مرد کے لئے کانوں کو چھیدوا کر بالیاں وغیرہ ڈالنا شرعاً کیسا ہے

سوال : مرد کے لئے کانوں کو چھیدوا کر بالیاں وغیرہ ڈالنا شرعاً کیسا ہے ؟ جواب : بچے یا مرد کے لئے کانوں کو چھیدوانا اور ان میں بالیاں وغیرہ ڈالنا شرعاً جا ئز نہیں ہے، کیونکہ یہ عورتوں کے ساتھ مشابہت ہے، جو کہ حرام ہے۔ ◈ حافظ ابن قیم رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ” بچے کے کان کو چھید کرانے میں نہ کوئی دنیاوی مصلحت ہے، نہ ہی دینی۔ صرف اس کے اعضاء میں سے ایک عضو کو کاٹنا ہے، جو کہ جائز نہیں۔ “ [ تحفة المو دود باحكام المولود : 143 ] ◈ ابن الخاس لکھتے ہیں : و ذلك بدعة يجب ا نكارها والمنع منها ”بچے کے کان کو چھیدنا بدعت ہے، اس کا انکار کرنا اور اس سے منع کرنا واجب ہے۔ “ فائدہ : سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے،…

Continue Readingمرد کے لئے کانوں کو چھیدوا کر بالیاں وغیرہ ڈالنا شرعاً کیسا ہے

کیا کسی صحابی سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم  کا پیشاب پینا ثابت ہے ؟

تحریر : غلام مصطفٰے ظہیر امن پوری حفظ اللہ اُمِ ایمن رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک رات نبی اکرم صلّی اللہ علیہ و سلّم مٹی کے برتن کے پاس اُٹھ کر تشریف لائے اور اس میں پیشاب کیا۔ اسی رات میں اُٹھی اور مجھے پیاس لگی ہوئی تھی۔ میں نے جو اس میں تھا، پی لیا۔ جب صبح ہوئی تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس واقعہ کی خبر دی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اما ا نك لا يتجعن بطنك أبدا . ” خبردار ! بے شک آپ آج کے بعد کبھی اپنے پیٹ میں بیماری نہ پاؤ گی۔ “ [ المستدارك على الصحيحين للحاكم : 64، 63/4، حلية الاوليائ لا بي نعيم الاصبهاني : 68/2، الائل النبوة لا بي نعيم الاصبهاني 381، 380/2، المعجم الكبير للطبراني : 90، 89/25، التلخيص…

Continue Readingکیا کسی صحابی سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم  کا پیشاب پینا ثابت ہے ؟

بدعات کے رد پر کتاب و سنت اور علماء اسلام کی تعلیمات

تحریر : غلام مصطفٰی ظہیر امن پوری ✿ فرمان باری تعالیٰ ہے : الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا [5-المائدة:3] ”آج کے دن میں نے تمہارے لیے تمہارے دین کو مکمل کر دیا ہے اور تم پر اپنی نعمت کو مکمل کر دیا ہے اور تمہارے لیے اسلام کو دین کے طور پر پسند کیا ہے۔“ ↰ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالی نے تنصیصاً و تعلیلاً دین اسلام کی تکمیل کی خوشخبری سنائی ہے۔ ◈ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ (774-701ھ) لکھتے ہیں : هذه أكبر نعم الله عزوجل على هذه الأمة حيث أكمل تعالي لهم دينهم، فلاتحتاجون إلي دين غيره، و لا إلي نبي غير نبيهم صلوات الله و سلامه عليه، ولهذا جعله الله تعالىٰ خاتم الأنبياء و بعثه إلي الإنس والجن، فلا حلال و لا إلا ما أحله، ولا إلا حرمه، ولادين إلا ما شرعه…

Continue Readingبدعات کے رد پر کتاب و سنت اور علماء اسلام کی تعلیمات

حسین بن منصور الحلاج کے بارے میں علمائے اہلسنت کا موقف

تحریر:   غلام مصطفے ظہیر امن پوری

مشہور گمراہ صوفی حسین بن منصور الحلاج م (٣٠٩ھ) زندیق اور  حلولی تھا ۔ اس کے کفر و الحاد پر علمائے حق کا اجماع و اتفاق ہے۔ اس کا بنیادی عقیدہ یہ تھا کہ اللہ تعالی ہر چیز میں حلول کر گئے ہیں۔ یہ عقیدہ وحدت الوجود کا بانی تھا ۔اس کے کفر و الحاد کی وجہ سے علماء نے اس کا خون جائز قرار دیا تھا اور اسے قتل کر دیا گیاتھا۔

ائمہ اہل سنت میں سے کوئی بھی شخص اسے اچھا نہیں سمجھتا تھا ، گمراہ صوفی اس کے پکے حمائتی ہیں، اس کے باوجود وہ اپنے تئیں اہل سنت کہتے نہیں تھکتے۔ حافظ ابنِ حجر رحمہ اللہ (٧٧٣/٨٥٢ھ ) اس کے بارے میں لکھتے ہیں:

[arabic-font]

        ولا أری نیتعصّب للحلاج اِلّا من قال بقولہ الّذی ذ کر أنّہ عیّن الجمع ، فھذا ھو القول أھل الواحدۃ المطلقۃ ، و لھذا تری ابن عربّی صاحب ” الفصوص” یعظّمہ و یقع فی الجنید ۔۔۔۔۔       “

[/arabic-font]

میں حلاج کے حق میں اسی شخص کو تعصب رکھتے دیکھتا ہوں، جو اسی کے قول کا قائل ہے ،جو اس سے ذکر کیا گیا ہے کہ اس نے ( خالق و مخلوق کے درمیان) جمع کو لازم کیا تھا۔ یہی وحد تِ مطلقہ (وحد ت الوجود  ) والوں کا عقیدہ ہے۔ اسی لئے آپ الفصوص نامی کتاب کے مصنف ابن عربی کو دیکھیں گے کہ وہ اس کی تعظیم کرتا ہے اور جنید کی گستاخی کرتا ہے۔۔۔۔۔”  

  (  لسان المیزان لابن حجر ؛ ٢/ ٣١٥)

حافظ ا بن الجوزی رحمہ اللہ (٥٠٨-٥٩٧ھ ) لکھتے ہیں:

[arabic-font]

اتّفق علماء العصر علی اِباحۃ دم الحلّاج   “ (more…)

Continue Readingحسین بن منصور الحلاج کے بارے میں علمائے اہلسنت کا موقف

امام ابو حنیفہ، امام یحییٰ بن معین کی نظر میں

تحریر: غلام مصطفیٰ ظہیر امن پوری امام الجرح والتعدیل یحیٰی بن معین رحمہ الله (233-158ھ) سے ابوحنیفہ (150-180ھ )کے متعلق جو اقوال وارد ہوئے ہیں، ان پر تبصرہ پیش خدمت ہے : ➊ احمد بن صلت حمانی کہتے ہیں کہ جب ابوحنیفہ کے بارے میں امام یحیٰی بن معین سے پوچھا گیا کہ وہ حدیث میں ثقہ تھے تو آپ نے کہا: نعم، ثقة، ثقة، كان والله أورع من أن يكذب، وهوأجل قدرامن ذلك . ” ہاں، وہ ثقہ ہیں، وہ ثقہ ہیں۔ وہ جھوٹ بولنے سے بری تھے، ان کی شان اس (جھوٹاہونا )سے بلند تھی۔ “ [تاريخ بغداد للخطيب : 450-449/13 ] تبصرہ : یہ قول موضوع (من گھڑت) ہے۔ یہ احمد بن صلت کی کارستانی ہے، جو بالاجماع جھوٹا اور وضاع (من گھڑت روایات بیان کرنے والا) تھا۔ اس کے بارے میں : ◈ امام دارقطنی رحمہ اللہ فرماتے ہیں…

Continue Readingامام ابو حنیفہ، امام یحییٰ بن معین کی نظر میں

اتباع رسول پر کتاب و سنت اور سلف کی تعلیمات

تحریر : غلام مصطفیٰ ظہیر امن پوری ہم پر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی فرض ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و افعال اللہ کا دین ہیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے یوں فرمایا : انّي قد تركت فيكم ما إن اعتصمتم به فلن يضلّوا ا أبدا : كتاب اللّه و سنّة نبيّه. ”یقیناً میں نے تم میں ایسی چیزیں چھوڑ دی ہیں کہ اگر تم ان کو تھام لو گے تو کبھی گمراہ نہ ہو گے، ایک اللہ کی کتاب اور دوسرے اس کے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت۔“ [المستدرك على الصحيحين الحاكم : 93/1، وسنده حسن] ↰ اس کا راوی عبداللہ بن اویس بن مالک جمہور کے نزدیک ”حسن الحدیث“ ہے۔ ◈ حافظ نووی رحمہ اللہ اس بارے میں لکھتے ہیں :…

Continue Readingاتباع رسول پر کتاب و سنت اور سلف کی تعلیمات

حائضہ اور تلاوت قرآن

تحریر: غلام مصطفٰے ظہیر امن پوری

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا بیان کرتی ہیں: ‘‘نبی کریمﷺ میری گود میں ٹیک لگا کر (سر رکھ کر) قرآن کی تلاوت کرتے، حالانکہ میں حائضہ ہوتی۔

(صحیح بخاری: ۲۹۷، صحیح مسلم: ۳۰۱)

اس حدیث کے تحت حافظ ابن حجر رحمہ اللہ ، حافظ ابن دقیق العید رحمہ اللہ سے نقل کرتے ہیں:

‘‘اس سے اشارہ ملتا ہے کہ حائضہ قرآن نہیں پڑھ سکتی، کیونکہ اگر اس کا بذات خود قرآن پڑھنا جائز ہوتا تو اس کی گود میں قرآت کی ممانعت کا وہم نہ ہوتا کہ اس پر مستقل نص کی ضرورت محسوس ہوتی۔ (فتح الباری: ٤۰۲/۱)

یعنی اگر حائضہ خود قرآن پڑھ سکتی ہوتی تو یہ بیان کرنے کی ضرورت ہی نہ تھی کہ اس کی گود میں سر رکھ کر قرآن پڑھا جا سکتا ہے، کیونکہ پھر تو وہ بالاولیٰ ثابت ہوجاتا۔ کسی صحابی یا تابعی سے حائضہ کےلیے تلاوت قرآن کی اجازت ثابت نہیں ہے، بلکہ اس کے خلاف ثابت ہے۔ (more…)

Continue Readingحائضہ اور تلاوت قرآن

حائضہ کو دی گئی طلاق واقع ہو جاتی ہے!

تحریر: غلام مصطفے امن پوری

حائضہ کو دی گئی طلاق واقع ہوجاتی ہے، جیسا کہ نافع ؒ بیان کرتے ہیں کہ سیدنا عبداللہ بن عمرؓ نے اپنی بیوی کو حالت حیض میں طلاق دے دی، سیدنا عمرؓ نے نبی اکرمﷺ سے اس بارے میں پوچھا تو آپﷺ نے فرمایا:

[arabic-font]

مرہ فلیراجعھا، ثم لیطلقھا أو حاملا۔

[/arabic-font] (more…)

Continue Readingحائضہ کو دی گئی طلاق واقع ہو جاتی ہے!

کیا امام کی نماز فاسد ہونے سے مقتدی کی نماز فاسد ہوجاتی ہے؟

سوال:کیا امام کی نماز فاسد ہونے سے مقتدی کی نماز فاسد ہوجاتی ہے؟

جواب: اگرامام بے وضو یا جنبی ہو یا اس کے کپڑوں پر نجاست لگی ہو اور اس طرح وہ نماز پڑھا دے تو مقتدیوں کی نماز بالکل صحیح اور بالکل درست ہے، البتہ امام کے لیے نماز دوہرانا ضروری ہے، جیسا کہ

دلیل نمبر۱:

سیدنا ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا:

[arabic-font]

یصلّون لکم ، فان ا صابوا فلکم ولھم، وان أخطؤوافلکم وعلیھم 
[/arabic-font]

(more…)

Continue Readingکیا امام کی نماز فاسد ہونے سے مقتدی کی نماز فاسد ہوجاتی ہے؟

دعا ہو تو ایسی….

رسول اللہﷺ کے پاس ایک مہمان آیا،آپﷺ نے اپنی تمام ازواج مطہرات کی طرف کھانے کے لیے پیغام بھیجا، لیکن کسی کے پاس کھانے کے لیے کچھ نہ تھا، اس پر آپﷺ نے یہ دعا کی: [arabic-font] اللھم انی اسلک من فضلک و رحمتک، انہ لا یملکھما الا انت۔  [/arabic-font] ‘‘اے اللہ !میں تجھ سے تیرے فضل اور تیری رحمت کا سوالی ہوں، ان دونوں کا مالک توہی ہے۔’’ دعاکرنے کی دیر تھی ایک بھنی ہوی بکری آپﷺ کو تحفہ میں بھیج دی گی،آپ ﷺ نے فرمایا، یہ اللہ کا فضل ہے، رحمت کے ابھی ہم منتظر ہیں۔ المعجم الکبیر للطبرانی:۱۷۸/۱۰، وسندہ صحیح

Continue Readingدعا ہو تو ایسی….

سند دین ہے!

تحریر: حافظ ابو یحییٰ نورپوری

سند دین ہے، دین اسلام کا دارومدار اور انحصار سند پرہے۔ سند ہی حدیث رسولﷺ تک پہنچنے کا واحد طریقہ ہے، نیز سند احکام شرعی کی معرفت کا واحد ذریعہ ہے۔ سند امت محمدیہ ﷺ کا خاصہ ہے، اہلحدیث اس کے وارث اور محافظ ہیں۔

اہل باطل ہمیشہ سند سے دور رہے ہیں ، ان کی کتابیں اس سے خالی ہیں۔ ان سے سند کا مطالبہ بجلی بن کر گرتا ہے۔ لہذا جب بھی کوئی بدعتی اور ملحد آپ کو کوئی روایت پیش کرے تو آپ فوراً اس سے معتبر کتب حدیث سے سند ، نیز راویوں کی تو ثیق ، اتصال سند، تدلیس اور اختلاط سے سند کے خالی ہونے کا مطالبہ کریں۔ وہ فَبُھِتَ الَّذِی کَفَرَ کا صحیح مصداق بن جاے گا۔

سند اور محدثین

امام یزید زریعؒ (م ۱۸۲ھ)فرماتے ہیں۔

[arabic-font]

لکل دین فرسان و فرسان ھذا الدین اصاب الا سانید۔ 

[/arabic-font]

‘‘ ہر دین کے شہسوار ہوتے ہیں اور اس دین کے شہسوار سندوں والے لوگ ہیں۔’’

(المدخل للحاکم:۱۲ شرف اصحاب الحدیث ۸۲وسندہ حسن)

اس قول کی تشریح کرتے ہوے امام ابن حبانؒ (م ۳۵۴ ھ) لکھتے ہیں۔

[arabic-font] (more…)

Continue Readingسند دین ہے!

کیا نماز کے دوران سلام کا جواب دینا جائز ہے؟

              تحریر: غلام مُصطفٰے ظہیر امن پوری

نمازی کو سلام کہنا جائز اور صحیح ہے، حالت نماز میں سلام کا جواب کلام کر کے نہیں،بلکہ اشارے کے ساتھ دینا سنت ہے،کلام کر کے سلام کا جواب لوٹانا منسوخ ہے۔

دلیل نمبر ۱:

[arabic-font]

عن جابر،قال: ارسلنی رسول اللہ صلٰی اللہ علیہ وسلم ،و ھو منطلق الٰی بنی المصطلق ،فأتیتہ و ہو یصلٰی علی بعیرہ، فکلًمتہ ،فقال لی بیدہ ھکذا ،و أومأ زھیر أیضابیدہ نحو الارض ،و أ نا اسمعہ یقرأ ،یؤمیٔ براسہ،فلمّا فرغ  قال: ما فعلت فی الّذی أرسلتک لہ، فانّہ لم یمنعی أن أکلّمک الا أنّی کنت أصلّی ۔  

[/arabic-font]

سیدنا جابر بن عبداللہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے بنی مصطلق کی طرف بھیجا،میں آپ ﷺ کے پاس آیا، آپﷺ اونٹ پر (نفلی) نماز پڑھ رہے تھے،میں نے آپ پر سلام کہا ،آپ ﷺ نے ہاتھ کے اشارے سے جواب لوٹایا۔( زہیر راوی نے ہاتھ سے اشارہ کر کے دکھایا) میں نے پھر آپ ﷺ کو سلام کہا،آپ ﷺ نے پھر ہاتھ کے اشارے سے جواب دیا ( ظہیر نے اپنا ہاتھ زمین کی طرف جھکایا)، میں آپﷺ کی قرأت سن رہا تھا۔آپ ﷺ اپنے سر کے ساتھ اشارہ فرما رہے تھے۔جب آپ ﷺ فارغ ہوئے تو فرمایا، میں نے تجھے جس کام کیلئے بھیجا تھا،اس بارے میں کیا کیا؟ مجھے کلام کرنے سے صرف یہ بات روک رہی تھی،کہ میں نماز پڑھ رھا تھا۔

(صحیح بخاری:۱۲۱٧ ،صحیح مسلم : ۵٤۰واللفظ لہ)

(more…)

Continue Readingکیا نماز کے دوران سلام کا جواب دینا جائز ہے؟

خلیفہ بلا فصل کون؟ حدیثِ سفینہ کی وضاحت

تحریر: غلام مصطفے ظہیر امن پوری

[arabic-font]

وَعَدَ اللَّـهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَعَمِلُوا الصَّلِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَىٰ لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُم مِّن بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا ۚ۔ يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا ۚ وَمَن كَفَرَ بَعْدَ ذَٰلِكَ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ  

[/arabic-font]

(النور:٢٤/٥٥)

”اللہ تعالی نے تم میں سے ایمان لانے والوں اور نیک عمل کرنے والوں سے وعدہ کیا ہے کہ وہ ان کو ضرور زمین میں خلافت عطا کرے گا، جیساکہ اس نے ان لوگوں کو خلافت عطا کی تھی، جو ان سے پہلے تھے اور وہ ان کے لئے ضرور ان کے اس دین کو طاقت دے گا، جس کو اس نے ان کے لئے پسند کیا ہے اور وہ ضرور ان کے خوف کے بعد امن لائے گا، وہ میری عبادت کریں گے، میرے ساتھ کسی کو شریک نہیں کریں گے۔۔۔

امام عبدالرحمن بن عبدالحمید المہریؒ (م۲۹۱ھ)فرماتے ہیں:

[arabic-font]

أری ولا یۃ أبی بکر و عمر رضی اللہ عنھما فی کتاب اللہ و عزّو جلّ،یقول اللہ:( وَعَدَ اللَّـهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَعَمِلُوا الصَّلِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ۔۔۔۔)

[/arabic-font]

(النور:٢٤/٥٥)

میں سید نا ابوبکر اور سید نا عمر کی خلافت کو قرآن کریم میں دیکھ رہا ہوں ، اللہ تعالی فرماتے ہیں: (more…)

Continue Readingخلیفہ بلا فصل کون؟ حدیثِ سفینہ کی وضاحت

کیا رسول اللہ ﷺ پر جادو ہوا تھا ؟

             تحریر: غلام مصطفےٰ ظہیر امن پوری

نبی اکرم ﷺ پر جادو ہوا تھا ، جیسا کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے :

[arabic-font]

                سحر رسول اللہ ﷺ رجل من بنی زریق یقال لہ: لبید بن الأعصم، حتی کان رسول اللہ ﷺ یخیل الیہ أنہ یفعل الشیء وما فعلہ، حتی اذا کان ذات یوم أو ذات لیلۃ، وھو عندی، لکنہ دعا و دعا، ثم قال: یا عائشۃ! أشعرت أن اللہ أفتانی فیما استفتیتہ فیہ، أتانی رجلان فقعد أحدھما عند رأسی والآخر عند رجلی، فقال أحدھما لصاحبہ: ما وجع الرجل، فقال: مطبوب، قال: من طبہ؟ قال: لبید بن الأعصم، قال: فی أی شیء؟ قال: فی مشط و مشاطۃ وجف طلع نخلۃ ذکر، قال: وأین ھو؟ قال: فی بئر ذروان، فأتاھا رسول اللہ ﷺ فی ناس من أصحابہ، فجاء، فقال: یا عائشۃ! کأن ماء ھا نقاعۃ الحناء، أو کأن رؤوس نخلھا رؤوس الشیاطین، قلت: یا رسول اللہ! أفلا استخرجہ؟ قال: قد عافانی اللہ، فکرھت أن أثور علی الناس فیہ شرا، فأمربھا، فدفنت. 

[/arabic-font]

                “بنو زریق کے لبید بن الاعصم نامی ایک آدمی نے اللہ کے رسول ﷺ پر جادو کردیا، آپکو خیال ہوتا تھا کہ آپ کسی کام کو کررہے ہیں، حالانکہ کیا نہ ہوتا تھا، حتی کہ ایک دن یا ایک رات جب کہ آپ  ﷺ میرے پاس تھے ، آپ نے بار بار دعا کی ، پھر فرمایا ، اے عائشہ! کیا تجھے معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے وہ بات بتا دی ہے ، جو میں اس سے پوچھ رہا تھا؟ میرے پاس دو آدمی آئے، ایک میرے سر کے پاس اور دوسرا میرے پاؤں کے پاس بیٹھ گیا، ان میں سے ایک نے اپنے دوسرے ساتھی سے پوچھا، اس آدمی کو کیا تکلیف ہے ؟ اس نے کہا ، اس پر جادو کیا گیا ہے ، اس نے کہا ، کس نے کیا ہے ؟، اس نے کہا ، لبید بن اعصم نے، اس نے کہا ، کس چیز میں ؟ ، کہا، کنگھی ، بالو ں اور نَر کھجور کے شگوفے میں، اس نے کہا ، وہ کہا ں ہے ، کہا ، بئر ذروان میں ، آپ ﷺ کچھ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ساتھ وہاں گئے ، پھر واپس آئے اور فرمایا ، اے عائشہ ! اس کنویں کا پانی گویا کہ مہندی ملا ہواتھا اور اس کی کھجوریں گویا شیطانوں کے سر تھے ، (سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں) میں نے کہا ، کیا آپ نے اسے نکالا ہے ،فرمایا، نہیں،  مجھے تو اللہ تعالیٰ نے عافیت و شفا دے دی ہے ، میں اس بات سے ڈر گیا کہ اس کا شر لوگوں میں اٹھاؤں۔” 

          (صحیح بخاری: ۸۵۸/۲، ح: ۵۷۶۶، صحیح مسلم : ۲۲۱/۲، ح: ۲۱۸۹)

                یہ متفق علیہ حدیث دلیل قاطع اور برہانِ عظیم ہے کہ رسول اللہ ﷺ پر جادو ہواتھا، واضح رہے کہ جادو ایک مرض ہے ، دیگر امراض کی طرح یہ بھی انبیاء کو لاحق ہوسکتا تھا، قرآن و حدیث میں کہیں یہ ذکر نہیں  ہے کہ انبیاء علیہم السلام پر جادو نہیں ہوسکتا۔ (more…)

Continue Readingکیا رسول اللہ ﷺ پر جادو ہوا تھا ؟

End of content

No more pages to load