نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا نام سن کر انگوٹھے چومنا

تحریر: مولانا ابوالحسن مبشر احمد ربانی

سوال : کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا نام سن کر انگوٹھے چومنا جائز ہے ؟
جواب : جب اذان ہو رہی ہو تو مؤذن کے کلمات کا جواب دینا چاہیے اور مؤذن کے کلمات اشهد ان ….. کے بعد مندرجہ ذیل کلمات پڑھنے چاہیے :
وانا اشهد ان لا اله الا الله وحده لا شريك له و ان محمدا عبده و رسوله رضيت بالله ربا و بمحمد رسولا و بالاسلام دينا [ مسلم، كتاب الصلاة، باب استحباب القول مثل قول الموذن ……. الخ 386، ابن خزيمة 1/ 220]

اس کے علاوہ اذان ہوتے وقت کوئی اور عمل قرآن و حدیث، صحابہ کرام رضی اللہ عنہ اور تابعین رحمہ اللہ سے ثابت نہیں۔ اذان نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بھی ہوتی تھی اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہ سنتے تھے، انہیں جو تعلیم دی گئی تھی وہ احادیث میں مذکور ہے، عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا :
إذا سمعتم المؤذن فقولوا مثل ما يقول ثم صلوا علي
’’ جب تم اذان سنو تو جو کلمات مؤذن کہتا ہے وہی تم بھی کہا کرو اور پھر مجھ پر درود پڑھو۔“ [صحيح مسلم : 849]

صحیح مسلم کی دوسری روایت میں اس کی وضاحت موجود ہے۔ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
إذا قال المؤذن : الله اكبر الله اكبر فقال احدكم : الله اكبر الله اكبر ثم قال : اشهد ان لا إله إلا الله قال : اشهد ان لا إله إلا الله ثم قال : اشهد ان محمدا رسول الله قال : اشهد ان محمدا رسول الله ثم قال : حي على الصلاة قال : لا حول ولا قوة إلا بالله ثم قال : حي على الفلاح قال : لا حول ولا قوة إلا بالله ثم قال : الله اكبر الله اكبر قال : الله اكبر الله اكبر ثم قال : لا إله إلا الله قال : لا إله إلا الله من قلبه دخل الجنة
’’ جب مؤذن الله اكبر الله اكبر کہے تو تم الله اكبر الله اكبر کہو، پھر جب وہ اشهد ان لا اله الا الله کہے تو تم بھی اشهد ان لا اله الا الله کہو، پھر جب وہ کہے اشهد ان محمدا رسول الله تو تم بھی اشهد ان محمدا رسول الله کہو، پھر جب وہ حي على الصلوة کہے تو تم لا حول ولا قوة الا بالله کہو، پھر جب وہ حي على الفلاح کہے تو تم لا حول ولا قوة الا بالله کہو، پھر جب وہ الله اكبر الله اكبر کہے تو تم بھی کہو، اور جب و الله اكبر الله اكبر ہ کہے لا اله الا الله تو تم بھی لا اله الا الله کہو، جس نے جواب خلوص دل سے دیا وہ جنت میں داخل ہو گا۔“ [ مسلم، كتاب الصلاة، باب استحبات القول مثل قول الموذن ……. الخ 850]

↰ اس کے علاوہ کسی بھی صحیح حدیث سے ثابت نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں انگوٹھے چومنے اور آنکھیں ملنے کا حکم دیا ہو اور نہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ میں سے کسی ایک صحابی سے صحیح سند سے ثابت ہے حتیٰ کہ ائمہ اربعہ سے کوئی اس کی سند پیش نہیں کر سکتا۔

↰ اس کی صریح اور واضح حدیث کے ہوتے ہوئے ( جس میں اشهد ان محمدا رسول الله کے جواب میں صرف وہی کلمہ دہرانے کی تعلیم ہے اور اس سارے جواب پر جنت کی ضمانت ہے کہیں بھی انگوٹھے چوم کر آنکھوں پر ملنے کا ذکر نہیں ہے ) افسوس صد افسوس کہ لوگوں نے کہیں انگوٹھے چومنے، کہیں قرة عيني والے الفاظ کہنے شروع کر دیے ہیں۔ یہ خود ساختہ حرکتیں اور خود ساختہ الفاظ ایسے ہیں جن کا دین اسلام سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔

↰ یہ بات بھی یاد رہے کہ اس بارے میں سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے اور دوسری جتنی روایات ہیں وہ سب کی سب موضوع یعنی بناوٹی اور خود ساختہ ہیں۔
چنانچہ فقہ حنفی کی معتبر کتاب رد المحتار [1/ 293] میں :
◈ ابن عابدین شامی لکھتے ہیں :
لم يصح في المرفوع من كل هذا شيء
’’ اس بارے میں جتنی بھی مرفوع روایات ہیں ایک بھی صحیح سند سے ثابت نہیں۔“

◈ علامہ شوکانی رحمہ اللہ نے ابن طاہر حنفی کی کتاب ’’ التذکرۃ“ کے حوالہ سے لکھا ہے :
”جس روایت میں ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بارے میں ہے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے انگوٹھا چوما، وہ روایت صحیح نہیں ہے۔“ [الفوائد المجموعة فى الاحاديث الموضوعة : 9]

◈ حسن بن علی ہندی تعلیقات مشکوٰۃ میں لکھتے ہیں :
كل ما روي في وضع الابهامين علي العينين عند سماع الشهادة الموذن لم يصح
’’ مؤذن سے شہادتین کے کلمے سنتے وقت آنکھوں پر انگوٹھے رکھنے کے بارے میں جو کچھ روایت کیا گیا ہے اس میں سے کچھ بھی صحیح نہیں۔“

◈ علامہ عینی حنفی نے اس سے منع فرمایا ہے، کہتے ہیں :
يحب علي السامعين ترك عمل غير الا جابة
’’ اذان سننے والے کو اذان کا جواب دینے کے علاوہ اور ہر عمل کو چھوڑ دینا ضروری ہے۔“

↰ حتیٰ کہ اہل علم نے تو ان روایات کو من گھڑت اور خود ساختہ قراد دیا ہے۔
◈ امام ابونعیم الاصبہانی نے کہا :
ما روي في ذلك كله موضوع
’’ اس بارے میں جو بھی روایت کیا گیا ہے وہ سب کا سب موضوع و من گھڑت ہے۔“

◈ علامہ سیوطی رحمہ اللہ نے بھی کہا ہے :
كلها موضوعات
’’ یہ سب کا سب موضوع و من گھڑت ہے۔“ [تيسير المقال]

↰ اور جس حدیث میں قرة عيني والی عبارت ہے، اس کے متعلق :
◈ امام شیبانی ’’ تمییز الطیب من الخبیث“ میں فرماتے ہیں :
قال شيخنا ولا يصح، في سنده مجاهيل مع انقطاعه عن الخضرو كل ما روي من هذا فلا يصح رفعه البتة
’’ شیخ سخاوی فرماتے ہیں کہ یہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ والی حدیث صحیح نہیں کیونکہ یہ منقطع بھی ہے اور اس کی سند میں راوی بھی مجہول ہیں۔“ [تمييز الطيب من الخبيث 189]

امام الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کا نام سن کر انگوٹھے چوم کر آنکھوں کو لگانا یہ محبت نہیں ہے بلکہ محبت اس چیز کا نام ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت اور فرمانبرداری کرنے کے لیے کائنات کی ہر چیز کو قربان کر دیا جائے۔ دیکھیں صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وضو کے پانی کو اپنے جسموں پر ملنا شروع کر دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
ما يحملكم علي هذا ؟ قالوا حب الله ورسوله، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: من سـره أن يحب الله ورسوله، أو يحبه الله ورسوله، فليصدق حديثه إذا حدث، وليؤد أمانته إذا اؤتمن، وليحسن جوار من جاوره
’’ تمہیں کس چیز نے ایسا کر نے پر ابھارا ہے ؟“ کہنے لگے : ’’ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت نے۔“ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ جسے یہ بات پسند ہے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرے اور اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس سے محبت کریں، تو وہ بات کرتے وقت سچ بولا کرے، امانت میں خیانت نہ کرے اور پڑوسیوں سے اچھا سلوک کرے۔“ [شعب الايمان للبيقي 1533، هداية الرواة 4920، الصحيحه 2998] یعنی قول و فعل میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سچا تابع بن جائے۔

 

اس تحریر کو اب تک 32 بار پڑھا جا چکا ہے۔

Leave a Reply