(الف) عن عائشۃ رضي اللہ عنھا قالت:”السنۃ علی المعتکف أن لا یعود مریضاً ولا یشھد جنازۃ……..ولا اعتکاف إلا في مسجد جامع” (ابو داود: ح ۲۴۷۳)
عرض ہے کہ اس روایت کے مرکزی راوی امام محمد بن مسلم الزہریؒ ثقہ بالاجماع ہونے کے ساتھ ساتھ مدلس بھی تھے، دیکھئے طبقات المدلسین بتحقیقی (۳/۱۰۲ ، المرتبۃ الثالثۃ)
اس کا رد کرتے ہوئے حافظ ابوزرعۃ ابن العراقی فرماتے ہیں:“قلت: وحکی الطبري فی تھذیب الآثار عن قوم أنہ من المدلسین وذلک یقتضي خلافاً في ذلک”
میں نے کہا : (ابن جریر) طبری نے (اپنی کتاب) تہذیب الآثار میں ایک قوم سے نقل کیا ہے کہ وہ (زہری) مدلسین میں سے تھے اور یہ اس (قول: وقد قبل الأئمۃ قولہ: عن) کے خلاف ہونے کا متقاضی ہے (کتاب المدلسین ص ۹۰ رقم: ۶۰)جب امام زہری کا مدلس ہونا ثابت ہے تو راجح یہی ہے کہ غیر صحیحین میں ان کی معنعن روایت، عدمِ سماع اور عدمِ متابعتِ قویہ کے بغیر ضعیف ہی ہوتی ہے۔
تنبیہ: زہری کی یہ روایت مختصراً موقوفاً مؤطا امام مالک (۳۱۲/۱ ح ۷۰۱ بتحقیقی، ۳۷۴/۲ ح ۷۵۶ بتحقیق الشیخ الصالح الصدوق ابی أسامۃ سلیم بن عید الہلالی السّلفی) میں موجود ہے۔ اس میں بھی زہری مدلس ہے لیکن مؤطا والی روایت میں زہری کے سماع کی تصریح التمھید لابن عبدالبر (۳۱۹/۸) میں موجود ہے۔
اس روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ:“أن عائشۃ کانت إذا اعتکفت لاتسأل عن المریض إلا وھي تمشي ولا تقف“ یعنی : بے شک جب (سیدہ) عائشہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہا) اعتکاف فرماتیں تو کسی مریض کی عیادت نہیں کرتی تھیں الایہ کہ بغیر رُکے چلتے چلتے ہی بیمار پُرسی کرلیتیں۔
اس کی تائید صحیح مسلم کی اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جس میں آیا ہے کہ اُم المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ :”إن کنت لأدخل البیت للحاجۃ والمریض فیہ فما أسأل عنہ إلا وأنا مارّۃ“ اور میں (انسانی) ضرورت کے لئے گھر میں داخل ہوتی اور اس میں کوئی مریض ہوتا تو میں صرف چلتے چلتے ہی اس کی بیمار پُرسی کرتی تھیں۔ (صحیح مسلم ، کتاب الحیض ب ۳، ح ۲۹۷/۷ و ترقیم دارالسلام : ۶۸۵)
اعتکاف کے یہ مسائل میرے علم کے مطابق کسی صحیح مرفوع حدیث سے ثابت نہیں ہیں لہذا اس سلسلے میں بعض آثارِ صحیحہ پیشِ خدمت ہیں:
۱: عروہ بن الزبیر نے فرمایا:”لا اعتکاف إلا بصوم” روزے کے بغیر اعتکاف نہیں ہوتا۔
(مصنف ابن ابی شیبہ ۸۷/۳ ح ۹۶۲۶ وسندہ صحیح)
۲: سعید بن جبیر نے کہا : (اعتکاف کرنے والا) جمعہ میں حاضر ہو، مریض کی عیادت کرے اور حاکمِ وقت کی اطاعت کرے ۔ (ابن ابی شیبہ ۸۸/۳ ح ۹۶۳۲ و سندہ صحیح)
اور فرمایا : جمعہ میں حاضر ہو، مریض کی عیادت کرے ، جنازے میں حاضر ہو اور حاکمِ وقت کی اطاعت کرے۔ (ابن ابی شیبہ ۸۸/۳ ح ۹۶۳۴و سندہ صحیح)
۳: عامر الشعبی نے فرمایا: قضائے حاجت کے لئے باہر جائے، مریض کی عیادت کرے، جمعہ پڑھنے کے لئے جائے اور دروازے پر کھڑا ہو (ابن ابی شیبہ ح ۹۶۳۶ وسندہ صحیح)
۴: حسن بصری نے فرمایا: قضائے حاجت کے لئے جائے ، جنازہ پڑھے اور مریض کی بیمار پرسی کرے۔ (ابن ابی شیبہ ۸۸/۳ ح ۹۶۳۹ وسندہ صحیح)
۵: ابن شہاب الزہری نے کہا: نہ تو جنازہ پڑھے ، نہ مریض کی عیادت کرے اور نہ کسی کی دعوت قبول کرے۔ (ابن ابی شیبہ ۸۹/۳ ح ۹۶۴۴ وسندہ صحیح)
۶: عروہ بن الزبیر نے کہا: نہ تو دعوت قبول کرے، نہ مریض کی بیمار پرسی کرے اور نہ جنازے میں حاضر ہو۔ (ابن ابی شیبہ ۸۹/۳ ح ۹۶۴۶ و سندہ صحیح)
ان آثار کو دیکھ کر راجح اور قوی پر عمل کریں۔
زہری فرماتے ہیں کہ: اعتکاف اسی مسجد میں کرنا چاہئے جہاں نماز باجماعت ہوتی ہے۔ (ابن ابی شیبہ ۹۱/۳ ح ۹۶۷۳ و سندہ صحیح)
یہی تحقیق حکم بن عتیبہ ، حماد بن ابی سلیمان ، ابو جعفر اور عروہ بن الزبیر کی ہے۔ (ابن ابی شیبہ ۹۲/۳ ح ۹۶۷۴۔۹۶۷۶ واسانیدھا صحیحۃ)
جبکہ عمومِ قرآن ﴿وَاَنْتُمْ عٰکِفُوْنَ فِی الْمَسَاجِدِ﴾ سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ ہر مسجد میں اعتکاف جائز ہے چاہے وہ مسجد جامع ہو یا غیر جامع۔ واللہ أعلم
ابوقلابہ نے اپنی قوم کی مسجد میں اعتکاف کیا تھا۔(ابن ابی شیبہ ۹۰/۳ ح ۹۶۶۰ و سندہ صحیح)
یہی تحقیق سعید بن جبیر اور ابراہیم نخعی کی ہے ۔(ابن ابی شیبہ ۹۰/۳ ح ۹۶۶۳ و سندہ قوی ، ۹۱/۳ ح ۹۶۶۵ و سندہ قوی)
سابقہ آثار جن میں نماز جمعہ کے لئے جانے کے لئے معتکف کو اجازت دی گئی ہے، سے یہ بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ غیرجامع مسجد میں اعتکاف جائز ہے۔
**********************************************************
(ب) سیدنا ابن عباسؓ سے منسوب یہ روایت المعجم الاوسط للطبرانی (۱۶۰/۸ ح ۷۳۲۲) شعب الإیمان للبیہقی (۴۲۴/۳ ح ۳۹۶۵) اخبار اصبھان لأبی نعیم الاصبھانی (۹۰،۸۹/۱) وتاریخ بغداد للخطیب البغدادی (۱۲۶/۴ ، ۱۲۷ ترجمہ:۱۸۰۲)میں بشر بن سلم البجلی عن عبدالعزیز بن ابی رواد عن عطاء عن ابن عباسؓ کی سند سے مروی ہے ۔
بشر البجلی کے بارے میں حافظ ابو حاتم الرازی نے کہا :”ھو المنکر الحدیث” (الجرح و التعدیل ۳۵۸/۲) اس شدید جرح کے مقابلے مین حافظ ابن حبان کا اس راوی کو کتاب الثقات (۱۴۴،۱۴۳/۸) میں ذکر کرنا مردود ہے۔
خلاصہ التحقیق: یہ روایت بلحاظ سند ضعیف ہے۔ شیخ البانی نے بھی اسے ضعیف قرار دیا ہے، دیکھئے السلسلۃ الضعیفۃ (۵۶۶/۱۱ ح ۵۳۴۵) وضعیف الترغیب و الترھیب (۱۷۷/۲)اس روایت کی باطل تائید مستدرک الحاکم (۲۷۰/۴ ح ۷۷۰۶) میں ہے۔ اس کا راوی محمد بن معاویہ کذاب اور ہشام بن زیاد متروک ہے ۔
*****************************************************
تنبیہ: حافظ حسن مدنی لکھتے ہیں کہ :حضرت عائشہؓ سے ایک شخص نے زلزلہ کے بارے میں دریافت کیا تو آپ نے فرمایا :فإذا استحلوا الزنا وشربوا الخمور بعد ھذا وضربوا المعازف غار اللہ في سمائہ فقال للأرض تزلزلي بھم فإن تابوا و نزعوا وإلاھدمھا علیھم فقال أنس :عقوبۃ لھم؟ قالت: رحمۃ و برکۃ و موعظۃ للمؤمنین ونکالاً و سخطۃً و عذاباً للکافرین (مستدرک حاکم : ۸۵۷۵ صحیح علی شرط مسلم)
لوگ جب زنا کاری کو مباح سمجھنے لگتے ہیں، شراب پینا دن رات کا مشغلہ بنا لیتے ہیں اور ناچ گانے میں مبتلا ہوجاتے ہیں، اس وقت اللہ تعالیٰ کو غیرت آتی ہے اوروہ زمین سے فرماتا ہے: ان پر زلزلہ لا (یعنی ان کو جھنجھوڑ دے)۔ اگر اس سے عبرت حاصل کی اور باز آگئے تو خیر ورنہ اللہ تعالیٰ ان پر زمین کو (عذاب کی صورت میں) مسلط فرما دیتا ہے ۔ حضرت انسؓ نے پوچھا : یا ام المؤمنین! یہ زلزلہ سزا ہے؟ فرمایا : مؤمنوں کے لئے باعثِ رحمت اور نصیحت ہے، البتہ نافرمانوں کے لئے سزا، عذاب اور غضب ہے۔ (ماہنامہ محدث لاہور، جلد ۳۷ شمارہ:۱۱ ص ۸، نومبر ۲۰۰۵ء)
یہ روایت امام نعیم بن حماد الصدوقؒ کی کتاب الفتن (ص ۴۲۰ تحت ح ۱۳۵۴ دوسرا نسخہ ۶۱۹/۲ ح ۱۷۲۹)میں بقیہ بن الولید عن زید (یزید) بن عبداللہ الجھني عن ابی العالیہ عن أنس بن مالکؓ کی سند سے مروی ہے ۔ نعیم الصدوق کی سند سے اسے حاکم نیشاپوری نے روایت کرکے “صحیح علی شرط مسلم” قرار دیا ہے (المستدرک ۵۱۶/۴ ح ۸۵۷۵) اس پر تعاقت کرتے ہوئے حافظ ذہبی لکھتے ہیں:”بل أحسبہ موضوعاً علی أنس و نعیم المنکر الحدیث إلی الغایۃ مع أن البخاري روی عنہ” بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ یہ روایت انسؓ پر موضوع ہے اور نعیم (بن حماد) حد درجے کا منکر الحدیث راوی ہے ۔ باوجود اس کے کہ بخاریؒ نے اس سے (صحیح بخاری میں) روایت کی ہے ۔(تلخیص المستدرک ۵۱۶/۴)
یہ روایت اگرچہ مردود ہے مگر نعیم مظلوم پر حافظ ذہبی کی جرح جمہور محدثین کی توثیق کے مقابلے میں مردود باطل ہے۔ نعیم بن حماد کے دوست اور واقف کار امام یحییٰ بن معین فرماتے ہیں کہ:”ثقۃ……کان نعیم بن حماد رفیقي فی البصرۃ“ نعیم بن حماد ثقہ ہے ….. وہ بصرا میں میرا ساتھی تھا۔تفصیل کے لئے میرا مضمون ”ارشاد العباد إلی توثیق نعیم بن حماد“ دیکھیں۔ والحمد للہ
تیسری روایت بحوالہ احمد عن صفیۃ مذکور ہے۔ یہ روایت نہ تو مسند احمد میں ملی اور نہ کتاب الزہد میں، لہذا یہ روایت بھی بے سند ہونے کی وجہ سے مردود ہے۔
آخر میں عرض ہے کہ ترمذی والی ضعیف روایت میں “وظھرت الأصوات فی المساجد” کا مطلب یہی ہے کہ لوگ مسجدوں میں اونچی آوازوں میں دنیاوی باتیں کریں گے۔ لیکن یاد رہے کہ یہ روایت ضعیف و مردود ہے۔