قبر میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات کا مسئلہ

تحریر: زبیر علی زئی رحمہ اللہ

سوال : اس میں کوئی شک نہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قبر مبارک میں زندہ ہیں۔ سوال یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی اخروی و برزخی زندگی ہے یا دنیاوی زندگی ہے ؟ ادلئہ اربعہ سے جواب دیں، جزاکم اللہ خیرا [ایک سائل 26ربیع الثانی 1426ھ]
جواب : از شیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ :
الحمد لله رب العالمين والصلوة والسلام على رسوله الأمين، أما بعد :
اول : اس بات میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ دنیا کی زندگی گزار کر فوت ہو گئے ہیں۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ : انك ميت و انهم ميتون ”بے شک تم وفات پانے والے ہو اور یہ لوگ بھی مرنے والے ہیں۔“ [الزمر : 30]

❀ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا :
ألامن كان يعبد محمدا فإن محمدا صلى الله عليه وسلم قدمات
’’ الخ سن لو ! جو شخص محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی عبادت کرتا تھا تو بے شک محمد صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے ہیں۔ [صحيح البخاري : 3668]
↰ اس موقع پر سیدنا ابوبکر الصدیق رضی اللہ عنہ نے وما محمد إلا رسول قد خلت من قبله الرسل الخ [آل عمران : 144] والی آیت تلاوت فرمائی تھی۔ ان سے یہ آیت سن کر (تمام) صحابہ کرام نے یہ آیت پڑھنی شروع کر دی۔ [البخاري : 1241، 1242] سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے بھی اسے تسلیم کر لیا۔ [دیکھئے صحیح البخاری 4454]
↰ معلوم ہوا کہ اس پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کا اجماع ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے ہیں۔

❀ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا :
مات النبى صلى الله عليه وسلم الخ
”نبی صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے“ [صحيح البخاري : 4446]

❀ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ نے فرمایا :
ما من نبي يمرض إلا خير بين الدنيا والآخرة
’’ جو نبی بھی بیمار ہوتا ہے تو اسے دنیا اور آخرت کے درمیان اختیار دیا جاتا ہے۔“ [صحيح البخاري 4586، صحيح مسلم : 2444]
↰ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کے بدلے آخرت کو اختیار کر لیا۔ یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ کی زندگی اخروی زندگی ہے جسے بعض علماء برزخی زندگی بھی کہتے ہیں۔

❀ ایک روایت میں ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں :
كنت أسمع أنه لايموت نبي حتي يخير بين الدنيا والآخرة
’’ میں (آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے) سنتی تھی کہ کوئی نبی بھی وفات نہیں پاتا یہاں تک کہ اسے دنیا اور آخرت کے درمیان اختیار دے دیا جاتا ہے۔“ [البخاري : 4435و مسلم : 2444]

❀ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا ہی فرماتی ہیں کہ :
فجمع الله بين ريقي و ريقه فى آخر يوم من الدنيا و أول يوم من الآخرة
’’ پس اللہ تعالیٰ نے آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے دنیا کے آخری دن اور آخرت کے پہلے دن میرے اور آپ کے لعاب دہن کو (مسواک کے ذریعے) جمع (اکٹھا) کر دیا۔ [صحيح البخاري : 4451]

❀ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے ایک دوسری روایت میں ہے کہ :
لقد مات رسول الله صلى الله عليه وسلم الخ
’’ یقیناً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے۔“ [صحيح مسلم : 29؍2974و ترقيم دارالسلام : 7453]
↰ ان کے علاوہ اور بھی بہت سے دلائل ہیں۔ ان صحیح و متواتر دلائل سے معلوم ہوا کہ سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، فداہ ابی و امی و روحی، فوت ہو گئے ہیں۔

❀ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اپنی نمازکے بارے میں فرماتے تھے کہ :
إن كانت هذه لصلاته حتي فارق الدنيا
’’ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہی نماز تھی حتی کہ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) دنیا سے چلے گئے۔ [صحيح البخاري : 803]

❀ ایک دوسری روایت میں ہے کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں فرمایا :
حتي فارق الدنيا ’’ حتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا سے چلے گئے۔“ [صحيح مسلم : 33؍2976و دارالسلام : 7458]

❀ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہی فرماتے ہیں کہ :
خرج رسول الله من الدنيا الخ
’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا سے چلے گئے۔“ [صحيح البخاري : 5414]

↰ ان ادلہ قطعیہ کے مقابلے میں :

◈ فرقہ دیوبندیہ کے بانی محمد قاسم نانوتوی (متوفی 1297ھ) لکھتے ہیں کہ :
”ارواح انبیاء کرام علیہم السلام کا اخراج نہیں ہوتا فقط مثل نور چراغ اطراف و جوانب سے قبض کر لیتے ہیں یعنی سمیٹ لیتے ہیں اور سوا ان کے اور وں کی ارواح کو خارج کر دیتے ہیں۔۔۔“ [جمال قاسمي ص 15]

تنبیہ : میر محمد کتب خانہ باغ کراچی کے مطبوعہ رسالے ”جمال قاسمی“ میں غلطی سے ”ارواح“ کی بجائے ”ازواج“ چھپ گیا ہے۔ اس غلطی کی اصلاح کے لئے دیکھئے سرفراز خان صفدر دیوبندی کی کتاب ”تسکین الصدور“ [ص 216] محمد حسین نیلوی مماتی دیوبندی کی کتاب ”ندائے حق“ [ج 1ص572 و ص 635]

نانوتوی صاحب مزید لکھتے ہیں کہ :
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات دنیوی علی الاتصال ابتک برابر مستمر ہے اس میں انقطاع یا تبدل و تغیر جیسے حیات دنیوی کا حیات برزخی ہو جانا واقع نہیں ہوا۔“ [آب حيات ص 27]
”انبیاء بدستور زندہ ہیں۔۔“ [آب حيات ص 36]

↰ نانوتوی صاحب کے اس خود ساختہ نظریے کے بارے میں :
◈ نیلوی دیوبندی صاحب لکھتے ہیں کہ :
”لیکن سیدنا نانوتوی کا یہ نظریہ صریح خلاف ہے اس حدیث کے جو امام احمد بن حنبل نے اپنی مسند میں نقل فرمایا ہے۔۔“ [ندائے حق جلد اول ص636]
◈ نیلوی صاحب مزید لکھتے ہیں کہ :
”مگر انبیاء کرام علیہم السلام کے حق میں مولانا نانوتوی قرآن و حدیث کی نصوص و اشارات کے خلاف جمال قاسمی ص 15 میں فرماتے ہیں : ارواح انبیاء کرام علیہم السلام کا اخراج نہیں ہوتا۔“ [ندائے حق جلد اول ص 721]

لطیفہ : نانوتوی صاحب کی عبارات مذکورہ پر تبصرہ کرتے ہوئے :

محمد عباس بریلوی لکھتا ہے کہ : ”اور اس کے برعکس امام اہل سنت مجدد دین و ملت مولانا الشاہ احمد رضا خان صاحب وفات (آنی) ماننے کے باوجود قابل گردن زنی ہیں۔“ [والله آپ زندي هيں ص 124]

↰ یعنی بقول رضوی بریلوی، احمد رضا خان بریلوی کا وفات النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں وہ عقیدہ نہیں جو محمد قاسم نانوتوی کا ہے۔

دوئم : اس میں کوئی شک نہیں کہ وفات کے بعد، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جنت میں زندہ ہیں۔
❀ سیدنا سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ حدیث میں آیا ہے کہ فرشتوں (جبریل و میکائیل علیہما السلام) نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا :
إنه بقي لك عمر لم تستكمله، فلو استكملت أتيت منزلك
’’ بے شک آپ کی عمر باقی ہے جسے آپ نے (ابھی تک) پورا نہیں کیا۔ جب آپ یہ عمر پوری کر لیں گے تو اپنے (جنتی) محل میں آ جائیں گے۔ [صحيح البخاري1؍185ح1386]
↰ معلوم ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا کی عمر گزار کر جنت میں اپنے محل میں پہنچ گئے ہیں۔

❀ شہداء کرام کے بارے میں پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ :
أرواحهم فى جوف طير خضر، لها قناديل معلقه بالعرش، تسرح من الجنة حيث شاءت، ثم تأوي إلى تلك القناديل
’’ ان کی روحیں سبز پرندوں کے پیٹ میں ہوتی ہیں، ان کے لئے عرش کے نیچے قندیلیں لٹکی ہوئی ہیں۔ وہ (روحیں) جنت میں جہاں چاہتی ہیں سیر کرتی ہیں پھر واپس ان قندیلوں میں پہنچ جاتی ہیں۔ [صحيح مسلم : 121؍1887ودار السلام : 4885]
↰ جب شہداء کرام کی روحیں جنت میں ہیں تو انبیاء کرام ان سے بدرجہ ہا اعلیٰ جنت کے اعلیٰ و افضل ترین مقامات و محلات میں ہیں شہداء کی یہ حیات جنتی، اخروی و برزخی ہے، اسی طرح انبیاء کرام کی یہ حیات جنتی، اخروی و برزخی ہے۔

◈ حافظ ذہبی (متوفی 748ھ) لکھتے ہیں کہ :
وهو حي فى لحده حياة مثله فى البرزخ
’’ اور آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) اپنی قبر میں برزخی طور پر زندہ ہیں۔“ [سير اعلام النبلاء9/161]
◈ پھر آگے وہ یہ فلسفہ لکھتے ہیں کہ یہ زندگی نہ تو ہر لحاظ سے دنیاوی ہے اور نہ ہر لحاظ سے جنتی ہے بلکہ اصحاب کہف کی زندگی سے مشابہ ہے۔ [ايضا ص161]
↰ حالانکہ اصحاب کہف دنیاوی زندہ تھے جبکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر بہ اعتراف حافظ ذہبی وفات آ چکی ہے لہذا صحیح یہی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ہر لحاظ سے جنتی زندگی ہے۔ یاد رہے کہ حافظ ذہبی بصراحت خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے دنیاوی زندگی کے عقیدے کے مخالف ہیں۔

◈ حافظ ابن حجر العسقلانی لکھتے ہیں :
لأنه بعد موته و إن كان حيا فهي حياة اخروية لا تشبه الحياة الدنيا، والله اعلم
’’ بے شک آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی وفات کے بعد اگرچہ زندہ ہیں لیکن یہ اخروی زندگی ہے دنیاوی زندگی کے مشابہ نہیں ہے، واللہ اعلم“ [فتح الباري ج7ص349تحت ح4042]
↰ معلوم ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم زندہ ہیں لیکن آپ کی زندگی اخروی و برزخی ہے، دنیاوی نہیں ہے۔

اس کے برعکس :

علمائے دیوبند کا یہ عقیدہ ہے کہ :
وحيوته صلى الله عليه وسلم دنيوية من غير تكليف وهى مختصة به صلى الله عليه وسلم وبجميع الأنبياء صلو ات الله عليهم والشهداء لابرزخية۔۔۔
”ہمارے نزدیک اور ہمارے مشائخ کے نزدیک سیدنا صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قبر مبارک میں زندہ ہیں اور آپ کی حیات دنیا کی سی ہے بلا مکلف ہونے کے اور یہ حیات مخصوص ہے آنحضرت اور تمام ا نبیاء علیہم السلام اور شہداء کے ساتھ برزخی نہیں ہے جو تمام مسلمانوں بلکہ سب آدمیوں کو۔۔۔“ [المهند على المفند فى عقائد ديوبند ص 221پانچواں سوال : جواب]
محمد قاسم نانوتوی صاحب لکھتے ہیں کہ :
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات دنیوی علی الاتصال ابتک برابر مستمر ہے اس میں انقطاع یا تبدیل و تغیر جیسے حیات دنیوی کا حیات برزخی ہو جانا واقع نہیں ہوا۔ [آب حيات ص 67، اور يهي مضمون]

دیوبندیوں کا یہ عقیدہ سابقہ نصوص کے مخالف ہونے کی وجہ سے مردود ہے۔
◈ سعودی عرب کے جلیل القدر شیخ صالح الفوزان لکھتے ہیں کہ :
الذى يقول : إن حياته فى البرزخ مثل حياته فى الدنيا كاذب وهذه مقالة الخرافيين
’’ جو شخص یہ کہتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی برزخی زندگی دنیا کی طرح ہے وہ شخص جھوٹا ہے۔ یہ من گھڑت باتیں کرنے والوں کا کلام ہے۔“ [التعليق المختصر على القصيد ة النونيه، ج 2ص684]

◈ حافظ ابن قیم نے بھی ایسے لوگوں کی تردید کی ہے جو برزخی حیات کے بجائے دنیاوی حیات کا عقیدہ رکھتے ہیں۔ [النونيه، فصل فى الكلام فى حياة الأنبياء فى قبور هم2؍154، 155]

◈ امام بیہقی رحمہ اللہ (برزخی) ردا رواح کے ذکر کے بعد لکھتے ہیں کہ :
فهم أحياء عند ربهم كالشهداء
’’ پس وہ (انبیاء علیہم السلام) اپنے رب کے پاس، شہداء کی طرح زندہ ہیں۔ [رساله : حيات الأنبياء للبيهقي ص 20]
↰ یہ عام صحیح العقیدہ آدمی کو بھی معلوم ہے کہ شہداء کی زندگی اخروی و برزخی ہے، دنیاوی نہیں ہے۔ عقیدہ حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم پر حیاتی و مماتی دیوبندیوں کی طرف سے بہت سی کتابیں لکھی گئی ہیں مثلا مقام حیات، آب حیات، حیات انبیاکرام، ندائے حق اور اقامۃ البرھان علی ابطال و ساوس ھدایۃ لحیران، وغیرہ.اس سلسلے میں بہترین کتاب مشہور اہلحدیث عالم مولانا محمد اسماعیل سلفی رحمہ اللہ کی ”مسئلہ حیاۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم“ ہے جو یہاں یونیکوڈ میں موجود ہے۔

سوئم : بعض لوگ کہتے ہیں کہ :

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم، اپنی قبر مبارک پر لوگوں کا پڑھا ہوا درود بنفس نفیس سنتے ہیں اور بطور دلیل من صلى على عند قبري سمعته والی روایت پیش کرتے ہیں۔

عرض ہے کہ یہ روایت ضعیف و مردود ہے۔ اس کی دو سندیں بیان کی جاتی ہیں۔
محمد بن مروان السدي عن الأعمش عن أبى صالح عن أبى هريرة۔۔۔ إلخ [الضعفاء للعقيلي 4؍136، 137 وقال : لا اصل له من حديث اعمش و ليس بمحفوظ الخ و تاريخ3؍292ت377 و كتاب الموضوعات لا بن الجوزي 1؍303 وقال : هذا حديث لا يصح الخ]
↰ اس کا راوی محمد بن مروان السدی : متروک الحدیث (یعنی سخت مجروح) ہے۔ [كتاب الضعفاء للنسائي : 538]
اس پر شدید جروح کے لئے دیکھئے امام بخاری کی کتاب الضعفاء [350] مع تحقیقی : تحفۃ الاقویاء [ص102] و کتب اسماء الرجال۔

حافظ ابن القیم نے اس روایت کی ایک اور سند بھی دریافت کر لی ہے۔
عبدالرحمن بن احمد الاعرج : حدثنا الحسن بن الصباح : حد ثنا ابومعاوية : حد ثنا الاعمش عن ابي صالح عن ابي هريره ’’ الخ [جلاء الافھام ص 54بحوالہ کتاب الصلوۃ علی النبی صلی اللہ علیہ وسلم لابی الشیخ الاصبہانی]
↰ اس کا راوی عبدالرحمن بن احمد الاعرج غیر موثق (یعنی مجہول الحال) ہے۔
سلیمان بن مہران الاعمش مدلس ہیں۔ [طبقات المدلسين : 55؍2والتلخيص الحبير 3؍48ح1181و صحيح ابن حبان، الاحسان طبعه جديده 1؍161و عام كتب اسماء الرجال]

اگر کوئی کہے کہ :

حافظ ذہبی نے یہ لکھا ہے کہ اعمش کی ابوصالح سے معنعن روایت سماع پر محمول ہے۔ [دیکھئے میزان الاعتدال 2؍224]

↰ تو عرض ہے کہ یہ قول صحیح نہیں ہے۔
امام احمد نے اعمش کی ابوصالح سے (معنعن) روایت پر جرح کی ہے۔ دیکھئے سنن الترمذی [207بتحقیقی]
↰ اس مسئلے میں ہمارے شیخ ابوالقاسم محب اللہ شاہ الراشدی رحمہ اللہ کو بھی وہم ہوا تھا۔ صحیح یہی ہے کہ اعمش طبقہ ثالثہ کے مدلس ہیں اور غیر صحیحین میں ان کی معنعن روایات، عدم تصریح و عدم متابعت کی صورت میں، ضعیف ہیں، لہذا ابوالشیخ والی یہ سند بھی ضعیف و مردود ہے۔
↰ یہ روایت من صلى على عند قبري سمعته اس صحیح حدیث کے خلاف ہے جس میں آیا ہے کہ :
إن لله فى الارض ملائكة سياحين يبلغوني من أمتي السلام
’’ بےشک زمین میں اللہ کے فرشتے سیر کرتے رہتے ہیں۔ وہ مجھے میری امت کی طرف سے سلام پہنچاتے ہیں۔ [كتاب فضل الصلوة على النبى صلى الله عليه وسلم للإمام إسماعيل بن إسحاق القاضي : 21 و سنده صحيح، والنسائي 3؍43ح 1283، الثوري صرح بالسماع]
↰ اس حدیث کو ابن حبان [موارد : 2392] و ابن القیم [جلاء الافہام ص 60] وغیرہما نے صحیح قرار دیا ہے۔

خلاصۃ التحقیق : اس ساری تحقیق کا یہ خلاصہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے ہیں، وفات کے بعد آپ جنت میں زندہ ہیں۔ آپ کی یہ زندگی اخروی ہے جسے برزخی زندگی بھی کہا جاتا ہے۔ یہ زندگی دنیاوی زندگی نہیں ہے۔ وما علينا إلا البلاغ

 

یہ تحریر اب تک 65 لوگ پڑھ چکے ہیں، جبکہ صرف آج 1 لوگوں نے یہ تحریر پڑھی۔

This Post Has One Comment

  1. Anonymous

    جزاک اللہ عثمان بھائی اللہ آپ کو خوش رکھے

Leave a Reply