تقلید شخصی: احساسِ زیاں جاتا رھا

تحریر:فضل اکبر کاشمیری

اہل اسلام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اسلام ایک کامل دین ہے ۔ ہر مسلمان شہادتین کے اقرار کے ساتھ حصراً دو چیزوں کا مکلف بن جاتا ہے یعنی کتاب و سنت۔ قیامت تک کے لئے دنیا کی کوئی طاقت ان دو چیزوں میں تفریق پیدا نہیں کرسکتی ۔ یہ کامیابی کی سب سے قوی اساس اور نجات کا مرکزی سبب ہے ۔ نبی کریم ﷺ نے اپنے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کے قلوب و اذہان میں اس کی اہمیت اور محبت کوٹ کوٹ کر بھر دی تھی ، چنانچہ انہوں نے اسی پر عمل کرکے رضی اللہ تعالیٰ عنہم کا لقب حاصل کیا۔ اسی لئے کتاب و سنت کا وہی مفہوم معتبر ہے جو اجماع و سلف صالحین سے ثابت ہے ، خیر القرون کے مسلمانوں نے بھی اسی کو اپنا کر  عالمِ کفر پر غلبہ پایا اور باطل ان کے سامنے سر نگوں تھا۔
اس کے برعکس ایک حساس اور گھمبیر مسئلہ تقلید شخصی کا ہے ، جس کا آغاز قرونِ ثلاثہ کے بعد ہوا۔ یہ ایک ایسا ناسور ہے جس سے ہر دور میں مسلمان تشتت و افتراق کا شکار ہوئے ہیں۔ اس نے اسلام کے مصفیٰ آئینہ کو دھندلا دیا۔ تقلید راہِ حق میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے اور مقلد کو تارکِ سنت بناتی ہے ۔ تقلید وحی کی ضد ، توحید کے منافی اور چوتھی صدی کی بدعت ہے۔

(سیدنا) معاذ بن جبل (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) نے فرمایا: رہا عالم کی غلطی کا مسئلہ تو (سنو) اگر وہ ہدایت پر بھی ہو تو اپنے دین میں اس کی تقلید نہ کرو۔ (کتاب الزہد للامام وکیع ج۱ ص  ۲۹۹، ۳۰۰ ح ۷۱و سندہ حسن)

عبدالحئی لکھنوی صاحب احادیث گڑھنے کے اسباب بیان کرتے ہوئے رقمطراز ہیں:

“السادس: قوم حملھم علی الوضع التعصب المذھبي و التجمد التقلیدي”چھٹا سبب : لوگوں کو مذہبی تعصب اور تقلیدی جمود نے احادیث گھڑنے پر آمادہ کیا۔                 (الآثار المرفوعۃ فی الاخبار الموضوعۃ ص ۱۷)

تقلید سے انسان جہالت کا ارتکاب کرتاہے ، زیلعی حنفی اپنے شیخ کی غلطی پر تنقید کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

فالمقلد ذھل ، والمقلد جھلپس مقلد غلطی کرتا ہے اور مقلد جہالت کا ارتکاب کرتاہے ۔ (نصب الرایۃ ۲۱۹/۱)

عینی حنفی (!) نے کہا:“فالمقلد ذھل و المقلد جھل و آفۃ کل شئ من التقلید”
پس مقلد غلطی کرتا ہے اور مقلد جہالت کا ارتکاب کرتا ہے اور ہر چیز کی مصیبت تقلید کی وجہ سے ہے۔                                                                      (البنایہ  شرح الہدایہ ج۱ ص ۳۱۷)

؎       وائے ناکامی متاعِ کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا

اس تحریر کو اب تک 8 بار پڑھا جا چکا ہے۔

Leave a Reply