جس عورت کا محرم نہیں اس پر حج نہیں

فتویٰ : دارالافتاءکمیٹی

سوال : ایک خاتون جو نیکی اور تقویٰ میں شہرت کی حامل ہے، وہ درمیانی عمر یا بڑھاپے کے قریب ہے اور حج کا ارادہ رکھتی ہے۔ مگر مشکل یہ ہے کہ اس کا کوئی محرم نہیں ہے۔ ادھر شہر کے معززین میں سے ایک باکردار شخص اپنی محرم عورتوں کے ساتھ حج کرنا چاہتا ہے ؟ کیا اس خاتون کا اس پاکباز شخص کے ساتھ فریضئہ حج کرنا درست ہے ؟ جبکہ اس کی عورتیں دیگر عورتوں کے ساتھ ہوں گی اور وہ صرف اس پر نگران ہو گا، یا اس عورت کا محرم نہ ہونے کی وجہ سے اس سے حج ساقط ہو جائے گا ؟ جبکہ وہ مالی طور پر استطاعت کی حامل ہے۔ برائے کرم فتویٰ سے نوازیں۔ بارک اللہ فیکم
جواب : جس عورت کے ساتھ محرم نہ ہو اس پر حج کرنا فرض نہیں ہے۔ کیونکہ عورت کے لئے محرم کا ہونا ”سبیل“ میں سے ہے اور سبیل کی استطاعت وجوب حج کی ایک شرط ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ سے :
وَلِلَّـهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا [3-آل عمران:97]
”اور لوگوں کے ذمے ہے اللہ کے لئے اس کے گھر کا حج کرنا (یعنی لوگوں میں سے وہ) جو وہاں تک پہچنے کی طاقت رکھتا ہو۔ “
خاوند یا محرم کے بغیر عورت کے لئے حج یا کسی دوسرے سفر کے لئے نکنا ناجائز ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :
لا يحل لإمرأة تؤمن بالله واليوم الأخر أن تسافر مسيرة يوم وليلة ليس معها حرمة [صحيح البخاري، كتاب تقصير الصلاة، باب 4]
”کسی عورت کے لئے جو اللہ تعالیٰ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتی ہو محرم کے بغیر ایک رات اور دن کی مسافت کا سفر جائز نہیں ہے۔ “
لا يخلو رجل بامرأة إلا ومعها ذو محرم، ولا تسافر المرأة إلا ومعها ذو محرم [صحيح البخارى و صحيح مسلم]
” کوئی شخص کسی عورت کے ساتھ خلوت میں نہ جائے الآیہ کہ اس کے ساتھ اس کا محرم ہو، اور کوئی عورت محرم کے بغیر سفر نہ کرے۔ “
اس پر ایک شخص نے اٹھ کر کہا، اے اللہ کے رسول ! میری بیوی حج کے لئے چلی گئی ہے جبکہ میں نے فلاں فلاں غزوے کے لئے اپنا نام لکھوا رکھا ہے۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : فانطلق فحج مع امرأتك ”چلا جا اور اپنی بیوی کے ساتھ حج کر۔ “
حسن بصری، امام نخعی، احمد اسحاق بن منذر اور اصحاب رائے کا بھی یہی مسلک ہے، اور یہی صحیح ہے ؟ کیونکہ یہ مسلک ان عمومی احادیث کے مطابق ہے جو عورت کو خاوند یا محرم کے بغیر ہونے کو روا نہیں سمجھتا۔ امام مالک، شافعی اور اوزاعی رحمها اللہ نے اس سے اختلاف کیا ہے۔ اور ہر ایک نے ایسی شرط عائد کی ہے جس کے لئے ان کے پاس کوئی دلیل نہیں ہے۔ ابن منذر فرماتے ہیں، انہوں سے ظاہر حدیث کو چھوڑ دیا ہے۔ غرض ان کے پاس کوئی معتبر دلیل نہیں ہے۔ وبالله التوفيق

 

اس تحریر کو اب تک 1 بار پڑھا جا چکا ہے۔

Leave a Reply