قبروں پر پھول اور چادریں چڑھانا کیسا ہے؟

تحریر: ابن الحسن محمدی

اولیاء اللہ اور صالحین کی قبروں پر پھول اور چادریں چڑھانا عجمی تہذیب پر مبنی قبیح بدعت ہے۔ یہ کام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، صحابہ کرام اور ائمہ سلف کی سراسر مخالفت ہے۔ اگر اس عمل میں کوئی دینی منفعت و مصلحت ہوتی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ضرور اس کی طرف رہنمائی فرماتے اور سلف صالحین ضرور اس کو اپناتے۔ بدعت پسند لوگ اسے سند جواز فراہم کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگاتے ہیں۔ ان کی انتہائی کوشش ہے کہ شہر خموشاں شرک و بدعت کی آماجگاہ بن جائیں۔ ان کی خاموشی کو راگ رنگ، شور و شر اور فسق و فجور میں بدل دیا جائے۔ یہ لوگ قبروں کے متعلق غلو کی آخری حدوں کو چھوتے ہوئے ان کے نام کی نذر و نیاز دیتے ہیں اور ان پر چڑھاوے چڑھاتے ہیں، عرس میلے لگاتے ہیں، مزامیر اور مشرکانہ اشعار سے محفل سماع سجاتے ہیں تاکہ قبروں پر لوگوں کا آناجانا لگا رہے اور ہماری شکم پروری ہوتی رہے۔ ان کو یہ معلوم نہیں کہ دین کیا ہے اور بدعت دین کو کس قدر نقصان پہنچاتی ہے ؟

بدعت اللہ تعالیٰ اور اس کے حبیب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پیش قدمی کا نام ہے۔ سلف صالحین اس سے سخت متنفر تھے اور اس کی شدید مذمت کرتے تھے جیساکہ شیخ الاسلام ثانی، علامہ ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
اشتد نكير السلف والأئمة لها، وصاحوا بأهلها من أقطار الأرض، وحذروا فتنتهم أشد التحذير، وبالغوا في ذلك، ما لم يبالغوا مثله في إنكار الفواحش، والظلم والعدوان، إذ مضرة البدع وهدمها للدين ومنافاتها له أشد .
’’سلف صالحین اور ائمہ دین بدعت کا سخت ترین ردّ کرتے رہے ہیں۔ انہوں نے اہل بدعت کو زمین کے کونے کونے سے للکارا اور لوگوں کو ان کے فتنے سے بہت زیادہ ڈرایا۔ انہوں نے اس کی اتنی زیادہ مخالفت کی کہ اتنی مخالفت فحاشی اور ظلم و زیادتی جیسے گناہوں کی بھی نہیں کی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ بدعت کی مضرت اور اس سے دین کو نقصان باقی گناہوں کی نسبت بہت زیادہ ہے۔“ [مدارج السالكين لابن القيم : 372/1]

بدعتی لوگوں کی عادت ہے کہ جب وہ بدعت کے ثبوت پر شرعی دلائل سے عاجز و درماندہ ہو جاتے ہیں تو بعض عمومی نصوص سے اس کا ثبوت تراشنے کی کوشش میں لگ جاتے ہیں۔ یہ بہت بڑی خرابی اور تحریف دین ہے۔ اگر قرآن و سنت کی نصوص کا یہی مطلب و مفہوم ہوتا جو آج کے بدعتی لوگ لے رہے ہیں تو یہی مفہوم سب سے پہلے ہمارے اسلاف، یعنی صحابہ و تابعین کی سمجھ میں آتا جیسا کہ علامہ شاطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
فإن هؤلاء الذين أدركوا هذه المدارك، وعبروا على هذه المسالك، إما أن يكونوا قد أدركوا من فهم الشريعة ما لم يفهمه الأولون، أو حادوا عن فهمها، وهذا الأخير هو الصواب؛ إذ المتقدمون من السلف الصالح كانوا على الصراط المستقيم، ولم يفهموا من الأدلة المذكورة وما أشبهها إلا ما كانوا عليه، وهذه المحدثات لم تكن فيهم، ولا عملوا بها، فدل على أن تلك الأدلة لم تتضمن هذه المعاني المخترعة بحال، وصار عملهم بخلاف ذلك دليلاً إجماعياً على أن هؤلاء في استدلالهم وعملهم مخطئون ومخالفون للسنة… فيقال لمن استدلّ بأمثال ذلك: هل وجد هذا المعنى الذي استنبطت في عمل الأولين أو لم يوجد؟ فإن زعم أنه لم يوجد – ولا بدّ من ذلك – فيقال له: أفكانوا غافلين عما تنبهت له أو جاهلين به أم لا؟ ولا يسعه أن يقول بهذا، لأنه فتح لباب الفضيحة على نفسه، وخرق للإجماع، وإن قال: إنهم كانوا عارفين بمآخذ هذه الأدلة كما كانوا عارفين بمآخذ غيرها، قيل له: فما الذي حال بينهم وبين العمل بمقتضاها على زعمك حتى خالفوها إلى غيرها؟ ما ذاك إلا لأنهم اجتمعوا فيه على الخطأ دونك أيها المتقوّل، والبرهان الشرعي والعادي دال على عكس القضية، فكلّ ما جاء مخالفاً لما عليه السلف الصالح فهو الضلال بعينه .
’’جن لوگوں نے (قرآن و سنت کی نصوص کے بدعت پر مبنی) یہ مفہوم سمجھے ہیں اور ان (بدعتی) مسالک کو اپنایا ہے، انہوں نے یا تو شریعت کا ایسا فہم حاصل کر لیا ہے جو سلف صالحین کو حاصل نہیں ہوا یا پھر ان کو سمجھنے میں انہیں غلطی لگ گئی ہے۔ دوسری بات ہی درست ہے کیونکہ سلف صالحین صراط مستقیم پر گامزن تھے۔ انہوں نے ان بدعتی لوگوں کے ذکر کردہ دلائل سے وہی سمجھا جس پر وہ عمل کرتے رہے۔ یہ بدعات ان میں موجود نہ تھیں، نہ انہوں نے ان پر عمل کیا۔ اس سے معلوم ہوا ان نصوص کے یہ معنی (جو بدعتی لوگوں نے بدعت کی تقویت کے لیے کیے ہیں) کسی صورت درست نہیں ہو سکتے بلکہ سلف صالحین کا ان بدعات کے خلاف عمل کرنا اس بات کی اجماعی دلیل ہے کہ یہ بدعتی لوگ اپنے استدلال و عمل میں غلطی پر ہیں اور سنت کی مخالفت کر رہے ہیں۔ پھر جو لوگ ایسے استدلال کرتے ہیں، ان سے پوچھا جائے کہ جس معنی کا تم نے استنباط کیا ہے، وہ سلف صالحین کے عمل میں ملتا ہے یا نہیں ؟ اگر وہ کہیں کہ نہیں اور انہیں یہی کہنا پڑے گا، تو پھر ان سے پوچھا جائے کہ کیا سلف صالحین ان معانی سے غافل یا جاہل تھے جن کا تمہیں علم ہوا ہے ؟ وہ کسی صورت بھی ہاں میں جواب نہیں دے سکتے کیونکہ ایسا کہنے سے وہ خود رسوا ہو جائیں گے اور اجماع کا مخالف قرار پائیں گے۔ اور اگر وہ کہیں کہ سلف صالحین ان نصوص کے معانی بھی اسی طرح جانتے تھے جس طرح دوسری نصوص کے معانی سے واقف تھے، تو انہیں جواب دیا جائے کہ پھر تمہارے خیال میں سلف صالحین کو ان معانی کے مطابق عمل کرنے میں کون سی چیز رکاوٹ بنی کہ انہوں نے یہ کام چھوڑ کر ان کے خلاف کیا؟ جھوٹو ! (تمہارے گھٹیا ذہن میں) ایک ہی بات آ سکتی ہے کہ سارے کے سارے اسلاف (اس بارے میں) غلطی پر جمع ہو گئے تھے۔ لیکن شرعی و فطری دلائل تمہارے اس گھٹیا خیال کی مخالفت کرتے ہیں۔ معلوم ہوا کہ جو کام بھی سلف صالحین کے طریقہ کار کے خلاف ہو، وہ یقینی طور پر گمراہی ہوتا ہے۔“ [الموافقات للشاطبی:73/3]

یعنی ہر بدعتی سلف صالحین کا مخالف ہوتا ہے، ان کے متعلق سوءِ ظن کا شکار ہوتا ہے اور یہ باور کرانے کی کوشش میں لگا رہتا ہے کہ (نعوذ باللہ !) جو بات قرآن و حدیث سے ائمہ محدثین اور سلف صالحین نہ سمجھ سکے، وہ اس نے سمجھ لی ہے اور اس کا علم و ورع ان سے فائق ہو گیا ہے یا وہ ان دلائل سے ناواقف تھے جن سے وہ واقف ہو گیا ہے، وغیرہ۔

بدعت کی تقسیم

اگر بدعتی لوگوں سے اور کچھ نہ بن پڑے تو اپنی بدعت کو بدعت حسنہ کا نام دے دیتے ہیں، حالانکہ بدعت ہے ہی ضلالت اور ضلالت میں حسن کہاں سے آ گیا ؟ اگر وہ اچھی تھی تو سلف صالحین اس اچھے کام سے کیوں محروم رہے ؟ جہاں تک بدعت کی تقسیم کا تعلق ہے تو یہ تقسیم بذات خود بدعت ہے۔ بدعت کی حسنہ اور سیئہ میں تقسیم صحیح نہیں۔

علامہ شاطبی فرماتے ہیں :
إن هذا التقسيم أمر مخترع، لا يدل عليه دليل شرعي، بل هو فى نفسه متدافع ؛ فإن من حقيقة البدعة أن لا يدل عليها دليل شرعي، لا من نصوص الشرع، ولا من قواعده، إذ لو كان هناك من الشرع ما يدل على وجوب أو ندب أو إباحة لما كان ثم بدعة، ولكان العمل داخلا في عموم الأعمال المأمور بها، أو المخير فيها، فالجمع بين كون تلك الأشياء بدعا، وبين كون الأدلة تدل على وجوبها أو ندبها أو إباحتها، جمع بين متناقضين .
” (بدعت کی) یہ تقسیم (خود) بدعت ہے۔ اس پر کوئی شرعی دلیل نہیں۔ یہ تو في نفسہ بھی غلط ہے کیونکہ بدعت کی حقیقت یہ ہوتی ہے کہ اس کے بارے میں کوئی دلیل شرعی نہیں ہوتی، نہ نصوص شرعیہ میں سے نہ قواعد شرعیہ میں سے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر کوئی دلیل شرعی اس کے وجوب یا استحباب یا جواز پر دلالت کرتی ہو تو پھر وہ بدعت رہتی ہی نہیں بلکہ اس پر عمل کرنا تو اس کاموں میں داخل ہو جاتا ہے جن کے کرنے کا حکم دیا گیا ہے یا جن کو کرنے میں اختیار دیا گیا ہوتا ہے۔ ان کاموں کو بدعت کہنا اور پھر ان کے وجوب، استحباب یا جواز پر دلائل کی موجودگی کا دعویٰ کرنا دو منافی امور کی جمع ہے۔“ [الاعتصام للشاطبي: 191/1، 192]

اس صراحت سے معلوم ہوا کہ جو کام صحابہ و تابعین اور ائمہ دین کے دور میں نہیں ہوا، اسے بدعت حسنہ قرار دے کر سند جواز دینا نری گمراہی ہے۔ موجودہ دورمیں بعض لوگوں نے بہت سے ایسے امور کو دین کا درجہ دے رکھا ہے جن کا صحابہ و تابعین اور ائمہ دین کے دور میں نام و نشان تک نہ تھا۔ انہی میں سے ایک کام قبروں پر پھول اور چادریں وغیرہ چڑھانے کا ہے۔

امام بریلویت احمد یار خان نعیمی گجراتی صاحب (1391۔ 1324 ھ) لکھتے ہیں :
’’قبروں پر پھول ڈالنا، چادریں چڑھانا، چراغاں کرنا علمائے اہل سنت کا فرمان ہے کہ پھول ڈالنا تو ہر مؤمن کی قبر پر جائز ہے، خواہ وہ ولی اللہ ہو یا گناہگار، اور چادریں ڈالنا اولیاء، علماء، صلحاء کی قبور پر جائز ہے، عوام مسلمین کی قبور پر ناجائز کیونکہ یہ بےفائدہ ہے۔“ [جاء الحق از نعيمي : 269/1]

نعیمی صاحب کی ’’علمائے اہل سنت“ سے مراد نام نہاد اہل سنت، یعنی بدعتی و بریلوی ہوں تو درست ہے، ورنہ علمائے اہل سنت میں سے کوئی بھی قبروں پر پھول اور چادریں چڑھانے کا قائل و فاعل نہیں۔ جو کام نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں نہ تھا، صحابہ کرام جس سے ناواقف تھے اور ائمہ سلف کو جس کا علم تک نہ ہوا، وہ نیکی کیسے بن گیا اور اسے سند جواز کیسے مل گئی ؟

قبروں پر پھول چڑھانا عیسائیوں کا وطیرہ ہے۔ چادریں چڑھانا صالحین کی تعظیم میں غلو ہے جس کی شریعت میں مذمت و ممانعت موجود ہے۔ اگر عوام مسلمین کی قبروں پر چادریں چڑھانا اس لیے ناجائز ہے کہ وہ ’’بے فائدہ“ ہے تو صلحاء کی قبروں پر چادریں چڑھانے کا کیا فائدہ ہے ؟ اگر اس کا کوئی شرعی جواز یا فائدہ ہوتا تو اللہ اور اس کا رسول اس کی ضرور تعلیم دے دیتے اور ائمہ سلف اسے ضرور اپناتے۔ یہ تو محض قبر پرستوں کی ایک روش ہے کیونکہ اس کی زندگی مردوں اور قبروں سے وابستہ ہے۔

قبروں پر چادریں اور علمائے حق

ان بدعات کی مذمت میں علمائے حق کے اقوال ملاحظہ فرمائیں :
٭ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ومن المحرمات: العكوف عند القبر، والمجاورة عنده، وسدانته، وتعليق الستور عليه، كأنه بيت الله الكعبة
’’کچھ حرام کام یہ ہیں : قبر پر اعتکاف کرنا، اس کے پاس مجاور بن کر بیٹھنا، اس کی خدمت، اس پر یوں پردے لٹکانا کہ گویا وہ اللہ کا گھر کعبہ ہو۔“ [اقتضاء الصراط المستقيم لا بن تيمية : 267]

٭ نیز فرماتے ہیں :
ومنهم من يعلق على القبر المكذوب أو غير المكذوب، من الستور والثياب، ويضع عنده من مصوغ الذهب والفضة، ما قد أجمع المسلمون على أنه ليس من دين الإسلام .
’’بعض لوگ ایسے ہیں جو جعلی یا اصلی قبر پر پردے اور کپڑے لٹکاتے ہیں اور اس کے پاس سونے یا چاندی کے زیورات رکھتے ہیں۔ مسلمانوں کا اس بات پر اتفاق و اجماع ہے کہ ان چیزوں کا دین اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔“ [اقتضاء الصراط المستقيم لا بن تيمية :384]

٭ شیخ الاسلام مزید فرماتے ہیں :
وقد اتفق ائمة الدين علي انه لا يشرع بناء المساجد علي القبور، ولا ان تعلق عليها الستور .
’’ائمہ دین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ قبروں پر مسجدیں بنانا اور ان پر پردے لٹکانا جائز نہیں۔“ [جامع الرسائل لابن تيمية:54/1]

٭ شیخ الاسلام ثانی، عالم ربانی، علامہ ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ومنها : مشابهة عبادة الأصنام بما يفعل عندها من العكوف عليها والمجاورة عندها وتعليق الستور عليها وسدانتها وعبادها يرجحون المجاورة عندها على المجاورة عند المسجد الحرام، ويرون سدنتها أفضل من خدمة المساجد .
’’قبروں پر ہونے والی خرافات میں سے یہ بھی ہے کہ قبروں کے پاس وہ کام کیے جائیں جو بت پرستی سے مشابہ ہیں، مثلاً ان پر اعتکاف کرنا، ان کے پاس مجاور بن کر بیٹھنا، ان پر پردے لٹکانا، ان کی خدمت کے لیے وقف ہونا وغیرہ۔ قبر پرست لوگ قبروں کی مجاور ی کو بیت اللہ کی مجاوری پر بھی ترجیح دیتے ہیں اور ان کا یہ نظریہ ہے کہ قبروں کی خدمت بیت اللہ کی خدمت سے بھی افضل ہے۔“ [إغاثة اللهفان لابن القيم :197/1]

یہی بات علامہ برکوی رحمہ اللہ نے اپنے رسالے ”زیارۃ القبور“ میں [ص :21] پر لکھی ہے۔

٭ علامہ شوکانی رحمہ اللہ (1250۔ 1172ھ) قبر پرستی کے بارے میں لکھتے ہیں :
فلا شك ولا ريب أن السبب الأعظم الذي نشأ منه هذا الاعتقاد في الأموات هو ما زينه الشيطان للناس من رفع القبور، ووضع الستور عليها، وتجصيصها وتزيينها بأبلغ زينة، وتحسينها بأكمل تحسين. فإن الجاهل إذا وقعت عينه على قبر من القبور قد بنيت عليه قبة فدخلها، ونظر على القبورِ السُّتورَ الرائعة، والسرج المتلألئة، وقد سطعت حوله مجامر الطيب، فلا شك ولا ريب أنه يمتلئ قلبه تعظيما لذلك القبر، ويضيق ذهنه عن تصور ما لهذا الميت من المنزلة، ويدخله من الروعة والمهابة ما يزرع في قلبه من العقائد الشيطانية التي هي من أعظم مكائد الشيطان للمسلمين، وأشد وسائله إلى ضلال العباد ما يزلزله عن الإسلام قليلا قليلا، حتى يطلب من صاحب ذلك القبر ما لا يقدر عليه إلا الله سبحانه، فيصير في عداد المشركين.
’’اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ مردوں کے بارے میں اس اعتقاد کا سب سے بڑا سبب وہی چیزیں ہیں جنہیں شیطان نے لوگوں کے لیے مزین کر رکھا ہے جیسا کہ قبروں کو بلند کرنا، ان پر چادریں ڈالنا، ان کو پختہ بنانا، ان کو مبالغہ آمیزی کے ساتھ مزین کرنا، ان کو بہت زیادہ خوبصورت بنانا وغیرہ۔ کسی جاہل آدمی کی نظر جب کسی قبر پر پڑتی ہے جس قبہ پر بنا ہوا ہو تو وہ اس میں داخل ہوتا ہے اور اس پر جاذب نظر چادریں اور ٹمٹماتے چراغ دیکھتا ہے، خوشبو کے بھبھوکے اس کے ارد گرد اٹھ رہے ہوتے ہیں تو یقیناً اس کا دل اس قبر کی تعظیم سے معمور ہو جاتا ہے، اس کا ذہن اس میت کی قدر و منزلت کے تصور کو سمونے سے قاصر ہونے لگتا ہے اور اس کے دل و دماغ میں رعب اور دبدبہ گھر کر لیتا ہے۔ یوں اس کے دل میں وہ شیطانی عقائد پیدا ہوتے ہیں جو شیطان کی مسلمانوں کے لیے بنائی گئی چالوں میں سے سب سے بڑی چال ہیں اور جو بندوں کو گمراہ کرنے کے لیے شیطان کے پاس سب سے سخت حیلہ ہیں۔ یہ حیلے مسلمان کو آہستہ آہستہ اسلام سے دور کرتے جاتے ہیں یہاں تک کہ وہ صاحب قبر سے وہ چیزیں مانگنے لگتا ہے جن پر صرف اللہ تعالیٰ قادر ہے۔ اس طرح وہ شخص مشرک ہو جاتا ہے۔“ [شرح الصدور بتحريم رفع القبور، ص:17]

علامہ شوکانی رحمہ اللہ نے اس عبارت میں قبوریوں کے عقائد کا صحیح نقشہ کھینچا ہے۔

انہی عقائد کی نمائندگی کرتے ہوئے احمد یار خان نعیمی بریلوی صاحب لکھتے ہیں :

’’اولیاءاللہ اور ان کے مزارات شعائر اللہ ہیں اور شعائر اللہ یعنی اللہ کے دین کی نشانیوں کی تعظیم کرنے کا قرآنی حکم ہے : وَمَن يُعَظِّمْ شَعَائِرَ اللَّهِ فَإِنَّهَا مِن تَقْوَى الْقُلُوبِ اس تعظیم کی کوئی قید نہیں۔ ہر ملکے ہر رسمے، جس ملک میں اور جس زمانہ میں جو بھی جائز تعظیم مروج ہے وہ کرنا جائز ہے۔ ان کی قبروں پر پھول ڈالنا، چادریں چڑھانا، چراغاں کرنا سب میں ان کی تعظیم ہے لہٰذا جائز ہے۔ تر پھول میں چونکہ زندگی ہے، اس لیے وہ تسبیح و تہلیل کرتا ہے جس سے میت کو ثواب ہوتا ہے یا اس کے عذاب میں کمی ہوتی ہے۔ زائرین کو خوشبو حاصل ہوتی ہے لہٰذا یہ ہر مسلمان کی قبر پر ڈالنا جائز ہے۔ اگر مردے کو عذاب ہو رہا ہو تو اس کی تسبیح کی برکت سے کم ہو گا۔“ [جاء الحق : 297/1]

صالحین کی قبروں کو شعائر اللہ قرار دینا رافضیو ں کی روش لگتی ہے جو ’’مفتی“ صاحب کے ہاتھ لگ گئی ہے۔ اس پر قرآن و حدیث اور اجماعِ امت و فہم سلف سے کیا دلیل ہے ؟ اللہ تعالیٰ نے صالحین کی قبروں کی تعظیم کا کہاں حکم دیا ہے ؟ اہل بدعت صالحین کی قبروں کی تعظیم میں جو غلو کرتے ہیں، اس غلو آمیز تعظیم کو جناب ’’جائز تعظیم“ قرار دیتے ہیں۔ آخر کس دلیل کی بنا پر اس کو جائز قرار دیا جاتا ہے ؟ اگر کوئی دلیل ہوتی تو صحابہ کرام، محدثین عظام اور ائمہ سلف ضرور اس پر کاربند ہوتے۔ اہل سنت، اہل حق کے علماء میں سے ایک بھی اس کا قائل و فاعل نہیں کہ صالحین کی قبروں پرچادریں اور پھول چڑھانا جائز ہیں۔ یہ اہل بدعت کے گھر کی اختراع ہے جس میں وہ اہل سنت کے زبردست مخالف ہیں اور نصاریٰ کے حمایتی ہیں۔ کہتے ہیں کہ پھول میں زندگی ہے، وہ تسبیح و تہلیل کرتا ہے، لیکن ہم پوچھتے ہیں کہ اس میں پھول کی کیا خصوصیت ؟ ہر چیز جاندار ہو یا بے جان اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرتی ہے۔ اینٹیں، مٹی، گارا اور دوسری سب چیزیں بھی اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرتی ہیں لیکن اس تسبیح سے میت کو کیا فائدہ ؟ اس بارے میں بدعتی لوگوں کے پاس کیا دلیل ہے ؟ کیا اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول نے اس کی
تعلیم دی ہے ؟ اگر قبر کے پاس موجود پھولوں کی تسبیح سے مردے کو کوئی فائدہ ہوتا ہو تو پھر
ایک ایک باغ میں ایک ایک قبر ہونی چاہیے تاکہ پھولوں کی خوب تسبیح ہو اور مردے کو خوب
فائدہ پہنچے، حالانکہ ایسی کوئی بات نہیں۔ قبر والا اگر نیک ہو گا تو اس کی نیکی اس کے کام آ
جائے گی اور اگر قبر والا بدبخت ہوا تو باہر کے پھول اور باغات اس کے کسی کام نہیں آئیں
گے۔ یہ محض شیطانی وسوسے ہیں جو اہل بدعت کے دلوں میں گھر کر گئے ہیں۔ فرمانِ الٰہی ہے :
وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَـكِنْ لَا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ [17-الإسراء:44]
’’اور (مخلوقات میں سے) ایسی کوئی چیز نہیں جو اس کی تسبیح نہ کرتی ہو۔ ہاں یہ صحیح ہے
کہ تم اس کی تسبیح سمجھ نہیں سکتے۔“

ایک مقام پر ارشاد باری تعالیٰ ہے :
كُلٌّ قَدْ عَلِمَ صَلَاتَهُ وَتَسْبِيحَهُ [24-النور:41]
’’بلاشبہ ہرچیز کو اس کی نماز اور اس کی تسبیح معلوم ہے۔“

سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں :
ولقد كنا نسمع تسبيح الطعام وهو يؤكل
’’ہم کھانے کی تسبیح سن رہے ہوتے تھے جب وہ کھایا جا رہا ہوتا تھا۔“ [صحيح البخاري : ح : 3579]

جب کھانا بھی اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کرتا ہے تو بدعتی لوگوں کو کہہ دینا چاہیے کہ قبروں پر چادروں کی طرح روٹیاں بھی چڑھائیں، مرغ قورمہ اور بریانی کی پلیٹیں بھی قبر کے اوپر رکھی جانی چاہئیں۔ اس سے مرنے والے کو فائدہ ہو نہ ہو، اس کے عذاب میں کمی آئے یا نہ آئے، پیٹ پرستوں کی شکم سیری ضرور ہو جائے گی۔ اسی لیے تو ان کے حواری آج بھی مزاروں پر دیگیں، بکرے اور مرغے نذر و نیاز کے لیے لاتے ہیں، منتیں مانتے ہیں، کھانے پر فاتحہ پڑھ کر قبر کی نذر کرتے ہیں۔ یہ قبروں کی وہ ’’جائز تعظیم“ ہے جو مشرکین مکہ اپنے بتوں کی کیا کرتے تھے۔ یہ لوگ زندوں سے کہیں زیادہ مردوں کے ’’خیرخواہ“ ہیں۔ زندہ انسانوں کو یہ شرکیہ عقائد میں مبتلا کر کے گمراہ کرتے ہیں، ان کی آخرت تباہ و برباد کرتے ہیں، اعمالِ صالحہ کو ایمان سے خارج کر کے انہیں مرجی اور بدعمل بناتے ہیں لیکن مرنے والوں کی ’’جائز تعظیم“ شروع کر دیتے ہیں۔ حالانکہ اگر قبروں کی ایسی تعظیم کا کوئی دینی و شرعی فائدہ ہوتا تو صحابہ کرام، رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبرمبارک پر وہ پھول چڑھاتے، اتنی چادریں ڈالتے، اتنے چراغ روشن کرتے، اس کو اس قدر آراستہ کرتے، اسے اتنی خوشبو لگاتے اور اس پر اتنی مجاور ی کرتے کہ قیامت تک کے لیے ایک مثال قائم ہو جاتی لیکن اللہ کی قسم ! یہ سارے کام بدعات ہیں، ان کا دین کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔

بدعت کی ایک دلیل :

بعض لوگ ان بدعات کے ثبوت پر یہ دلیل پیش کرتے ہیں :
’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر دو قبروں سے ہوا، ان کو عذاب ہو رہا تھا، ان میں سے ایک اپنے پیشاب کی چھینٹوں سے اجتناب نہیں کرتا تھا اور دوسرا چغل خور تھا۔ ‏‏‏‏‏‏ ثم اخذ جريدة رطبة فشقها بنصفين، ‏‏‏‏‏‏ثم غرز في كل قبر واحدة، ‏‏‏‏‏‏فقالوا يا رسول الله:‏‏‏‏ لم صنعت هذا؟ فقال:‏‏‏‏ لعله ان يخفف عنهما ما لم ييبسا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک کھجور کی ایک تازہ ٹہنی لی، اسے دو حصوں میں تقسیم کیا، پھر ہر قبر پر ایک کو گاڑ دیا۔ صحابہ کرام نے عرض کی، اے اللہ کے رسول ! آپ نے ایساکیوں کیا ہے ؟ فرمایا، شاید کہ جب تک یہ دونوں خشک نہ ہوں، اللہ تعالیٰ ان دونوں کے عذاب میں تخفیف کر دے۔“ [صحيح بخاري : 182/1، ح : 1361، صحيح مسلم : 141/1، ح : 292]
حافظ نووی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :

استحب العلماء قراءة القرآن عند القبر لهذا الحديث ؛ لأنه إذا كان يرجى التخفيف بتسبيح الجريد فتلاوة القرآن أولى، والله أعلم
’’اس حدیث سے علمائے کرام نے قرآنِ کریم کی تلاوت کو مستحب سمجھا ہے، کیونکہ جب ٹہنی کی تسبیح کی وجہ سے عذاب میں تخفیف کی امید کی جاتی ہے تو قرآنِ کریم کی تلاوت بالاولیٰ ایسے ہو گی۔ واللہ اعلم !“ [شرح صحيح مسلم للنووي: 141/1]

تبصره:
اس حدیث سے قبروں پر پھول چڑھانے اور قرآن خوانی کرنے کے ثبوت پر استدلال جائز نہیں، کیونکہ خیرالقرون میں کوئی بھی اس کا قائل نہیں، نیز اس میں کہیں ذکر نہیں کہ عذاب میں تخفیف ان ٹہنیوں کی تسبیح کی وجہ سے ہوئی، لہٰذا یہ قیاس مع الفارق ہے، نیز یہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا خاصہ تھا۔ عذاب میں یہ تخفیف نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا و شفاعت کی وجہ سے ہوئی، جیسا کہ سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے ایک دوسری روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : إني مررت بقبرين يعذبان فاحببت بشفاعتي ان يرفه عنهما ما دام الغصنان رطبين ’’میں دو ایسی قبروں کے پاس سے گزرا، جن (کے مردوں) کو عذاب دیا جا رہا تھا۔ میں نے اپنی شفاعت کی وجہ سے چاہا کہ یہ عذاب ان سے ہلکا ہو جائے، جب تک دونوں ٹہنیاں تر رہیں۔“ [صحيح مسلم : ح : 7518]

ان دو مختلف واقعات میں علت ایک ہی ہے۔ اسی طرح ایک تیسرا واقعہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے۔ [صحيح ابن حبان: 824، وسنده حسن]

نیز دیکھیں : [مصنف ابن أبى شيبة : 376/3، مسند الإمام أحمد : 441/2، عذاب القبر للبيهقي :123، و سندهٔ حسن]

فائده : مورّق عجلی بیان کرتے ہیں :

اوصي بريدة الاسلمي ان توضع في قبره جريدتان، فكان مات بادني خراسان، فلم توجد الا في جوالق حمار .
’’ سیدنا بریدہ الاسلمی رضی اللہ عنہ نے وصیت کی تھی کہ ان کی قبر پر دو ٹہنیاں رکھی جائیں، آپ رضی اللہ عنہ خراسان کے علاقے میں فوت ہوئے، وہاں یہ ٹہنیاں صرف گدھوں کے چھٹوں میں ملیں۔“ [الطبقات لابن سعد:8/7، وسنده صحيح إن صح سماع مورّق عن بريدة]

بشرطِ صحت یہ سیدنا بریدہ رضی اللہ عنہ کی اپنی ذاتی رائے معلوم ہوتی ہے۔ انہوں نے قبر پر دو ٹہنیاں رکھنے کا حکم دیا تھا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح عذاب سے تخفیف کی غرض سے گاڑنے کا حکم نہیں دیا۔

سیدنا ابوبرزہ اسلمی رضی اللہ عنہ والی روایت [تاريخ بغداد : 183، 182/1]
’’ضعیف“ ہے۔
اس کے دو راویوں الشاہ بن عمار اور النضر بن المنزر بن ثعلبہ العبدی کے حالات نہیں مل سکے۔
دوسری بات یہ ہے کہ قتادہ ’’مدلس“ ہیں۔ ان کا سیدنا انس رضی اللہ عنہ کے علاوہ کسی صحابی سے سماع ثابت نہیں۔ [جامع التحصيل فى احكام المراسيل : 255]

رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تو دو گناہگار لوگوں کی قبروں پر کھجور کی ٹہنیاں گاڑی تھیں، ظاہر ہے کہ قبریں کچی تھیں، تب ہی ٹہنیاں ان پر گڑ گئیں اور یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کاخاصہ تھا لیکن بدعتی لوگ قبریں ہی پکی بناتے ہیں اور پھر ان پر پھول چڑھاتے ہیں۔ ہم اہل عقل و انصاف سے پوچھتے ہیں کہ اس حدیث کے کسی بھی لفظ سے اولیاء اللہ کی قبروں پر پھول چڑھانے کا جواز نکلتا؟ اگر اس بدعت کو مذکورہ حدیثی دلیل کی وجہ سے کیا جاتا تو چاہیے تھا کہ گناہگاروں کی قبروں پر پھول چڑھائے جاتے لیکن پہلے یہ بدعت ایجاد ہوئی، بعد میں اس کے دفاع کے لیے ایک حدیث کو کھینچ تان کر دلیل بنایا گیا، اسی لیے یہ تناقض لازم آیا۔

شارح بخاری علامہ بدر الدین عینی حنفی (762-855 ھ ) بھی لکھتے ہیں :
وكذلك ما يفعله اكثر الناس من وضع ما فيه رطوبة من الرياحين والبقول ونحوها علي القبور، ليس بشيء وانما السنة الغرز .
’’اسی طرح اکثر لوگ قبروں پر جو پھول اور سبزیوں وغیرہ جیسی تر چیزیں رکھتے ہیں، بے فائدہ اور بے بنیاد عمل ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ تو (ٹہنیوں کو) گاڑنے کا تھا۔“ [عمدة القاري للعيني : 121/3]

معلوم ہوا کہ قبروں پر پھول چڑھانا بےدلیل عمل ہے بلکہ یہ لغو اور عبث فعل ہے۔ اس کے حرام و ناجائز اور بدعت سیہ ہونے میں کوئی شبہ نہیں رہا۔

علامہ حمد بن محمد خطابی رحمہ اللہ (319-388 ھ) اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں :
فإنه من ناحية التبرك بأثر النبي صلى الله عليه وسلم ودعائه بالتخفيف عنهما، وكأنه صلى الله عليه وسلم جعل مدة بقاء النداوة فيهما حَدَّاً لما وقعت به المسألة من تخفيف العذاب عنهما، وليس ذلك من أجل أن في الجريد الرطب معنى ليس في اليابس، والعامة في كثير من البلدان تفرش الخوص في قبور موتاهم وأراهم ذهبوا إلى هذا، وليس لما تعاطوه من ذلك وجه .
’’ان دونوں شخصوں کو عذاب قبر میں تخفیف نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تاثیر و برکت اور دعا کی وجہ سے ہوئی۔ اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے عذاب کی تخفیف کی حد ٹہنیوں کے تر رہنے تک اس لیے بیان کی کہ آپ نے تخفیف کی دعا اتنے ہی عرصے کے بارے میں کی تھی، یہ حد اس لیے بیان نہیں کی گئی کہ تر ٹہنی میں کوئی تاثیر تھی جو خشک میں نہ تھی۔ بہت سے علاقوں میں عام لوگ اپنے مردوں کی قبروں میں کھجور و ناریل وغیرہ کے پتے بچھاتے ہیں، میرے خیال میں ان کے مدنظر یہی بات ہوتی ہے حالانکہ ان کے اس کام کا کوئی جواز نہیں۔“ [معالم السنن للخطابي : 27/1]

علامہ احمد شاکر رحمہ اللہ (1309-1377ھ) علامہ خطابی کی تائید میں فرماتے ہیں :
وصدق الخطابي، وقد ازداد العامة إصراراً على هذا العمل الذي لا أصل له، وغلوا فيه خصوصاً في بلاد مصر تقليداً للنصارى حتى صاروا يضعون الزهور على القبور، ويتهادونها بينهم فيضعها الناس على قبور أقاربهم ومعارفهم تحيةً لهم ومجاملةً للأحياء، وحتى صارت عادة شبيهة بالرسمية في المجاملات الدولية، فتجد الكبراء من المسلمين إذا نزلوا بلدةً من بلاد أوروبا ذهبوا إلى قبور عظمائها أو إلى قبر من يسمونه الجندي المجهول، وضعوا عليها الزهور، وبعضهم يضع الزهور الصناعية التي لا نداوة فيها تقليداً للإفرنج واتباعاً لسنن من قبلهم ولا ينكر ذلك عليهم العلماء أشباه العامة، بل تراهم أنفسهم يصنعون ذلك في قبور موتاهم، ولقد علمت أن أكثر الأوقاف التي تسمى أوقافاً خيريةً موقوفٌ ريعها على الخوص والريحان الذي يوضع في القبور، وكل هذه بدع ومنكرات لا أصل لها في الدين، ولا مستند لها من الكتاب والسنة، ويجب على أهل العلم أن ينكروها، وأن يبطلوا هذه العادات ما استطاعوا .
’’علامہ خطابی رحمہ اللہ نے بالکل سچ فرمایا ہے۔ عام لوگ عیسائیوں کی تقلید میں اس بے اصل عمل کے کرنے پر بہت زیادہ مصر ہو گئے ہیں اور اس بارے میں غلو کا شکار ہو چکے ہیں، خصوصاً مصر کے علاقے میں، حتی کہ وہ قبروں پر پھول رکھنے لگے اور ایک دوسرے کو تحفے دینے لگے، پھر لوگ ان پھولوں کو اپنے عزیز و اقارب کی قبروں پر تحفے کے طور پر اور زندوں سے حسن سلوک کے طور پر رکھنے لگے۔ یہاں تک کہ یہ طریقہ علاقائی رسوم و رواج کے مشابہ ہو گیا۔ آپ دیکھتے ہیں کہ مسلمان ملکوں کے سربراہ جب یورپ کے کسی علاقے میں جاتے ہیں تو ان کے عظیم لوگوں یا کسی نامعلوم فوجیوں کی قبروں پر جاتے ہیں اور ان پر پھول چڑھاتے ہیں اور بعض تو بناوٹی پھول بھی رکھتے ہیں جن میں کوئی خوشبو نہیں ہوتی۔ وہ لوگ یہ کام انگریزوں کی تقلید اور پہلی امتوں کے طریقے کی پیروی کرتے ہوئے کرتے ہیں۔ عام لوگوں کی طرح کے علماء بھی ان کو اس بات سے منع نہیں کرتے بلکہ آپ ان علماءکو دیکھیں گے کہ وہ خود اپنے مردوں کی قبروں پر ایسا کرتے ہیں۔ یہ بات بھی میرے علم میں ہے کہ اکثر اوقاف جنہیں فلاحی اوقاف کہا جاتا ہے، ان کی آمدنی قبروں پر پھول اور پتیاں چڑھانے کے لیے وقف ہے۔ یہ سارے کام بدعات و خرافات ہیں جن کی کتاب و سنت میں کوئی دلیل نہیں۔ اہل علم پر ان کا ردّ کرنا اور حسب استطاعت ان رسوم کو ختم کرنا واجب ہے۔“ [تعليق احمد شاكر على الترمذي: 103/1]

’’مفتی“ صاحب نے فتاویٰ شامی کے حوالے سے لکها ہے کہ اس حدیث سے قبروں کے اوپر گهاس وغیرہ رکهنے کا ندب (استحباب) ثابت ہوتا ہے۔ ان سے عرض ہے کہ علامہ ابن عابدین شامی خود زبردست قسم کے بدعتی تهے۔ ان کی بات اہل حق کے مقابلے میں پرکاہ کی بهی حیثیت نہیں رکهتی۔ اگر اس بات میں ان کے ساته پانچ سو بدعتی اور جاہل مزید بهی مل جائیں تو کچه فرق نہیں پڑے گا۔

جناب سرفراز خان صفدر حنفی دیوبندی حیاتی صاحب لکھتے ہیں :
’’رہا شامی وغیرہ کا یہ قول کہ قبور پرستور (چادریں وغیرہ) درست ہیں کیونکہ اس میں صاحب قبر کی تعظیم ہے وغیرہ وغیرہ تو قابل التفات نہیں، اس لیے کہ یہ غیرمجتہد کا قول ہونے کے علاوہ بلادلیل بھی ہے۔“ [راه سنت از صفدر، ص : 200]

جناب احمد یار خان نعیمی بریلوی صاحب (1324۔ 1391 ھ) لکھتے ہیں :
’’اولیاء اللہ کی قبروں پر چادریں ڈالنا جائز ہے کیونکہ اس کی وجہ سے عام زائرین کی نگاہ میں صاحب قبر کی عظمت ظاہر ہوتی ہے۔“ [جاء الحق از نعيمي : 299/1]

دلیل ہو تو ایسی ! جب تک یہ لوگ عام مسلمانوں کی قبروں سے اپنے بزعم خویش ’’اولیاء“ کی قبروں کو ممتاز نہ کریں، ان کے پیٹ کا مسئلہ حل نہیں ہوتا۔ ’’جائز تعظیم“ گھڑ کر دین میں بدعت جاری کر رہے ہیں۔ اگر اولیاء اللہ کی قبروں کی یہ تعظیم واقعی ضروری تھی تو شریعت نے اس طرف رہنمائی کیوں نہیں کی ؟ علمائے حق اس سے باز کیوں رہے ؟

اب ’’مفتی“ صاحب کی دلیل بھی ملاحظہ فرمائیں : ’’چادر کی اصل یہ ہے کہ حضور علیہ السلام کے زمانہ پاک میں کعبہ معظّمہ پر غلاف تھا، اس کو منع نہ فرمایا۔“ [جاء الحق از نعيمي : 299/1]

اسے کہتے ہیں ’’سوال گندم، جواب چنا“۔ بات قبروں پر چادریں چڑھانے کی ہو رہی ہے لیکن ’’مفتی“ صاحب نے دلیل کعبہ اللہ کے غلاف کی کر دی ہے۔ اگر کعبۃ اللہ کے غلاف کو دلیل بنانا ہے تو پھر ہر ایک قبر پر چادر چڑھنی چاہیے اور اگر اس سے ایسا کوئی جواز نکلتا ہوتا تو صحابہ کرام، تابعین عظام، تبع تابعین اور ائمہ دین ضرور اس سے استدلال کر کے قبروں پر چادریں چڑھانے کے قائل و فاعل ہوتے۔ غلاف کعبہ تو ثابت ہے جیسا کہ صحیح بخاری میں ہے۔ [صحيح البخاري : 613/1، ح4280]

اب چاہیے کہ قبروں پر چادریں چڑھانے کا ثبوت فراہم کیا جائے۔ شاید یہ لوگ اولیاء اللہ کی قبروں کو کعبہ ہی سمجھتے ہیں، تب ہی تو ان کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے ہیں، ان کا طواف کرتے ہیں اور ان پر غلاف وغیرہ بھی چڑھاتے ہیں۔

’’مفتی“ صاحب مزید لکھتے ہیں : ’’صدیوں سے حضور علیہ السلام کے روضہ پاک پر غلاف سبز ریشمی چڑھا ہوا ہے جو نہایت قیمتی ہے۔ آج تک کسی نے اس کو منع نہیں کیا۔ مقام ابراہیم یعنی وہ پتھر جس پر کھڑے ہو کر سیدنا خلیل نے کعبہ معظّمہ بنایا، اس پر بھی غلاف چڑھا ہوا ہے اور عمارت بنی ہوئی ہے۔ اللہ کی شان کہ نجدی وہابیوں نے بھی ان کو اسی طرح قائم رکھا۔ ان پر غلاف کیوں چڑھائے ؟ ان چیزوں کی عظمت کے لیے، احترامِ اولیاء کے لیے، ان کی قبور پر بھی غلاف وغیرہ ڈالنا مستحب ہے۔“ [جاء الحق از نعيمي : 299/1]

’’مفتی“ صاحب کی دلائل کی دنیا میں بے بسی ملاحظہ ہو کہ اب صریح دروغ گوئی پر اتر آئے ہیں۔ نہ قبر رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر کوئی غلاف ہے نہ مقامِ ابراہیم پر۔ جس بنیاد پر اولیاء اللہ کی قبروں پر چادریں چڑھانے کا جواز پیش کیا گیا، اس کا وجود تک نہیں ملتا۔

ثابت ہوا کہ قبروں پر چادریں اور پھول وغیرہ چڑھانا اہل بدعت کا کام ہے۔ اگر دلیل ہوتی تو سلف صالحین اور ائمہ دین بھی چڑھاتے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں حق کو سمجھ کر اس پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔

 

 

اس تحریر کو اب تک 35 بار پڑھا جا چکا ہے۔

Leave a Reply