اعتقادی، فعلی اور قولی بدعات

تحریر: حافظ عبدالحمید ازہر رحمہ اللہ

بدعات کی متعدد اقسام ہیں۔ یہ اعتقادی بھی ہوتی ہیں، قولی بھی اور فعلی بھی اور فعلی بدعات میں سے کچھ ایسی ہیں جن کا تعلق جگہوں کے ساتھ ہے اور کچھ کا تعلق اوقات کے ساتھ ہے۔

اعتقادی بدعات کی مثالوں میں سے خارجیوں، رافضیوں اور معتزلہ وغیرہ کی بدعات شامل ہیں۔ ان لوگوں کا زیادہ تر اعتماد علم کلام پر اور کچھ جھوٹی اور گھری ہوئی روایات پر ہے۔ ابن عبدالبر رحمہ اللہ جامع بیان العلم و فضلہ(۲؍۹۵) میں لکھتے ہیں:

”تمام علاقوں کے فقہاء محدثین کا اجماع ہے کہ علم کلام پر اعتماد کرنے والے بدعتی اور بھٹکے ہوئے لوگ ہیں اور ان تمام حضرات کے نزدیک بدعتیوں کا شمار علماء کے طبقات میں سے نہیں ہو سکتا۔ اس لئے کہ علماء کا لقب صرف ان کے لئے ہے جو احادیث و آثار کے علم سے وابستہ ہوں اور ان میں فقہ استنباط میں مصروف ہوں اور اسی میں تخصص اور مہارت کے اعتبار سے ان کے مراتب ہوں۔“

قولی بدعات میں بول کر نیت کرنا ہے۔ جیسا کہ بعض لوگ کہتے ہیں: میں نیت کرتا ہوں کہ اتنی نماز پڑھوں ، میں آج کے روزے کی نیت کرتا ہوں وغیرہ وغیرہ۔

اس سے صرف حج اور عمرہ کے مناسک مستثنیٰ ہیں۔ عمرہ کرنے والا کہتا ہے‘‘لبیک عمرۃ’’ چنانچہ حج افراد کرنے والا کہتا ہے لبيك حجا اے اللہ !میں حج کے ارادے سے لبیک کر رہا ہوں اور قران کرنے والا کہتا ہے‘‘ لبیک عمرۃ وحجاً’’اس لئے کہ سنت میں اس کا ثبوت وارد ہے۔

اسی قسم سے کسی کی جاہ یا ذات کا واسطہ دے کر دعا کرنا ہے۔ اس طرح کے الفاظ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ثابت سنت میں وارد نہیں ہیں۔ قولی بدعات میں سے بعض کفریہ بھی ہوتی ہیں۔ مثلاً قبروں میں مدفون لوگوں کو پکارنا ، ان سے مدد کا خواستگار ہونا اور مشکل کشائی اور حاجت روائی کا طلبگار ہونا اور ان سے ایسی چیزیں مانگنا جو اللہ کے سوا کسی سے نہیں مانگی جا سکتیں۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

﴿وَاَنَّ الْمَسٰجِدَ لِلهِ فَلَا تَدْعُوْا مَعَ اللهِ اَحَدًا﴾ [الجن:۱۸]

اور یہ کہ مسجدیں اللہ کی ہیں تو تم اللہ کے ساتھ کسی اور کو نہ پکارو۔

نیز فرمایا:

﴿اَمَّنْ يُّجِيْبُ الْمُضْطَرَّ اِذَا دَعَاهُ وَيَكْشِفُ السُّوْٓ ءَ وَيَجْعَلُكُمْ خُلَفَآءَ الْاَرْضِ ط ءَاِلٰه‘’مَّعَ اللهِ ط قَلِيْلاً مَّا تَذَكَّرُوْنَ﴾ [النمل:۶۲]

بھلا کون لاچار کی التجا قبول کرتا ہے جب وہ اسے پکارتا ہے اور کون اس کی تکلیف دور کرتا ہے اور کون تم کو زمین میں اگلوں کا جانشین بناتا ہے؟ تو کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور معبود بھی ہے !ہرگز نہیں!مگر تم بہت کم غور کرتے ہو۔

جہاں تک اس کے مرتکب کو کافر قرار دینے کا معاملہ ہے تو ایسا اس پر اتمام حجت کے بعد ہی کیا جا سکتا ہے۔ اہل علم میں سے ایک بڑی جماعت کا بھی یہی موقف ہے۔ تطہیر الاعتقاد و شرح الصدور کے مقدمہ میں، میں نے ان میں سے سات کا تذکرہ کیا ہے۔ ان میں سے سر فہرست امام محمد بن ادریس الشافعی رحمہ اللہ ہیں اور آخر میں امام محمد بن عبدالوھاب رحمہ اللہ ہیں۔

عملی بدعات مکانی بھی ہیں اور زمانی بھی۔ مکانی بدعات یعنی جن کا تعلق مقامات کے ساتھ ہے ان میں سے ایک قبروں پر بطورِ تبرک ہاتھ پھیرنا اور انہیں بوسہ دینا ہے۔ امام نووی رحمہ اللہ مجموع شرح المہذب(۸؍۲۰۶) میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر شریف کے گرد بنائی گئی دیوار کو بوسہ دینے اور اس پر ہاتھ پھیرنے کے بارے میں فرماتے ہیں: ‘‘عوام کا کثیر تعداد میں مخالف شرع کاموں میں مبتلا ہونے سے دھوکا نہیں کھانا چاہیئے اس لئے عمل صرف صحیح احادیث پر اور (ان کی روشنی میں ) علماء کے فتاوی پر ہوتا ہے عوام کے ایجاد کردہ اعمال اور ان کی جہالتوں کا کچھ اعتبار نہیں ۔

صحیحین میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت سے ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

من أحدث فى أمرنا هذا ماليس منه فهورد [صحیح بخاری:۲۶۹۷، صیح مسلم: ۱۷۱۸]
جس نے ہمارے اس حکم (دین )میں ایسے کام کا اضافہ کیا جو اس میں سے نہیں ہے تو وہ کام مردود ہے۔

اور سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

لا تجعلو اقبري عيدا، وصلو على فان صلاتكم تبلغني حيثما كنتم [سنن ابی داؤد:۲۰۴۲ وإسنادہ حسن]

”میری قبر کو عید(میلہ گاہ) نہ بنا لینا اور مجھ پر درود پڑھو کیونکہ تمہارا درود مجھ تک پہنچتا ہے تم جہاں بھی ہو(اس حدیث کو ابو داؤد نے صحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے)“

فضیل بن عیاض رحمہ اللہ کا قول ہے، جس کا معنی یہ ہے: ہدایت کے راستے اختیار کرو اور ان پر کار بند رہو ان پر چلنے والے اگر تعداد میں کم ہوں گے تو بھی تم پر کچھ ضرر نہیں۔ گمراہی کے راستے پر چلنے سے بچو اور ہلاک ہونے والوں کی کثرت تعداد سے دھوکا نہ کھاؤ۔”اور اگر کوئی سمجھتا ہے کہ ہاتھ وغیرہ سے ان کو چھونا زیادہ باعث برکت ہے تو یہ اس کی بھول اور جہالت ہے اس لئے کہ برکت شریعت کے مطابق عمل میں ہے۔ حق کی مخالفت میں فضیلت اور برکت کہاں؟“ [مجموع۸؍۲۷۵ ]
زمانی یعنی اوقات کے ساتھ تعلق رکھنے والی بدعات میں سے ایک میلاد کے نام سے تقریبات ہیں جیسے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا جشن ولادت ، یہ چوتھی صدی ہجری کی ایجادات میں سے ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم، آپ کے خلفاء اور آپ کے صحابہ سے اس بارے میں کچھ بھی وارد نہیں بلکہ تابعین اور اتباع تابعین سے بھی کچھ مروی نہیں۔ پہلی تین صدیاں اس بدعت کے ایجاد ہونے سے پہلے گزر گئیں۔ اس عرصہ میں تالیف ہونے والی کتابیں میلاد(منانے) کے تذکرہ سے خالی ہیں۔ یہ بدعت چوتھی ہجری میں ایجاد ہوئی۔ عبیدی جو مصر کے حاکم تھے، اس کے موجد ہیں۔

تقی الدین احمد بن علی المقریزی اپنی تالیف المواعظ بذکر الخطط والآثار(۱؍۴۹۰) میں لکھتے ہیں:
”فاطمیوں کے ہاں سارا سال میلے اور جشن جاری رہتے۔ انہوں نے ان کا ذکر بھی کیا ہے اور یہ بہت زیادہ ہیں۔ انہی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مولود، سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا مولود، سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کا مولود، سیدنا حسن اور سیدنا حسین رضی اللہ عنہما کا مولود اور خلیفہ وقت کا مولود بھی شامل تھے۔“

ابن کثیر اپنی تالیف البدایہ و النہایہ میں ۵۶۷ھ کے واقعات بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:”اسی سال ان کے آخری بادشاہ العاضد کی وفات کے ساتھ ان کے اقتدار کا خاتمہ ہوا۔ ان کے دور حکومت میں بدعات و منکرات کا غلبہ رہا۔ فسادیوں کی کثرت اور علماء و عباد کی قلت رہی۔“

اس سے کچھ ہی پہلے ابن کثیر نے یہ بھی لکھا ہے کہ صلاح الدین ایوبی رحمہ اللہ نے تمام مصر میں حی علی خیر العمل کے کلمات اذان سے نکلوائے اس موضوع پر شیخ اسماعیل بن محمد انصاری رحمہ اللہ کی ‘‘القول الفصل فی حکم الاحتفال بمولد ختم الرسل’’ بہترین تالیف ہے۔

اور یہ امر تو شکو شبہ سے بالاتر ہے کہ ایک مسلمان کے دل میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اس کے والدین، اولاد اور تمام جہاں کی محبت سے بڑھ کر ہونی چاہیئے۔ اس لئے کہ اپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:

لا يؤمن أحدكم حتي أكون أحب إليه من ولده ووالده والناس أجمعين [صحيح مسلم:۴۴]

”تم میں سے کوئی صاحب ایمان نہیں ہو سکتا جب تک کہ میں اس کے نزدیک اس کے ماں باپ ، اولاد اور تمام لوگوں سے بڑھ کر محبوب نہ ہو جاؤں۔“

اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ کے مطابق چلنے کا نام ہے نو ایجاد بدعات اختیار کرنے کا نہیں۔

جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

﴿قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللهَ فَاتَّبِعُوْنِيْ يُحْبِبْكُمُ اللهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْ وَاللهُ غَفُوْر رَّحِيْم ﴾ [آل عمران: ۳۱]

(اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم) لوگوں سے کہہ دو کہ اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری پیروی کرو اللہ بھی تم سے محبت کرو گا اور تمہارے گناہ معاف کر دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔

بعض شخصیات کے اعتبار سے لوگوں کو جانچنے کی بدعت :

اس زمانے میں رونما ہونے والی بدعات میں سے ایک نہایت بری بدعت اہل سنت میں سے بعض افراد کا لوگوں کو شخصیات کے اعتبار سے جانچنے ک ی بدعت ہے۔ خواہ ایسا جانچے جانے والے افراد کے ساتھ دوستی اور بے مروتی کی بنا پر کیا جائے یا معیار بنائے جانے والی شخصیت کے بارے میں غلو نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اگر امتحان دینے والے کی مرضی کے مطابق جواب ہے تو اس کی باچھیں کھل جاتی ہیں اور یہ مدح و توصف میں رطب اللسان ہو جاتا ہے۔
اور اگر دوسری صورت ہو تو کسوٹی پر رکھے گئے شخص کو بدعتی قرار دیا جاتا ہے۔ ناقابلِ اعتبار کہہ کر اس سے کنارہ کشی کر لی جاتی ہے اور لوگوں کو بھی اس سے دور رہنے کی تلقین شروع ہو جاتی ہے۔ آئندہ سطور میں ہم شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے فتاوی سے اقتباسات نقل کر رہے ہیں جن میں سب سے پہلے لوگوں کو شخصیات کی کسوٹی پر پرکھنے کو بدعت قرار دیا گیا ہے اور آخر میں کچھ شخصیات میں غلو کرتے ہوئے ان کو معیار قرار دے لینے کو بدعت ہونا بیان کیا ہے۔

شیخ الاسلام رحمہ اللہ مجموع فتاوی(۳؍۴۱۳)میں یزید بن معاویہ کے متعلق گفتگو کرتے ہوئے فرماتے ہیں:‘‘اس بارے میں صحیح طریق کا ر وہ ہے جو ائمہ نے اختیار کیا کہ نہ اس سے خصوصی محبت رکھی جائےا ور نہ اسے لعن طعن کا نشانہ بنایا جائے۔اس کے ساتھ ساتھ اگر وہ فاسق اور ظالم بھی ہو تو اللہ تعالٰی فاسق اور ظالم کو معاف کرنے والا ہے خاص طور پر جب وہ بڑے نیک اعمال بھی بجا لایا ہو۔

امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں سیدہ ام حرام (رضی اللہ عنہا) سے روایت کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

أول جيش من أمتي يغزون مدينة قيصر مغفورلهم [بخاری: ۲۹۲۴]

”میری امت میں سے جو پہلا لشکر قسطنطنیہ پر حملہ کرے گا وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بخشش پائے گا۔“

امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

”اور جس لشکر نے قسطنطنیہ پر سب سے پہلے حملہ کیا اس کا امیر یزید بن معاویہ تھا اور سیدنا ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ بھی اس لشکر میں شامل تھے اس لئے اس معاملہ میں میانہ روی اختیار کرنا ضروری ہے کہ یزید بن معاویہ کا اس طرح زکر کر کے مسلمانوں کا امتحان نہ لیا جائے اس لئے کہ ایسا کرنا اہل سنت و الجماعت کے طریقہ کے خلاف ایجاد کی جانے والی بدعات میں سے ہے۔“

تنبیہ: مشہور سلفی عالم دین شیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ کے نزدیک یزید کا قسطنطنیہ پر پہلے حملہ آور لشکر میں شامل ہو نا باسند صحیح ثابت نہیں ہے ۔

مزید فرماتے ہیں:”اسی طرح امت میں افتراق پیدا کرنا اور افراد امت کو ایسے معیار پر پرکھنا جس کا حکم اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں دیا (بدعات میں سے ہے)“ [فتاوي:۳ ؍۴۱۵ ]

نیز فرمایا : ”کسی کو حق نہیں ہے کہ (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا) کسی خاص شخصیت کو معیار بنا کر اس کے طریقہ کی دعوت دینا شروع کر دے اور اس کو دوستی اور دشمنی کی بنیاد بنا لے اور نہ ہی ایسا کرنا چاہیئے کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام اور اجماع امت کے سوا کسی کی بات کو کسوٹی بنا لے اور اسی کو دوستی اور دشمنی کی بنیاد بنا لے۔ ایسا کرنا اہل سنت کا طریقہ نہیں بلکہ یہ اصل بدعتیوں کی روش ہے جو کسی شخصیت یا کلام کو معیار بنا لیتے ہیں اور اسے امت کے درمیان تفرقہ کا ذریعہ بناتے ہیں۔ اسی بات یا اسی نسبت سے محبت کرتے یا دشمنی رکھتے ہیں۔“ [فتاوي:۲۰ ؍۱۶۴ ]

اور (فتاوی۲۸؍۱۵ ۔ ۱۶)میں فرماتے ہیں۔”اگر معلم یا مربی حکم دے کہ فلاں شخص سے قطع تعلق کر لو یا اس کی توہین کرو یا اسے نظروں سے گرادو یا اس کو دور کرو تو دیکھنا چاہیئے اگر اس شخص نے کسی ایسے گناہ کا ارتکاب کیا ہے جو شریعت کی نگاہ میں گناہ ہے تو اسے اس کے جرم کے مطابق سزا دی جائے گی اس سے زیادہ نہیں اور اگر شرعی لحاظ سے اس نے کوئی گناہ ہی نہیں کیا تو صرف استاد یا کسی اور کی خواہش پر اسے سزا نہیں دی جا سکتی۔“

اساتذہ کا کام لوگوں کے تعلقات خراب کرنا اور ان کےدرمیان بغض و عداوت پیدا کرنا نہیں بلکہ نیکی کے کاموں میں باہم تعاون کرنے والے بھائی بھائی بنانا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

﴿وَتَعَاوَنُوْ عَلَي الْبِرَّ وَالتَّقْوٰي صوَلَا تَعَاوَنُوْا عَلَي الْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ﴾ [المآئدہ:۲]

اور نیکی اور تقوی کے کاموں میں ایک دوسرے سے تعاون کرو اور گناہ اور سرکشی کے کاموں میں تعاون نہ کرو۔

اگر اس زمانے میں لوگوں کو اس طرح پرکھنا روا ہوتا کہ معلوم کیا جا سکے کہ کون اہل سنت اور کون دوسروں میں سے ہے تو اس لحاظ سے سب سے زیادہ حق رکھنے والے شخصیت شیخ الاسلام، مفتی عالم، امام اہل السنۃ فی زمانہ ہمارے شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز(متوفی۲۷محرم۱۴۲۰ھ)رحمۃ اللہ علیہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے اور اجر عظیم عطا فرمائے کہ ہر خاص و عام ان کی وسعت علم اور عموم نفع، صداقت ، شفقت، نرم دلی، لوگوں کی ہدایت و استقامت کی حرص کا شاہد ہے۔ ہم ان کے بارے میں یہی گمان رکھتے ہیں۔ ولا نزکی علی اللہ أحدا۔

ان کا دعوت الی اللہ(لوگوں کو بھلائی کی تعلیم و ترغیب اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر) میں منفرد انداز تھا۔ کہ نرم خوئی اور ملائمت جس کا طرہ امتیاز تھا۔ جو ان کی ہر نصیحت اور دوسروں کے جوابات میں مترشح ہوتا تھا جس میں اہل سنت کے ساتھ مقابلہ آرائی کے بجائے ان کی رہنمائی ہوتی۔ ان میں محاذ آرائی کے بجائے ان کی ترقی کی فکر کارفرما ہوتی جس پر چل کر وہ عروج کی منزلیں طے کر سکتے ہیں اور عیوب و نقائص سے محفوظ ہو سکتے ہیں۔ ایسا طریقہ جو افتراق کو مٹاتا اور اتفاق پیدا کرتا ہے، ٹوٹے ہوؤں کو جوڑتا ہے جڑے ہوؤں کو توڑتا نہیں، جس میں بناؤ ہی بناؤ ہے بگاڑ نہیں، جس میں تعلیمات نبویہ کے مطابق لوگوں کے لئے آسانی پیدا کرنا مقصود ہے دشواریوں سے دوچار کرنا نہیں۔ علماء اور طالب علموں کو (مسلمانوں کی بھلائی کے حصول اور انہیں مشکلات سے نکالنے کے لئے ) اس عظیم و مستقیم منہج اختیار کرنے کی کس قدر ضرورت ہے۔

اس صورت حال میں عقیدت کے ساتھ اتباع کرنے والوں اور جن لوگوں کی اتباع کی جاتی ہے اور جو اس طرح لوگوں کو جانچنے کی عادت میںمبتلا ہو چکے ہیں۔ اس روش سے نجات حاصل کریں کہ جس نے اہل سنت میں افتراق پیدا کر کے آپس میں دشمنیاں پیدا کی ہیں اور اس کا علاج یہ ہے کہ عقیدت مند حضرات اس طرح لوگوں کا امتحان لینا چھوڑ دیں بلکہ ماضی میں اس روش کے اثرات و نتائج بھی ختم کر یں اور بغض و عداوت کو الفت سے بدل دیں اور نیکی و تقوی میں باہم تعاون کرنے والے بھائی بن جائیں۔ اور جن لوگوں کی اتباع کا دعویٰ کیا جاتا ہے انہیں بھی چاہیئے کہ اپنے عقیدت مندوں کی اس روش سے لاتعلق اور بیزاری کا اعلان کر دیں۔ اس طرح اتباع کرنے والے اس مصیبت سے نجات پا لیں گے اور جن لوگوں کی عقیدت کو بہانہ بنا کر ایسا کیا جاتا ہے وہ اس کی برائی اور اس کے نتیجہ میں پیدا ہونے والے برے اثرات سے بری الذمہ ہو سکیں گے۔

عصر حاضر میں اہل سنت کے ایک دوسرے پر حرف گیری کرنے اور ایک دوسرے کو بدعتی قرار دیتے کے فتنہ پر تنبیہ شخصیات کو معیار بنا کر لوگوں کو پرکھنے کے قریب قریب ہی ایک اور بدعت ہے جو اس زمانہ میں ظہور پزیر ہوئی ہے وہ یہ کہ اہل سنت میں سے ایک مختصر گروہ اس فتنہ میں مبتلا ہو گیا ہے اپنے اہل سنت بھائیوں پر حرف گیری کرتا ہے اور انہیں بدعتی کہتا ہے اور اس کے نتیجے میں آپس میں قطع تعلقی ہو جاتی ہے اور ایک دوسرے سے استفادہ کرنے کا راستہ بند ہو جاتا ہے۔ جب کہ اس طرح کی نکتہ چینی اور بدعتی قراردینا بسا اوقات صرف ایسے عمل کو بدعت سمجھ لینے کی بنا پر ہوتا ہے جو در حقیقت بدعت نہیں۔ اس کی مثالوں میں سے یہ ہے کہ جلیل القدر شیخین عبدالعزیز بن باز اور شیخ محمد صالح عثیمین رحمہما اللہ نے ایک معاملہ کو قرین مصلحت سمجھتے ہوئے اس کا فتوی دے دیا جو اس مختصر گروہ کو پسند نہیں ایا تو انہوں نے اس فتوی پر نکتہ چینی شروع کر دی لیکن معاملہ یہیں نہیں رکا بلکہ نکتہ چینی کا دائرہ ان لوگوں تک وسیع کر دیا گیا جو محاضرات و دروس کے سلسلہ میں شیخین مذکورین کے ساتھ تعاون کرتے تھے اور کہا جانے لگا کہ یہ لوگ سلف کے طریقہ سے منحرف ہیں حالانکہ یہ دونوں جلیل القدر شیخ اس جماعت کے ہاں بھی ٹیلیفون کے ذریعے درس دیتے تھے۔

اسی قبیل سے یہ بھی ہے کہ کسی خاص شخص کے درسوں میں حاضر ہونے سے یہ کہہ کر منع کر دیا جاتا ہے کہ وہ فلاں شخصیت یا فلاں جماعت کے بارے میں نکتہ چینی کرتا ہے اور اس مہم کا سرکردہ شخص میرا ایک شاگرد (۱) ہے جو کلیہ شرعیہ میں جامعہ اسلامیہ سے ۱۳۹۵ ۔ ۱۳۹۶ ھ کو فارغ ہوا۔ جس کی کامیاب ہونے والے ایک سو انیس (۱۱۹) طلبہ میں سے ایک سو چارویں (۱۰۴) پوزیشن تھی۔ وہ علم سے کوئی تعلق نہیں رکھتا اور نہ میرے علم کے مطابق اس کے کوئی ایسے دروس ہیں جن کے کیسٹ تیار ہوتے ہوں اور نہ اس کی کوئی چھوٹی بڑی تالیف ہے اس کی تمام تر کائنات حرف گیری، بدعت قرار دینے اور اہل سنت سے دور رہنے کی تلقین ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ علم و عمل میں ان لوگوں کے ٹخنوں تک بھی نہیں پہنچتا جن پر نکتہ چینی کرتا ہے کیونکہ ان لوگوں کے محاضرات، دروس اور تالیفات سے ایک زمانہ استفادہ کر رہا ہے۔ جب کوئی سلیم العقل آدمی اس کا کیسٹ سنتا ہے جو مدینہ منورہ اور الجزائر کے مابین ٹیلیفونک مکالمہ پر مشتمل ہے تو اس کی حیرت کی حد نہیں رہتی جس میں اس نے اہل سنت میں سے کثیر تعداد کا گوشت کھایا ہے (غیبت کی ہے) اور اس میں سائل نے اپنا مال ناحق ضائع کیا ہے جن شخصیات کے بارے میں سوال کیا گیا ہے ان کی تعداد تیس سے زائد ہے ان میں وزیر بھی ہیں اور چھوٹے بڑے دوسرے افراد بھی۔ اور ان میں چند افراد ایسے بھی ہیں جن کے متعلق افسوس نہیں ہوتا ، اور کچھ لوگ اس سے بچے رہے اور بعض لوگ جو اس سے بچ پائے وہ دوسرے کیسٹوں میں نہیں بچ سکے۔

(۱)اس سے مراد شیخ فالح بن نافع الحربی المدنی ہیں۔ (واللہ اعلم) شیخ فالح پر شیخ ربیع المدخلی نے بھی رد لکھا ہے ۔ [نيز ديكهئے الحديث:۱۱ص۴۰ ، ۴۱]

ان کے بارے میں معلومات انٹرنیٹ پر سائٹ میں دے دی گئی ہیں۔ اس شخص پر واجب ہے کہ علماء اورطالب علم کی گوشت خوری سے ہاتھ اٹھائے جبکہ نوجوانوں اور طالب علموں کا فرض ہے کہ اس تنقید اور تبدیع کی طرف توجہ نہ دیں جس کا کوئی فائدہ نہیں بلکہ سراسر ضرر رساں ہے نیز انہیں چاہیئے کہ ایسے مفید علم کے حصول میں مصروف ہوں جو ان کے لئے مفید ہو اور خود ان کے لئے دنیا و آخرت میں بھلائی کا باعث ہو۔

ابن عسا کر رحمہ اللہ اپنی کتاب تبین کذب المفتری (ص۲۹) میں فرماتے ہیں:”میرے بھائی اللہ ہمیں اور تمہیں توفیق سے نوازے کہ ایسے کام کریں جو اسے راضی کریں، اور ہم سب کو اپنی خشیت سے بہرہ مند فرمائے اور ایسا تقوی عطا فرمائے جیسا کہ اس کا حق ہے۔ اچھی طرح جان لو علمارحمہم اللہ کے گوشت زہریلے ہوتے ہیں اور ان کی تنقیص کرنے والوں کی پردہ دری سنت الٰہیہ ہے۔“

اور ہم نے اپنے رسالہ رفقا أهل السنة بأهل السنة میں اہل سنت اور خاص طور پر اس علم کے بارے میں زبان کو محتاط رکھنے کے متعلق بہت سی آیات ، احادیث اور آثار ذکر کئے ہیں۔ اس کے باوصف میرا وہ رسالہ ان تنقیص پسندوں کو پسند نہیں آیا اور اسے ناقابل اشاعت قرار دے دیا اور اس کے مطالعہ اور اس کی نشر و اشاعت سے بھی منع کر دیا اور کوئی شک نہیں کہ اگر کوئی اس رسالے کو پڑھے اور پھر اس کے متعلق اس جارحانہ رویہ کو دیکھے گا تو یقیناً اس نتیجہ پر پہنچے گا کہ دونوں کے درمیان بعد المشرقین ہے اور معاملہ شاعر کے اس شعر کا مصداق ہے:

قد تنكر العين ضوء الشمس من رمد و ينكر الفم طعم الماء من سقمبسا

اوقات یوں بھی ہوتا ہے کہ آنکھوں کو آشوب کے سبب سورج کی روشنی بھی لگتی ہے اور یوں بھی ہوتا ہے کہ بیماری کے سبب منہ کو پانی کڑوا لگتا ہے۔

جہاں تک ہمارے اس شاگرد کا ہمارے رسالہ رفقا أهل السنة بالسنة کے بارے میں یہ کہنا ہے مثال کے طور پر کلام کرنا ہے کہ ”شیخ عبدالعزیز بن باز اور شیخ ابن عثیمین دوسرے اہل سنت سے الگ منہج رکھتے ہیں اور یہ بلاشبہ غلط ہے کیونکہ اس سے مؤ لف رسالہ کا مطلب یہ ہے کہ وہ زیادہ جوابات نہیں لکھتے اور لکھیں بھی تو صرف مخالفین کے جوابات لکھتے ہیں اگر یہ بات درست ہے تو اہل سنت کے منہج کے خلاف ہے اور درحقیقت شیخین کی عیب جوئی ہے بلکہ ان کے علاوہ دوسرے علما کی بھی تنقیص ہے جن کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے ۔“

اس کا جواب کئی وجہ سے دیا جا سکتا ہے۔

اول :اس رسالہ میں ہرگز نہیں ہے کہ شیخ عبدالعزیز بن باز رحمہ اللہ زیادہ جوابات نہیں لکھتے۔ کیوں نہیں؟ دوسروں کی تردید میں لکھے گئے ان کے مضامین و رسائل کثیر تعداد میں موجود ہیں اور رسالہ میں تحریر کیا گیا ہے (ص:۵۱) مناسب یہ ہے کہ تردید میں لکھا گیا مضمون ملائمت اور نرمی سے متصف ہو اور اس میں غلطی میں مبتلا کی سلامتی کی رغبت ٹپکتی ہو اور تردید بھی ایسی خطا پر ہونی چاہیئے جو بالکل واضح ہو۔ اس سلسلہ میں شیخ عبدالعزیز بن باز رحمہ اللہ کے جوابات کا مطالعہ کرنا چاہیئے اور اس کا مناسب ترین طریقہ سیکھنے کے لئے ان سے استفادہ کرنا چاہیئے۔

دوم: جوابات کے سلسلہ میں میں نے شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کے منہج کا بالکل حوالہ نہیں دیا تھا اس لئے کہ کسی کی تردید میں میں نے ان کا کوئی رسالہ چھوٹا موٹا بھی نہیں دیکھا۔ میں نے شیخ کے ایک ہمیشہ ان کے ساتھ رہنے والے شاگرد سے بھی دریافت کیا تو اس نے بھی بتایا کہ اسے شیخ کے کسی ایسے مضمون یا رسالہ کا علم نہیں اور یہ ان میں اعتراض یا تنقید کا موجب نہیں اس لئے کہ وہ علم کے بیان اور تالیف اور نشر و اشاعت میں مشغول ہیں۔

سوم: شیخ عبدالعزیز بن باز رحمہ اللہ کا منہج ہمارے تنقید کے شوقین شاگرد اور ان جیسے حضرات سے قطعاً مختلف ہے اس لئے کہ شیخ کے منہج کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ ملائمت اور نرمی سے متصف ہے اور اس میں اس شخص کے ساتھ مکمل خیر خواہی پائی جاتی ہے جس کو نصیحت کرنا مقصود ہے اور اسے سلامتی کے راستے پر واپس لانا مطمح نظر ہوتا ہے جبکہ ہمارے تنقید پسند شاگرد اور ان جیسے حضرات، تشدد ، نفرت اور دور کرنے کو وتیرہ بنائے ہوئے ہیں اور جن افراد پر اپنے کیسٹوں میں اس تنقید پسند نے کلام کیا ہے ان میں سے بہت سے لوگوں کو شیخ عبدالعزیز بن باز رحمہ اللہ بہت اچھے الفاظ میں یاد کرتے تھے ، انہیں دعائیں دیتے تھے اور انہیں لوگوں میں دعوت و تعلیم کا کام جاری رکھنے کی ترغیب دلاتے تھے۔ اور لوگوں کو ان سے مستفید ہونے اور علم حاصل کرنے کی تلقین کرتے تھے۔

الغرض ہم نے شیخ عبدالعزیز بن باز رحمہ اللہ کی نسبت یہ نہیں کہا کہ وہ دوسروں کا رد نہیں کرتے تھے اور جہاں تک ابن عثیمین رحمہ اللہ کا تعلق ہے تو ان کا تو میں نے اس سلسلہ میں نام بھی نہیں لیا۔

اس لئے اس تنقیص پسند نے جو کچھ لکھا ہے اس کا رسالے کے مضمون سے کوئی تعلق نہیں جو اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ موصوف بغیر سوچے سمجھے اندھیرے میں تیر چلانے کے شوقین ہیں جب ان کا تحریر میں یہ حال ہے تو تقریر میں کیا ہو گا؟ اور اس تنقیض پسند نے یہ جو کہا ہے کہ : ‘‘ میں نے رسالہ کا مطالعہ کیا ہے اور اس بارے میں اہل سنت کے موقف کا مجھے علم ہے آپ نے بعض علماء و مشائخ کے تحریر کردہ جوابات پڑھے ہوں گے میں نہیں سمجھا کہ جوابات اب موقوف ہو جائیں گے کچھ لوگ ہیں جو لکھتے ہی رہیں گے جیسا کہ کسی شاعر نے کہا ہے۔

جاء شقیق عارض رمحہ ان بنی عمک فیھم رماحشقیق(سگا بھائی) اپنے نیزے کو تھامے ہوئے چل رہا ہے اسے بتاؤ کہ تمہارے مقابل تمہارے چچیرے بھائیوں کے پاس بھی بہت سے نیزے ہیں۔اس نے اسی طرح ‘‘عارض’’ لکھا ہے جب کہ درست ‘‘عارضاً’’ ہے۔

تو اس کا جواب یہ ہے کہ جن اہل سنت کی طرف اس نے اشارہ کیا ہے وہی توہیں جن کا اسلوب و منہج شیخ عبدالعزیز بن باز رحمہ اللہ سے بالکل مختلف ہے جس کی طرف میں نے کچھ ہی دیر پہلے اشارہ کیا ہے اس کا مقصد تو صرف اس قدر ہے کہ اپنی جان پہچان کے لوگوں کو رسالے کے خلاف اکسانے کے بعد ان لوگوں کو بھی اس کے خلاف برانگیختہ کرے جنہیں وہ نہیں جانتا۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ میں نے نیزہ نہیں نکالا میں نے تو خیر خواہی ظاہر کی جسے اس تنقیص پسند اور اس جیسے لوگوں نے پسند نہیں کیا۔ اس لئے کہ نصیحت تو نصیحت کئے گئے فرد کے لئے وہی حیثیت رکھتی ہے جو مریض کے لئے دوا کی ہے اور بعض مریض ایسے ہوتے ہیں کہ وہ دوا استعمال کرتے ہیں چاہے وہ کڑوی ہو اس لئے کہ اسے اس کے استعمال میں فائدہ کی امید ہوتی ہے لیکن جنہیں نصیحت کی جاتی ہے ان میں سے بعض ایسے بھی ہوتے ہیں کہ خواہش نفس انہیں نصیحت سے دور رکھتی ہے وہ صرف یہی نہیں کہ نصیحت قبول نہیں کرتے بلکہ دوسروں کو بھی اس سے دور رکھنے کی تلقین کرتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ سب کو ہدایت کی توفیق سے نوازے اور شیطان کے مکر و فریب سے محفوظ رکھے۔

ہمارے اس تنقیص پسند شاگرد کے مشن میں تین افراد (شریک) ہیں۔ ان میں سے دو تو مکہ اور مدینہ میں ہیں دونوں جامعہ اسلامیہ مدینہ میں میرے شاگر (۱) رہے ہیں۔ ان میں سے پہلا (۱۳۸۴ ۔ ۱۳۸۵ھ) میں فارغ ہوا جبکہ دوسرے نے (۱۳۹۱ ۔ ۱۳۹۲ھ) میں فراغت پائی۔ تیسرا(۲) مارے وطن کے جنوب بعید سے تعلق رکھتا ہے دوسرے اور تیسرے نے اس رسالہ کے تقسیم کرنے والے کو بدعتی قرار دیا ہے اور بدعت کا فتوی انہوں نے عام اور تھوک کے حساب سے جاری کر دیا مجھے معلوم نہیں کہ انہیں اس بات کا علم ہے یا نہیں کہ اسے ایسے علما اور طلبہ نے تقسیم کیا ہے جنہیں بدعتی نہیں کہا جا سکتا۔

میں امید کرتا ہوں کہ یہ فتویٰ صادر کرنے والے حضرات مجھے ان ملاحظات پر مطلع فرمائیں گے جن کی بنا پر انہوں نے بدعت کا عمومی حکم لگایا۔

شیخ عبدالرحمن السدیس امام و خطیب مسجد حرام کا ایک خطبہ ہے جو انہوں نے مسجد حرام کے منبر پر ارشاد فرمایا۔ اس میں انہوں نے اہل سنت کے ایک دوسرے کے بارے میں اس طرح کی نکتہ چینی کرنے سے پرہیز کرنے کی تلقین کی تھی۔ ہم بھی اس کا مطالعہ کرنے کی ترغیب دلاتے ہیں کہ وہ اس موضوع پر بہت اہم اور مفید ہے۔

اللہ عزوجل سے دعا کرتا ہوں کہ سب کو اپنی رضا کے طالب بننے کی توفیق دے۔ دین میں تفقہ اور حق پر ثابت قدمی عطا فرمائے اور لا یعنی کاموں سے بچا کر ایسے عمل بجا لانے کی توفیق دے جو توجہ اور اہتمام کے لائق ہیں۔ بلاشبہ وہی اس کا سزا وار اور قدرت رکھنے والا ہے۔

وصلی اللہ وسلم و بارک علی نبینا محمد و علی اٰلہ وصحبہ۔

(۱)ان دونوں سے مراد شیخ ربیع المدخلی اور شیخ عبید الجابری ہیں(واللہ اعلم) شیخ عبید الجابری کے لئے دیکھئے الحدیث:۱۵ص۷۔

(۲)ان سے مراد شیخ احمد بن یحییٰ بن محمد النجمی ہیں۔ آپ جیزان ، سعودی عرب میں رہتے ہیں اور متعدد کتابوں کے مصنف ہیں۔

تنبیہ: شیخ ربیع المدخلی، شیخ فالح الحربی، شیخ احمد النجمی اور شیخ عبید الجابری کی بڑی خدمات ہیں۔ انہوں نے فرقِ ضالہ پر بہترین ردود لکھے یا لکھوائے ہیں۔ ادارہ الحدیث، ان علماء و دیگر سلفی علماء کی خدمات کا معترف ہے اور علمائے حق کے باہمی اختلافات میں غیر جانبدار ہے تاہم ان علماء کا بعض دوسرے سلفی علماء پر ذاتی مخالفت کی وجہ سے ردو جرح کرنا ہمارے نزدیک صحیح نہیں ہے۔ واللہ اعلم

یہ تحریر اب تک 26 لوگ پڑھ چکے ہیں، جبکہ صرف آج 1 لوگوں نے یہ تحریر پڑھی۔

Leave a Reply