رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق کچھ روایات کی تحقیق

تحریر: ابوعبداللہ صارم

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے تعلق سے کچھ روایات عام طور پر سنی سنائی جاتی ہیں، ان کی تحقیق پیش خدمت ہے :
روایت نمبر

سیدنا عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
إن الله وكل بقبري ملكا أعطاه أسماع الخلائق، فلا يصلي على أحد إلى يوم القيامة، إلا بلغني باسمه واسم أبيه ؛ هذا فلان بن فلان، قد صلى عليك.
”اللہ تعالیٰ میری قبر پر ایک فرشتہ مقرر فرمائے گا جسے تمام مخلوقات کی آوازیں سننے کی صلاحیت عطا کی گئی ہو گی۔ روز قیامت تک جو شخص بھی مجھ پر درور پڑے گا، وہ فرشتہ درود پڑھنے والے اور اس کے والد کا نام مجھ تک پہنچائے گا اور عرض کرے گا : اللہ کے رسول ! فلاں کے بیٹے فلاں نے آپ پر درود بھیجا ہے۔“ [مسند البزار : 254/4، ح : 1425، التاريخ الكبير للبخاري : 416/6، مسند الحارث : 962/2، ح : 1063، الترغيب لابي القاسم التيمي : 319/2، ح : 1671]
ابوالشیخ ابن حیان اصبہانی [العظمة : 263/2] اور امام طبرانی [المعجم الكبير، جلاء الافهام لابن القيم، ص : 84، مجمع الزوائد للهيثمي : 162/10، الضعفاء الكبير للعقيلي : 249/3] کے بیان کردہ الفاظ یہ ہیں :
إن لله ملكا أعطاه أسماع الخلائق كلها، وهو قائم على قبري إذا مت إلى يوم القيامة، فليس أحد من أمتي يصلي على صلاة، إلا سماه باسمه واسم أبيه، قال : يا محمد ! صلى عليك فلان بن فلان كذا وكذا، فيصلي الرب عز وجل على ذلك الرجل بكل واحدة عشرا.
اللہ تعالیٰ کا ایک فرشتہ ایسا ہے جسے تمام مخلوقات کی آوازیں سننے کی صلاحیت عنایت کی گئی ہے۔ وہ میری موت کے بعد قیامت تک میری قبر پر کھڑا رہے گا۔ میرا جو بھی امتی مجھ پر ایک مرتبہ درود پڑھے گا، وہ فرشتہ اس درود کو پڑھنے والے اور اس کے والد کے نام سمیت مجھ تک پہنچاتے ہوئے عرض کرے گا : اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) : فلاں بن فلاں نے آپ پر اتنا اتنا درود بھیجا ہے۔ اللہ رب العزت اس شخص پر ایک درود پڑھنے کے عوض دس رحمتیں نازل فرمائے گا۔“

تبصرہ :
یہ روایت سخت ضعیف ہے، کیونکہ :
➊ اس کا راوی عمران بن حمیری جعفی ”مجہول الحال“ ہے۔ سوائے امام ابن حبان رحمہ اللہ [الثقات : 223/5] کے کسی نے اس کی توثیق نہیں کی۔
اس کے بارے میں :
◈ امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
لا يتابع عليه. ”یہ منکر روایات بیان کرتا ہے۔“ [التاريخ الكبير : 416/6]
◈ امام ابن ابی حاتم رازی رحمہ اللہ نے اس کے بارے میں کوئی جرح و تعدیل ذکر نہیں کی۔
◈ علامہ ذہبی رحمہ اللہ اس کے بارے میں فرماتے ہیں :
لا یعرف . ”یہ مجہول راوی ہے۔“ [ميزان الاعتدال : 236/3]
◈ حافظ منذری رحمہ اللہ نے بھی یہی فرمایا ہے۔ [القول البديع للسخاوي، ص : 119]
◈ حافظ ہیثمی، حافظ ذہبی پر اعتماد کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
وقال صاحب الميزان : لا يعرف .
”صاحب میزان الاعتدال (علامہ ذہبی رحمہ اللہ) کا کہنا ہے کہ یہ راوی مجبول ہے۔“ [مجمع الزوائد : 162/10]
علامہ عبدالروف مناوی، علامہ ہیثمی کے حوالے سے نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
لم اعرفهٔ. ”میں اسے پہچان نہیں پایا۔“ [فيضں القدير : 612/2]

➋ اس کا راوی نعیم بن ضمضم ضعیف ہے۔ اس کے بارے میں :
◈ حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ ضیعیف الحدیث راوی ہے۔ [المغني فى الضعفاء : 701/2]
◈ علامہ ہیثمی لکھتے ہیں : نعيم بن ضمضم ضعيفك . نعیم بن ضمضم ضعیف راوی ہے۔ [مجمع الزوائد : 162/10]
اس کے بارے میں ادنیٰ کلمہ توثیق بھی ثابت نہیں۔

روایت نمبر

قال (شيرويه بن شهردار) الديلمي : أنبأنا والدي (شهردار بن شيرويه) : أنبأنا أبو الفضل الكرابيسي (محمد بن عبد الله بن حمدويه) : أنبأنا ابو العباس بن تركان (الفرضي) حدثنا موسي بن سعيد ( لعله ابن موسى بن سعيد أبو عمران الهمدانى) : حدثنا أحمد بن حماد بن سفيان : حدثني محمد بن عبدالله بن صالح المروزي : حدثنا بكر بن خراس عن فطر بن خليفة، عن أبى الطفيل، عن أبى بكر الصديق، قال : قال رسول الله (صلى الله عليه وسلم) : أكثروا الصلاة على، فإن الله وكل بي ملكا عند قبري، فإذا صلى على رجل من أمتي، قال لي ذلك الملك : يا محمد ! إن فلان ابن فلان صلى عليك الساعة .
”سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مجھ پر زیادہ سے زیادہ درود پڑھاکرنا۔ اللہ تعالیٰ میری قبر کے پاس ایک فرشتے کو مامور کرے گا۔ جب میری امت میں سے کوئی فرد مجھ پر درور بھیجے گا تو یہ فرشتہ میرے جناب میں عرض کرے گا : اے محمد (صلى اللہ علیہ وسلم) ! فلاں بن فلاں نے ابھی آپ پر درود بھیجا ہے۔“ [اللآلي المصنوعة فى الأحاديث الموضوعة للسيوطي : 259/1، الصحيحة للألباني : 1530]

تبصرہ :
اس کی سند ضعیف ہے، کیونکہ :
➊ اس کا راوی بکر بن خداش ”مجہول الحال“ ہے۔ سوائے امام ابن حبان رحمہ اللہ [الثقات : 148/8] کے کسی نے اس کی توثیق نہیں کی۔
➋ محمد بن عبداللہ بن صالح مروزی کے حالات زندگی نہیں مل سکے۔
➌ ابوالفضل کرابیسی کے حالات اور توثیق بھی نہیں ملی۔
◈ حافظ سخاوی لکھتے ہیں :
وفي سند ضغف . ”اس کی سند میں کمزوری ہے۔“ [القول البديع فى الصلاة على الحبيب الشفيع، ص : 161]
یوں یہ دونوں روایات بلحاظ سند ضعیف ہیں۔

روایت نمبر

سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
إن لله ملائكة سياحين، يبلغوني عن أمتي السلام، قال : وقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : حياتي خير لكم، تحدثون ونحدث لكم، ووفاتي خير لكم، تعرض على اعمالكم، فما رايت من خير حمدت الله عليه، وما رأيت من شر استغفرت الله لكم .
”زمین میں اللہ تعالیٰ کے فرشتے گشت کر رہے ہیں جو میری امت کی طرف سے پیش کیا گیا سلام مجھ تک پہنچاتے ہیں۔ میری زندگی بھی تمہارے لیے بہتر ہے کہ ہم آپس میں ہم کلام ہوتے رہتے ہیں اور میری وفات بھی تمہارے لیے بہتر ہو گی کہ تمہارے اعمال مجھ پر پیش کیے جاتے رہیں گے۔ میں جو بھلائی دیکھوں گا، اس پر اللہ تعالیٰ کی تعریف کروں گا اور جو برائی دیکھوں گا، تمہارے لیے اللہ تعالیٰ سے استغفار کروں گا۔“ [مسند البرار : 308/5، ح : 1925]

تبصرہ :
اس کی سند ضعیف ہے، کیونکہ :
➊ امام سفیان ثوری رحمہ اللہ بصیغہ عن روایت کر رہے ہیں مسلم اصول ہے کہ ثقہ مدلس جب بخاری و مسلم کے علاوہ محتمل الفاظ سے حدیث بیان کرے تو جب تک سماع کی تصریح نہ ملے، وہ ضعیف ہی ہوتی ہے۔
➋ اس میں عبدالمجید بن ابی رواد بھی ”مدلس“ ہے۔ سماع کی تصریح موجود نہیں۔
نیز عبدالمجید بن ابی رواد جمہور محدثین کرام کے نزدیک ”ضعیف“ اور مجروح بھی ہے۔ اس پر امام حمیدی [الضعفاء الكبير للبخاري : 307] ، امام ابوحاتم رازی [الجرح والتعديل لابن أبى حاتم : 65/6] ، امام ابن حبان [كتاب المجروحين : 160/2] ، امام دارقطنی [سوالات البرقاني : 317] ، امام محمد بن یحییٰ بن ابی عمر [الضعفاء الكبير للعقيلي : 96/3، و سندهٔ صحيح] ، امام ابن سعد [الطبقات الكبري : 500/5] ، امام ابن عدی [الكامل فى ضعفاء الرجال : 346/5] ، امام ابوزرعہ [أسامي الضعفاء : 637] وغیرہم نے سخت جروح کر رکھی ہیں۔
◈ حافظ عراقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
فقد ضعفهٔ كثيرون. ”یقیناً اسے جمہور محدثین نے ضعیف قرار دیا ہے۔“ [المغني عن حمل الاسفار فى تخريج الإحياء : 144/4]
لہٰذا حافظ بوصیری کا اس کے بارے میں وثقه الجمهور کہنا ”صحیح“ نہیں۔

روایت نمبر

داود بن ابی صالح حجازی کا بیان ہے :
أقبل مروان يوما، فوجد رجلا واضعا وجهه على القبر، فقال : أتدري ما تصنع ؟ فأقبل عليه، فإذا هو أبو أيوب، فقال : نعم، جئت رسول الله صلى الله عليه وسلم ولم آت الحجر، سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول : لا تبكوا على الدين اذا وليه اهله، ولكن ابكوا عليه اذا وليه غير اهله .
” ایک دن مروان آیا تو اس نے دیکھا کہ ایک شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک پر اپنا چہرہ رکھے ہوئے تھا۔ مروان نے کہا: تمہیں معلوم ہے کہ کیا کر رہے ہو ؟ اس شخص نے مروان کی طرف چہرہ موڑا تو وہ سیدنا ابوایوب رضی اللہ عنہ تھے۔ انہوں نے فرمایا : ہاں مجھے خوب معلوم ہے، میں آج حجر اسود کے پاس نہیں گیا، بلکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا ہوں۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا تھا کہ جب دین کا والی کوئی دین دار شخص بن جائے تو اس پر نہ رونا۔ اس پر اس وقت رونا جب اس کے والی نااہل لوگ بن جائیں۔ [مسند الإمام أحمد : 422/5، المستدرك على الصحيحين للحاكم : 515/4]

تبصرہ :
اس روایت کی سند ”ضعیف“ ہے۔ اس کے راوی داؤد بن صالح حجازی کے بارے میں :
◈ حافظ ذہبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
لا يعرف . ”یہ مجہول راوی ہے۔ ” [ميزان الاعتدال : 9/2]
◈ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس کے بارے میں فرماتے ہیں :
مقبول . ”یہ مجہول الحال شخص ہے۔“ [تقريب التهذيب : 1792]
لہٰذا امام حاکم رحمہ اللہ کا اس کی بیان کردہ اس روایت کی سند کو ’’صحیح“ کہنا اور حافظ ذہبی رحمہ اللہ کا ان کی موافقت کرنا صحیح نہیں۔
دین کی باتیں ثقہ لوگوں سے قبول کی جائیں گی نہ کہ مجہول اور لاپتہ افراد سے۔

فائدہ :

یہ روایت قبر کے ذکر کے بغیر معجم کبیر طبرانی [189/4، ح : 3999] اور معجم اوسط طبرانی [94/1، ح : 284] میں بھی موجود ہے،

لیکن اس کی سند درج ذیل وجوہ سے ضعیف ہے :
➊ سفیان بن بشر کوفی راوی نامعلوم اور غیرمعروف ہے۔
◈ حافظ ہیثمی رحمہ اللہ اس کے بارے میں فرماتے ہیں : ولم أعرفه. ”میں اسے نہیں پہچانتا۔“ [مجمع الزوائد : 130/9]
➋ مطلب بن عبداللہ بن حنطب راوی ”مدلس“ ہے اور وہ بصیغہ ”عن“ روایت کر رہا ہے۔ اس کے سماع کی تصریح نہیں ملی۔
➌ مطلب بن عبداللہ کا سیدنا ابوایوب رضی اللہ عنہ سے سماع بھی ثابت نہیں۔
➍ اس روایت میں امام طبرانی رحمہ اللہ کے دو استاذ ہیں۔ ایک ہارون بن سلیمان ابوذر ہے اور وہ مجہول ہے، جبکہ دوسرا احمد بن محمد بن حجاج بن رشدین ہے اور وہ ”ضعیف“ ہے۔ اس کے بارے میں :
◈ امام ابن ابی حاتم رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
سمعت منه بمصر، ولم أحدث عنه، لما تكلموا فيه.
”میں نے اس سے مصر میں احادیث سنی تھیں، لیکن میں وہ احادیث بیان نہیں کرتا کیونکہ محدثین کرام نے اس پر جرح کی ہے۔“ [الجرح والتعديل : 75/2]
◈ امام ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
صاحب حديث كثير، أنكرت عليه أشياء، وهو ممن يكتب حديثهٔ مع ضعفه.
”اس کے پاس بہت سی احادیث تھیں۔ ان میں سے کئی ایک روایات کو محدثین کرام نے منکر قرار دیا ہے۔ اس کے ضعیف ہونے کے باوجود اس کی حدیث (متابعات و شواہد میں) لکھی جائے گی۔“ [لكامل فى ضعفاء الرجال : 198/1]
حافظ ہیثمی نے بھی احمد بن محمد بن حجاج بن رشدین کو ”ضعیف“ قرار دیا ہے۔ [مجمع الزوائد : 25/5، 694/6]

روایت نمبر

قال ابن عساكر : انبأنا أبو محمد بن الأكفاني : نا عبد العزيز بن احمد : أنا تمام بن محمد : نا محمد بن سليمان : نا محمد بن الفيض : نا ابو اسحاق ابراهيم بن محمد بن سليمان بن بلال بن ابي الدرداء : حدثني أبى محمد ابن سليمان عن أبيه سليمان بن بلال، عن ام الدرداء،عن ابي الدرداء، قال : ان بلالا راي فى منامه النبى (صلى الله عليه وسلم)، وهو يقول له : ”ما هذه الجفوة يا بلال ! أما أن لك أن تزورني يا بلال ؟“ فانتبه حزينا و جلا خائفا، فركب راحلتهٔ وقصد المدينة، فاتي قبر النبى (صلى الله عليه وسلم)، فجعل يبكي عندهٔ، ويمرغ وجهه عليه، وأقبل الحسن والحسين، فجعل يضمهما ويقبلهما، فقالا له : يا بلال ! نشتهي نسمع أذانك الذى كنت تؤذنه لرسول الله (صلى الله عليه وسلم) فى السحر، ففعل، فعلا سطح المسجد، فوقف مؤقفة الذى كان يقف فيه، فلما أن قال : الله أكبر، الله أكبر، ارتجت المدينة، فلما أن قال : اشهد ان لا اله الا
الله، زاد تعاجيجها، فلما أن قال : أشهد أن محمدا رسول الله، خرج العواتق من خدورهن، فقالوا : أبعث رسول الله (صلى الله عليه وسلم)، فما رئي يوم أكثر باكيا ولا باكية بعد رسول الله (صلى الله عليه وسلم) من ذلك اليوم.

سیدنا ابوالدرداء رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ سیدنا بلال رضی اللہ عنہ نے خواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا : اے بلال ! یہ کیا زیادتی ہے ؟ کیا تمہارے لیے وہ وقت نہیں آیا کہ تم میری زیارت کرو ؟ اس پر بلال رضی اللہ عنہ گھبرائے ہوئے بیدار ہوئے۔ انہوں نے اپنی سواری کا رخ مدینہ منورہ کی طرف کر لیا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک پر پہنچے اور اس کے پاس رونا شروع کر دیا۔ اپنا چہرہ اس پر ملنے لگے۔ سیدنا حسن و حسین رضی اللہ عنہما ادھر آئے تو سیدنا بلال رضی اللہ عنہ نے ان سے معانقہ کیا اور ان کو بوسہ دیا۔ ان دونوں نے سیدنا بلال رضی اللہ عنہ سے کہا: ہم آپ کی وہ اذان سننا چاہتے ہیں جو آپ مسجد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے کہا کرتے تھے۔ انہوں نے ہاں کر دی۔ مسجد کی چھت پر چڑھے اور اپنی اس جگہ کھڑے ہو گئے جہاں دور نبوی میں کھڑے ہوتے تھے۔ جب انہوں نے الله اكبر، الله اكبر کہا تو مدینہ (رونے کی آواز سے) گونج اٹھا۔ پھر جب انہوں نے اشهد ان لا إله إلا الله کہا: تو آوازیں اور زیادہ ہو گئیں۔ جب وہ أشهد أن محمدا رسول الله پر پہنچے تو دوشیزائیں اپنے پردوں سے نکل آئیں اور لوگ ایک دوسرے سے پوچھنے لگے : کیا رسول صلی اللہ علیہ وسلم دوبارہ زندہ ہو گئے ہیں ؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی نے مدینہ میں مردوں اور عورتوں کے رونے والا اس سے بڑا دن کوئی نہیں دیکھا۔ [تاريخ دمشق لابن عساكر : 137/7]

تبصرہ :
یہ گھڑنتل ہے۔
◈ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وهي قصة بينه الوضع
”یہ داستان واضح طور پر کسی کی گھڑنت ہے۔“ [لسان الميزان : 108/1]
◈ علامہ ابن عبدالہادی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
هذا الاثر المذكور عن بلال ليس بصحيح
”سیدنا بلال رضی اللہ عنہ سے منسوب مذکورہ روایت ثابت نہیں۔“ [الصارم المنكي فى الرد على السبكي، ص : 314]
◈ حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
اسنادۂ لين، وهو منكر.
”اس کی سند کمزور ہے اور یہ روایت منکر ہے۔“ [سير أعلام النبلاء : 358/1]
◈ ابن عراق کنانی کہتے ہیں :
وهي قصة بينة الوضع
”یہ قصہ مبینہ طور پر گھڑا ہوا ہے۔“ [تنزيه الشريعة : 59]
اس روایت کی سند میں کئی خرابیاں ہیں۔ تفصیل یہ ہے :
➊ ابواسحاق ابراہیم بن محمد بن سلیمان بن بلال کے بارے میں حافظ ذہبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ یہ مجہول ہے۔ [تاريخ الاسلام : 67/17]
◈ نیز فرماتے ہیں :
فيه جهالة. ”یہ نامعلوم راوی ہے۔“ [ميزان الاعتدال : 64/1، ت : 205]
◈ حافظ ابن عبد الہادی رحمہ اللہ کہتے ہیں :
هذا شيخ لم يعرف بثقة وامانة، ولا ضبط وعدالة، بل هو مجهول غير معروف بالنقل، ولا مشهور بالرواية، ولم يرو عنه غير محمد بن الفيض، روى عنه هذا الاثر المنكر.
”یہ ایسا راوی ہے جس کی امانت و دیانت اور ضبط و عدالت معلوم نہیں۔ یہ مجہول ہے اور نقل روایت میں غیرمعروف ہے۔ اس سے محمد بن فیض کے علاوہ کسی نے روایت نہیں کی اور اس نے بھی یہ منکر قصہ اس سے روایت کیا ہے۔“ [الصارم المنكي، ص : 314]

➋ اس روایت کے دوسرے راوی سلیمان بن بلال بن ابو درداء کے بارے میں حافظ ابن عبدالہادی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
بل هو مجهول الحال، ولم يوثقه أحد من العلماء، فيما علمناه .
”یہ مجہول الحال شخص ہے۔ ہمارے علم کے مطابق اسے کسی ایک بھی عالم نے معتبر قرار نہیں دیا۔“ [الصارم المنكي فى الرد على السبكي، ص : 314]

➌ سلیمان بن بلال کا سیدہ ام درداء رضی اللہ عنہا سے سماع بھی ثابت نہیں، یوں یہ روایت منقطع بھی ہے۔
◈ حافظ ابن عبد الہادی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ولا يعرف له سماع من أم الدرداء.
”اس کا سیدہ ام درداء رضی اللہ عنہا سے سماع بھی معلوم نہیں ہو سکا۔“ [ايضا]
حافظ ابن عبدالہادی رحمہ اللہ اس روایت کے بارے آخری فیصلہ سناتے ہوئے فرماتے ہیں۔
وهو اثر غريب منكر، واسنادهٔ مجهول، وفيه انقطاع .
”یہ روایت غریب اور منکر ہے۔ اس کی سند مجہول ہے اور اس میں انقطاع بھی ہے۔“ [أيضا]

تنبیہ :

حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
اسنادهٔ جيد، ما فيه ضعيف، لكن ابراهيم هذا مجهول.
”اس کی سند عمدہ ہے۔ اس میں کوئی ضعیف راوی نہیں، البتہ یہ ابراہیم نامی راوی مجہول ہے۔“ [تاريخ الإسلام : 373/5، بتحقيق بشار، وفي نسخة : 67/17]

یہ علامہ ذہبی رحمہ اللہ کا علمی تسامح ہے۔ جس روایت کی سند میں دو راوی ”مجہول“ ہوں اور اس کے ساتھ ساتھ انقطاع بھی ہو، وہ عمدہ کیسے ہو سکتی ہے ؟ پھر خود انہوں نے اپنی دوسری کتاب [سير أعلام النبلاء : 358/1] میں اس کی سند کو کمزور اور اس روایت کو ”منکر“ بھی قرار دے رکھا ہے جیسا کہ ہم بیان کر آئے ہیں۔
اس بارے میں حافظ ابن حجر وغیرہ کی بات درست ہے کہ یہ قصہ جھوٹا اور من گھڑت ہے۔ یہ ان ’’ مجہول“ راویوں میں سے کسی کی کارروائی ہے۔ واللہ اعلم ! روایت نمبر

محمد بن منکدر بیان کرتے ہیں :
رأيت جابرا رضى الله عنه، وهو يبكي عند قبر رسول الله صلى الله عليه وسلم، وهو يقول : ههنا تسكب العبرات، سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول : ”ما بين قبري ومنبري روضة من رياض الجنة .
”میں نے سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کو نبی اکرم صلى اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کے پاس روتے دیکھا، وہ فرما رہے تھے : آنسو بہانے کی جگہ یہی ہے۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا تھا : میری قبر اور میرے منبر کے درمیان والی جگہ جنت کے باغیچوں میں سے ایک باغچہ ہے۔“ [شعب الإيمان للبيهقي : 3866]

تبصرہ : اس کی سند سخت ترین ”ضعیف“ ہے، کیونکہ :
➊ امام بیہقی رحمہ اللہ کا استاذ محمد بن حسین ابوعبدالرحمٰن سلمی ”ضعیف“ ہے۔
◈ اس کے بارے میں حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
تكلموا فيه، وليس بعمدة .
”محدثین کرام نے اس پر جرح کی ہے، یہ اچھا شخص نہیں تھا۔“ [ميزان الاعتدال فى نقد الرجال : 523/3]
انہوں نے اسے ”ضعیف“ بھی کہا ہے۔ [تذكرة الحفاظ : 166/3]
◈ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بھی اس پر جرح کی ہے۔ [الاصابة فى تمييز الصحابة : 252/2]
◈ محمد بن یوسف قطان نیشاپوری فرما تے ہیں :
غير ثقة، وكان يضع للصوفية الأحاديث .
”یہ قابل اعتبار شخص نہیں تھا۔۔۔ یہ صوفیوں کے لیے روایات گھڑتا تها۔“ [تاريخ بغداد للخطيب : 247/2، و سندهٔ صحيح]
➋ اس کے مرکزی راوی محمد بن یونس بن موسیٰ کدیمی کے بارے میں :
◈ امام ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
أتهم بوضع الحديث وبسرقته.
”اس پر حدیث گھڑنے اور چوری کرنے کا الزام ہے۔“ [الكامل فى ضعفاء الرجال : 292/6]
◈ امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وكان يضع على الثقات الحديث وضعا، ولعله قد وضع أكثر من ألف حديث.
”یہ شخص ثقہ راویوں سے منسوب کر کے خود حدیث گھڑ لیتا تھا۔ شاید اس نے ایک ہزار سے زائد احادیث گھڑی ہیں۔ “ [كتاب المجروحين : 313/2]
◈ امام دارقطنی رحمہ اللہ نے اسے ”متروک“ قرار دیا ہے۔ [سوالات الحاكم : 173]
ایک مقام پر فرماتے ہیں :
كان الكديمي يتهم بوضع الحديث.
”کدیمی پر حدیث گھڑنے کا الزام تھا :“ [سؤالات السهمي : 74]
◈ امام ابوحاتم رازی رحمہ اللہ کے سامنے اس کی ایک روایت پیش کی گئی تو انہوں نے فرمایا :
ليس هذا حديث من أهل الصدق .
”یہ سچے شخص کی بیان کردہ حدیث نہیں۔“ [الجرح والتعديل لابن أبى حاتم : 122/8]
◈ حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
أحد المتروكين. ”یہ ایک متروک راوی ہے۔“ [ميزان الاعتدال فى نقد الرجال : 74/4، ت : 8353]
◈ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بھی اسے ”ضعیف“ قرار دیا ہے۔ [تقريب التهذيب : 6419]

فائدہ : نافع تابعی رحمہ اللہ اپنے استاذ، صحابی جلیل کے بارے میں بیان کرتے ہیں :
إن ابن عمر كان يكره مس قبر النبى صلى الله عليه وسلم.
”سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کو چھونا مکروہ سمجھتے تھے۔“ [جزء محمد بن عاصم الثقفي، ص : 106، ح : 27، سير أعلام النبلاء للذهبي : 378/12، و سندهٔ صحيح]
◈ ابوحامد محمد بن محمد طوسی المعروف بہ علامہ غزالی (450۔ 505ھ) قبروں کو چھونے اور ان کو بوسہ دینےکے بارے میں فرماتے ہیں :
انه عادة النصاري واليهود. ”ایسا کرنا یہود و نصاریٰ کی عادت ہے۔“ [إحياء علوم الدين : 244/1]
◈ حافظ نووی رحمہ اللہ (631-676ھ) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کو چومنے اور اس پر ماتھا وغیرہ ٹیکنے کے بارے میں فرماتے ہیں :
لا يجوز أن يطاف بقبر النبى صلى الله عليه وسلم، ويكره إلصاق البطن والظهر بجدار القبر، قاله الحليمي وغيره، ويكره مسحه باليد وتقبيله، بل الأدب أن يبعد منه كما يبعد منه لو حضر فى حياته صلى الله عليه وسلم، هذا هو الصواب، وهو الذى قاله العلماء وأطبقوا عليه، وينبغي أن لا يغتر بكثير من العوام فى مخالفتهم ذلك فإن الاقتداء والعمل إنما يكون بأقوال العلماء، ولا يلتفت إلى محدثات العوام وجهالاتهم، ولقد أحسن السيد الجليل أبو على الفضيل بن عياض رحمه الله تعالى فى قوله ما معناه : أتبع طرق الهدى ولا يضرك قلة السالكين، وإياك وطرق الضلالة، ولا تغتر بكثرة الهالكين، ومن خطر بباله أن المسح باليد ونحوہ أبلغ فى البركة، فهو من جهالته وغفلته، لأن البركة إنما هي فيما وافق الشرع وأقوال العلماء، وكيف يبتغي الفضل فى مخالفة الصواب.
”نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کا طواف کرنا جائز نہیں۔ اسی طرح قبر مبارک کی دیوار سے اپنا پیٹ اور اپنی پشت چمٹانا بھی مکروہ ہے۔ علامہ حلیمی وغیرہ نے یہ بات فرمائی ہے۔ قبر کو (تبرک کی نیت سے) ہاتھ لگانا اور اسے بوسہ دینا بھی مکروہ عمل ہے۔ قبر مبارک کا اصل ادب تو یہ ہے کہ اس سے دور رہا جائے جیسا کہ نبی اکرم صلى اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں آپ کے پاس حاضر ہونے والے کے لیے ادب دور رہنا ہی تھا۔ یہی بات درست ہے اور علمائے کرام نے اسی بات کی صراحت کی ہے اور اس پر اتفاق بھی کیا ہے۔ کوئی مسلمان عام لوگوں کے ان ہدایات کے برعکس عمل کرنے سے دھوکا نہ کھا جائے، کیونکہ اقتدا تو علمائے کرام کے (اتفاقی) اقوال کی ہوتی ہے، نہ کہ عوام کی بدعات اور جہالتوں کی۔ سید جلیل ابوعلی فضیل بن عیاض رحمہ اللہ نے کیا خوب فرمایا ہے : (راہ ہدایت کی پیروی کرو، اس راہ پر چلنے والوں کی قلت نقصان دہ نہیں۔ گمراہیوں سے بچو اور گمراہوں کی کثرت افراد سے دھوکا نہ کھاؤ) (ہم اس قول کی سند پر مطلع نہیں ہو سکے۔) جو شخص یہ سمجھتا ہے کہ قبر مبارک کو ہاتھ لگانے اور اس طرح کے دوسرے بدعی کاموں سے زیادہ برکت حاصل ہوتی ہے، وہ اپنی جہالت اور کم عملی کی بنا پر ایسا سوچتا ہے، کیونکہ برکت تو شریعت کی موافقت اور اہل علم کے اقوال کی روشنی میں ملتی ہے۔ خلاف شریعت کاموں میں برکت کا حصول کیسے ممکن ہے ؟“ [الإيضاح فى مناسك الحج والعمرة، ص : 456]

◈ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ ( 661-728 ھ) فرماتے ہیں :
وأما التمسح بالقبر أو الصلاة عنده، أو قصده لأجل الدعاء عنده، معتقدا أن الدعاء هناك أفضل من الدعاء فى غيره، أو النذر له ونحو ذلك، فليس هذا من دين المسلمين، بل هو مما أحدث من البدع القبيحة التى هي من شعب الشرك، والله أعلم وأحكم.
”قبر کو (تبرک کی نیت سے) ہاتھ لگانا، اس کے پاس نماز پڑھنا، دعا مانگنے کے لیے قبر کے پاس جانا، یہ اعتقاد رکھنا کہ وہاں دعا عام جگہوں سے افضل ہے اور قبر پر نذر و نیاز کا اہتمام کرنا وغیرہ ایسے کام ہیں جن کا دین اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ کام تو ان قبیح بدعات میں سے ہیں جو شرک کے مختلف شعبہ جات سے تعلق رکھتی ہیں۔ واللہ علم واحکم !“ [مجموع الفتاوي : 321/24]

نیز فرماتے ہیں :
واما التمسح بالقبر، أى قبر كان، و تقبيلهٔ وتمريغ الخد عليه، فمنهي عنه باتفاق المسلمين، ولو كان ذلك من قبور الأنبياء، ولم يفعل هذا أحد من سلف الأمة وأئمتها، بل هذا من الشرك، قال الله تعالى : وَقَالُوا لَا تَذَرُنَّ آلِهَتَكُمْ وَلَا تَذَرُنَّ وَدًّا وَلَا سُوَاعًا وَلَا يَغُوثَ وَيَعُوقَ وَنَسْرًا ٭ وَقَدْ أَضَلُّوا كَثِيرًا وَلَا تَزِدِ الظَّالِمِينَ إِلَّا ضَلَالًا [71-نوح:23] وقد تقدم أن هؤلاء أسماء قوم صالحين، كانوا من قوم نوح، وأنهم عكفوا على قبورهم مدة، ثم طال عليهم الأمد، فصوروا تماثيلهم، لاسيما إذا اقترن بذلك دعاء الميت والاستغاثة به…
”قبر کسی کی بھی ہو، اس کو (تبرک کی نیت سے) چھونا، اس کو بوسہ دینا اور اس پر اپنے رخسار ملنا منع ہے اور اس بات پر سب مسلمانوں کا اتفاق ہے۔ یہ کام انبیائے کرام کی قبور مبارکہ کے ساتھ بھی کیا جائے تو اس کا یہی حکم ہے۔ اسلاف امت اور ائمہ دین میں سے کسی نے ایسا کام نہیں کیا، بلکہ یہ کام شرک ہے، جیسا کہ فرمان باری تعالیٰ ہے : وَقَالُوا لَا تَذَرُنَّ آلِهَتَكُمْ وَلَا تَذَرُنَّ وَدًّا وَلَا سُوَاعًا وَلَا يَغُوثَ وَيَعُوقَ وَنَسْرًا ٭ وَقَدْ أَضَلُّوا كَثِيرًا وَلَا تَزِدِ الظَّالِمِينَ إِلَّا ضَلَالًا [71-نوح:23] ”وہ (قوم نوح کے مشرکین) کہنے لگے : ہم کسی بھی صورت ود، سو اع، یغوث، یعوق اور نسر کو نہیں چھوڑیں گے۔ (یوں) انہوں نے بےشمار لوگوں کو گمراہ کر دیا“۔ یہ بات بیان ہو چکی ہے کہ یہ سب قوم نوح میں کے نیک لوگوں کے نام تھے۔ ایک عرصہ تک یہ لوگ ان کی قبروں پر ماتھے ٹیکتے رہے، پھر جب صدیاں بیت گئیں تو انہوں نے ان نیک ہستیوں کی مورتیاں گھڑ لیں۔ قبروں کی یہ تعظیم اس وقت خصوصاً شرک بن جاتی ہے جب اس کے ساتھ ساتھ میت کو پکارا جانے لگے اور اس سے مدد طلب کی جانے لگے۔۔۔ ‘‘ [مجموع الفتاوی : 91/27-92]
◈ شیخ موصوف ایک اور مقام پر فرماتے ہیں :
اتفق السلف على أنه لا يستلم قبرا من قبور الأنبياء وغيرهم، ولا يتمسح به، ولا يستحب الصلاة عنده، ولا قصده للدعاء عنده أو به؛ لأن هذه الأمور كانت من أسباب الشرك وعبادة الأوثان.
”سلف صالحین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ قبریں انبیائے کرام کی ہوں یا عام لوگوں کی، ان کو نہ بوسہ دینا جائز ہے، نہ اس کو (تبرک کی نیت سے) چھونا۔ قبروں کے پاس نماز کی ادائیگی اور دعا کی قبولیت کی غرض سے قبروں کے پاس جانا یا ان قبروں کے وسیلے سے دعا کرنا مستحق نہیں۔ یہ سارے کام شرک اور بت پرستی کا سبب بنتے ہیں۔ “ [مجموع الفتاوی : 31/27]

◈ علامہ ابن الحاج (م 737ھ) قبرنبوی کے بارے میں بات کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
فترى من لا علم عنده يطوف بالقبر الشريف، كما يطوف بالكعبة الحرام، ويتمسح به ويقبله، ويلقون عليه مناديلهم وثيابهم، يقصدون به التبرك، وذلك كله من البدع، لان التبرك إنما يكون بالاتباع لهٔ – عليه الصلاة والسلام – وما كان سبب عبادة الجاهلية للأصنام إلا من هذا الباب.
”آپ جاہلوں کو دیکھیں گے کہ وہ نبی اکرم صلى اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کا کعبہ کی طرح طواف کرتے ہیں، اور تبرک کی نیت سے اس کو چھوتے ہیں، بوسہ دیتے ہیں، اس پر اپنے رومال اور کپڑے ڈالتے ہیں۔ یہ سارے کام بدعت ہیں، کیونکہ برکت تو صرف اور صرف آپ علیہ السلام کے اتباع سے حاصل ہوتی ہے۔ دور جاہلیت میں بتوں کی عبادت کا سبب یہی چیزیں بنی تھیں۔
‘‘ [المدخل : 263/1]

◈ احمد ونشریسی (م : 914 ھ) لکھتے ہیں :
ومنها تقبيل قبر الرجل الصالح أو العالم، فإن هذا كله بدعة
”ان کاموں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ کسی نیک شخص یا عالم کی قبر کو چوما جائے۔ یہ سب کام بدعت ہیں۔ “ [المعیار المعرب : 490/2]

روایت نمبر

حاتم بن وردان کا بیان ہے :
كان عمر بن عبدالعزيز يوجه بالبريد قاصدا إلى المدينة، ليقرى عنه النبى صلى الله عليه وسلم.
”امام عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ ایک قاصد کو ڈاک دے کر مدینہ منورہ کی طرف روانہ کرتے کہ وہ ان کی طرف سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام پیش کرے۔ ‘‘ [شعب الإيمان للبيهقي : 3869]

تبصرہ :
اس روایت کی سند ”ضعیف“ اور باطل ہے، کیونکہ :
➊ اس کے راوی ابراہیم بن فراس کی توثیق نہیں ملی۔
➋ اس کا استاذ احمد بن صاح رازی بھی ”مجہول“ ہے۔

روایت نمبر

یزید بن ابوسعید مقبری بیان کرتے ہیں :
قدمت على عمر بن عبدالعزيز، إذ كان خليفة، بالشام، فلما ودعته قال : إن لي إليك حاجة، إذا أتيت المدينة فترى قبر النبى صلى الله عليه وسلم، فأقرئه مني السلام.
”میں امام عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کی خلافت کے زمانے میں ان کے پاس شام میں گیا۔ جب میں واپس ہونے لگا تو انہوں نے فرمایا : مجھے تم سے ایک کام ہے، وہ یہ کہ جب مدینہ منورہ میں جاؤ اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کی زیارت کرو تو میری طرف سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام پیش کرنا۔“ [شعب الإيمان للبيهقي : 3870، تاريخ دمشق لابن عساكر : 203/65]

تبصرہ :
اس قول کی سند ”ضعیف“ ہے۔
اس کا راوی رباح بن بشیر ”مجہول ‘‘ ہے۔
امام ابو حاتم رازی رحمہ اللہ نے اسے ’’ مجہول ‘‘ قرار دیا ہے۔ [الجرح والتعديل لابن أبى حاتم : 490/3]
امام ابن حبان رحمہ اللہ (الثقات : 242/8) کے سوائے کسی نے اس کی توثیق نہیں کی۔

روایت نمبر

ابو اسحاق قرشی کہتے ہیں :
كان عندنا رجل بالمدينة، إذ رأى منكرا لا يمكنه أن يغيره، أتى القبر، فقال : أيا قبر النبى وصاحبيه ……… ألا يا غوثنا، لو تعلمونا.
’’ مدینہ میں ہمارے قریب ایک آدمی رہتا تھا۔ جب وہ کسی ایسی برائی کو دیکھتا جس کو ختم کرنے کی اس میں طاقت نہ ہوتی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک پر حاضر ہوتا اور کہتا : اے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے دو ساتھیوں (سیدنا ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما) کی قبر! اگر آپ ہمیں جانتے ہیں تو ہماری مدد کیجیئے!“ [شعب الإيمان للبيهقي : 3879]

تبصرہ :
اس روایت کی سند میں ابواسحاق قرشی کون ہے ؟ اس کا تعین درکار ہے، نیز اس کی توثیق بھی مطلوب ہے۔

روایت نمبر

سلیمان بن سحیم بیان کرتے ہیں :
رأيت النبى صلى الله عليه وسلم فى النوم، قلت : يا رسول الله ! هؤلاء الذين يأتونك، فيسلمون عليك، أتفقہ سلامهم ؟ قال : ”نعم، وارد عليهم“ .
”میں نے خواب میں نبی اکرم صلى اللہ علیہ وسلم کی زیارت کی تو آپ سے عرض کیا : اللہ کے رسول ! یہ لوگ جو آپ کی قبر مبارک پر حاضر ہو کر سلام پڑھتے ہیں، کیا آپ ان کے سلام کو سمجھتے ہیں ؟ فرمایا : ہاں، میں ان کو جواب بھی دیتا ہوں۔“ [شعب الإيمان للبيهقي : 3868]

تبصرہ :
اس کی سند ”ضعیف“ ہے۔
ابن ابورجال کا سلیمان بن سحیم سے سماع ثابت نہیں ہو سکا۔

روایت نمبر

نبیہ بن وہب سے روایت ہے کہ کعب احبار رحمہ اللہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہما کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ سیدہ رضی اللہ عنہا نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کیا۔ کعب کہنے لگے : جب بھی دن طلوع ہوتا ہے، ستر ہزار فرشے اترتے ہیں۔ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کو گھیر لیتے ہیں اور قبر پر اپنے پر لگاتے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھتے ہیں۔“ [الزهد للإمام عبد الله بن المبارك : 1600، مسند الدارمي : 47/1، ح : 194، فضل الصلاة على النبى لإسماعيل بن إسحاق القاضي : 102، حلية الأولياء لأبي نعيم الأصبهاني : 390/5]

تبصرہ :
اس روایت میں نبیہ بن وہب، کعب احبار سے بیان کر رہے ہیں، جبکہ ان کا کعب احبار سے سماع و لقاء ثابت نہیں۔ یوں یہ سند ”منقطع“ ہے۔
◈ امام طحاوی حنفی رحمہ اللہ (238-321ھ) ایک ”منقطع ”روایت کے بارے میں لکھتے ہیں :
فدخل هذا الحديث فى الأحاديث المنقطعة التى لا يحتج أهل الاسناد بمثلها
”یہ حدیث منقطع روایات میں سے ہے، جنہیں محدثین کرام قابل حجت نہیں سمجھتے۔“ [شرح مشكل الاثار للطحاوي : 326/10، ح : 4140]
دین قرآن کریم اور صحیح احادیث سے ثابت شدہ تعلیمات کا نام ہے۔ سند امت محمدیہ کا امتیازی وصف اور خاص شناخت ہے۔ مسلمانوں کا پورا دین صحیح احادیث میں موجود ہے۔ دین اسلام کو ”ضعیف“ اور من گھڑت روایات کی کوئی ضرورت نہیں۔ ایسی روایات کو اپنانا کسی مسلمان کو زیبا نہیں۔ اہل حق کو صرف وہی احادیث کافی ہیں، جو محدثین کے اجماعی اصولوں کے مطابق صحیح ہیں۔
دعا ہے کہ اللہ تعالی ہمیں صحیح احادیث ہی پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمين!

اس تحریر کو اب تک 10 بار پڑھا جا چکا ہے۔

Leave a Reply