شہادت حسین ؓ اور بعض غلط فہمیوں کا ازالہ(مع تللخیص و فوائد)

تحریر: حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ 
الحمد للہ رب العالمین و الصلوٰۃ و السلام علی رسولہ الأمین ، أما بعد:

‘‘حماد: ھو ابن سلمۃ: أخبرنا عمار عن ابن عباس’’ کی سند سے ایک خواب مروی ہے جس میں سیدنا عبداللہ بن عباس ؓ نے نبی ﷺ کو دیکھا تھا۔

سیدنا عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ میں نے ایک دن دوپہر کو نبی کریم ﷺ کو خواب میں دیکھا، آپ کے بال بکھرے ہوئے اور گرد آلود تھے، آپ کے ہاتھ میں خون کی ایک بوتل تھی ۔ میں نے پوچھا: میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں ، یہ کیا ہے ؟آپﷺ نے فرمایا: یہ حسین (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) اور ان کے ساتھیوں کا خون ہے ، میں اسے صبح سے اکٹھا کررہا ہوں۔          (مسند احمد  ۲۴۲/۱و سندہ حسن )

میں نے ایک سوال کے جواب میں ، تحقیق کے بعد لکھا:‘‘ یہ روایت حسن لذاتہ ہے۔’’ (ماہنامہ الحدیث:۱۰ص۱۶)

اس روایت کو درج ذیل علماء نے صحیح و قوی قرار دیا ہے:
۱: حاکم(۲) ذہبی(۳) ابن کثیر، قال : و اِسنادہ قوی(۴) البانی (۵)وصی اللہ عباس المدنی المکی(۶) بوصیری (۷)شعیب اَرناووط (حنفی) وغیرہ محققین مسند الامام احمد ؍ قالوا: اِسنادہ قوی علیٰ شرط مسلم

یمن کے مشہور اہلِ حدیث عالم شیخ مقبل بن ہادی الوادعی نے بھی اس کو صحیح قرار دیا ہے۔دیکھئے‘‘ الصحیح المسند مما لیس فی  الصحیحین’’ (۱؍۴۳۹، ۴۴۰، قال :‘‘ ھذا حدیث صحیح علیٰ شرط مسلم’’)

شیخ حمود بن عبداللہ التویجری نے کہا: ‘‘ و إسنادہ صحیح علیٰ شرط مسلم’’ اور اس کی سند مسلم کی شرط پر صحیح ہے۔(اتحاف الجماعۃ بما جاء فی الفتن و الملاحم و اشراط الساعۃ ح۱ص ۲۴۰)

میرے علم کے مطابق کسی معتبر محدث یا قابلِ اعتماد عالم نے اس روایت کو ضعیف، منکر یا شاذ نہیں کہا ہے۔
جدید دور میں حافظ ثنا ء اللہ ضیاء صاحب نے ‘‘ الحدیث’’ کی تحقیق کا ماہنامہ ‘‘الصراط’’ میں رد لکھا۔ (ج ۱ شمارہ: ۵، اکتوبر ۲۰۰۵ء) اس کا جواب الجواب راقم الحروف نے ‘‘ الحدیث’’ (شمارہ: ۲۰) میں شائع کیا جس کا رد حافظ ثناء اللہ صاحب نے ‘‘الصراط’’ (ج۲: شمارہ: ۱، اپریل مئی ۲۰۰۲ء) میں شائع کیا ہے۔
اس رد کا تفصیلی جواب راقم الحروف نے بتیس (۳۲) صفحات پر لکھا جس کا خلاصہ مع فوائد و زیادات درج ذیل ہے:
حدیث اِبن عباس پر حافظ ثناء اللہ صاحب نے درج ذیل اطراف سے جرح کی ہے:
(۱)امام شیخ الاسلام حماد بن سلمہ رحمہ اللہ پر جرح
ماہنامہ‘‘ الحدیث’’(شمارہ: ۱۰) میں یہ ثابت کر دیا گیا ہے کہ حماد بن سلمہ صحیح مسلم کے بنیادی راوی اور جمہور محدثین کے  نزدیک ثقہ و صحیح الحدیث ہیں۔ ایسے راوی کی روایت حسن کے درجے سے نہیں گرتی۔ حافظ ذہبی لکھتے ہیں: ‘‘ ولم ینحط حدیثہ عن رتبۃ الحسن’’ اور ان (حماد) کی حدیث حسن کے درجے سے نہیں گری ہے۔ (سیر اعلام النبلاء ۷؍۴۴۶) حافظ ثناء اللہ صاحب لکھتے ہیں: ‘‘راقم کو حماد بن سلمہ رحمہ اللہ کے ثقہ ، صدوق اور حسن الحدیث ہونے سے کوئی اختلاف نہیں البتہ سوال یہ ہے کہ کیا ثقہ، صدوق راوی اختلاط کا شکار نہیں ہو سکتا؟’’(الصراط ۲؍۱ص۴۰)
حافظ صاحب کے اس بقلمِ خود تسلیمی اعلان کے بعد شیخ الاسلام حماد بن سلمہ رحمہ اللہ پر جرح مردود ہے۔ والحمد للہ
(۲) اختلاط

حماد بن سلمہ رحمہ اللہ سے عبدالرحمن بن مہدی اور عفان بن مسلم وغیر ہما کی روایتیں صحیح مسلم میں موجود ہیں۔ (الحدیث: ۱۰ص۱۶) اور یہ قاعدہ ہے کہ صحیحین میں جس مختلط و متغیر الحفظ راوی کے بارے میں کوئی تخصیص ثابت ہو جائے) ابن الصلاح الشہر زوری لکھتے ہیں: ‘‘ واعلم أن من کان من ھٰذا القبیل محتجاً بروایتۃ فی الصحیحین أو أحدھما فإنا نعرف علی الجملۃ أن ذلک مما تمیز و کان مأخوذاً عنہ قبل الإختلاط ، واللہ أعلم’’ اور جان لو کہ جو راوی اس قسم کا ہو اور اس کی روایت صحیحین  یا کسی ایک میں بطورِ حجت موجود ہو تو ہم بالجملہ یہ جانتے ہیں کہ اس میں تمیز کیا گیا ہے اور یہ (اس کے ) اختلاط سے پہلے اخذ کیا گیا تھا ۔ واللہ اعلم
(علوم الحدیث مع شرح العراقی ص ۴۶۶، آخر النوع:۶۲ و اِلَیہ اَشَرْتُہ فی ‘‘الحدیث’’ : ۱۰ص ۱۶ والحمد للہ)

اس قول کے دو مفہوم ہو سکتے ہیں:
اول: مختلطین کی صحیحین میں جملہ روایات قبل از اختلاط کی ہیں۔
دوم: صحیحین میں مختلطین  کے شاگردوں کی ان سے روایات، ان اختلاط سے پہلے کی ہیں۔
یہ دونوں مفہوم صحیح ہیں اور حافظ العراقی کی عبارتوں سے بھی اسی کی تائید ہوتی ہے  مثلاً دیکھئے التقیید و الایضاح (ص ۴۴۲ ، ۴۶۰)
تنبیہ(۱): اس قاعدے سے صرف وہی روایتیں مستثنیٰ ہوں گی جن کے بارے میں جمہور محدثین نے یہ صراحت کر دی ہے کہ یہ اختلاط کے بعد کی روایتیں ہیں۔ یاد رہے کہ ہمارے علم کے مطابق کسی ایک محدث سے بھی یہ ثابت نہیں ہے کہ عبدالرحمن بن مہدی، عفان اور سلیمان بن حرب وغیرہم نے حماد بن سلمہ کے(مزعوم) اختلاط کے بعد اُن سے حدیثیں سُنی ہیں بلکہ یحیی بن سعید القطان نے فرمایا: جو شخص حماد بن سلمہ کی حدیث لکھنا چاہتا ہے تو وہ عفان بن مسلم کو لازم پکڑے لے۔(الحدیث: ۲۰ص ۲۱)
تنبیہ(۲): شیخ عبدالرحمن العلمی کا خیال ہے کہ حماد کا آخری عمر میں سوءِ حفظ (یا اختلاط) سوائے بیہقی کے کسی نے ذکر  نہیں کیا۔ (دیکھئے التنکیل ج ۱ص۲۴۲)
تنبیہ(۳): جن محدثین کرام نے اس روایت کو صحیح و قوی قرار دیا ہے اُن کے نزدیک (بشرطِ تسلیمِ اختلاط) یہ روایت حماد نے اختلاط سے پہلے بیان کی ہے۔
حافظ ثناء اللہ صاحب ابھی تک یہ ثابت نہیں کر سکے کہ فلاں راوی نے حماد کے اختلاط سے پہلے سنا ہے اور فلاں راوی نے حماد کے اختلاط کے بعد سنا ہے، ان کی تحقیق کے لحاظ سے حماد کی ساری روایتیں عدمِ تمیز کی وجہ سے ضعیف ہونی چاہیئں۔!!
(۳)تدلیس:
حماد بن سلمہ پر حافظ ثناء اللہ صاحب کی طرف سے تدلیس کا الزام لگا دینا علمی میدان میں ثابت نہیں ہے۔ مقدمہ صحیح ابن حبان کی جس عبارت کو انہوں نے پیش کیا تھا اس کا قائل معلوم نہیں ہے۔ حافظ صاحب نے کوشش کی ہے کہ وہ یہ قول امام بخاری رحمہ اللہ سے منسوب کر دیں مگر کئی لحاظ سے وہ اس میں کامیاب نہیں رہے، مثلاً:
۱: امام بخاری کی وفات کے بعد حافظ ابن حبان پیدا ہوئے تھے لہٰذا اگر وہ یہ قول صراحتاً امام بخاری سے منسوب بھی کر تے تو منقطع ہونے کی وجہ سے مردود تھا۔
۲: امام بخاری کی کسی کتاب، یا ان سے باسند صحیح ، کسی کتاب میں حماد بن سلمہ پر تدلیس کا الزام ثابت نہیں ہے۔
۳: حافظ ابن حبان نے صحیح ابن حبان کے مقدمے میں جس پر رد کیا ہے وہ حماد بن سلمہ اور ابو بکر بن عیاش وغیرہما پر رد کرتا ہے اور یہ عام طالب علموں کو بھی معلوم ہے کہ ابو بکر بن عیاش رحمہ اللہ کی صحیح بخاری میں بہت سی روایتیں ہیں لہٰذا یہ مردود علیہ شخص کوئی اور ہے اور یہ بھی ضروری نہیں کہ رد کی تمام شقیں ضرور بالضرور صرف ایک شخص کا ہی رد ہیں۔
تنبیہ: راقم الحروف کی تحقیق جدید میں ابو بکر بن عیاش رحمہ اللہ جمہور محدثین کے نزدیک ثقہ و صدوق راوی ہیں لہٰذا وہ حسن الحدیث ہیں۔ یاد رہے کہ ان کا بیان کردہ ترکِ رفع یدین والا اثر محدثین کرام کی تصریحات اور شذوذ کی وجہ سے ضعیف ہے۔
روایتِ مذکورہ میں حماد بن سلمہ نے سماع کی تصریح کر دی ہے۔
۱: سلیمان بن حرب عن حماد: صرح بالسماع(دلائل النبوۃ ۲؍۴۷۱ و تاریخ دمشق ۱۴؍۲۲۸)
۲: عفان بن مسلم عن حماد: صرح بالسماع (احمد: ۲۵۵۳ والا ستیعاب ۱؍۳۸۰ ، ۳۸۱)
۳: حجاج بن المنہال عن حماد: صرح بالسماع (احمد بن جعفر القطیعی فی فضائل الصحابۃ ۲؍۷۸۱ح ۱۳۸۹، وتاریخ دمشق ۱۴؍۲۲۸) اس تصریحِ سماع کے باوجود حماد مظلوم پر یہاں تدلیس کا الزام مردود ہے۔
لطیفہ: صحیح مسلم(۲۰۳؍۵۰۰) کی ایک روایت ‘‘ إن أبی و أباک فی النار’’ میں حماد بن سلمہ  عن ثابت عن انس ؓ والی روایت میں حماد بن سلمہ کے سماع کی تصریح ہمیں نہیں ملی۔ کیا خیال ہے؟
۴: امام عفان بن مسلم پر حملہ
صحیحین (بخاری و مسلم) کے بنیادی راوی اور جمہور محدثین کے نزدیک ثقہ عفان بن مسلم پر ابن عدی کے قول کو توڑ مروڑ کر حملہ کرنا ظلمِ عظیم ہے جس کا حملہ آور کو میدان ِ حشر میں حساب دینا پڑے گا۔ انشا ء اللہ، واللہ غفور رحیم
روایت مذکورہ میں دو ثقہ راویوں(سلیمان بن حرب، حجاج بن منہال) نے تصریحِ سماع میں اور چھ ثقہ راویوں (سلیمان بن حرب ، عبدالرحمن بن مہدی، حجاج ب ن المنہال ، محمد بن عبداللہ بن عثمان الخزاعی، ابو نصر عبدالملک بن عبد العزیز التمار اور حسن بن موسیٰ الاشیب) نے عفان کی متابعت کر رکھی ہے۔ اتنی متابعات کے باوجود عفان رحمہ اللہ پر حملہ کرنا علمِ حدیث کو گرانے کے مترادف ہے۔
۵: اِضطراب
اس روایت میں حماد کے چھ ثقہ شاگرد (سلیمان بن حرب، عفان، عبدالرحمٰن بن مہدی ، محمد بن عبداللہ الخزاعی اور حجاج بن منہال ) ؍‘‘قتل ذالک الیوم’’ و نحو المعنیٰ الفاظ بیان کرتے ہیں۔
ساتویں شاگرد حسن بن موسیٰ الاشیب کی روایت میں اختلاف ہے۔
۱: عبد بن حمید؍‘‘ قتل ذالک الیوم’’ بیان کرتے ہیں ۔ (المنتخب: ۷۰۹)
۲: بشر بن موسیٰ الاسدی؍‘‘ قتل قبل ذلک بیوم’’ (المستدرک:۸۲۰۱)
اصولِ حدیث کا ایک طالب علم  بھی یہ جانتا ہے کہ ایک ثقہ راوی کے مقابلے میں اَوثق یا بہت سے ثقہ راویوں کی روایت محفوظ  و راجح ہوتی ہے لہٰذا اس حدیث پر اضطراب کا دعویٰ مردود ہے۔
روایات کی مختصر اور جامع تخریج
۱:سلیمان بن حرب
۱: الطبرانی فی الکبیر ۲۸۲۲، [قد قتل یومئذ]۱۲۸۳۷[قتل ذلک الیوم])
۲: احمد بن جعفر القطیعی فی زوائد فضائل الصحابۃ (۲؍۷۸۴ح۱۳۹۶)[قتل فی ذالک الیوم]
۳: البیہقی فی دلائل النبوۃ (۶؍۴۷۱) و حماد بن سلمۃ صرح بالسماع عندہ [قد قتل ذالک الیوم]
۴: ابن عسا کر فی تاریخ دمشق (۱۴؍۲۲۸)و حماد صرح بالسماع عندہ[فوجد وہ قتل یومئذ]
۲:عفان بن مسلم
۱: احمد فی مسندہ(۲۵۵۳) و فضائل الصحابۃ (۲؍۷۷۹ح۱۳۸۱) حماد صرح بالسماع [فوجد وہ قتل فی ذالک الیوم]
۲: ابن عبدالبر فی الاستیعاب (۱؍۳۸۰، ۳۸۱من طریق ابن ابی شیبہ ) حماد صرح بالسماع [فوجد قد قتل فی ذالک الیوم]
۳: عبدالرحمن بن مہدی
احمد فی مسندہ(۲۱۲۵) و فضائل الصحابۃ (۲؍۷۷۸ح۱۳۸۰) [فوجد ناہ قتل ذلک الیوم]
۴: محمد بن عبداللہ بن عثمان الخزاعی
الخطیب فی تاریخہ(۱؍۱۴۲) [فإذا ھو فی ذالک الیوم قتل]
۵: حجاج بن المنہال
۱:الطبرانی فی الکبیر(۳؍۱۱۰ ح ۲۸۲۲، [فوجد قتل ذالک الیوم]۱۲ ؍۱۸۵ح ۱۲۸۳۷[فوجد قد قتل یومئذ])
۲: احمد بن جعفر القطیعی فی زوائد فضائل الصحابۃ (۲؍۷۸۱ح ۱۳۸۹)حماد صرح بالسماع [فوجد وہ قتل یومئذ]
۳:ابن عسا کر فی تاریخ دمشق (۱۴؍۲۲۸)حماد صرح بالسماع[فوجدوہ قتل یومئذ]
۲ابو نصر (عبدالملک بن عبدالعزیز القشیری) التمار
ابن ابی الدنیا فی کتاب المنامات (ح۱۳۰) [قتل فی ذالک الیوم]
۷: حسن بن موسیٰ الاشیب
۱: عبد بن حمید فی مسندہ کما فی المنتخب (ح ۷۰۹، قلمی ص ۹۷) [قتل ذلک الیوم ]
۲: الحاکم فی المستدرک (۴؍۳۹۷، ۳۹۸ ح ۸۲۰۱)[قتل قبل ذالک بیوم]
منتخب مسندِ عبد بن حمید کا انکار
حافظ ثناء اللہ صاحب ‘‘ المنتخب من مسند عبد بن حمید’’ کا عملی انکار کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
‘‘ اور منتخب کو اصل پر ترجیح نہیں دی جا سکتی’’ (الصراط؍جدید ص۴۳)
عرض ہے کہ اگر حافظ صاحب کو عبد بن حمید کی المسند الکبیر کا نسخہ کہیں سے مل گیا  ہے تو وہ پیش کریں ورنہ منتخب مسند عبد بن حمید مطبوع و مخطوط مُصَوَّر ہمارے پاس موجود ہے، اس میں یہ حدیث اسی طرح لکھی ہوئی ہے جیسا کہ میں نے پیش کی ہے۔ لہٰذا یہاں اصل پر منتخب کی ترجیح کا  کوئی مسئلہ  ہی نہیں ہے۔المنتخب والی کتاب بالا تفاق علماء کے درمیان مشہور رہی ہے مثلاً دیکھئے التقیید لابن نقطہ (ص۳۶ت ۱۱) سیر اعلام النبلاء(۱۲؍ ۲۳۵، ۲۳۶) تاریخ الاسلام للذہبی (۱۸؍۳۴۱)اور المعجم المفہرس لابن حجر (ص۱۳۴رقم: ۴۸۲) وغیرہ۔
اس کی سند بھی موجود ہے جس کا کوئی راوی ضعیف  نہیں۔
پتا نہیں حافظ صاحب اس عظیم الشان کتاب کا کیوں انکار کر رہے ہیں؟
امامِ حاکم ‘‘ لازوال قوت یادداشت کے مالک’’

راقم الحروف نے المستدرک کی اکلوتی روایت جو کہ چھ +ا=سات ثقہ راویوں کے خلاف ہے، کے بارے میں دو احتمالات لکھے تھے جن کا خلاصہ یہ ہے:

۱: یہ روایت ثقہ راویوں کے خلاف ہونے کی وجہ سے شاذ یعنی مردود ہے۔
۲: ممکن ہے کہ ‘‘ قبل’’ کا لفظ کاتب ، ناسخ یا بذاتِ خود امام حاکم کا وہم ہو۔ دیکھئے ماہنامہ الحدیث:۲۰ص۲۲
اس کے جواب میں حافظ ثناء اللہ صاحب نے یہ بھی لکھا ہے کہ ‘‘ جبکہ امام حاکم لازوال قوت یادداشت کے مالک تھے۔ ایک مضبوط حافظہ کے مالک امام کو وہم کا شکار قرار دیا جائے۔ یہ تو سیدھا سادھا امام حاکم پر جارحانہ حملہ ہے’’ (الصراط؍جدید ص ۴۳)
حافظ ثناء اللہ ضیاء صاحب کا یہ بیان انتہائی عجیب و غریب ہے۔ المستدرک کے اوہام اہلِ علم پر مخفی نہیں ہیں، بعض جگہ مطبعی اَخطاء(غلطیاں ) ہیں اور بعض مقامات پر خود امام حاکم کو اوہام ہوئے ہیں۔ مثلاً دیکھئے المستدرک(۱؍۱۴۶ح ۵۱۹)
اور التلخیص الحبیر (۱؍۷۲ح ۷۰)
حافظ ابن حجر العسقلانی لکھتے ہیں: ‘‘ وذکر بعضھم أنہ حصل لہ تغیر و غفلۃ فی آخر عمرہ’’
اور بعض نے یہ ذکر کیا ہے کہ انہیں (حاکم کو ) آخری عمر میں تغیر اور غفلت لاحق ہو گئی تھی۔۔۔ (لسان المیزان ۵؍۲۳۳)

امام حماد بن سلمہ رحمہ اللہ تو خطائے کثیر اور اختلاط کا شکار ہوں اور امام حاکم ‘‘ لازوال قوت یادداشت کے مالک’’ سبحان اللہ ! کیسا زبردست انصاف ہے۔

متن کی دوسری صحیح احادیث سے مخالفت
خواب کے واقعے کو حقیق زندگی پر محمول کرتے ہوئے حافظ ثناء اللہ صاحب نے اس حدیث کے متن کو دوسری احادیث سے ٹکرانے کی کوشش کی ہے۔ عرض ہے کہ اس حدیث کو حاکم، ذہبی ، بوصیری ، ابن کثیر ، البانی اور دیگر علماء نے صحیح و قوی قرار دیا ہے۔ وہ اس کے متن کو دوسری صحیح احادیث کے خلاف نہیں سمجھتے مگر حافظ ثناء اللہ صاحب ضرور سمجھتے ہیں۔ ہمارے علم کے مطابق کوئی ایک محدث یا معتبر عالم ایسا نہیں ہے جس نے اس حدیث کو ضعیف و منکر اور صحیح احادیث کے مخالف قرار دیا ہو۔ نبی ﷺ تو دنیا سے تشریف لے جانے کے بعد جنت میں عالمِ برزخ میں موجود ہیں۔ اس دنیا میں ، وفات کے بعد دنیوی جسم و دنیوی زندگی کے ساتھ آپ کی تشریف آوری ثابت نہیں ۔ یہ خواب ایک مثال ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کو انتہائی مظلومانہ انداز میں شہید کیا گیا اور نبی کریم ﷺ اپنے بیٹے ( نواسے) کی مظلومانہ شہادت پر بہت زیادہ غمگین ہوئے۔ اس کے علاوہ باقی جو کچھ ہے وہ حافظ ثناء اللہ صاحب کی فلسفیانہ مُوشگافیاں ہیں جن کے ذریعے حسن لذاتہ (صحیح) حدیث کو بلڈوز کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
خطائے کثیر یا کثیر الخطاء
امام حماد بن سلمہ رحمہ اللہ پر خطائے کثیر کی جرح ہو یا خطائے قلیل کی، کثیر الخطاء کی جرح ہو یا قلیل الخطاء کی، یہ سب  جرحیں جمہور محدثین کی توثیق کے مقابلے میں مردود ہیں۔ جس ثقہ و صدوق راوی کی کسی روایت میں محدثین کرام کی صراحت سے وہم و خطا ثابت ہو جائے تو اس وہم و خطا کو چھوڑ دیا جاتا ہے لیکن باقی تمام روایات میں وہ راوی صحیح الحدیث و حسن الحدیث ہی رہتا ہے۔ روایتِ مذکورہ کے بارے میں کسی ایک محدث یا امام سے یہ ثابت نہیں ہے کہ اس روایت میں حماد کو غلطی لگی ہے۔
تنبیہ: محدثین کرام کے نزدیک جس راوی کی غلطیاں زیادہ ہوں تو اس کی حدیث ترک کر دی جاتی ہے یعنی ایسا راوی ضعیف و متروک ہوتا ہے۔ دیکھئے الکفایۃ (ص۱۴۳) و المحدث الفاصل(ص۴۰۶فقرہ :۴۲۲) الرسالہ للشافعی ص۳۸۲ فقرہ: ۱۰۴۴) اور الجرح و التعدیل (۲؍۳۲عن شعبۃ و سندہ صحیح) حدیث کے ادنیٰ طالب علموں کو بھی یہ معلوم ہے کہ محدثین کرام نے حماد بن سلمہ کی احادیث کو ترک نہیں کیا لہٰذا ثابت ہوا کہ حماد بن سلمہ پر ‘‘ خطائے کثیر’’ والی جرح کی کوئی حیثیت نہیں ہے بلکہ سرے سے مردود ہے۔
حماد بن سلمہ اور صحیح بخاری

حماد بن سلمہ کی قحیح بخاری میں شواہد و متابعات میں درج ذیل انیس (۱۹) روایات موجود ہیں:۱۴۲، ۶۶۳، ۷۳۹، ۱۰۴۸، ۱۷۲۲، [۲۳۶۳تابعہ حماد۔۔۔]، ۲۷۳۰، ۲۸۳۹، ۲۸۴۵، ۲۸۷۲، [۳۳۰۸، تابعہ حماد۔۔۔]، ۳۸۰۵، ۴۱۹۲، ۴۲۵۶، ۴۳۲۰، ۵۰۶۱، ۵۴۷۱، ۵۵۸۸، ۶۴۴۰

صحیح بخاری میں راوی یا رویات کا عدمِ ذکر
صحیح بخاری میں کسی راوی سے روایت نہ ہونا اس کی قطعاً دلیل نہیں ہے کہ وہ راوی امام بخاری رحمہ اللہ کے نزدیک ضعیف ہے اور اسی طرح صحیح بخاری میں کسی روایت کا نہ ہونا اس کی دلیل نہیں کہ یہ روایت امام بخاری کے نزدیک ضعیف ہے۔ بخاری و مسلم نے صحیح روایات یا ثقہ راویوں کے کلی استیعاب کا قطعاً دعویٰ نہیں کیا۔
کسی روایت پر محدثین کا سکوت کرنا یا صحیح کا حکم نہ لگانا اس کی دلیل نہیں کہ وہ روایت محدثین کے نزدیک ضعیف ہے۔
زیر بحث سند من و عن صحیح مسلم میں
‘‘حماد بن سلمۃ عن عمار عن ابن عباس’’ کی سند سے مروی روایت شہادت حسین رضی اللہ عنہ، جیسی سند من و عن اور بعینہ صحیح مسلم میں موجود ہے۔ دیکھئے صحیح مسلم(۱۲۳؍۲۳۵۳و ترقیم دارالسلام : ۶۱۰۴)
ایسی ایک سند کو امام ترمذی ‘‘ حسن غریب’’ قرار دیتے ہیں۔ (دیکھئے سنن الترمذی : ۳۰۴۴)
حدیثِ شہادتِ حسین ؓ اور مولانا ارشاد الحق اثری
حدیثِ شہادتِ حسین رضی اللہ عنہ کو مولانا ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ نے زوائدِ مسند احمد کی تحقیق میں حسن قرار دیا ہے۔اس سلسلے میں اصحاب ِ مکتبہ اثریہ فیصل آباد یا خود مولانا اثری حفظہ اللہ سے رابطہ کیا جا سکتا ہے۔
خواب کا ظاہری مفہوم
نبی ﷺ نے (ایک دفعہ)  خواب میں گائیں  (ذبح ہوتی ہوئی) دیکھی تھیں۔ دیکھئے صحیح البخاری (۷۰۳۵) جس کی تعبیر یہ نکلی کہ اُحد میں (ستر کے قریب) صحابہ کرام شہید ہو گئے۔ رضی اللہ عنہم اجمعین

ایک دفعہ آپ ﷺ نے خواب میں دیکھا کہ سیدنا  عمر ؓ اپنی قمیص گھسیٹ رہے ہیں۔(صحیح البخاری:۲۳ و صحیح مسلم: ۲۳۹۰ و ترقیم دارالسلام : ۶۱۸۹)

اگر کوئی آدمی اس حدیث سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کرے کہ قمیص وغیرہ (زمین پر ) گھسیٹ کر چلنا بالکل درست ہے یا وہ اس حدیث کو دوسری احادیث سے ٹکرانے کی کوشش کرے تو اہلِ علم کے نزدیک یہ حرکت انتہائی غلط اور قابل مذمت ہو گی۔ بعینہ یہی معاملہ حدیثِ ابن عباس والے خواب کا سمجھ لیں یعنی اس  سے مراد غم و افسوس کی حالت ہے اور بس ۔
حاکم کا کسی روایت کو علیٰ شرط الشیخین یا علیٰ أحدھما کہنا
حاکم (و ذہبی) کا کسی روایت کو علیٰ شرط الشیخین یا علیٰ اَحد ہما کہنا تین طرح پر ہے:
۱:اس روایت کے راویوں سے صحیح بخاری  و صحیح مسلم میں بطورِ حجت (یا بطورِ استشہاد و متابعات ) روایت لی گئی ہے۔
۲:ان جیسے راویوں سے صحیح بخاری و صحیح مسلم میں بطورِ حجت( یا بطورِ استشہاد و متابعات ) روایت لی گئی ہے۔ اس صورت میں المستدرک کے راویوں کا صحیحین یا احد ہما میں موجود ہونا ضروری نہیں ۔
۳: اس خاص سند سے صحیحین میں بطورِ حجت (یا بطورِ استشہا دو متابعات) روایت لی گئی ہے۔ اگر یہ مراد لیا جائے تو  حاکم کو کئی اوہام ہوئے ہیں۔
بحث کا اختتام
شیخ الاسلام حمادبن سلمہ رحمہ اللہ کی بیان کردہ روایتِ شہادتِ حسین رضی اللہ عنہ بلحاظِ سند و متن حسن لذاتہ (صحیح) ہے۔حافظ ثنا ء اللہ ضیاء صاحب اس روایت کا ضعیف و منکر ہونا ثابت نہیں کر سکے ہیں۔ اس سلسلے میں اُن کی ساری جدوجہد کا خلاصہ حماد بن سلمہ، عفان بن مسلم اور المنتخب من مسند عبد بن حمید (وغیرہ) پر جرح ہے۔ حافظ صاحب کے شبہات اور غلط فہمیوں کے ازالے کے لئے علمائے حدیث مثلاً: مولانا ارشاد الحق اثری وغیرہ کی طرف رجوع کیا جا سکتا ہے۔ قارئین کرام سے یہ درخواست ہے کہ وہ اس سلسلے میں ماہنامہ الحدیث حضرو کا شمارہ نمبر : ۱۰ اور شمارہ نمبر :۲۰ کا بھی مطالعہ کریں۔ وما علیناإلا البلاغ (۲۲ربیع الثانی ۱۴۲۷ھ)
یہ تحریر اب تک 6 لوگ پڑھ چکے ہیں، جبکہ صرف آج 1 لوگوں نے یہ تحریر پڑھی۔

Leave a Reply