شب برات، شب معراج اور عاشورہ کے خاص کھانے

فتویٰ : مفتی اعظم سعودی عرب الشیخ ابن عثمین رحمہ اللہ

سوال : ہمارے ہاں کچھ رسمیں ایسی ہیں جو ہمیں وراثت میں ملی ہیں اور انہیں تسلسل سے کرتے چلے آ رہے ہیں، مثلا عیدالفطر کے موقعہ پر کیک اور بسکٹ وغیرہ بنانا‘ ستائیس رجب (شب معراج) اور نصف شعبان (شب برات) کے موقع پر گوشت اور فروٹ پر مشتمل دستر خوان سجانا اور عاشورۂ محرم کے موقعہ پر خاص قسم کا حلوہ تیار کرنا وغیرہ۔ ایسی چیزوں کے بارے میں شرعی حکم کیا ہے ؟
جواب : جہاں تک عیدالفطر اور عیدالاضحی کے موقع پر انبساط و مسرت کے اظہار کا تعلق ہے تو شرعی حدود کے اندر رہتے ہوئے اس میں کوئی حرج نہیں۔ خوشی کے اظہار کا ایک اہم حصہ کھانا پینا وغیرہ بھی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
أيام التشريق أيام أكل وشرب وذكر الله عز وجل [رواه أحمد والنسائي]
”ایام تشریق کھانے، پینے اور ذکر الہٰی کے دن ہیں۔“
ایام تشریق سے مراد عیدالاضحیٰ کے بعد والے تین دن ہیں۔ ان دنوں میں لوگ قربانی کرتے ہیں، اس کا گوشت کھاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی نعمتوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ اسی طرح عیدالفطر کے موقع پر بھی شرعی حدود کے اندر رہتے ہوئے مسرت و شادمانی کے اظہار میں کوئی حرج نہیں۔
جہاں تک شب معراج، شب برات اور یوم عاشورہ کے موقعہ پر خاص تقریبات کے انعقاد کا تعلق ہے تو نہ صرف یہ کہ شرع میں ان چیزوں کا کوئی وجود نہیں بلکہ یہ سب کچھ ممنوع ہے، لہٰذا اگر کسی مسلمان کو ایسی تقریبات میں شرکت کی دعوت دی جائے تو اسے انکار کر دینا چاہیے۔
ارشاد نبوی ہے۔
إياكم ومحدثات الأمور، فإن كل محدثة بدعة، وكل بدعة ضلالة [رواه أحمد وأبو داؤد والترمذي وابن ماجه]
”اپنے آپ کو (دین میں) نئے کاموں سے بچاؤ کہ (دین میں) ہر نیا کام بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔“
ستائیسں رجب کے متعلق بعض لوگوں کا دعوی ہے کہ یہ شب معراج ہے، لیکن تاریخی طور پر یہ بات ثابت نہیں ہے اور جو چیز غیر ثابت ہے وہ باطل ہے اور باطل پر مبنی بھی باطل ہے۔
اگر ہم یہ تسلیم کر لیں کہ شب معراج ستائیس رجب ہی ہے تو بھی اس موقعہ کو جشن کی صورت میں منانا جائز نہیں ہو گا کیونکہ یہ سب کچھ نہ تو خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے اور نہ ہی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے۔ حالانکہ وہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے قریب ترین اور اتباع شریعت کے بارے میں سب سے زیادہ حریص تھے، تو پھر ہمارے لئے وہ کام کس طرح جائز ہو گا جس کا وجود نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام کے دور مسعود میں نہیں تھا۔ اسی طرح شب برات کی کوئی خصوصی تعظیم یا شب بیداری رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں، ہاں بعض تابعین سے اس موقعہ پر نماز اور ذکر و فکر کی صورت میں شب بیداری کا ثبوت ملتا ہے۔
جہاں تک عاشوراء محرم کا تعلق ہے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس دن کے روزے کے متعلق دریافت کیا گیا تو اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”کہ وہ گزشتہ ایک سال کے گناہوں کا کفارہ ہے۔“ اس دن خوشی یا غم کے مظاہر قطعاً ناجائز ہیں اور یہ سب کچھ خلاف سنت ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس دن کے روزے کے علاوہ کچھ بھی ثابت نہیں، وہ بھی اس طرح کہ اس سے قبل یا بعد ایک دن (کے روزے ) کا مزید اضافہ کر لیا جائے، تاکہ اس طرح یہود کی مخالفت ہو سکے جو صرف یوم عاشورہ کے موقع پر ایک دن کا روزہ رکھتے تھے۔

 

اس تحریر کو اب تک 13 بار پڑھا جا چکا ہے۔

Leave a Reply