تحریر: ابوسعید

❀ عبداللہ بن حارث الانصاری سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے بار ے میں کہتے ہیں :
انه صلٰي فى زلزلة بالبصرة، فأطال القنوت، ثم ركع، ثم رفع رأسه، فأطال القنوت، ثم ركع، فسجد، ثم قام فى الثانية، ففعل كذٰلك، فصارت صلاته ست ركعات و أربع سجدات، ثم قال ؛ هٰكذا صلاة الآيات .
”آپ نے بصرہ میں زلزلہ آنے پر نماز پڑھی، لمبا قیام کیا، پھر رکوع کیا، پھر سر اٹھایا اور لمبا قیام کیا، پھر رکوع کیا، پھر سجدہ کیا، اس کے بعد دوسری رکعت میں بھی ایسے ہی کیا، اس طرح ان کی نماز میں چھ رکوع اور چار سجدے ہوئے اور پھر فرمایا، اللہ تعالیٰ کی نشانیوں (آفات) کی نماز اسی طرح کی ہوتی ہے۔“ [السنن الكبري للبيهقي : 343/3، وسنده صحيح كالشمس و ضوحا]
◈ جعفر بن برقان کہتے ہیں :
كتب الينا عمر بن عبدالعزيز فى زلزلة كانت بالشام ؛ أن اخرجوا يوم الاثنين من شهر كذا و كذا، ومن استطاع منكم أن يخرج صدقة، فليفعل، فان الله تعالىٰ قال ؛ ﴿قَدْ أَفْلَحَ مَنْ تَزَكَّى * وَذَكَرَ اسْمَ رَبِّهِ فَصَلَّى﴾ [87-الأعلى:14]
”امام عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے ہمیں شام میں آنے والے زلزلے میں خط لکھا کہ تم فلاں مہینے میں اتوار کے دن نکلو اور جو کوئی صدقہ کرسکتا ہے، کرے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ﴿قَدْ أَفْلَحَ مَنْ تَزَكَّى * وَذَكَرَ اسْمَ رَبِّهِ فَصَلَّى﴾ ”یقیناً کامیاب ہو گیا جس نے پاکیزگی اختیار کی اور اللہ کا نام لیا، پھر نماز پڑھی۔““ [مصنف ابن ابي شيبه : 472/2، و سنده صحيح]

 

اس تحریر کو اب تک 34 بار پڑھا جا چکا ہے۔

Leave a Reply