رفع سبابہ، مقام کیفیت

تحریر: حافظ ابویحییٰ نور پوری حفظ اللہ

رفع سبّابہ کیا ہے ؟
انگوٹھے کے ساتھ والی انگلی [Forefinger/Indexfinger] کو عربی میں مُسَبِّحة (تسبیح کرنے والی) اور اردو میں انگشت شہادت (شہادت والی انگلی) بھی کہتے ہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرنے اور اس کی وحدانیت کی گواہی دینے کے وقت عام طور پر اس کا استعمال کیا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی تسبیح اور اس کی وحدانیت کی گواہی نیک لوگوں کا کام ہے۔ بدکردار لوگوں کو بھی اللہ تعالیٰ نے یہ انگلی عنایت کی ہے، لیکن وہ اسے تسبیح و شہادت کی بجائے ناحق گالی گلوچ کے لیے استعمال کرتے ہیں، اس لیے اسے عربی میں سَبَّابَة (گالی والی انگلی) بھی کہتے ہیں۔

رَفْع بھی عربی زبان ہی کا لفظ ہے۔ یہ مصدر ہے اور اس کا معنیٰ بلند کرنا ہوتا ہے۔
یوں رَفْع سَبَّابَة کا معنی ہوا شہادت والی انگلی کو اٹھانا۔ یہ تو ہوئی لغوی وضاحت۔
اور اصطلاحاً نماز میں تشہد کے دوران شہادت والی انگلی سے اشارہ کرنا رَفْع سَبَّابَة کہلاتا ہے۔

نماز کے دیگر بہت سے مسائل کی طرح اس مسئلہ میں بھی مختلف مکاتب فکر مختلف خیالات کے حامل ہیں۔ البتہ اہل حدیث کے نزدیک رفع سبابہ مستحب اور سنت ہے۔ ہمارے دلائل ملاحظہ فرمائیں:
➊ نافع مولیٰ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے:
كان عبد اللہ بن عمر إذا جلس فى الصلاة؛ وضع يديه علٰي ركبتيه، وأشار بإصبعه، وأتبعها بصره، ثم قال : قال رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم : ”لهي أشد على الشيطان من الحديد“، يعني السبابة
”سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما جب دوران نماز (تشہد میں) بیٹھے، تو ہاتھ گھٹنوں پر رکھتے اور اپنی (شہادت والی) انگلی کے ساتھ اشارہ فرماتے۔ اپنی نظر بھی اسی انگلی پر رکھتے۔ پھر فرماتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تھا : یہ شہادت والی انگلی شیطان پر لوہے سے بھی سخت پڑتی ہے۔“ [مسند الإمام أحمد : 119/2، وسندهٔ حسن]
↰ اس حدیث کا راوی کثیر بن زید اسلمی جمہور ائمہ حدیث کے نزدیک ”موثق، حسن الحدیث“ ہے۔

➋ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما ہی بیان کرتے ہیں :
إن النبى صلى اللہ عليه وسلم كان إذا جلس فى الصلاة وضع يديه علٰي ركبتيه، ورفع إصبعه اليمني التى تلي الإبهام، فدعا بها . . .
”نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز میں (تشہد کے لئے) بیٹھتے، تو اپنے دونوں ہاتھوں کو دونوں گھٹنوں پر رکھتے اور اپنے دائیں ہاتھ کی انگوٹھے سے متصل انگلی کی کو اٹھا لیتے اور اس کے ساتھ دعا کرتے۔ ‘‘ [صحيح مسلم 580]

تشھد میں دائیں ہاتھ کی کیفیات :
ہم پڑھ چکے ہیں کہ احادیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے شہادت والی انگلی کو اٹھانے اور اس کے ساتھ اشارہ یا دعا کرنے کا ذکر ہے۔ یہ اشارہ کیسے ہوتا تھا ؟ اس کے بارے میں بھی ہم احادیث نبویہ ہی سے رہنمائی لیتے ہیں۔ مذکورہ اور آئندہ تمام احادیث چونکہ رفع سبابہ کے بارے میں ہیں، اس لیے ہم انہیں ایک ہی ترتیب میں ذکر کریں گے، البتہ عنوانات بدلتے رہیں گے :

➌ سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہے:
كان رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم إذا قعد يدعو، وضع يده اليمنٰي علٰي فخذه اليمنٰي، ويده اليسرٰي علٰي فخذه اليسرٰي، وأشار بإصبعه السبابة، ووضع إبهامه علٰي إصبعه الوسطٰي
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب تشہد میں بیٹھتے، تو اپنے دائیں ہاتھ کو دائیں ران پر رکھتے اور بائیں ہاتھ کو بائیں ران پر۔ انگشت شہادت سے اشارہ فرماتے اور اس دوران اپنے انگوٹھےکو درمیان والی انگلی پر رکھتے۔“ [صحيح مسلم 13/579]

➍ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہے:
إن رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم كان إذا قعد فى التشهد وضع يده اليسرٰي علٰي ركبته اليسرٰي، ووضع يده اليمنٰي علٰي ركبته اليمنٰي، وعقد ثلاثة وخمسين، وأشار بالسبابة
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب تشہد میں بیٹھتے، تو اپنا دایاں ہاتھ دائیں گھٹنے پر رکھتے، جبکہ بائیاں ہاتھ بائیں گھٹے پر۔ نیز 53 کی گرہ بناتے اور سبابہ کے ساتھ اشارہ فرماتے۔“ [صحیح مسلم : 115/580]
↰ عرب لوگ انگلیوں کے ساتھ ایک خاص طریقے سے گنتی کرتے تھے۔ اس طریقے میں 53 کے ہندسے پر ہاتھ کی ایک خاص شکل بنتی تھی، جس میں انگوٹھے اور شہادت والی انگلی کے علاوہ باقی تینوں انگلیوں کو بند کرتے ہیں اور شہادت کی انگلی کو کھول کر انگوٹھے کے سِرے کو اس کی جڑ میں لگاتے ہیں۔

➎ سیدنا وائل بن حجر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
رأيت النبى صلى الله عليه وسلم قد حلق بالابهام والوسطى، ورفع التى تليهما، يدعو بها فى التشهد.
”میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ نے تشہد میں انگوٹھے اور درمیان والی انگلی کو ملا کر دائرہ بنایا ہوا تھا اور انگوٹھے کے ساتھ والی انگلی مبارک کو اٹھا کر اس کے ساتھ دعا فرما رہے تھے۔“ [سنن أبى داؤد : 957، سنن النسائي : 1266، سنن ابن ماجه :، 912 واللفظ لهٔ، وسندهٔ صحيح]
↰ معلوم ہوا کہ تشہد میں دائیں ہاتھ کے انگوٹھے کی کئی کیفیات رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہیں۔ یہ تمام صورتیں جائز ہیں، ان میں سے کوئی بھی اختیار کی جا سکتی ہے۔ البتہ ان سب احادیث میں شہادت والی انگلی کے ساتھ اشارے کا ذکر یکساں موجود ہے۔ ہم اس کی مزید تفصیل بھی احادیث کی رو سے ذکر کیے دیتے ہیں :

کیفیت اشارہ :
قارئین کرام احادیث ملاحظہ فرما لیں، ان کی روشنی میں اشارے کی کیفیت اور اس کے تمام مسائل نمبر وار درج کر دئیے جائیں گے :
➏ سیدنا عباس بن سہل سعدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
اجتمع أبو حميد، وأبو أسيد، وسهل بن سعد، ومحمد بن مسلمة، فذكروا صلاة رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم، فقال أبو حميد : أنا أعلمكم بصلاة رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم، إن رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم جلس، يعني للتشهد، فافترش رجله اليسرٰي، وأقبل بصدر اليمنٰي علٰي قبلته، ووضع كفه اليمنٰي علٰي ركبته اليمنٰي، وكفه اليسرٰي علٰي ركبته اليسرٰي، وأشار بأصبعه، يعني السبابة
”سیدنا ابوحمید، ابو اسید، سہل بن سعد اور محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہم ایک جگہ جمع ہوئے۔ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کے بارے میں بات چیت کی۔ سیدنا ابوحمید رضی اللہ عنہ کہنے لگے : میں تم سب سے بڑھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کے بارے میں جانتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب تشہد کے لئے بیٹھتے تو اپنے بائیں پاؤں کو بچھا لیتے اور دائیں پاؤں کے سامنے والے حصے کو قبلے کے رخ کھڑا کرتے۔ نیز اپنی دائیں ہتھیلی کو دائیں گھٹنے پر رکھتے جبکہ بائیں ہتھیلی کو بائیں گھٹنے پر اور اپنی سبابہ انگلی کے ساتھ اشارہ فرماتے۔“ [سنن الترمذي : 293، وسنده حسن]
اس حدیث کو امام ترمذی رحمہ اللہ نے ”حسن صحیح“ قرار دیا ہے۔

➐ سیدنا نمیر خزاعی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم واضعا يده اليمني على فخذه اليمنى فى الصلاة، يشير بأصيعه.
”میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں (تشہد کے دوران) اپنے دائیں ہاتھ کو دائیں ران پر رکھے ہوئے اپنی (شہادت والی) انگلی کے ساتھ اشارہ فرما رہے تھے۔“ [مسند الامام احمد : 471/3، سنن ابن ماجه : 911، سنن النسائي : 1272، و سندهٔ حسن]
↰ اس حدیث کا راوی مالک بن نمیر خزاعی ”حسن الحدیث“ ہے۔
امام ابن حبان رحمہ اللہ نے اسے [الثقات : 386/5] میں ذکر کیا ہے اور امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ [715] نے اس کی بیان کردہ حدیث کی ”تصحیح“ کر کے اس کے توثیق کی ہے۔

➑ علی بن عبدالرحمن معاوی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں :
رآني عبد اللہ بن عمر ـ وأنا أعبث بالحصٰي فى الصلاة ـ فلما انصرف؛ نهاني، فقال : اصنع كما كان رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم يصنع، فقلت : وكيف كان رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم يصنع؟ قال : كان إذا جلس فى الصلاة وضع كفه اليمنٰي علٰي فخذه اليمنٰي، وقبض أصابعه كلها، وأشار بإصبعه التى تلي الإبهام، ووضع كفه اليسرٰي علٰي فخذه اليسرٰي
”سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے مجھے نماز میں کنکریوں سے کھیلتے ہوئے دیکھا۔ جب میں نماز سے فارغ ہوا، تو انہوں نے مجھے اس کام سے منع کیا اور فرمایا : اسی طرح کرو، جس طرح رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کیا کرتے تھے۔ میں نے عرض کیا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کس طرح کیا کرتے تھے ؟ انہوں نے بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز میں (تشہد کے لئے) بیٹھتے، تو اپنی دائیں ہتھیلی دائیں ران پر رکھتے اور ساری انگلیوں کو بند کر کے انگشت شہادت کے ساتھ اشارہ فرماتے۔ نیز اپنی بائیں ہتھیلی کو بائیں ران پر رکھتے۔ ‘‘ [صحيح مسلم : 116/580]

➒ سیدنا نمیر خزاعی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم ـ وهو قاعد فى الصلاة ـ قد وضع ذراعه اليمنى على فخذه اليمنى، رافعا بأصبعه السبابة، قد حناها شيئا ـ وهو يدعوـ .
”میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز میں (تشہد کے لئے) بیٹھے ہوئے دیکھا۔ آپ نے اپنا دائیاں ہاتھ دائیں ران پر رکھا ہوا تھا اور سبابہ انگلی کو کچھ خم دے کر اٹھایا ہوا تھا۔ یوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم دعا کر رہے تھے۔“ [مسند الإمام أحمد : 471/3، سنن أبى داؤد : 991، سنن النسائي : 1272، وسنده حسن]
↰ اس حیث کو امام ابن خزیمہ [716] اور امام ابن حبان [1946] رحمہما اللہ نے ”صحیح“ قرار دیا ہے۔

➓ سیدنا عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کا بیان ہے :
كان رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم إذا جلس فى التشهد، وضع يده اليمنٰي علٰي فخذه اليمنٰي، ويده اليسرٰي علٰي فخذه اليسرٰي، وأشار بالسبابة، ولم يجاوز بصره إشارته
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب تشہد میں بیٹھتے، تو اپنے دائیں ہاتھ کو دائیں ران پر اور بائیں ہاتھ کو بائیں ران پر رکھتے۔ سبابہ انگلی کے ساتھ اشارہ فرماتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر اس اشارے سے آگے نہ جاتی تھی۔“ [مسند الإمام أحمد : 3/4، سنن أبى داؤد : 990، سنن النسائي : 1276، وسنده حسن]
↰ محمد بن عجلان اگرچہ ”مدلس“ ہیں، لیکن مسند احمد میں انہوں نے اپنے سماع کی تصریح کر رکھی ہے۔
نیز اس حدیث کی اصل صحیح مسلم [579] میں بھی موجود ہے۔
اس حدیث کو امام ابن خزیمہ [718] ، امام ابوعوانہ [2018] اور امام ابن حبان [1944] رحمہم اللہ نے ”صحیح“ قرار دیا ہے۔

⓫ سیدنا وائل بن حجر رضی اللہ عنہ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کے بارے میں اپنا مشاہدہ یوں بیان کرتے ہیں :
ثم قعد فافترش رجله اليسرى، فوضع كفه اليسرى على فخذه وركبته اليسرى، وجعل حد مرفقه الأيمن على فخذه اليمنى، ثم قبض بين أصابعه، فحلق حلقة، ثم رفع إصبعه فرايته يحركها، يدعو بها
”پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیٹھ کر اپنے بائیں پاؤں کو بچھا لیا، نیز اپنی بائیں ہتھیلی کو بائیں ران اور بائیں گھٹنے پر اور اپنی دائیں کہنی کے کنارے کو اپنی دائیں ران پر رکھا۔ پھر اپنی انگلیوں کو بند کر کے دائرہ بنایا، پھر اپنی (شہادت والی) انگلی کو اٹھا لیا۔ میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے حرکت دے کر اس کے ساتھ دعا کر رہے تھے۔ [مسند الإمام أحمد : 318/4، سنن النسائي : 890، 1269، وسنده صحيح]
↰ اس حدیث کو امام ابن جارود [208] ، امام ابن خزیمہ [714] اور امام ابن حبان [1860] رحہم اللہ نے ”صحیح“ قرار دیا ہے۔
◈ علامہ شمس الحق، عظیم آبادی رحمہ اللہ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں :
وفيه تحريكها ايضا
’’ اس حدیث سے شہادت کی انگلی کو حرکت دینا بھی ثابت ہوتا ہے۔“ [عون المعبود شرح سنن ابي داود : 374/1]

⓬ سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
كان رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم إذا قعد فى الصلاة؛ جعل قدمه اليسرٰي بين فخذه وساقه، وفرش قدمه اليمنٰي، ووضع يده اليسرٰي علٰي ركبته اليسرٰي، ووضع يده اليمنٰي علٰي فخذه اليمنٰي، وأشار بإصبعه
’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز میں (تشہد کے لیے ) بیٹھتے، تو اپنے بائیں پاؤں کو (دائیں ) ران اور پنڈلی کے درمیان میں رکھا، جبکہ بائیں پاؤں کو بچھا لیا۔ بائیں ہاتھ کو بائیں گھٹنے پر اور دائیں ہاتھ کو دائیں ران پر رکھا اور اپنی (شہادت والی ) انگلی کے ساتھ اشارہ کیا۔“ [صحيح مسلم : 112/579]

⓭ سیدنا وائل بن حجر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
ثم رفع إصبعه، فرأيته يحركها، يدعو بها
”پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی (شہادت والی) انگلی کو اٹھایا۔ میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے حرکت دے رہے تھے اور اس کے ساتھ دُعا کر رہے تھے۔“ [مسند الإمام أحمد : 318/4، سنن النسائي: 890، 1269، وسنده صحيح]
اس حدیث کو امام ابن جارود [208] ، امام ابن خزیمہ [714] اور امام ابن حبان [860] رحمها اللہ نے ’’ صحیح ‘‘ قرار دیا ہے۔

⓮ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے منقول ہے :
إنه كان يضع يده اليمنٰي علٰي ركبته اليمنٰي ويده اليسرٰي علٰي ركبته اليسرٰي، ويشير بإصبعه، ولا يحركها، ويقول : إنها مذبة الشيطان، ويقول : كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يفعله
’’ وہ اپنے دائیں ہاتھ کو دائیں گھٹنے پر اور بائیں ہاتھ کو بائیں گھٹنے پر رکھتے اور اپنی (شہادت والی) انگلی کے ساتھ اشارہ کرتے، لیکن حرکت نہیں دیتے تھے، نیز بیان کرتے تھے کہ یہ شیطان کو بھگاتی ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی ایسا ہی کیا کرتے تھے۔“ [الثقات لابن حبان : 448/1، العلل اللدارقطني : 2899، وسنده حسن]

⓯ نافع تابع رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں :
كان ابن عمر إذا صلٰي؛ وضع يديه علٰي ركبتيه، وقال بإصبعه السبابة، يمدها يشير بها، ولا يحركها، وقال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : ”هي مذعرة الشيطان“
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما جب نماز پڑھتے، تو اپنے دونوں ہاتھوں کو دونوں گھٹنوں پر رکھتے اور اپنی سبابہ انگلی کو کھڑا کر کے اس کے ساتھ اشارہ کرتے، لیکن اسے حرکت نہیں دیتے تھے، نیز فرماتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : یہ انگلی شیطان کو خوفزدہ کرتی ہے۔“ [ذيل تاريخ بغداد لابن النجار : 19/ 220، و سنده حسن]

↰ مذکورہ احادیث سے اشارے کی کیفیت یوں ثابت ہوتی ہے :
① اشارے کے لیے تشہد کا کوئی حصہ خاص نہیں، بلکہ تشہد میں بیٹھتے ہی اشارہ شروع کر دینا چاہیے، جیسا کہ مذکورہ تمام احادیث سے عموماً اور اکثر احادیث سے خصوصاً ثابت ہو رہا ہے، جن میں تشہد میں بیٹھتے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اشارہ کرنا مذکور ہے۔
لہٰذا لا إلٰه پر انگلی اٹھانا اور إلا الله پر گرا دینا بے بنیاد اور بے دلیل ہے۔
② اشارہ کرتے ہوئے انگلی کو تھوڑا سا خم دینا چاہیے، جیسا کہ حدیث نمبر ➒ سے معلوم ہو رہا ہے۔
③ تشہد میں نظر شہادت والی انگلی کے اشارے ہی پر ہونی چاہیے، جیسا کہ حدیث نمبر ➓ میں صراحت ہے۔

تحریکِ سبابہ !
④ تشہد والی انگلی کے ساتھ اشارہ کرتے وقت اسے حرکت دینی چاہیے یا نہیں ؟ یہ کافی اہم مسئلہ ہے۔ ہماری تحقیق کے مطابق حرکت دینا بھی درست ہے،
جیسا کہ حدیث نمبر ⓫ اور ⓭ سے ثابت ہے اور اگر حرکت نہ دی جائے، تو بھی جائز ہے، جیسا کہ حدیث ⓮ اور ⓯ میں مذکور ہے۔ یعنی یہ دونوں طریقے سنت سے ثابت ہیں، ان میں سے کوئی بھی طریقہ اختیار کیا جا سکتا ہے۔

◈ امام اندلس، حافظ ابن عبدالبر رحمہ اللہ (368۔ 463ھ) فرماتے ہیں :
إنهم اختلفوا فى تحريك أصبعه السبابة؛ فمنهم من رآي تحريكها، ومنهم من لم يره، وكل ذٰلك مروي فى الآثار الصحاح المسندة عن النبى عليه السلام، وجميعه مباح
”اہل علم کا سبّابہ انگلی کو حرکت دینے کے بارے میں اختلاف ہوا ہے۔ بعض کا خیال ہے کہ اسے حرکت دینی چاہیے اور بعض اسے حرکت دینے کے قائل نہیں۔ لیکن یہ دونوں طریقے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح اور متصل اسانید کے ساتھ ثابت ہیں، لہذا یہ دونوں طریقے جائز ہیں۔“ [الاستذكار : 478/1، تفسير القرطبي : 361/1]
↰ یہی موقف علامہ صنعانی رحمہ اللہ کا ہے۔ [سبل السلام شرح بلوغ المرام : 187/1-188]

◈ شارحِ جامع ترمذی، محدث مبارکپوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
والحق ما قال الرافعي ومحمد بن إسماعيل الـأمير
”حق بات وہی ہے جو رافعی اور محمد بن اسماعیل امیر (صنعانی) رحمہ اللہ نے فرمائی ہے۔“ [تحفته الاحوزي : 241/1 ط الهنديته]

اشاره سبابه اور احناف :
بعض احناف نے اس سنت رسول کو اپنی تقلید ناسدید کی بھینٹ چڑھاتے ہوئے یہ فتویٰ دیا ہے کہ تشہد میں شہادت کی انگلی کو حرکت نہیں دینی چاہیے، جیسا کہ :

احمد سرہندی حنفی (1034-971ھ) نے لکھا ہے :
’’ تو پھر ہم مقلدین کو مناسب نہیں کہ احادیث کے موافق عمل کر کے اشارہ کرنے میں جرأت کریں۔“ [مكتوبات : 718/1، مكتوب نمبر312]

اس فتوے کے بارے میں خود احناف کے تبصرے ملاحظہ فرمائیں ؛
➊ دارالعلوم دیوبند کے شیخ الحدیث، جناب حسین احمد مدنی کہتے ہیں :
اشارہ کی روایات بکثرت مروی ہیں اور وہ بھی بہت سے صحابہ کرام سے، حتی کہ ملا علی قاری (حنفی) اپنے رسالہ تزيين العبارة فى اثبات الاشارة میں کہتے ہیں کہ روایات اشارہ تواتر کے درجہ کو پہنچی ہوئی ہیں۔ تابعیں اور صحابہ کرام میں سے کسی سے بھی ترک اشارہ منقول نہیں ہے۔ البتہ منع اشارہ متاخرین احناف سے منقول ہے۔ جن میں زیادہ غالی صاحب خلاصہ کیدانی معلوم ہوتے ہیں، جو اشاره فى الصلاة کو بالکل حرام کہتے ہیں۔ [خلاصة كيداني، ص : 15، 16] جس پر ملا علی قاری (حنفی) نے فرمایا کہ اگر حسن ظن نہ ہوتا، تو صاحب خلاصہ کیدانی کو کافر کہہ دیتا، کیونکہ وہ ایک سنت کو حرام قرار دے رہے ہیں۔ ملامانکی تو اس سے بھی بڑھ گئے کہ وہ اشارہ کرنے والے کی انگلی کٹوا دیتے تھے، حالانکہ یہ طریقہ غلط تھا، کیونکہ روایات بکثرت اشاره فى الصلاة پر دلالت کرتی ہیں۔ ترک اشارہ کی کوئی روایت، کوئی قول صحابی اور تابعی فقیہ کا منقول نہیں۔“ [تقرير ترمذي، ص : 433، 434]

➋ جناب تقی عثمانی حیاتی دیوبندی صاحب لکھتے ہیں :
”بعض متاخرین (حنفیہ) نے اشارہ بالسبابہ کو غیر مسنون قرار دے دیا، بلکہ خلاصہ کیدانی میں اسے بدعت قرار دے دیا گیا۔ اور بعض حضرات نے تو انتہائی تشدد اور غلو سے کام لیا اور اس مسئلہ پر بحث کرتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا : مارا قول ابوحنيفه بايد، قول رسول صلى الله عليه وسلم كافي نيست (ہمارے لیے امام ابوحنیفہ کا قول دلیل ہے، رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کا فرمان کافی نہیں۔ العیاذ باللہ)۔ ‘‘ [تقریر ترمذی : 62/2]

قارئین کرام تعصب سے بالا تر ہو کر فیصلہ کریں کہ کیا تقلید انسان کو وحی الٰہی سے دُور نہیں کرتی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت پر نہیں اکساتی، انکار حدیث پر آمادہ نہیں کرتی اور سلف صالحین کا دشمن بنا کر نفس پرستی میں مبتلا نہیں کرتی ؟
ایسے لوگوں کی جرأت اور بے باکی پر حیرانی ہوتی ہے کہ یہ ’’ خدمت اسلام“ کے نام پر کس ڈھٹائی سے سنتوں کا انکار کر دیتے ہیں !

الحاصل :
تشہد کے لیے بیٹھتے ہی دائیں ہاتھ کی شہادت والی انگلی کو اٹھانا اور تشہد کے اختتام تک اسے اٹھائے رکھنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیاری سنت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے تشہد کے دوران انگلی کو حرکت دینا اور ساکن رکھنا، دونوں صورتیں ثابت ہیں۔
جن لوگوں نے رفع سبابہ والی پیاری سنت کا انکار کرتے ہوئے اسے بدعت تک کہہ دیا، انہیں اپنے ایمان کی فکر کرنی چاہیے۔
دُعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کے انکار سے بچائے اور ان پر دل و جان سے عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمين!

 

یہ تحریر اب تک 80 لوگ پڑھ چکے ہیں، جبکہ صرف آج 1 لوگوں نے یہ تحریر پڑھی۔

This Post Has One Comment

  1. Muhammad Adrees

    السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
    ماشاءاللہ بہت خوب اللہ تعالیٰ شیخ محترم کے علم و عمل اور زندگی میں مزید برکتیں نازل فرمائے آمین
    ایک بات کی طرف اشارہ کرنا تھا کہ اس کو کاپی کرنے کا آپشن بھی اگر رکھ دیا جائے جس کے ذریعے ایک کلک سے کاپی ہو جائے تو زیادہ بہتر ہوگا ۔جزاک اللہ

Leave a Reply