نعت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کی شرعی حیثیت

تحریر: مولانا ابوالحسن مبشر احمد ربانی حفظ اللہ

سوال : نعت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کی شرعی حیثیت کیا ہے ؟
جواب : نعت صفت بیان کرنے اور تعریف کرنے کو کہا جاتا ہے، ہمارے ہاں نعت کی اصطلاح نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف و توصیف کے لیے مخصوص ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نعت بیان کرنے میں کوئی حرج نہیں بلکہ یہ عمل باعث اجر و ثواب ہے مگر شرط یہ ہے کہ اس میں شرک کی آمیزش نہ ہو جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
لا تطروني كما اطرت النصارى ابن مريم فإنما انا عبده فقولوا : عبد الله ورسوله .
’’ مجھے اس طرح نہ بڑھاؤ جس طرح عیسائیوں نے عیسیٰ علیہ السلام کو بڑھا چڑھا دیا ہے میں اس کا بندہ ہوں لہٰذا یہ کہو کہ ( وہ ) اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔“ [بخاري، كتاب احاديث الانبياء : باب قول الله تعالىٰ : واذكر فى الكتاب مريم : 3445]
اس سے ثابت ہو ا کہ غیر شرکیہ نعت یا دوسرے اشعار وغیرہ بھی جائز ہیں جیسا کہ سیدنا حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کافروں کی ہجو میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے اشعار پڑھا کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں فرمایا : ’’ ان (کافروں) کی ہجو کرو، جبرئیل علیہ السلام تمہارے ساتھ ہیں۔“ [بخاري، كتاب بدء الخلق : باب ذكر الملائكة صلوات الله عليهم : 3213]
قرآن مجید کی مندریہ ذیل آیت سے کئی لوگ غلط استدلال پیش کرتے ہیں کہ اشعار وغیرہ پڑھنا درست نہیں :
وَالشُّعَرَاءُ يَتَّبِعُهُمُ الْغَاوُونَ ﴿٢٢٤﴾ أَلَمْ تَرَ أَنَّهُمْ فِي كُلِّ وَادٍ يَهِيمُونَ ﴿٢٢٥﴾ وَأَنَّهُمْ يَقُولُونَ مَا لَا يَفْعَلُونَ [26-الشعراء:224]
’’ شاعروں کی پیروی وہ کرتے ہیں جو بہکے ہوئے ہوں۔ کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ شاعر ہر وادی میں سر ٹکڑاتے پھرتے ہیں اور وہ کہتے ہیں جو وہ کرتے نہیں۔“
اس آیت میں ان شعرا کی مذمت ہے جو اپنے اشعار میں اصول و ضوابط کی بجائے ذاتی پسند یا ناپسند کے مطابق اظہار رائے کرتے ہیں، غلو و مبالغہ سے کام لیتے ہیں اور شاعرانہ خیالات میں بھٹکتے پھرتے ہیں۔ اس قسم کے اشعار کے لیے حدیث میں بھی فرمایا گیا ہے کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
لان يمتلئ جوف الرجل قيحا يريه خير من ان يمتلئ شعرا
’’ پیٹ کا لہو پیپ سے بھر لینا جو اسے خراب کر دے، شعر کے ساتھ بھر لینے سے بہتر ہے۔“ [مسلم، كتاب الشعر : باب فى انشاد الاشعار و بيان اشعر الكلمة و ذم الشعر : 5893 ]
مذکورہ آیات کے متصل ہی آیت مبارکہ میں ان شاعروں کو مستثنیٰ کر دیا گیا ہے جن کی شاعری صداقت اور حقائق پر مبنی ہے اور استثناء ایسے الفاظ سے فرمایا گیا ہے جن سے واضح ہوتا ہے کہ ایماندار، عمل صا لح پر کاربند اور بکثرت ذکر الہیٰ کرنے والا شاعر غلط، جھوٹی اور خیالی شاعری کر ہی نہیں سکتا۔ دیکھیے : [ الشعراء : 227]
اس لیے شرک و کذب سے پاک اشعار اور نعت وغیرہ پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

اس تحریر کو اب تک 28 بار پڑھا جا چکا ہے۔

Leave a Reply