تفسیر الجلالین – ایک غیر مستند تفسیر

 

تحریر: الشیخ محمد الحمود النجدی

ترجمہ: حافظ محمد اعجاز ساقیؔ
مفسرین کے نام:
یہ تفسیر درج ذیل دو مفسرین کی کاوش ہے:
➊ جلال الدین المحلی ، محمد بن احمد المفسر ، الاصولی ، الشافعی (۷۹۱….۸۷۴ھ)
➋ جلال الدین السیوطی عبدالرحمٰن بن ابی بکر (۸۴۹…..۹۱۱ھ)
تفسیر کا نام: الجلالین.
تفسیر ہٰذا کے عمومی اوصاف: اس تفسیر میں دو جلال نامی علماء شریک ہوئے ہیں۔ جلال الدین المحلی نے اس تفسیر کو سورۂ کہف سے شروع کرکے سورۂ ناس تک تحریر کیا پھر جب سورہ فاتحہ سے شروع ہوئے تو فوت ہوئے ۔ اس کے بعد جلال الدین السیوطی نے اسے مکمل کیا۔ سورۂ فاتحہ سے شروع ہو کر سورہ اسراء تک انہوں نے لکھی ۔ یہ تفسیر مختصر اور جامع ہے ۔ اپنے اختصار اور آسانی کی وجہ سے یہ لوگوں میں مشہور ہے۔
عقیدہ:
دونوں مصنف اشعری مؤوّل ہیں۔ س
صفاتِ باری تعالیٰ میں جلال الدین محلی کی تاویلات:
جلال الدین محلی نے صفتِ ”رحمت“ کی تاویل ”مستحقین رحمت کے لئے اردۂ خیر“ سے کی ہے ، جیساکہ ”الرحمٰن الرحیم“ کی تفسیر میں موجود ہے ۔ الودود کی تفسیر میں لکھتے ہیں: ”اپنے اولیاء کے لیے محبوب“ ”“ ، صفتِ ”حیا“ کی تاویل ”ترک“ سے کی ہے اور یہ لفظ ”صفت حیا“ کا لازم ہے ، جیساکہ اس آیت میں واضح ہے: ﴿وَاللّٰهُ لَا يَسْتَحْيِيْ مِنَ الْحَقِّ﴾ [الاحزاب: ۵۳]
انہوں نے ﴿اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الَّذِيْنَ يُقَاتِلُوْنَ فِي سَبِيْلِهٖ صَفًّا﴾ [الصّف: ۴]
میں ”محبت“ کی تاویل ”نصرت و اکرام“ سے کی ہے ۔
صفت ”قبضۃ“ کی تاویل ”ملک و تصرف“ اور ”یمین“ کی تاویل ”قدرۃ“ سے کی ہے ، اللہ تعالیٰ کے اس فرمان میں انہوں نے یہ تاویل کی ہے:
﴿وَالْاَرْضُ جَمِيْعًا قَبْضَتُهٗ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ وَ السَّمٰوٰتُ مَطْوِيَّاتٌ بِّيَمِيْنِهٖ﴾ [الزمر: ۶۷]
﴿وَجَاءَ رَبُّكَ وَالْمَلَكُ﴾ [الفجر: ۲۲] میں صفت مجیٔت کی تاویل ”اللہ کے حکم کے آنے ”سے کی ہے، البتہ: ﴿اِلٰي رَبِّهَا نَاضِرَةٌ﴾ [القیامۃ: ۲۳]
سے قیامت کے دن مومنوں کے لئے ان کے رب کی ”رؤیت“ ثابت کی ہے ۔
استواء والی آیات میں کہتے ہیں کہ جیسے اس کے شایانِ شان ہے ، یہ مجمل بات ہے ، پھر ﴿اِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ﴾ [الفاطر: ۱۰] کی تفسیر میں لکھتے ہیں: “ یعنی وہ اس کو جانتا ہے ۔ ”
جلال الدین سیوطی کی تاویلات:
صفت ”حیاء“ کی تاویل آیتِ مبارکہ:
﴿اِنَّ اللّٰهَ لَا يَسْتَحْيِيْ اَنْ يَّضْرِبَ مَثَلاً مَّا بَعُوْضَةً فَمَا فَوْقَهَا﴾ [البقرۃ: ۲۶] میں ”ترک“ سے کی ہے۔
﴿اُولٰئِكَ يَرْجُوْنَ رَحْمَةَ اللّٰهِ﴾ [البقرۃ: ۲۱۸] میں صفت ”رحمت“ کو ”ثواب“ سے تعبیر کیا ہے ، اور ﴿اَللّٰهُ يَسْتَهْزِئُ بِهِمْ﴾ میں صفت ”استہزاء“ کی تاویل ”بدلہ استہزاء“ سے کی ہے ، اسی طرح
﴿قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِيْ يُحبِبْكُمُ اللّٰهُ﴾ [آل عمران: ۳۱]
میں صفتِ ”محبت“ کی تاویل ”ثواب“ سے کی ہے۔
﴿هَلْ يَنْظُرُوْنَ اِلَّا اَنْ يَّأْتِيَهُمُ اللّٰهُ فِيْ ظُلَلٍ مِّنَ الْغَمَامِ﴾ [البقرۃ: ۲۱۱]
کے بارے میں کہتے ہیں کہ ”اتیان“ سے مراد ”اتیان أمرہ“ (اللہ تعالیٰ کے حکم کا آنا) ہے۔
﴿بَلْ يَدَاهُ مَبْسُوْطَتَانِ يُنْفِقُ كَيْفَ يَشَاءُ﴾ [المائدہ: ۶۴] میں ”یدین“ کی تاویل ”سخاوت میں مبالغہ“ اور ”افادۂ کثیرہ“ سے کی ہے ، کیونکہ کوئی سخی آدمی سخاوت اپنے ہاتھ سے ہی کرتا ہے ۔
احادیث و اسانید:
اس تفسیر میں احادیث، اسباب نزول اور آثارِ سلف اکثر بغیر سند و مرجع ذکر کیے گئے ہیں، بسا اوقات مراجع کا ذکر موجود بھی ہے ۔
فقہی احکام:
اختصار سے راجح فقہی اقول ذکر کیے گئے ہیں۔
لغت ، نحو اور شعر:
ترکیب کا ذکر مختصر انداز سے موجود ہے۔
قراءات:
مختصراً قراءات مشہورہ بھی بتاتے ہیں۔
اسرائیلی روایات میں آپ کا انداز:
بعض آیات کی تفسیر میں اسرائیلی روایات کے معانی بھی بیان ہیں اور ان پر جرح بھی نہیں ، ان میں بعض انبیاء کرام علیہم السلام کی گستاخی بھی موجود ہے ، جیساکہ [سورہ صٓ کی تفسیر میں] داؤد علیہ السلام کی آزمائش کا جھوٹا قصہ موجود ہے ۔

اس تحریر کو اب تک 13 بار پڑھا جا چکا ہے۔

Leave a Reply