ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن پر درود

تحریر: غلام مصطفےٰ ظہیر امن پوری

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات پر بھی درود پڑھنا مشروع ہے، کیونکہ قرآن و سنت کی رو سے وہ بھی اہل بیت میں شامل ہیں، جیسا کہ:
قرآن کریم کی روشنی میں :
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات سے خطاب فرماتے ہوئے ارشاد باری تعالی ہے:
إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا (الأحزاب : 33)
”اے اہل بیت ! اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ تم سے گناہ کو دور کر کے تمہیں خوب پاک صاف کر دے۔“

اس آیت کی تفسیر میں حبر امت، ترجمان القرآن اور مفسر صحابہ، سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:
نزلت فى نساء النبى صلى الله عليه وسلّم خاصة.
”یہ آیت خاص طور پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج کے بارے میں نازل ہوئی۔“ (تفسير ابن كثير : 410/6، بتحقيق سلامة، و سندہ حسن)

سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے شاگرد عکرمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
من شاء باهلته أنها نزلت فى أزواج النبى صلى الله عليه وسلّم.
”جو مباہلہ کرنا چاہے میں اس کے ساتھ مباہلہ کرنے کے لئے بھی تیار ہوں کہ یہ آیت نبی اکرم صلى الله عليه وسلم کی ازواج مطہرات کے بارے میں نازل ہوئی۔“ (تفسیر ابن کثیر : 411/6، بتحقیق سلامة، و سندہ حسن)

اس آیت کی تفسیر میں اہل سنت کے مشہور مفسر، حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وهذا نص فى دخول أزواج النبى صلى الله عليه وسلّم فى أهل البيت هاهنا، لأنهنّ سبب نزول هذه الآية.
”یہ آیت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج کے اہل بیت میں شامل ہونے پر نص ہے، کیونکہ ازواج مطہرات ہی اس آیت کے نزول کا سبب ہیں۔“
(تفسیر ابن کثیر : 410/6، بتحقیق سلامة)

نیز فرماتے ہیں:
فإن كان المراد أنهن كن سبب النزول دون غيرهن فصحيح، وإن أريد أنَّهُنَّ المُراد فقط دون غيرهنّ، ففي هذا نظر؛ فإنه قد وردت أحاديث تدل علىٰ أنّ المُراد أعم من ذلك.
”اگر یہ مراد ہو کہ ازواج مطہرات کے علاوہ کوئی بھی اس آیت کے نزول کا سبب نہیں، تو یہ بات صحیح ہے، لیکن اگر کسی کی مراد یہ ہو کہ اہل بیت کے مفہوم میں ازواج مطہرات کے علاوہ کوئی شامل نہیں، تو یہ محل نظر ہے، کیونکہ کئی احادیث بتاتی ہیں کہ اہل بیت کا مفہوم اس سے وسیع ہے۔“ (تفسیر ابن کثیر : 411/6، بتحقیق سلامة)

یعنی یہ آیت اگرچہ ازواج مطہرات کے اہل بیت میں شامل ہونے کو بیان کرتی ہے، لیکن صحیح احادیث کی بنا پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے رشتہ دار بھی اہل بیت میں شامل ہیں، بلکہ اگر بیویاں اہل بیت ہیں تو رشتہ دار بالا ولیٰ اہل بیت میں شامل ہیں۔

اسی حوالے سے حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ثم الذي لا يشك فيه من تدبر القرآن أن نساء النبي صلى الله عليه وسلم داخلات في قوله تعالى : ﴿إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا ﴾ ، فإن سياق الكلام معهن ؛ ولهذا قال تعالى بعد هذا كله : ‏ ﴿وَاذْكُرْنَ مَا يُتْلَى فِي بُيُوتِكُنَّ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ وَالْحِكْمَةِ﴾ أي : اعملن بما ينزل الله على رسوله في بيوتكن من الكتاب والسنة، قاله قتادة وغير واحد، واذكرن هذه النعمة التي خصصتن بها من بين الناس، أن الوحي ينزل في بيوتكن دون سائر الناس، وعائشة الصديقة بنت الصديق أولاهن بهذه النعمة، وأحظاهن بهذه الغنيمة، وأخصهن من هذه الرحمة العميمة، فإنه لم ينزل على رسول الله صلى الله عليه وسلم الوحي في فراش امرأة سواها، كما نص على ذلك صلوات الله وسلامه عليه، قال بعض العلماء، رحمه الله : لأنه لم يتزوج بكرا سواها، ولم ينم معها رجل في فراشها سواه، فناسب أن تخصص بهذه المزية، وأن تفرد بهذه الرتبة العلية، ولكن إذا كان أزواجه من أهل بيته، فقرابته أحق بهذه التسمية، كما تقدم في الحديث : ”وأهل بيتي أحق“، وهذا يشبه ما ثبت في صحيح مسلم : أن رسول الله صلى الله عليه وسلم لما سئل عن المسجد الذي أسس على التقوى من أول يوم، فقال : ”هو مسجدي هذا“، فهذا من هذا القبيل، فإن الآية إنما نزلت في مسجد قباء، كما ورد في الأحاديث الأخر، ولكن إذا كان ذاك أسس على التقوى من أول يوم، فمسجد رسول الله صلى الله عليه وسلم أولى بتسميته بذلك . والله أعلم
”پھر قرآنِ کریم میں تدبر کرنے والا جس چیز میں شبہ نہیں کر سکتا، وہ یہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج اللہ تعالیٰ کے اس فرمان میں داخل ہیں : ﴿إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا ﴾ ”اے اہل بیت ! بلاشبہ اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ تم سے گناہوں کو دور کر کے تمہیں خوب پاک صاف کر دے“، کیونکہ سیاق کلام ازواج مطہرات رضی اللہ اللہ عنہن (والے مفہوم) کے ساتھ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس ساری بات کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَاذْكُرْنَ مَا يُتْلَى فِي بُيُوتِكُنَّ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ وَالْحِكْمَةِ﴾ ”اے نبی کی ازواج ! تمہارے گھروں میں اللہ کی آیات اور حکمت میں سے جو پڑھا جاتا ہے تم اس کو یاد کرو“ ، یعنی کتاب و سنت کی جو نصوس اللہ تعالیٰ تمہارے گھروں میں اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل فرماتا ہے، ان پر عمل کرو۔ امام قتادہ تابعی رحمہ اللہ سمیت کئی ایک اہل علم نے یہ تفسیر کی ہے۔ مراد یہ ہے کہ اے نبی کی ازواج ! اس نعمت کو یاد کرو، جو باقی لوگوں کی نسبت خاص تمہیں نصیب ہوئی ہے کہ وحی صرف تمہارے گھروں میں نازل ہوتی ہے۔ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اس نعمت میں سب سے آگے تھیں، سب سے بڑھ کر اس غنیمت سے فائدہ اٹھائے والی تھیں اور اس بے بہا رحمت کا سب سے زیادہ حصہ پانے والی تھیں۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی زوجہ کے بستر پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی نہیں آئی، سوائے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے جیسا کہ خود آپ صلى الله عليه وسلم نے صراحت کے ساتھ یہ بیان فرمایا ہے۔ بعض اہل علم کا کہنا ہے کہ اس خصوصیت کی وجہ یہ تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے سوا کسی کنواری عورت سے شادی نہیں کی، اسی طرح سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کسی مرد سے خلوت نہیں کی، چنانچہ ان کی شخصیت اس امتیاز کے ساتھ خاص ہونے اور اس بلند رتبے میں منفرد ہونے کے زیادہ مناسب تھی۔ لیکن جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج اہل بیت میں سے ہیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رشتہ دار اہل بیت کہلانے کے زیادہ حق دار ہیں، جیسا کہ حدیث میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان بیان ہو چکا ہے کہ میرےگھر والے (اہل بیت ہونے کے) زیادہ حق دار ہیں۔ یہ معاملہ صحیح مسلم میں مذکور اس معاملے سے ملتا جلتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جب پوچھا گیا کہ قرآنِ کریم میں جس مسجد کے بارے میں ذکر ہے کہ وہ پہلے دن سے تقویٰ پر استوار کی گئی تھی، وہ کون سی مسجد ہے؟ اس پر آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: اس سے مراد میری یہ مسجد (مسجد نبوی) ہے۔ حالانکہ یہ آیت تو مسجد قباء کے بارے میں نازل ہوئی تھی۔ لیکن چونکہ مسجد نبوی پہلے دن سے تقویٰ پر استوار کی گئی تھی، لہذا یہ اس نام کی زیادہ حق دار تھی۔ اہل بیت کا معاملہ بھی اسی طرح کا ہے (کہ اگرچہ قرآن میں ازواج مطہرات کو اہل بیت کہا گیا، لیکن رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے رشتہ دار بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر والے ہونے کی بنا پر اہل بیت میں شامل ہیں)۔‘‘ (تفسیر ابن کثیر : 415/6، 416، بتحقیقی سلامة)

 

اس تحریر کو اب تک 6 بار پڑھا جا چکا ہے۔

Leave a Reply