حدیث کو قرآن پر پیش کرنا

تحریر : غلام مصطفے ٰ ظہیر امن پوری حفظہ اللہ

منکرین حدیث درحقیقت منکرین قرآن ہیں، ان کے عدم فہم و علم کے بارے میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :
يقرؤون القرآن، لايجاوز حلوقهم و حناجرهم، يمرقون من الدين مروق السهم من الرمية .
” وہ قرآن پڑھیں گے، لیکن وہ ان کے حلقوں سے تجاوز نہیں کرے گا، وہ دین سے اس طرح نکل جائیں گے، جس طرح تیر شکار سے نکل جاتا ہے۔ “ [ صحيح بخاري : 6931 ]
↰ یہ حدیث خوارج (منکرین حدیث و غیرہ ) کے عدم فہم و علم پر بین ثبوت ہے کیونکہ وہ قرآن و حدیث کی توہین اور مسلمانوں تکفیر کے مرتکب ہیں۔
◈ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
ورد الروايات الصحيحة و الطعن فى أئمة الحديث الضابطين مع امكان توجيه مارووا من الأمور التى أقدم عليها كثير من غير أهل الحديث، وهو يقتضي قصور فهم من فعل ذلك منهم، ومن ثم قال الكرماني : لا حاجة لتخطئة الرواة الثقاة .
”بہت سے غیر اہل حدیثوں نے احادیث صحیحہ اور روایات ثابتہ کا رد و انکار کیا ہے، حفاظ ائمہ حدیث پر طعن زنی کی ہے، یہ اقدام ان کے ناقص العقل و قاصر الفہم ہونے پر دلیل ہے، اسی وجہ سے کرمانی (شارحِ بخاری) نے کہا ہے کہ ثقہ راویوں کی طرف خوامخواہ غلطی کی نسبت کرنے کی ضرورت نہیں (بلکہ ان کی رویتوں میں جمع وتوفیق اور تطبیق دینا ضروری ہے)۔ “ [فتح الباري : 401/13 ]
منکرین حدیث نے قرآن و حدیث کی اتباع کی بجائے عقل سوء اور نفسانی خواہشات کی پرستش شروع کر دی ہے، ان کے زعم باطل کے مطابق حدیث دلیل شرعی نہیں ہے، وہ حدیث کو قرآن کی ضد خیال کرتے ہیں جبکہ جہاں قرآن وحی ہے، وہاں حدیث بھی وحی ہے، وحی حق ہے، کیا حق حق کے ساتھ ٹکرا سکتا ہے ؟ ایک حق کو دوسرے حق پر پیش کرنے کی کیا ضرورت رہ جاتی ہے ؟ ایک مسلمان کا تو یہ شیوہ ہونا چاہیے کہ جو کچھ قرآن و حدیث کی صورت میں محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم نے دیا ہے، اس کو دل و جان سے برحق تسلیم کرے اور اس پر ایمان لائے، جیسا کہ :
◈ امام زہری رحمہ الله فرماتے ہیں :
علي اللّٰه البيان و على الرسول البلاغ و علينا التسليم . ”بیان کرنا اللہ تعالیٰ کا کام ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذمہ پہنچانا ہے اور سر تسلیم خم کرنا ہم پر لازم ہے۔ “ [ الزهر لا بن أبى عاصم : 71، حلية الاولياء لأبي نعيم : 369/3، عقيدة السلف أصحاب الحديث لأبي اسماعيل الصابوني، واللفظ له، تغليق التعليق لابن حجر : 365/5 و سنده صحيح ]
یہ تو ہوا مومنوں کا وطیرہ، جبکہ گمراہ اور ظالم القرآن و حدیث ٹکراؤ پیداکرنے کی مذموم کوشش کرتا ہے، اس طرح وہ متاع ایمان سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے، قرآن و حدیث میں کوئی تعارض نہیں، ہاں ! ظاہری طور پر تعارض موجود ہے، حقیقت میں کوئی تعارض نہیں، اہل ایمان نور ایمان و علم سے تعارض کو رفع کر دیتے ہیں جبکہ معاندین قصور فہم کی بنیاد پر گمراہی اور ضلالت کے گھٹاٹوپ اندھیروں میں ڈوب جاتے ہیں۔
◈ حافظ خطابی لکھتے ہیں :
فانه يحذر بذلك مخالفة السنن التى سنها رسول اللّٰه [صلي اللّٰه عليه وسلم ] مما ليس له فى القرآن ذكر على ما ذهبت اليه الخوارج و الروافض، فانهم تعلقوا بظاهر القرآن و تركوا السنن التى قدضمنت بيان الكتاب فتحيروا و ضلوا .
”رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ سنتیں جن کا ذکر قرآن میں نہیں، ان کی مخالفت سے بچنا چاہیے، خارجیوں اور رافضیوں نے صرف قرآن کے ظاہر کو لیا ہے، جبکہ ان احادیث کو چھوڑ دیا جو قرآن کی توضیح و تشریح پر مشتمل ہیں، اس لئے وہ گمراہ ہو گئے ہیں۔ “ [معالم السنن : 298/4 ]
◈ بقیہ بن ولید (ثقہ عندالجمہور ) کہتے ہیں کہ امام اوزاعی نے مجھے فرمایا، ایسے لوگوں کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے جو اپنے نبی کی حدیث سے بغض رکھتے ہیں ؟ میں نے عرض کی، وہ برے لوگ ہیں، آپ نے فرمایا :
ليس من صاحب بدعة تحدثه عن رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم بخلاف بدعته الاأبغض الحديث .
”جس بدعتی کو بھی آپ اس کی بدعت کے خلاف حدیث سنائیں گے، وہ اسے برا سمجھے گا۔ “ [شرف أصحاب الحديث للخطيب : 150، الحجة لأبي القاسم الأصبهاني : 207/1، وسنده صحيح ]
◈ امام آجری فرماتے ہیں :
ينبغي لأهل العلم و العقل اذا سمعوا قائلا يقول : قال رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم فى شيء قد ثبت عندالعلماء، فعارض انسان جاهل، فقال : لا أقبل الا ماكان فى كتاب اللّٰه [عزوجل] قيل له؛ أنت رجل سوء و أنت ممن حذرناك رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم و حذر منك العلماء .
” اہل علم و عقل کو چاہیے کہ جب وہ کسی کو صحیح ثابت فرمان رسول بیان کرتے ہوئے سنیں اور کوئی جاہل انسان اسے سن کر یہ کہے کہ میں صرف قرآن کو مانتا ہوں، اسے کہا جائے کہ تو برا انسان ہے، تجھ جیسے لوگوں سے ہمیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور علمائے کرام نے خبردار کیا تھا۔ “ [الشريعة : 49 ]
◈ امام شافعی رحمہ الله فرماتے ہیں :
لا تخالف سنة رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم كتاب اللّٰه بحال .
” کسی بھی صورت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت قرآن کریم کے مخالف نہیں ہو سکتی۔ “ [الرّسالة للشافعي : 546 ]
◈ محقق شاطبی لکھتے ہیں :
التعارض اما ان يعتبر من جهة ما فى نفس الامر، وامامن جهة نظر المجتهد، اما من جهة ما فى نفس الامر فيغير ممكن بالاطلاق… . ”تعارض کی دو قسمیں ہیں، یا تو حقیقی ہو گا یا صرف مجتہد کی نظر میں ہو گا، (قرآن و حدیث میں ) حقیقی تعارض بالکل ناممکن ہے۔ “ [الموافقات : 294/4 ]
جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ حدیث قرآن پر پیش کرو، اگر قرآن کے موافق ہو تو لے لو، اگر مخالف ہو تو چھوڑ دو، ہمارا ان سے سوال ہے کہ جب قرآن قرآن سے ٹکرائے، اس صورت میں تم قرآن کی کس آیت کو لوگے اور کس کو چھوڑو گے ؟ جو ان کا جواب ہو گا، وہی ہمارا قرآن و حدیث میں تعارض کے حوالے سے جواب ہو جائے گا۔
❀ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانِ گرامی ہے :
لا ألفين أحدكم متكئا على أريكته، ياتيه الأمر من أمري مما أمرت به أو نهيت عنه، فيقول؛ لا ندري، ما وجدنافي كتاب اللّٰه اتبعناه .
” میں تم میں سے کسی کو نہ پاؤں کہ وہ اپنے صوفہ سے ٹیک لگائے ہوئے ہو اور اس کو امر یا نہی کی صورت میں میرا فرمان پہنچے تو وہ کہے کہ ہم نہیں جانتے، ہم تو صرف قرآن کی اتباع کریں گے۔ “ [ أبو داؤد : 4605، ترمذي : 2663، ابن ماجه : 13، مسند الحميدي : 551، دلائل النبوة للبيهقي : 549/6 و سنده صحيح ]
اس حدیث کو امام ترمذی رحمہ الله نے ”حسن صحیح“، نیز امام ابن حبان رحمہ اللہ [13] اور امام حاکم رحمہ اللہ [108/1، 109] نے ”صحیح“ کہا ہے۔ حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے، حافظ بغوی نے بھی اس کو ”حسن“ قرار دیا ہے۔ [شرح السنة : 201/1 ]
◈ حافظ بغوی اس حدیث کے تحت لکھتے ہیں :
وفي الحديث دليل على أنه لا حاجة بالحديث الي أن يعرض على الكتاب، وأنه مهما ثبت عن رسول اللّٰه صلى الله عليه وسلم كان حجة بنفسه .
” یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ حدیث کو قرآن پر پیش کرنے کی قطعی طور پر کوئی ضرورت نہیں، بلکہ جب حدیث صحیح ہو تو وہ بذاتِ خود حجت شرعی ہوگی۔ “ [شرح السنة : 201-202/1 ]

قرآن اور حدیث کے مابین تعارض کی مثال ملاحظہ فرمائیں :
❀ متواتر حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
أنكم سترون ربكم كماترون هذا القمر، لاتضامون فى رؤيته… .
” یقیناًً عنقریب تم اپنے رب کو دیکھو گے، جس طرح بھِیڑ کے بغیر چاند دیکھتے ہو۔ “ [صحيح البخاري : 7434، مسلم : 633 ]
قرآن مجید میں ہے کہ جب موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے دیدار کی درخواست کی تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
لَنْ تَرَانِيْ [ الاعراف : 143] ” (اے موسیٰ ! ) آپ مجھے ہرگز نہیں دیکھ سکتے۔ “
حدیث پاک میں دیدار الہٰی کا ثبوت ہے اور قرآن پاک اس کی نفی کر رہا ہے، منکرین حدیث اس تعارض کا جواب یہ دیتے ہیں کہ یہ حدیث ”صحیح“ نہیں، بالفرض اس کو ”صحیح“ مان لیا جائے تو اس سے مراد ”علم“ ہے نہ کہ دیدار الہٰی۔ بطور دلیل وہ اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان پیش کرتے ہیں :
اَلَمْ تَرَاَنَّ اللّٰهَ يُسَبِّحُ لَهٗ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ [النور : 41 ]
” کیا آپ کو علم نہیں کہ آسمان و زمین کی ہر چیز اس کی تسبیح کرتی ہے ؟ “
تو اس تعارض کا جواب یہ ہے کہ یہ حدیث متواتر ہے، اس کی صحت میں کوئی شبہ نہیں، قرآن نے جس دیدار الہٰی کی نفی کی ہے، اس کا تعلق دنیا سے ہے، حدیث پاک نے جس کا اثبات کیا ہے، اس کا تعلق آخرت سے ہے، یعنی دنیا میں کوئی آنکھ اللہ تعالیٰ کو نہیں دیکھ سکتی، البتہ آخرت میں وہ مومنوں کو اپنا دیدار دے گا، لہٰذا تعارض ختم ہوا، یہا ں رؤیت کی تعبیر علم سے کرنا قرآن و حدیث اور صحابہ کرام و سلف صالحین کے متفقہ فہم و تصریحات کے خلاف ہے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وُجُوْهٌ يَّوْمَئِذٍ نَّاضِرَةٌ ٭اِليٰ رَبِّهَا نَاظِرَةٌ [ القيامة : 22-23 ]
”اس دن (قیامت کو مومنوں کے ) چہرے شگفتہ اور بارونق ہوں گے، اپنے رب کی طرف دیکھتے ہوں گے۔ “
نظر کی نسبت چہرے کی طرف کی گئی ہے، جو کہ آنکھوں کا محل ہے، اس کو ”الیٰ“ کے ساتھ متعدی کیا گیا ہے، معلوم ہوا کہ یہ رؤیت بصری ہو گی نہ کہ قلبی، یہ اہل جنت پر اللہ تعالیٰ کا احسان عظیم ہو گا اور جو منکر ہو گا، وہ اس سے محروم رہے گا۔
ان کی اس باطل تاویل کا رد اسی حدیث میں موجود ہے، جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روز قیامت ہونے والے دیدار الہٰی کے بارے میں پوچھا: تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
هل تضارون فى رؤية الشمس بالظهيرة صحوا، ليس معها سحاب ؟ وهل تضارون فى رؤية القمر ليلة البدر صحوا، ليس فيها سحاب ؟ قالوا؛ لا، يا رسو ل اللّٰه ! قال ؛ ما تضارون فى رؤية اللّٰه تبارك و تعالىٰ يوم القيامة الا كام تضارون فى رؤية أحدهما .
” جب سورج نصف النہار پر ہو اور اس کے ساتھ کوئی بادل نہ ہو تو کیا تمہیں سورج دیکھنے میں کوئی دقت یا دشواری ہوتی ہے ؟ اور جب چودھویں رات کو آسمان پر چاند جلوہ آرا ہو اور اس پر بادل بھی نہ ہو تو کیا چاند دیکھنے میں کوئی تکلیف ہوتی ہے ؟ صحابہ نے عرض کی، نہیں اے اللہ کے رسول ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جس طرح تم دنیا میں سورج یا چاند کو دیکھتے ہو، اسی طرح روز قیامت اللہ تبارک و تعالیٰ کا دیدار کر لو گے۔ “ [صحيح مسلم : 183 ]
◈ امام ابن قتیبہ لکھتے ہیں :
ولو كان اللّٰه تعالىٰ لا يرى فى حال من الأحوال و لا يجوز عليه النظر، لكان موسيٰ عليه السلام قد خفي عليه من وصف اللّٰه ما علموه .
”اگر کسی صورت میں بھی اللہ تعالیٰ کا دیدار ناممکن ہو تو یہ لازم آئے گا کہ اللہ تعالیٰ کے جس وصف کو موسیٰ علیہ السلام نہ جان سکے، اسے منکرین حدیث جان گئے۔ “ [تاويل مختلف الحديث : 207 ]
منکرین حدیث کا خود ساختہ اصول باطل ہوا کہ حدیث کو قرآن پر پیش کیا جائے، اگر قرآن کے موافق ہو تو لے لی جائے اور اگر قرآن کے مخالف ہو تو چھوڑ دی جائے۔ خوب یاد رہے کہ کوئی صحیح حدیث قرآن کے مخالف نہیں ہوتی، ظاہری مخالفت ہو سکتی ہے، حقیقت میں کوئی مخالفت نہیں ہو سکتی، لہٰذا ایک صحیح، مرفوع اور متصل حدیث پیش کی جائے جو قرآن کے خلاف ہو، اللہ تعالیٰ کی توفیق سے ہم اس تعارض کو رفع کر دیں گے، اگر قرآن کا ظاہری تعارض رفع ہو سکتا ہے تو قرآن و حدیث کا ظاہری تعارض دور کیوں نہیں ہو سکتا ؟ اگر دور نہ ہو تو یہ سمجھ کا قصور ہو گا۔
منکرین حدیث اس مرض میں مبتلا ہیں، شیطان ان کی طرف باطل القاء کرتا ہے، ان کی عقلیں سقیم اور فاسد ہو چکی ہیں، شبہات و وساوس کے اندھیروں سے ان کے سینے لبریز ہو چکے ہیں، ان کی دلیلیں جو درحقیقت شبہات ہیں، باطل ثابت ہو چکی ہیں، یہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے مصداق ہیں :
وَمَنْ يُهِنِ اللَّـهُ فَمَا لَهُ مِنْ مُكْرِمٍ إِنَّ اللَّـهَ يَفْعَلُ مَا يَشَاءُ [الحج : 18]
”اور جسے اللہ ذلیل کرے، اس کو کوئی عزت دینے والا نہیں، یقیناًً اللہ جو چاہتا ہے، سو کرتا ہے۔ “
نیز فرمایا : اُوْلٰٓئِكَ الَّذِيْنَ لَعَنَهُمْ اللّٰهُ فَاَصَمَّهُمْ وَاَعْمَي اَبْصَارَهُمْ [ محمد : 23 ]
”یہ (منکرین حدیث جو درحقیقت منکرین قرآن ہیں) وہ لوگ ہیں، جن پر اللہ نے لعنت کی ہے، پھر ان کو بہرا کر دیا اور ان کی آنکھوں کو اندھا کر دیا۔ “
حدیث جو حق ہے، اس کو نہ سن سکتے ہیں، نہ دیکھ سکتے ہیں، نہ سمجھ سکتے ہیں۔
◈ قوام السنۃ امام ابوالقاسم اسماعیل بن محمد الاصبہانی نے کیا خوب لکھا ہے :
وقول من قال؛ تعرض السنة على القرآن، فان وافقت ظاهره، والا استسلمنا ظاهر القرآن وتركنا الحديث، فهذا جهل، لأن سنة رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم مع كتاب اللّٰه عزوجل تقام مقام البيان عن اللّٰه عزوجل، وليس شيء من سنن رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم يخالف كتاب اللّٰه لأن اللّٰه عزوجل أعلم خلقه أن رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم يهدي الي صراط مستقيم فقال؛ ﴿ وَاِنَّكَ لَتَهْدِيْ اِليٰ صِرَاطٍ مُسْتَقِيْمٍ﴾ [الشوريٰ : 53] وليس لنا مع سنة رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم من الأمر شيء الا اتباع و التسليم ولا يعرض على القياس ولاغيره، وكل ما سواها من قول الآدميين تبع لها ولا عذر لاحد يتعمد ترك السنة، ويذهب الي غيرها، لأنه لا حجة لقول أحد مع رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم اذا صحّ .
”منکرین حدیث کا یہ کہنا کہ سنت کو قرآن پر پیش کیا جائے گا، اگر وہ قرآن کے موافق ہوئی تو ٹھیک ورنہ ہم قرآن کے ظاہر کو لے لیں گے اور حدیث کو چھوڑ دیں گے، نری جہالت ہے کیونکہ سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کے موافق ہے بلکہ اللہ کی طرف سے قرآن کی تفسیر و بیان اور تشریح ہے، کوئی سنت قرآن کے مخالف و معارض نہیں ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کو اس بات سے باخبر کیا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم سیدھی راہ کی راہنمائی فرماتے ہیں، فرمایا : وَاِنَّكَ لَتَهْدِيْ اِليٰ صِرَاطٍ مُسْتَقِيْمٍ [الشوريٰ : 53] (آپ ضرور ضرور صراط مستقیم کی ارشاد و راہنمائی فرماتے ہیں)۔ ہمارے لیے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اتباع و تسلیم کے بغیر کوئی چارہ نہیں، نیز حدیث کو قیاس وغیرہ پر بھی پیش نہیں کیا جائے گا، امتیوں کے اقوال و افعال تو حدیث کے تابع ہیں (اگر حدیث کے موافق ہوں تو لے لیں گے، ورنہ ترک کر دیں گے ) کسی کے لئے جان بوجھ کر سنت کو چھوڑ کر کسی دوسری طرف جانے کی گنجائش نہیں ہے، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قول صحیح ثابت ہو جائے تو اس کے خلاف کسی کا قول حجت نہیں ہے۔ “ [الحجة فى بيان المحجة : 326-325/2 ]
◈ اہل سنت کے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
من رد حديث رسول الله صلى الله عليه وسلم فهو على شفا هلكة .
” جس نے حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو رد کر دیا، وہ تباہی و بربادی کے دہانے پر کھڑا ہے۔ “ [ الحجة فى بيان المحجة : 207/1، مناقب الامام احمد لابن الجوزي : 182، و سنده حسن ]
◈ قوام السنۃ ابواسماعیل الاصبہانی لکھتے ہیں :
”آدمی پر اہل بدعت سے بغض لازم ہے، وہ جہاں بھی ہوں، تاکہ وہ اللہ کی خاطر محبت اور اللہ کی خاطر بغض و نفرت کرنے والوں میں سے ہو جائے، اہل سنت سے محبت اور اہل بدعت سے بغض و نفرت کی کچھ علامات ہیں، جب کسی شخص کو آپ امام مالک بن انس، امام سفیان بن سعید الثوری، امام عبدالرحمٰن بن مہدی، امام عبداللہ بن مبارک، امام محمد بن ادریس الشافعی اور دیگر صحیح العقیدہ ائمہ کرام رحمہم اللہ کا ذکرِ خیر کرتے دیکھیں، تو جان لیں کہ وہ اہل سنت میں سے ہے اور جب کسی کو دیکھیں کہ وہ اللہ کے دین اور اس کی کتاب میں جھگڑا کر رہا ہے، اسے کہا جاتا ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں فرمایا ہے، تو وہ کہتا ہے کہ ہمیں اللہ کی کتاب کافی ہے، جان لیں کہ وہ بدعتی ہے، جب کسی آدمی کو کہا جائے کہ تو حدیث کیوں نہیں لکھتا ؟ وہ کہتا ہے کہ عقل بہتر ہے، جان لیں کہ وہ بدعتی ہے، جب آپ دیکھیں کہ کوئی اہل فلسفہ و ہندسہ کی مدح سرائی کر رہا ہے، تو جان لیں کہ وہ گمراہ ہے، جب کسی کو دیکھیں کہ وہ اہل حدیث کو حشویہ، مشبہہ او ر ناصبہ کہہ رہا ہو، تو جان لیں کہ وہ بدعتی ہے، جب کوئی صفات الہٰی کی نفی یا ان کو مخلوق سے تشبیہ دے رہا ہو، تو جان لیں کہ وہ گمراہ ہے۔ “ [ الحجة فى بيان المحجة : 540-539/2 ]
✿ اللہ رب العزت کا ارشادِ گرامی ہے : مَنْ يُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰهَ [ النساء : 80 ]
” جس نے رسول کی اطاعت کی، درحقیقت اس نے اللہ کی اطاعت کی۔ “
یہ آیتِ کریمہ نص ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و افعال و احوال اللہ کی وحی ہیں، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و افعال اللہ کی وحی کے تابع ہیں، تو ان کو قرآن کریم پر پیش کرنے کی کیا ضرورت باقی رہ جاتی ہے ؟
◈ حافظ ابن حزم فرماتے ہیں :
… فصح ان كلام رسول الله صلى الله عليه وسلم كله فى الدين وحي من عندالله عزوجل، لاشك فى ذلك ولا خلاف بين أحد من أهل اللغة و الشريعة فى أن كل وحي نزل من عندالله فهو ذكر منزل .
” یہ لاریب حقیقت ہے کہ دین کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ساری کی ساری باتیں وحی الہٰی ہیں، اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہونے والی وحی کے منزل من اللہ ذکر ہونے میں لغت و شرع میں کوئی اختلاف نہیں۔ “ [ الاحكام لا بن حزم : 135/1 ]
◈ حسان بن عطیہ تابعی رحمہ الله فرماتے ہیں :
كان جبريل ينزل على رسول الله صلى الله عليه وسلم بالسنة كما ينزل عليه القرآن و يعلمه اياها كما يعلمه القرآن .
” جبریل امین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر سنت کے لئے بھی نازل ہوتے تھے، جس طرح قرآن کے لئے نازل ہوتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سنت کی ویسے ہی تعلیم دیتے تھے، جس طرح قرآن کی تعلیم دیتے تھے۔ “ [السنة لمحمد بن نصر المروزي : 116، 28 و سنده صحيح ]
◈ ابوالبقاء الحسینی الحنفی کہتے ہیں :
والحاصل أن القرآن و الحديث يتحدان فى كونهما وحيا من عندالله بدليل؛ ﴿اِنْ هُوَ اِلَّا وَحْيٌ يُّوحٰي﴾ [النجم : 5]
”الحاصل، فرمانِ الہٰی : اِنْ هُوَ اِلَّا وَحْيٌ يُّوحٰي [ النجم : 5] کے مطابق قرآن و حدیث دونوں وحی ہونے میں متحد و متفق ہیں۔ “ [كليات ابي البقاء : 288 ]
◈ علامہ شوکانی لکھتے ہیں :
وقد اتفق من يعتد به من أهل العلم على أن السنة المطهرة بتشريع الأحكام، وأنها كالقرآن فى تحليل الحلال و تحريم الحرام .
”معتبر علمائے اسلام سنتِ مطہرہ کی مستقل تشریعی حیثیت پر متفق ہیں، یقیناًً یہ حلال و حرام میں قرآن کی طرح ہے۔ “ [ارشاد الفحول للشوكاني : 33 ]
◈ نیز فرماتے ہیں :
ان ثبوت حجية السنة المطهرة و استقلالها بتشريع الأحكام، ضرورة دينية، ولا يخالف فى ذلك الا من لا حظ له فى دين الاسلام .
” سنتِ مطہرہ کی حجیت اور اس کا احکام شرعیہ کا مستقل مصدر ہونے کا ثبوت ضرورت دینی ہے، اس میں اختلاف وہی کرتا ہے، جس کا دین اسلا م میں کوئی حصہ نہیں۔ “ [ارشاد الفحول : 33 ]
✿ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوْا أَطِيعُوْا اللّهَ وَأَطِيعُوْا الرَّسُولَ وَأُوْلِي الأَمْرِ مِنكُمْ [النساء : 59 ]
”اے اہل ایمان ! اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرو اور اولی الامر کی اطاعت کرو۔ “
جب اللہ تعالیٰ نے اپنی اور اپنے رسول کی اطاعت کا حکم دیا تو اطيعوا کا صیغہ امر الگ الگ ذکر فرمایا، جب اولی الامر کی اطاعت کا حکم دیا، تو صیغہ امر نہیں دہرایا، بلکہ عطف پر اکتفا کیا، اس سے ثابت ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث مستقل بالذات دلیل ہیں، لہٰذا آپ کی احادیث مبارکہ کو کتاب اللہ پر پیش کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔
◈ علامہ ابن القیم فرماتے ہیں :
فأمر تعالىٰ بطاعته و طاعة رسوله، وأما الفعل اعلاما بأن طاعة الرسول تجب استقلا لا من غير عرض ما أمر به على الكتاب، بل اذا أمر و جبت طاعته مطلقا، سواء كان ما أمر به فى الكتاب أو لم يكن فيه، فانه أوتي الكتاب و مثله معه .
” اللہ تعالیٰ نے اپنی اطاعت اور اپنے رسول کی اطاعت کا حکم فرمایا، اطيعوا کو دو بار ذکر کر کے یہ باور کروایا کہ حدیث کو قرآن پر پیش کیے بغیر اطاعت رسول مستقل شرعی مصدر و ماخذ ہونے کی حیثیت سے واجب ہے، بلکہ جب حکم دیا تو مطلق طور پر اطاعت رسول واجب ہو گئی، خواہ اس بات کا حکم کتاب اللہ میں ہو یا نہ ہو، یقیناًً آپ کو قرآن عطا کیا گیا اور قرآن کے ساتھ اس کی مثل ایک اور چیز (حدیث ) بھی دی گئی ہے۔ “ [اعلام الموقعين : 48/1 ]
مذکورہ آیت کریمہ کی تفسیر میں امام عطاء بن ابی رباح تابعی فرماتے ہیں :
أولو العلم والفقه، وطاعة الرسول؛ اتباع الكتاب و السنة
”اولی الامر سے مراد علماء وفقہاء ہیں اور اطاعتِ رسول کتاب و سنت کی پیروی کا نام ہے۔ [“السنن الدارمي : 225،، تفسير ابن جرير : 147/5، وسنده صحيح ]
قرآن و حدیث اور اجماعِ امت سے ثابت ہوچکا ہے کہ حدیث وحی ہے، اس کو قرآن پر پیش کرنا گمراہی اور ضلالت ہے، نیز اس کا انکار کفر ہے۔
◈ حافظ سیوطی فرماتے ہیں :
ان من أنكر كون حديث النبى صلى الله عليه وسلم قولا كان أوفعلا، بشرطه المعروف فى الأصول حجة، كفر و خرج عن دائرة الاسلام، وحشر مع اليهود و النصاري أو مع من شاء الله من فرق الكفرة .
” حدیث قولی ہو یا فعلی، اسے شرعی دلیل سمجھتے ہوئے، جس نے بھی انکار کیا، وہ کافر ہے اور دائرہ اسلام سے خارج ہے، اس کا حشر یہود و نصاریٰ کے ساتھ ہو گا یا ان کافر فرقوں کے ساتھ جن کے ساتھ اللہ تعالیٰ چاہے گا۔ “ [مفتاح الجنة فى الاحتجاج بالسنة : 3]

 

یہ تحریر اب تک 64 لوگ پڑھ چکے ہیں، جبکہ صرف آج 1 لوگوں نے یہ تحریر پڑھی۔

Leave a Reply