فطرانہ – احکام و مسائل

تحریر:غلام مصطفےٰ ظہیر امن پوری

فطرانہ ادا کرنا فرض ہے، جیسا کہ سید نا عبد اللہ بن عمر ؓ بیان کرتے ہیں : رسولﷺ نے (رمضان المبارک) مسلمانوں کے غلام، آزاد، مرد عورت ، چھوٹے اوربڑے پر ایک  صاع کھجور یا جوفطرانہ فرض قرار دیا ہے۔” (صحیح بخاری۱۵۰۳، صحیح مسلم ۹۸۳).ثابت ہوا کہ مسلمان غلام پر فطرانہ فرض ہے، نہ کہ کافر پر، اگر کوئی کہے کہ سید نا ابوہریرہ ؓ سے روایت  ہے کہ رسول ﷺ نے فرما یا :

 لیس فی العبد صد قۃ الَا صدقۃ الفطر. 

“غلام پر زکوٰۃ واجب نہیں ہے، مگر صدقہ فطر(واجب) ہے۔” ۔” (صحیح مسلم ۹۸۲).

اس کا جواب یہ ہے کہ یہ حدیث عام ہے اور مذکورہ بالا حدیثِ ابنِ عمر خاص ہے، خاص کو عام پر  مقدم کیا جاتا ہے۔

فائدہ:

۱  حجازی صاع دو سیر چار چھٹا نک کا ہوتا ہے اس کا اعشاری وزن  2.099 بنتا ہے۔

۲۔       سیدنا قیس بن سعد بن عبادہ ؓ بیان کرتے ہیں :

  أمرنا رسول اللہ صَلَّی اللہ علیہ وسّلم بصد قۃ الفطر قبل أ ن تنزل الزّکاۃ، فلمّا نزلت الزّ کاۃ لم یأ مر نا ولم ینھنا، ونحن نفعلہ۔ 

زکوۃ کا حکم نازل ہونے سے پہلے ہمیں رسول اللہ ﷺ نے صدقہ فطرانہ ادا کرنے کا حکم دیا ، جب زکوٰۃ کا حکم نازل ہوگیا تو آپ ﷺ نے نہ ہمیں حکم دیا اور نہ ہی منع فرمایا، البتہ ہم اس ادا کرتے تھے۔” (مسند الامام احمد :۶/۶، سنن النسائی : ۲۵۰۹، سنن ابن ماحہ :۱۸۲۸، السنن الکبرٰی للبھیقی: ، ۱۰۹/۴وسندۂ صحیح)۔

اس حدیث کو امام ابنِ خزیمہ (۲۳۹۴) اور امام حاکم (۴۱۰/۱) نے ” صحیح” کہا ہے ، حافظ  ذہبی ؒ نے ان کی موافقت کی ہے۔

حافظ خطابی ؒ اس حدیث کے تحت لکھتے ہیں :

وھذا الا یدلّ علی زوال وجوبھا ، وذلک أنّ الزّیادۃ فی جنس العباد ۃ لا یو جب نسخ الأ صل المزید علیہ ، غیر أنّ محلّ الزّکوات الأ موال ومحلّ زکاہ زکاۃ الفطر  الرّقاب۔

” یہ حدیث صدقۂ فطر کے وجوب کے ختم ہونے پر دلالت نہیں  کرتی، کیونکہ عبادت کی جنس میں زیادت اصل کے نسوخ ہونے کو واجب نہیں کرتی، نیز( ایک فرق یہ بھی ہے کہ) زکوٰۃ مالوں پر فرض ہوتی ہے اور صدقۂ فطر جانوں پر۔”(معالم السنن: ۲۱۴/۲)

۳۔      خوراک کی جو جنس استعمال میں آتی ہے، مثلاََ گندم، جو، کھجور، پنیر ، کشمش وغیرہ بہتر تو یہ ہے کہ اس میں سے فی کس ایک صاؑ فطرانہ ادا کیا جائے ، ہاں!یاد رہے کہ روپے پیسے یا چاندی وگیرہ کی صورت میں بھی فطرانہ ادا کیا جاسکتاہے۔

امام یحییٰ بن معین ؒ فرماتے ہیں :

لیس بہ بأ س أن یعطی زکاۃ رمضان فضۃ۔

صدقۂ فطر چاندی کی صورت میں ادا کرنے میں کوئی حرج والی بات نہیں ۔”  (تاریخ ابن معین: ۲۷۶۵،۲۳۲۶)

۴۔      صدقۂ فطر نمازِ عید سے پہلے ادا کیا جائے ، سید نا ابنِ عباس ؓ سےروایت ہے کہ رسولِ کریم ﷺ نے فطرانہ روزہ دار کی لغویا ت اور فحش  گوئی سے روزہ کو پاک کرنے کے لیے اور مساکین کو کھانا کھلانے کے لیے فرض کیا ہے، جو اسے نمازِ عید سے پہلے ادا کردے، اس کی طرف سے قبول ہوگا اور جو نماز ِ عید کے بعد ادا کرے گا، وہ عام صدقات میں سے ایک عام صد قہ ہے”

(سنن ابی داؤد: ۱۶۰۹، سنن ابن ماجہ:۱۸۲۸ ، وسند ۂ حسن)

اس حدیث کو امام حاکم (۴۰۹/۱)نے ” صحیح” کہا ہے، حافظ زہبی ؒ نے ان کی موافقت کی ہے۔

۵۔       صدقۂ فطر عید سے ایک دو دن پہلے بھی ادا کیا جاسکتا ہے، جیسا کہ امام ایوب سختیانیؒ بیان کرتے ہیں ، میں نے نافع سے پوچھا کہ سید نا ابنِ عمرؓکب صاؑ ادا کرتے تھے تو نافع ؒنے کہا، جب عامل(صدقہ وصول کرنے  والا) بیٹھ جاتا ، میں نے کہا، وہ کب بیٹھتا تھا؟نافع ؒ نے فرما یا، عید الفطر سے ایک دو دن پہلے بیٹھتا تھا۔ “(صحیح ابن خزیمۃ: ۲۳۹۷، وسندۂ صحیح)

۶۔       خوب یادر ہے کہ فطر انہ صرف مساکین کا حق ہے۔

(مجموع الفتاوی لابن تیمیہ:س۷۱/۲۵ ـ ۷۸، زاد المعاد لابن القیم : ۴۴/۲)

یہ سلفی العقیدہ متشرع اور نمازی مسلمانوں کا حق ہے، اہل حق کے دینی مدارس پر بھی خرچ کیا جاسکتا ہے، بد قسمتی سے ہمارے ہاں مسلمانوں کا قیمتی مال دین کے نام پر”سرکاری” تنظیمیں ، تحریکیں  کھا جاتی ہیں ، مستحقین محروم رہ جاتے ہیں ۔

۷۔      فطرانہ کا مقصد دواران ِ روزہ ہونے والی کمی وکوتاہی کی معافی، بے فائدہ اور فحش کلامی کی تطہیر اور عید کے دن باوقار طریقے سے مساکین کو در بد ر ٹھوکریں کھانے سے بچانا ہے، فطرانہ شکرانہ کی بہترین اور بے مثال صورت ہے، اللہ تعالیٰ کی رضا وخوشنودی کا باعث ہے، گھر میں خیرو برکت اور امن وسکون کا باعث ہے، ہر قسم کی برائی اور شر سے بچنے کا محفوظ راستہ ہے، اس سے باہمی مودّت ورحمت جنمی لیتی ہے، نفرتوں اور کدورتوں کا قلع قمع ہوتا ہے، انسانی ہمدردی کا شاندار مظاہر ہ ہوتا ہے اور باوقار معاشرہ تشکیل پاتا ہے۔

دعا ہے کہ اللہ رب العزت ہمارے گناہوں کو معاف کرکے ہمیں اپنے صالحین بندوں میں شامل فرمالے۔          آمین!

اس تحریر کو اب تک 16 بار پڑھا جا چکا ہے۔

Leave a Reply