بعض لوگوں کا یہ عقیدہ کہ (مجبوری میں بھی) کھڑے ہو کرپیشاب کرنا مکروہ (یعنی حرام)ہے

تحریر : فضیلۃ الشیخ عمرو عبدالمنعم رحمہ اللہ

ترجمہ:حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ
یہ عقیدہ سیدنا حذیفہ بن یمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اس حدیث کے مخالف ہے جس میں آیا ہے کہ :
نبی صلی اللہ علیہ وسلم (کسی مجبوری کی وجہ سے) ایک قبیلے، کوڑا کرکٹ کے ڈھیر پر گئے تو وہاں کھڑے ہو کر پیشاب کیا۔ میں آپ کے لئے وضو کا پانی لایا۔ میں دور جانا چاہتا تھا مگر آپ نے مجھے بلا یا حتیٰ کہ میں آپ کے پیچھے کھڑا ہوگیا، آپ نے وضوء کیا او رموزوں پر مسح کیا [صحيح بخاري ، كتاب الوضوء ، باب البول قائماً و قاعداً ، ح ۲۲۴ صحيح مسلم ، كتاب الطهاره، باب المسح على الخفين ح ۲۷۳ مسند احمد ۳۸۲/۵ ، ۴۰۱ ، المسند المنسوب إلى أبى حنيفه ص ۲۳ ]

اور (میرے خیال میں) لوگوں کو اس صحیح حدیث میں غلط فہمی ہوئی ہے:
ام المؤمنین اماں عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے ثابت ہے کہ :
من حدثكم أن النبى صلى الله عليه وسلم كان يبول قائما فلا تصدقوه، ماكان يبول إلا قاعدا [حسن، سنن الترمذي ، ابواب الطهارة، باب ماجاء فى النهي عن البول قائماً ح ۱۲ ]
”تمہیں جو شخص یہ بتائے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم (ہمیشہ) کھڑے ہو کر پیشاب کرتے تھے تو اسے سچا نہ سمجھو۔ آپ (عام طور پر) صرف بیٹھ کر ہی پیشاب کرتے تھے۔ “

یہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا اجتہاد ہی ہے ۔ (یہ اجتہاد نہیں ہے بلکہ ام المؤمنین کی رؤیت اور گواہی ہے ۔ یاد رہے کہ ام المؤمنین کی حدیث اور حدیثِ حذیفہ میں کوئی تعارض نہیں ہے ۔ نبی اکرم ﷺ عام طور پر بیٹھ کر ہی پیشاب کرتے تھے۔ صرف ایک دفعہ (کسی عذر کی وجہ سے) آپ نے کھڑے ہو پیشاب کیا لہذا بیٹھ کر پیشاب کرنا ہی مسنون ہے تاہم کسی عذرو مجبوری کی وجہ سے پردہ اور ضروری شرائط کے ساتھ کھڑے ہو کر پیشاب کرلینا جائز ہے۔)

انہیں، نبیﷺ کی سنت سے جو معلوم تھا اسے بیان کردیا اور (صریح تعارض کی صورت میں) مثبتمنفی پر مقدم ہوتا ہے پس یہ ضروری ہے کہ حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث کو (جواز کی دلیل کے طور پر) لازم پکڑا جائے کیونکہ اس کی بنیاد ، دیکھنے پر ہے جس کا تعلق حسِ بصارت سے ہے جبکہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی حدیث کا تعلق علم کے ساتھ ہے ۔ (یہ ظاہر ہے کہ بعض اوقات) علم سے بعض چیزیں چھپی رہ جاتی ہیں۔

ام المؤمنین کا یہ اجتہاد ان کی اس تحقیق جیسا ہے جس میں انہوں نے دنیا میں نبی اکرم ﷺ کے اپنے رب کو دیکھنے کی نفی کی ہے ۔ جبکہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے اس کا اثبات کیا ہے ۔اُم المؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ : جو شخص اس بات کا دعویٰ کرتا ہے کہ محمد ﷺ نے (دنیا کی زندگی میں) اپنے رب کو دیکھا ہے تو یہ بہت بڑا افتراء ہے ۔ [صحيح البخاري كتاب بدء الخلق باب اذا قالاحد كم آمين۔۔ ح ۳۲۳۴ و صحيح مسلم ، كتاب الإيمان باب معنى قول الله عزوجل و لقدرآه نزاته اخري۔۔ ح ۱۷۷]
جبکہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں: آپﷺ نے اپنے رب کو اپنے دِل (کی آنکھوں ) سے (دو دفعہ) دیکھا ہے۔ [ صحيح مسلم كتاب الايمان باب من قول الله عزوجل : ولقدرآه نزله اخري۔۔ح۱۷۶ ]
یعنی خواب یا عالمِ مثال میں روحانی طور پر دیکھا ہے۔ حدیثِ عائشہؓ میں دنیاوی رؤیت کی نفی ہے اور حدیثِ ابن عباسؓ میں روحانی رؤیت کا اثبات ، لہذا دونوں حدیثوں میں کوئی تعارض نہیں ہے ۔
اس قسم کی اور بھی مثالیں ہیں جن کے ذکر سے یہ بحث طول پکڑ سکتی ہے اسی لئے امام ترمذی ؒ نے اپنی کتاب السنن (۱۸/۱) میں کہا ہے کہ :
”کھڑے ہو کر پیشاب کرنے سے ممانعت کا تعلق آداب (و اخلاق) سے ہے ، حرمت سے نہیں۔“

میں کہتا ہوں کہ کھڑے ہو کر پیشاب کرنے کی ممانعت والی مرفوع حدیث کو عمربن الخطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کیا گیا ہے کہ: مجھے نبی اکرمﷺ نے دیکھا، میں کھڑا ہو کر پیشاب کر رہا تھا۔ آپﷺ نے فرمایا:
يا عمر لاتبل قائما
”اے عمر ! کھڑے ہو کر پیشاب نہ کرو۔“ اس کے بعد میں نے کبھی کھڑے ہو کر پیشاب نہیں کیا ۔ [ضعيف جداً ، سنن ابن ماجه ، الطهارة و سننها باب فى البول قاعداً ح۳۰۸] اس کی سند عبدالکریم بن ابی امیہ کی وجہ سے سخت ضعیف ہے ۔تاہم سیدنا امیر المؤمنین عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے موقوفاً ثابت ہے کہ وہ بیٹھ کر پیشاب کرتے تھے [مسند بزار بحواله كشف الاستارللهيثمي ج ۱ص۱۳۰ ح ۲۴۴ واسناده صحيح مسند بزار كشف ۲۶۶/۱ ح ۵۴۷اور طبراني اوسط ۴۷۱،۴۷۰/۶ ح ۵۹۹۵] کی ایک روایت میں آیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کھڑے ہو کر (بغیر کسی عذر کے) پیشاب کرنا بد اخلاقی اور ظلم ہے ۔ (اس کی سند حسن ہے، مؤلفِ کتاب کا جرح کرنا صحیح نہیں ہے)

اس حدیث کا دارومدار عبدالکریم بن ابی المخارق پر ہے جو کہ سخت ضعیف تھا۔ نسائیؒ اور دارقطنیؒ نے اسے متروک کہا۔السعدی (الجوزجانی) اور نسائیؒ نے ایک دوسرے مقام پر کہا: وہ ثقہ نہیں تھا۔ (اسماء الرجال کے ماہر) علماء اسے ضعیف اور کمزور قرار دیتے ہیں اور مستحب یہی ہے کہ آدمی بیٹھ کر پیشاب کرے۔ اس میں انسانی وقار بھی ہے اور شرمگاہ کی حفاظت بھی ہوتی ہے ۔ انسان ، پیشاب کے چھینٹوں سے بھی محفوظ رہتا ہے اور اگر (کسی عذر و مجبوری کی وجہ سے) کھڑے ہو کر پیشاب کرلے تو جائز ہے لیکن اس میں یہ لازم ہے کہ پیشاب کے لئے نرم (پانی جذب کرنے والی ) زمین تلاش کرے تاکہ اس پر پیشاب کے چھینٹے نہ پڑیں۔ اور اپنی شرمگاہ کی لوگوں سے حفاظت کرے ۔ قضائے حاجت اور بیت الخلاء جانے کے آداب کا خیال رکھے۔
یہاں اس بات پر تنبیہ بھی ضروری ہے کہ لوگ ، عام پیشاب گاہوں اور ایسی لیٹرینوں میں آمنے سامنے ہو کر پیشاب کرتے ہیں جو ایک دوسری کے سامنے اور ساتھ ملی ہوئی ہوتی ہیں۔ ایسی حالت میں شرمگاہ کی بے پردگی اوردوسرے لوگوں کی نظر پڑنے کا (ہر وقت) خطرہ رہتا ہے ۔ ایسی لیٹرینوں میں بعض اوقات پانی بھی نہیں ہوتا جس سے طہارت کرنا مشکل (اور ناممکن) ہوجاتا ہے۔
مختصراً عرض ہے کہ نبی اکرمﷺ سے (بحالتِ عذرو مجبوری) کھڑے ہو کر پیشاب کرنا ثابت ہے لہذا اسے(مطلقاً) مکروہ کہنا غلط ہے ۔ ہاں اگر وہ حالتیں پائی جائیں جن کا ابھی تذکرہ ہوا ہے مثلاً شرمگاہ کی بے پردگی اور عدمِ طہارت تو پھر یہ مکروہ (یعنی حرام) ہے۔ صحابہ کرامؓ کی ایک جماعت سے (کسی مجبوری کی وجہ سے) کھڑے ہوکر پیشاب کرنا ثابت ہے اس بھی مطلقاً حرمت والا قول ساقط ہوجاتا ہے اور فتویٰ جواز پر ہی رہتا ہے ۔
امام مجتہد بن المنذر النیسابوری نے کہا کہ:“نبی اکرمﷺ کے صحابہ مثلاً عمر بن الخطاب ، زید بن ثابت، ابن عمر اور سھل بن سعد(رضی اللہ تعالیٰ عنہم) سے ثابت ہے کہ انہوں نے کھڑے ہو کر پیشاب کیا ہے اور یہی فعل ، علی ، انس اور ابوہریرہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہم) سے مروی ہے ۔ محمد بن سیرین اور عروہ بن زبیر (تابعین) نے (بھی) کھڑے ہو کر پیشاب کیا ہے ۔ [الاوسط ج ۱ص ۳۳۳ ]

یہ عقیدہ کہ صرف مٹی کے ساتھ استنجا کرنا کافی نہیں ہے۔
بدعات میں یہ بھی ہے کہ (عام) لوگ، پیشاب و رفع حاجت کی طہارت کے لئے صرف مٹی سے استنجا کرنا کافی نہیں سمجھتے ہیں ۔( ایسے ہی لوگ بعض (بالخصوص تبلیغی جماعت والے) صرف پانی سے استنجا کو بھی کافی نہیں جانتے یہ اپنے (Bathroom) وغیرہ میں مٹی کے ڈھیلے رکھتے ہیں پہلے مٹی کے ڈھیلوں سےاستنجاء کرتے ہیں پھر پانی سے بطورِ دلیل سنن کی ایک ضعیف روایت پیش کرتے ہیں ۔ حالانکہ انکے اس فعل سے (مساجد کی ) لیٹرینیں بند ہوجاتی ہیں ۔ جو دوسروں کی پریشانی کا سبب ہے ۔/حافظ ندیم ظہیر )

حالانکہ یہ بات غلط ہے اور اس کے غلط ہونے پر عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث (بھی)دلالت کرتی ہے۔ انہوں نے کہا: ایک دفعہ نبی ﷺ نے قضائے حاجت کا ارادہ کیا تو مجھے حکم دیا کہ میں مٹی کے تین ڈھیلے لاؤں۔ مجھے دو ڈھیلے ملے مگر تیسرا نہ مل سکا۔ لہزا میں نے ایک لید اٹھالی اور آپﷺ کے پاس آیا۔ آپﷺ نے ڈھیلےتو لے لئے اور لید کو پھینک دیا۔ آپﷺ نے فرمایا:”ھذا رکس“ یہ پلید ہے ۔ [صحيح البخاري، كتاب الوضوء باب لايستنجي بروث ح ۱۵۶ ]

ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ میں نبی ﷺ کے پیچھے چلا ۔ آپﷺ قضائے حاجت کے لئے جارہے تھے۔ آپﷺ اِدھر اُدھر نہیں دیکھتے تھے۔میں آپﷺ کے قریب ہوا تو آپﷺ نے فرمایا:”میرے لئے ڈھیلے لاؤجن سے میں استنجا کروں گا۔ یا اس مفہوم کی بات فرمائی، ہڈی اور لید نہ لانا۔
اپنے کپڑے کے کنارے پر میں تین ڈھیلے لے آیا۔ انہیں آپ ﷺ کے پاس رکھا اور (دور)چلا گیا۔ جب آپﷺ ، قضائے حاجت سے فارغ ہوئے تو میں آپﷺ کے ساتھ چلا [صحيح البخاري، كتاب الوضوء باب الاستنجاء بالحجارة ح ۱۵۵ ]
یہ حدیثیں اس پر دلالت کرتی ہیں کہ صرف ڈھیلوں کے ساتھ بھی استنجاء جائز ہے۔ ڈھیلے استعمال کرنے کے بعد پانی کا استعمال فرض نہیں ہے ۔ تاہم پانی کا استعمال، ڈھیلوں سے بہتر ہے۔ (اگر ڈھیلوں کے بعد پانی استعمال کریں تو بھی بہتر ہے مگر یاد رکھیں کہ) صرف مٹی کے ڈھیلوں کے ساتھ، صحیح طریقے پر استنجاء کرنا بھی کافی ہے ۔ واللہ اعلم
امام ترمذیؒ فرماتے ہیں :“صحابہ کرامؓ اور بعد کے اکثر علماء کا یہی خیال ہے کہ (صرف) ڈھیلوں کے ساتھ استنجاء کرنا جائز ہے ، اگر چہ (ان کے بعد) پانی کا استعمال نہ کرے ، بشرطیکہ پیشاب اور پاخانے کا اثر خوب زائل ہوجائے ۔ یہی قول : سفیان ثوریؒ ، عبداللہ بن المبارک ؒ، شافعیؒ ، احمد بن حنبلؒ اور اسحاق بن راھویہ ؒ کا ہے “ [جامع ترمذي ج ۱ ص ۲۴ ]

امام ترمذی ؒ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ:“اگرچہ ڈھیلوں کے ساتھ استنجاء (کرنا) جائز ہے تاہم ان (علماء) کے نزدیک پانی سے استنجاء مستحب اور افضل ہے ” (ایضاً ص ۳۱)

اس سلسلہ میں وسوسہ کے مریضوں کی اور بھی کئی بدعات ہیں مثلاً السلت ، النتر، الخنحۃ، المشی ، التفز، الحبل، التفقد، الوجور ، الحشو، العصابۃ اور الدرجہ ، السلت کا مطلب یہ ہے کہ آلۂ تناسل کو اس کی جڑ سے، اس کے سر کی طرف دبا کر کھینچا جائے تا کہ اس میں رکا ہوا پیشاب باہر نکل آئے۔ النتر اور الخنحۃ، شدید روز لگا کر پاخانہ نکالنے کو کہتے ہیں۔ المشی، پیشاب کے بعد (کافی دیر) چلنے کو کہتے ہیں تاکہ آلۂتناسل سے پیشاب کے قطرے باہر نکل جائیں۔ القفز، زمین سے چھلانگ لگانے کا نام ہےتاکہ پیشاب کے قطرے ٹپک پڑیں۔ الحبل، رسی کو کہتے ہیں ۔

وسوسہ کے مریض بعض اوقات رسی سے لٹک کر اپنےآپ کو زمین پر گراتے ہیں ۔ التفقد ، آلۂ تناسل میں سے اس کا منہ کھول کر پیشاب نکالنے کا نام ہے ۔ اگر ایسا کرکے اس میں اسی حالت میں ڈالا جائے تو یہ الوجو ر کہلاتا ہے ۔ الحشو ، کاٹن وغیرہ رکھنے اور العصابۃ کپڑے کی پٹی باندھنے کو کہتے ہیں ۔ الدرجہ کا یہ مطلب ہے کہ آہستہ آہستہ سیڑھی چڑھا جائے پھر تیزی کے ساتھ اترا جائے ۔

یہ سب حالتیں ، وسوسہ اور وہم کے مریضوں کی بدعات ہیں جن پر شریعت میں کوئی دلیل نہیں ہے ۔ (میں نے کئی دیوبندی تبلیغی جماعت والوں اور دوسرے لوگوں کو، کھلے راستوں پر، لوگوں کے سامنے ، پیشاب کے بعد عجیب و غریب حرکتیں ہوئے دیکھا ہے ۔ وہ اپنے خیال میں پیشاب کے قطرے باہر نکالنا چاہتے ہیں ۔ یہ سب حرکتیں ، وسوسہ کے مریضوں کی خاص علامت ہیں)
سوائے ”السلت“ کے جس میں ایک منکر حدیث مروی ہے جسے عیسی بن یزداد نے اپنے باپ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
إذا بال أحدكم فلينترذكره ثلاث مرات
”جب تم میں سے کوئی شخص پیشاب کرے تو اپنے ذکر کو تین دفعہ جھاڑے ۔“ [ضعيف، سنن ابن ماجه ، الطهارة سننها ، باب الإستبراء بعد البول ح ۳۲۶]
اس کا راوی زمعہ ضعیف ہے اور عیسی بن یزداد مجہول الحال ہے ۔ اس حدیث کو امام بخاریؒ ، امام ابوحاتم الرازی ؒ (وغیرھما) نے غیر صحیح قرار دیا ہے ۔

یہ (ضعیف) روایت، نبی اکرم ﷺ کی سنت کے مخالف ہے ۔
امام ابن القیم ؒ “زاد المعاد” میں کہتے ہیں:وہم وسوسہ والے حضرات ، ذکر کا جھاڑنا، الخنحہ، چھلانگ لگانا، رسی کو پکڑنا ، سیڑھیاں چڑھنا، ذکر میں روئی رکھنا اور اند پانی پہنچانا، وقتاً فوقتاً اسے خوب دیکھنا (کہ کہیں قطرہ نہ ہو) اور اس قسم کی دیگر جتنی بدعات گامزن ہیں۔ ان میں کسی ایک کابھی ثبوت نبی کریم ﷺ سے ثابت نہیں ہے ۔ (ج۱ ص ۱۷۳)

میں (یعنی عمرو عبدالمنعم) یہ کہتاہوں کہ سلف صالحین سے ،وسوسہ والے ان حضرات کے سراسر خلاف ثابت ہے ۔

مثلاً ابراہیم النخعیؒ نے کہا:
جس انسان نے (استنجاء کے بعد) اپنے آلۂ تناسل کے اردگرد تری تلاش کرنے کی کوشش کی تو وہ ایسی چیز دیکھ لےگا جو اسے بری محسوس ہوگی [مصنف ابن ابي شيبه ج۱ص ۷۸ وفي نسخة ص ۹۶ا حديث نمبر ۲۰۵۱ اس کی سند صحیح ہے ۔ ]

یہ ابلیس ہے جو اپنے دوستوں کو ایسی چالیں سکھاتا ہے جو انہیں، دینِ قیم ، صراطِ مستقیم اور سنتِ نبویﷺ سے (دور) ہٹا کر فتنے میں مبتلا کردیتی ہیں۔ وہ انسان کے آلۂ تناسل کو چھوتا ہے یا اسے بھگونے کی کوشش کرتا ہے جس سے انسان یہ سمجھنے لگتا ہے کہ اس کا وضوء ٹوٹ چکا ہے!

ایک آدمی نے عبداللہ بن عباس ؓ سے شکایت کی کہ: میں جب نماز میں ہوتا ہوں تو مجھے یہ خیال آتا ہے کہ میرے ذکر پر پیشاب کی تری ہے۔ عبداللہ بن عباس ؓ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ غارت کرے شیطان کو، شیطان، نماز میں انسان کے ذکر کو اس لئے چھوتا ہے تاکہ وہ خیال کرنے لگے کہ اس کا وضوء ٹوٹ چکا ہے ۔ پس اگرتو وضوء کرے تو اپنی شرمگاہ پر پانی چھڑک لیا کر۔ اگر تجھے تری کا خیال آئے گا تو یہ سمجھ لے گا کہ یہ چھڑکا ہوا پانی ہے اس آدمی نے اس پر عمل کیا تو وسوسہ کی بیماری ختم ہوگئی ۔ [مصنف عبدالرزاق ج۱ ص ۱۵۱ ح ۵۸۳] اس کی سند سفیان ثوریؒ اور اعمش ؒ کی تدلیس کی وجہ سے ضعیف ہے ۔

اس طرح کی بات منصور بن المعتمر سے بھی ثابت ہے کہ شیطان، ذکر کو بھگونے کی کوشش کرتاہے ۔ [صحيح، مصنف ابن ابي شيبه ج۱ ص ۱۹۶ح ۲۰۵۲] اسکی سند صحیح ہے۔

اس کا علاج اور دوا اسی میں ہے کہ (وضوء کے بعد) شرمگاہ، ازار کے اندر اور باہر پانی چھڑک لے پھر اسے تری کا اثر محسوس ہو تو یہ سمجھے کہ یہ میرے چھڑکے ہوئے پانی سے ہے۔اس طرح سلف صالحین کا عمل تھا اور اسی طریقے سے وہ اپنے آپ کو ان بدعات اور وسوسوں سے بچاتے تھے۔
نافع مولی ابن عمر (سے روایت ہے کہ سیدنا عبداللہ بن عمر) رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب وضوء کرتے تو اپنی شرمگاہ پر پانی چھڑکتے تھے ۔ [صحيح، مصنف ابن ابي شيبه ج۱ص ۱۶۷ ح ۱۷۷۵] اس کی سند صحیح ہے ۔

محمد بن سیرین رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ وہ جب وضوء سے فارغ ہوتے تو ہتھیلی میں پانی لے کر اپنے ازار پر ڈال لیتے تھے ۔ [صحيح، مصنف ابن ابي شيبه ج۱ ص ۱۶۸ ح ۱۷۸۰] اس کی سند صحیح ہے۔

داؤد بن قیس کہتے ہیں کہ میں نے محمد بن کعب القرظی سے پوچھا کہ میں وضوء کرتا ہوں اور (وضوء کےبعد) تری محسوس کرتا ہوں تو انہوں نے کہا:جب تو وضوء کرے تو اپنی شرمگاہ پر پانی چھڑک لیا کر، پھر اگر تجھے ایسا محسوس ہو تو یہ سمجھ کہ یہ میرے چھڑکے ہوئے پانی میں سے ہے کیونکہ شیطان تجھے (سکون سے نماز پڑھنے کےلیے) نہیں چھوڑے گا ۔ حتیٰ کہ وہ تجھے تکلیف میں مبتلا کردے (اور مسجد سے نکال دے)۔ [صحيح، مصنف عبدالرزاق ج۱ ص ۱۵۲ح ۵۸۵] اس کی سند صحیح ہے ۔

اللہ کے بندو! اللہ کے لئے ان بدعات سے بچ جاؤ، ابلیس لعین ،لوگوں کو ان میں سے نام نہاد “احتیاط” کے بہانے سے ہی مبتلا کرتا ہے ۔ اگر شیطان کا دل و دماغ پر قبضہ ہوجائے تو انہیں خراب کرکے ہی چھوڑتا ہے ۔ والیعاذ باللہ!

یہ تحریر اب تک 29 لوگ پڑھ چکے ہیں، جبکہ صرف آج 1 لوگوں نے یہ تحریر پڑھی۔

This Post Has One Comment

  1. Nasir mehmood jutt

    السلام علیکم شیخ محترم
    گزارش ہے کے بعض جگہوں پر آپ نے 1٫2٫3٫4 لگا کر پھر ان کے حوالہ جات سب سے نیچے دیے ہوئے ہیں
    برائے مہربانی عوام کی سہولت کے لیے حوالہ جات بھی جو حدیث بیان کی گئی ہو اس کے ساتھ ہی نیچے دے دیا جائے جیسا کے اکثر آپ نے دیا ہے جزاکم اللہ

Leave a Reply