ازواج مطہرات پر درود احادیث کی روشنی میں

 

تحریر: غلام مصطفےٰ ظہیر امن پوری

* سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی براءت والے قصہ میں مذکور ہے کہ نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:
يا معشر المسلمين، من يعذرني من رجل قد بلغني أذاه فى أهل بيتي، فوالله ما علمت على أهلي إلا خيرًا.
”اے مسلمانوں کی جماعت! کون اس شخص سے میرا بدلہ لے گا جس کی طرف سے میرے اہل بیت کے بارے میں مجھے تکلیف پہنچی ہے؟ اللہ کی قسم! میں اپنے گھر والوں کے بارے میں بھلائی کے علاوہ کچھ نہیں جانتا۔“ (صحيح البخاري : 4850، صحيح مسلم : 2770)

* حصین بن سبرہ تابعی رحمہ اللہ نے سیدنا زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے پوچھا :
ومن أهل بيته يا زيد؟ أليس نساؤه من أهل بيته؟
”اے زید! نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت کون ہیں؟ کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج آپ کے اہل بیت میں شامل نہیں؟“
اس پر سیدنا زید بن ارقم رضی اللہ عنہ نے جواب دیا:
نساؤه من أهل بيته.
”آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج آپ کے اہل بیت میں شامل ہیں۔‘‘ (صحيح مسلم : 2408)

* سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ جب سورۂ احزاب کی مذکورہ آیت نازل ہوئی تو:
فأرسل رسول الله صلى الله عليه وسلّم إلى على وفاطمة والحسن والحسين رضي الله عنهم أجْمَعينَ، فقال : ”اللَّهُمْ هولاء أهل بيتيي“ قالت أم سلمة : يا رسول الله، ما أنا من أهل البيت ؟ قال: ”إنك أهلي خير، وهؤلاء أهل بيتيي، اللَّهُمْ أهليي أحق“
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی، سیدہ فاطمہ اور سیدنا حسن و حسین رضی اللہ عنہم کو بلایا۔ پھر فرمایا: میرے اللہ! یہ میرے گھر والے ہیں۔ سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا : اللہ کے رسول! کیا میں اہل بیت میں شامل نہیں؟ فرمایا : آپ میرے گھر والی ہیں اور بھلائی والی ہیں، جب کہ یہ میرے اہل بیت ہیں۔ اے اللہ! میرے گھر والے (اہل بیت ہونے کے) زیادہ حق دار ہیں۔“ (المستدرك على الصحيحين للحاكم: 416/2، و سندہ حسن)
امام حاکم رحمہ اللہ نے اس حدیث کو ’’امام بخاری رحمہ اللہ کی شرط پر صحیح“ قرار دیا ہے، جب کہ حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے اسے ”امام مسلم رحمہ اللہ کی شرط پر صحیح“ کہا ہے۔
(more…)

Continue Readingازواج مطہرات پر درود احادیث کی روشنی میں

سعودی علماء اور مسئلہ تقلید

تحریر: حافظ محمد اسحاق زاھد، کویت

سعودی عرب کے علماء ومشائخ سلفی مسلک کے حامل ہیں، اور اسی کی طرف وہ تمام لوگوں کو دعوت دیتے ہیں، فروع اور اختلانی مسائل میں دلیل کی پیروی یعنی اتباع کرنا ان کا مسلک ہے، نہ کہ اندی تقلید کرنا، دلیل کے سامنے خواہ وہ حنبلی مذہب کے موافق ہو یا مخالف، سر تسلیم خم کر دینا ان کا شیوہ ہے، چنانچہ سعودی علماء کے فتاوی اور رسائل پڑھ کے دیکھ لیجئے، ان میں ایک چیز انتہائی واضح طور پر نظر آتی ہے کہ یہ علماء ہر مسئلے میں سب سے پہلے قرآنی آیت، پھر حدیث نبوی اور پھر آثارصحابہ رضی اللہ عنہم ذکر کرتے ہیں، اور اگر کسی مسئلہ میں انہیں یہ تینوں دلائل نہ ملیں تو امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ اور دیگر ائمہ کی آراء ذکر کرتے ہیں، اور ان میں جو أقرب الی الدلیل ہو اسے ترجیح ریتے ہیں۔ اب اس سے پہلے کہ ہم تقلید سے متعلق سعودی علماء کا موقف بیان کریں، ان کے بارے میں خود ایک سعودی عالم الشیخ عبدالمحسن العباد کی شہادت پڑھ لیجئیے جو عرصہ دراز سے مسجد نبوی میں درس حدیث ریتے ہیں اور سعودیہ کے بڑے بڑے مشائخ کے شاگرد ہیں۔ انہوں نے یوسین ہاشم الرفاعی کے ایک مضمون کے جواب میں ایک مقالہ تحریر فرمایا جو کہ ”الفرقان“ (الکویت) میں قسط وار چھپ رہا ہے، الرفاعی کے ایک اعتراض کے جواب میں شیخ العباد لکھتے ہیں :
وعلى هذا فهم لم يتخلوا عن المذهب الحنبلى، ولكنهم تخلوا عن التعصب له، وإذا وجد الدليل الصحيح على خلاف المذهب صاروا إلى ما دل عليه الدليل .
”یعنی علماء نجد نے حنبلی مذہب کو نہیں، اس کے لئے تعصب کو خیرباد کہہ دیا ہے اور جب صحیح دلیل مذہب حنبلی کے خلاف ہو تو وہ دلیل پر عمل کرتے ہیں۔ (دیکھیے الفرقان جولایہ 2000ء)
اب آئیے! سعودی علماء کا تقلید کے متعلق موقف معلوم کریں :

(1) شیخ ابن باز رحمہ اللہ :

شیخ ابن باز رحمہ اللہ، جن کا مئی 99 میں انتقال ہوا ہے، کسی تعارف کے مختاج نہیں، موصوف عالم اسلام کی معروف شخصیت تھے، علم و عمل، تقوی و پرہیزگاری اور بصیرت کے پہاڑ تھے، پوری زندگی دین اسلام کی خدمت میں گزار گئے، زندگی میں انہیں جو عزت و احترام ملا وہ بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتا ہے، انتقال فرمایا تو بیس لاکھ کے قریب افراد نے حرم مکی میں ان کی نماز جنازہ میں شرکت کی، اللہ رب العزت انہیں غریق رحمت فرمائے۔

موصوف اپنے متعلق خود فرماتے ہیں :
مذهبي فى الفقه هو مذهب الإمام أحمد بن حنبل رحمه الله، وليس على سبيل التقليد ولكن على سبيل الاتباع …..أما فى مسائل الخلاف فمنهجى فيها هو ترجيح ما يقتضى الدليل ترجيحه، والفتوى بذلك، سواء وافق مذهب الحنابلة أم خالفه، لأن الحق أحق بالاتباع (فتاوى المرأة المسلمة 14/1 )
”فقہ میں میرا مذہب امام احمد بن حنبل کا مذہب ہے، برسبیل تقلید نہیں، بلکہ برسبیل اتباع . . . . اور اختلافی مسائل میں میرا طریق یہ ہے کہ میں دلیل کے مطابق ترجیح دیتا ہوں، اور اسی طرح فتویٰ بھی صادر کرتا ہوں، خواہ دلیل حنبلی مذہب کے موفق ہو یا مخالف، کیونکہ حق پیروی کا زیادہ حقدار ہے۔ “

شیخ ابن باز رحمہ اللہ کے یہ الفاظ ليس على سبيل التقليد ولكن على سبيل الاتباع سنہری حروف سے لکھے جانے کے قابل ہیں، اور پھر ان کا یہ کہنا کہ اختلافی مسائل میں وہ حنبلی مسلک کی پابندی نہیں کرتے بلکہ دلیل کے مطابق ترجیح دیتے ہیں، اس بات کی واضح دلیل سے کہ وہ فقہ میں امام احمد رحمہ اللہ کے مذہب کی طرف نسبت کرنے کے باوجود حنبلی فقہ کی اندھی تقلید نہیں کرتے، بلکہ تقاضائے دلیل کے مطابق فتویٰ صادر فرماتے ہیں، اور اس کی متعدد مثالیں موجود ہیں یہاں صرف ایک مثال ان کے اس مؤقف کی تصدیق کے لئے پیش کرتے ہیں :

شیخ سے سوال کیا گیا کہ کیا جمعہ قائم کرنے کے لئے چالیس ایسے افراد کا ہونا ضروری سے جن پر نماز فرض ہو ؟
شیخ صاحب نے جواب فرمایا :
”اہل علم کی ایک جماعت اس شرط کی قائل ہے کہ نماز جمعہ کی اقامت کے لئے چالیس آدمی ہونے چاہئیں، امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ بھی انہیں میں سے ہیں، لیکن راجح تر قول تو یہی ہے کہ چالیس سے کم افراد کے لئے جمعہ کی اقامت جائز ہے . . . . کیونکہ چالیس آدمیوں کی شرط کے لئے کوئی دلیل موجود نہیں ہے، اور جس حدیث میں چالیس آدمیوں کی شرط آئی ہے وہ ضعیف ہے۔ “ (فتاويٰ سماحة الشيخ عبد العزيز بن باز ص 74) نیز (مجموع فتاوي و مقالات متنوعة ص 327/12)

کیا اس دور کے احناف مقلدین میں سے کوئی ہے جو شیخ ابن باز رحمہ اللہ جیسی اس جرات کا مظاہرہ کرے اور جب صحیح دلیل حنفی مسلک کے مخالف ہو تو اس کی تاویل کرنے یا اس کے مقابلے میں دوسری ضعیف دلیل لانے کی بجائے، اس صحیح دلیل کے سامنے سر تسلیم خم کر دے اور حنفی مسلک کو چھوڑ دے ؟ ہم نے تو اس کے برعکس یہ دیکھا سے کہ احناف مقلدین صحیح دلیل معلوم کرنے کے باوجود اپنے مذہب کو چھوڑنے پر تیار نہیں ہوتے، آئیے آپ بھی دو مثالیں ملاحظہ کر لیں :

(1) الحق والإنصاف أن الترجيح للشافعي فى هذه المسألة، ونحن مقلدون يجب علينا تقليد إمامنا أبى حنيفة . (تقریر ترمذی، ص 39)
ترجمہ : ”حق اور انصاف یہ ہے کہ اس مسئلہ میں شافعی مسلک کو ترجیح ہے، لیکن ہم مقلد ہیں،ہم پر واجب ہے کہ ابوحنیفہ رحمہ اللہ ہی کی تقلید کریں۔ “

(2) ابن نجیم الحنفی کہتے ہیں :
نفس المؤمن تميل إلى قول المخالف فى مسألة السبب، لكن إتباعنا للمذهب واجب . (البحر الرائق : 125/5)
ترجمہ : ”مومن کا دل قول مخالف کی طرف مائل ہوتا ہے گالی کے مسئلے میں، لیکن حنفی مذہب کی اتباع واجب ہے۔“ (more…)

Continue Readingسعودی علماء اور مسئلہ تقلید

ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن پر درود

تحریر: غلام مصطفےٰ ظہیر امن پوری

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات پر بھی درود پڑھنا مشروع ہے، کیونکہ قرآن و سنت کی رو سے وہ بھی اہل بیت میں شامل ہیں، جیسا کہ:
قرآن کریم کی روشنی میں :
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات سے خطاب فرماتے ہوئے ارشاد باری تعالی ہے:
إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا (الأحزاب : 33)
”اے اہل بیت ! اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ تم سے گناہ کو دور کر کے تمہیں خوب پاک صاف کر دے۔“

اس آیت کی تفسیر میں حبر امت، ترجمان القرآن اور مفسر صحابہ، سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:
نزلت فى نساء النبى صلى الله عليه وسلّم خاصة.
”یہ آیت خاص طور پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج کے بارے میں نازل ہوئی۔“ (تفسير ابن كثير : 410/6، بتحقيق سلامة، و سندہ حسن)

سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے شاگرد عکرمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
من شاء باهلته أنها نزلت فى أزواج النبى صلى الله عليه وسلّم.
”جو مباہلہ کرنا چاہے میں اس کے ساتھ مباہلہ کرنے کے لئے بھی تیار ہوں کہ یہ آیت نبی اکرم صلى الله عليه وسلم کی ازواج مطہرات کے بارے میں نازل ہوئی۔“ (تفسیر ابن کثیر : 411/6، بتحقیق سلامة، و سندہ حسن)

اس آیت کی تفسیر میں اہل سنت کے مشہور مفسر، حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وهذا نص فى دخول أزواج النبى صلى الله عليه وسلّم فى أهل البيت هاهنا، لأنهنّ سبب نزول هذه الآية.
”یہ آیت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج کے اہل بیت میں شامل ہونے پر نص ہے، کیونکہ ازواج مطہرات ہی اس آیت کے نزول کا سبب ہیں۔“
(تفسیر ابن کثیر : 410/6، بتحقیق سلامة)

نیز فرماتے ہیں:
فإن كان المراد أنهن كن سبب النزول دون غيرهن فصحيح، وإن أريد أنَّهُنَّ المُراد فقط دون غيرهنّ، ففي هذا نظر؛ فإنه قد وردت أحاديث تدل علىٰ أنّ المُراد أعم من ذلك.
”اگر یہ مراد ہو کہ ازواج مطہرات کے علاوہ کوئی بھی اس آیت کے نزول کا سبب نہیں، تو یہ بات صحیح ہے، لیکن اگر کسی کی مراد یہ ہو کہ اہل بیت کے مفہوم میں ازواج مطہرات کے علاوہ کوئی شامل نہیں، تو یہ محل نظر ہے، کیونکہ کئی احادیث بتاتی ہیں کہ اہل بیت کا مفہوم اس سے وسیع ہے۔“ (تفسیر ابن کثیر : 411/6، بتحقیق سلامة)

یعنی یہ آیت اگرچہ ازواج مطہرات کے اہل بیت میں شامل ہونے کو بیان کرتی ہے، لیکن صحیح احادیث کی بنا پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے رشتہ دار بھی اہل بیت میں شامل ہیں، بلکہ اگر بیویاں اہل بیت ہیں تو رشتہ دار بالا ولیٰ اہل بیت میں شامل ہیں۔ (more…)

Continue Readingازواج مطہرات رضی اللہ عنہن پر درود

درود پاک کے مختلف الفاظ

تحریر: ابوعبد الله صارم

(1) عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ بیان کرتے ہیں کہ سیدنا کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ سے میری ملاقات ہوئی، کہنے لگے: کیا میں آپ کو عظیم الشان تحفہ نہ دوں، جسے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سن رکھا ہے، میں نے عرض کیا: جی ضرور! کہنے لگے: ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا: اللہ کے رسول! آپ کے اہل بیت پر کیسے درود بھیجا جائے، جب کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں آپ پر سلام کے متعلق تو تعلیم دے دی ہے (درود کے متعلق نہیں) ؟ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: درود یوں پڑھا کرو:
اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ، ‏‏‏‏‏‏اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ .
”اے اللہ! محمد کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور محمد کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آل پر رحمت نازل کر، جیسا کہ تو نے سیدنا ابراہیم علیہ السلام اور ان کی آل پر رحمت نازل کی، یقینا تو قابل تعریف، بڑی شان والا ہے۔ اے اللہ! محمد کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی آل پر برکت نازل کر، جیسا کہ تو نے سیدنا ابراہیم علیہ السلام اور ان کی آل پر برکت نازل کی، یقینا تو قابل تعریف، بڑی شان والا ہے۔“ (صحیح البخاری : 3370؛ صحیح مسلم : 406)
(2) سیدنا طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول! آپ پر درود کیسے پڑھا جائے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ الفاظ سکھائے :
اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ، وَبَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا بَارَكْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ .
”اے اللہ! محمد کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور محمد کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آل پر رحمت نازل کر، جیسا کہ تو نے سیدنا ابراہیم علیہ السلام پر رحمت نازل کی، یقیناً تو قابل تعریف، بڑی شان والا ہے۔ اے اللہ محمد کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی آل پر برکت نازل کر، جیسا کہ تو نے سیدنا ابراہیم علیہ السلام برکت نازل کی، یقینا تو قابل تعریف، بڑی شان والا ہے۔“ (مسند الإمام أحمد : 162/2؛ سنن النسائي : 1290، وسنده حسن)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس حدیث کی سند کو ’’حسن“ قرار دیا ہے۔ (التلخيص الحبير :268/1) (more…)

Continue Readingدرود پاک کے مختلف الفاظ

درود نہ پڑھنے کی سزا

تحریر: ابن الحسن محمدی

(1) سیدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
البخيل من ذكرت عنده، فلم يصل على .
”جس شخص کے پاس میرا ذکر کیا جائے اور وہ مجھ پر درود نہ بھیجے تو وہ بخیل ہے۔“ (مسند الإمام أحمد : 201/1؛ سنن الترمذي : 3546؛ فضل الصلاة على النبى للامام إسماعيل القاضي: 32؛ المستدرك على الصحيحين للحاكم :549/1، وسنده حسن)

اس حدیث کو امام ترمذی رحمہ اللہ (3546) نے ”حسن صحیح غریب“، امام ابن حبان رحمہ اللہ (909) نے ”صحیح“ اور حاکم رحمہ اللہ نے ”صحیح الاسناد“ کہا ہے۔ حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے بھی اسے ”صحیح“ قرار دیا ہے۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ولا يقصر عن درجة الحسن. (more…)

Continue Readingدرود نہ پڑھنے کی سزا

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نور تھے یا بشر؟

تحریر: غلام مصطفٰے ظہیر امن پوری
محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بشر تھے۔ یہ عقیدہ قرآن و حدیث اور اجماع امت سے ثابت ہے۔ اس کے برعکس بعض لوگوں کا عقیدہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ظاہراً بشر تھے اور حقیقت میں نور تھے۔ دلائل سے عاری یہ عقیدہ انتہائی گمراہ کن اور کفریہ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جنس بشریت سے ہونے کا کوئی انکار نہیں کر سکتا، اسی لیے رافضی اور اس دور کے جہمی صوفی کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بشریت کالبادہ اوڑھ رکھا تھا۔

یہ بات غور کرنے کی ہے کہ مشرکین مکہ اور پہلی امتوں کے کفار کو انبیائے کرام علیہم السلام پر ایمان لانے میں مانع یہی بات تھی کہ ان کی طرف آنے والے نبی جنس بشریت سے تعلق رکھتے تھے۔ ہر دور کے کفار بشریت کو نبوت و رسالت کے منافی خیال کرتے تھے۔ آج کے دور میں بھی بعض لوگ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بشریت سے انکاری ہیں۔ دراصل یہ ایک بڑی حقیقت کا انکار ہے۔ جب کفار مکہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا انکار کرنے کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بشریت کو بہانہ بنانا چاہا تو قرآنِ کریم نے یہ نہیں کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بشر نہیں لہٰذا ایمان لے آؤ، بلکہ اللہ تعالیٰ نے بہت سی آیات  بینات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بشر ہونے کا ثبوت فراہم کیا۔

ایک مقام پر فرمانِ باری تعالیٰ ہے :
﴿وَمَا مَنَعَ النَّاسَ أَنْ يُؤْمِنُوا إِذْ جَاءَهُمُ الْهُدَى إِلَّا أَنْ قَالُوا أَبَعَثَ اللَّـهُ بَشَرًا رَسُولًا * قُلْ لَوْ كَانَ فِي الْأَرْضِ مَلَائِكَةٌ يَمْشُونَ مُطْمَئِنِّينَ لَنَزَّلْنَا عَلَيْهِمْ مِنَ السَّمَاءِ مَلَكًا رَسُولًا﴾ (17-الإسراء:94،95)
 ’’اور لوگوں کے پاس ہدایت آ جانے کے بعد ان کو ایمان لانے سے صرف اس چیز نے روکا کہ انہوں نے کہا: کیا اللہ نے بشر رسول بھیجا ہے ؟ کہہ دیجیے : اگر زمین میں فرشتے ہوتے جو یہاں مطمئن ہو کر چلتے پھرتے تو ہم ان پر آسمان سے کوئی فرشتہ ہی رسول بنا کر نازل کرتے۔“

(more…)

Continue Readingنبی صلی اللہ علیہ وسلم نور تھے یا بشر؟

فضائل درود احادیث کی روشنی میں

تحریر: غلام مصطفٰے ظہیر امن پوری 
(1) سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: 
من صلى على واحدة؛ صلَّي الله عليه عشرا .
”جو آدمی مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجتا ہے، اللہ تعالیٰ اس پر دس رحمتیں نازل فرماتا ہے۔“ 
(صحيح مسلم : 408) 

دوسری روایت یوں ہے:
من صلى على مرة واحدة؛ كتب الله عزوجل له بها عشر حسنات .
”جو شخص مجھ پر ایک مرتبہ درود پڑھتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کے لیے دس نیکیاں لکھ دیتے ہیں۔“ 
(مسند الامام أحمد : 262/2، وسنده حسن، و صححه ابن حبان : 905) 

(2) سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: 
من صلّى على صلاة واحدة؛ صلى الله عليه عشر صلوات، وحط عنه بها عشر سيئات، ورفعه بها عشر درجات .
”جو آدمی مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجتا ہے، اللہ تعالی اس پر دس رحمتیں نازل فرماتا ہے، اس کی دس خطائیں مٹا دیتا ہے اور اس کے دس درجے بلند کر دیتا ہے۔“ 
(مسند الإمام أحمد : 102/3،261؛ عمل اليوم والليلة للنسائي: 62، واللفظ له، وسنده حسن)
اس حدیث کو امام ابن حبان رحمہ اللہ 
(904) نے ”صحیح“، جب کہ امام حاکم رحمہ اللہ (550/1) نے ”صحیح الاسناد‘‘ قرار دیا ہے۔ حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے بھی اس پر ’’صحیح‘‘ کا حکم لگایا ہے۔ 

* مستدرک حاکم کے یہ الفاظ ہیں: 
من صلّى على صلاة، صلى الله عليه وسلم عشر صلوات، وحط عنه عشر خطيئات .
”جو شخص مجھ پر ایک دفعہ درود پڑ ھتا ہے، اللہ تعالی اس پر دس رحمتیں نازل فرماتا ہے اور اس کے دس گناہ معاف فرما دیتا ہے۔“
امام ابن حبان رحمہ اللہ 
(907 ) نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے۔ 

(more…)

Continue Readingفضائل درود احادیث کی روشنی میں

فضائل درود قرآن کی روشنی میں

تحریر: غلام مصطفٰے ظہیر امن پوری

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : 
﴿وَرَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَ﴾ (الشرح 94 : 4)
” (اے نبی ! ) ہم نے آپ کے ذکر کو بلند کیا۔“ 
اہل علم اس کے تین معانی بیان کرتے ہیں؛ 
(1) نبوت و رسالت کے لازوال اعزاز سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام و مرتبہ کو بلندی نصیب فرمائی۔ 
(2) آخرت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکر کو بلند کیا، جیسا کہ دنیا میں بلندی عطا فرمائی۔ 
(3) اللہ تعالی کے ذکر کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی ذکر ہو گا۔ 
٭ سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : 
أتاني جبريل، فقال : إن ربى وربّك يقول : كيف رفعت لك ذكرك ؟ قال : الله أعلم، قال : إذا ذكرت ذكرت معي . 
 ”جبریل علیہ السلام میرے پاس آئے اور بتایا : آپ کا اور میرا رب فرماتا ہے : میں نے آپ کا ذکر کیسے بلند کیا ہے ؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : جب میرا ذکر کیا جائے گا تو میرے ساتھ آپ کا ذکر بھی کیا جائے گا۔“ (تفسیر الطبری : 235/30)
اس حدیث کو امام ابن حبان رحمہ اللہ (3382) نے ”صحیح“ قرار دیا ہے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بابرکات پر درود و سلام پڑھنا ایک مومن کا حق ہے، جو ماں باپ کے حق سے بڑھ کر ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی قدر پر درود و سلام پڑھنا دراصل حکم الہیٰ کی تعمیل ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ والہانہ محبت و عقیدت کی علامت و نشانی ہے، کیوں کہ محب اپنے محبوب کے ذکر خیر میں مشغول رہتا ہے۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکر خیر سے کوئی غافل ہی محروم ہو سکتا ہے۔ یہ مبارک عمل اللہ اور اس کے فرشتوں کی سنت ہے۔ 
(more…)

Continue Readingفضائل درود قرآن کی روشنی میں

اسلام میں پکی قبروں کی حیثیت

تحریر: امام محمد بن علی الشوکانی

بت پرستی اور قبر پرستی کا آغاز 
سب سے پہلے بت پرستی اور قبر پرستی کی  بیماری قوم نوح میں آئی۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے : 
﴿قَالَ نُوحٌ رَبِّ إِنَّهُمْ عَصَوْنِي وَاتَّبَعُوا مَنْ لَمْ يَزِدْهُ مَالُهُ وَوَلَدُهُ إِلَّا خَسَارًا * وَمَكَرُوا مَكْرًا كُبَّارًا * وَقَالُوا لَا تَذَرُنَّ آلِهَتَكُمْ وَلَا تَذَرُنَّ وَدًّا وَلَا سُوَاعًا وَلَا يَغُوثَ وَيَعُوقَ وَنَسْرًا﴾ (71-نوح: 21، 22، 23)
” (کفار سے مایوس ہو کر) حضرت نوح علیہ السلام یوں دعا کرنے لگے۔ پروردگا! (یہ کافر لوگ) میری بات نہیں مانتے۔ یہ ان (بتوں) کی پیروی کرنے پر اصرار کرتے ہیں جو ان کے مال و دولت اور اولاد میں افزائش کرنے سے عاجز ہیں۔ البتہ ان کی نحوست سے ان (کفار) کا نقصان ہوتا ہے۔ ان لوگوں نے (میرے ساتھ) بڑے بڑے دعوے کئے ہیں۔ یہ آپس میں ایک دوسرے سے کہتے ہیں تم اپنے معبودوں (کی پوجا) سے ہرگز باز نہ آنا خاص کر سواع، یعوق، یغوث اور نسر کی عبادت پر ڈٹے رہنا‘‘۔ 

یہ حضرت آدم الله عليه السلام کی اولاد میں سے نیک لوگ تھے۔ ان کی زندگی میں یہ لوگ ان کے پیروکار تھے۔ جب یہ فوت ہو گئے تو ان کے پیروکاروں نے اکٹھے ہو کر آپس میں مشورہ کیا کہ ہم ان کی تصویریں اور مجسمے بنائیں۔ کیونکہ ایسا کرنے سے عبادت میں زیادہ شوق پیدا ہو گا۔ چنانچہ انہوں نے ان بزرگوں کی تصویریں اور مجسمے بنائے۔ جب یہ لوگ اس عالم آب و گل سے رختِ سفر باندھ کر ملك عدم میں چلے گئے اور ان کی اولادیں بڑی ہوئیں تو ان سے کہا گیا کہ وہ ان کی پوجا کیا کرتے تھے اور ان سے بارش طلب کرتے تھے۔ اس کی بات سن كر ان کے پرستار بن گئے آہستہ آہستہ تمام عرب ان کا پجاری بن گیا۔ چنانچہ صحیح بخاری میں سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت سے مذکور ہے کہ یہ حضرت نوح علیہ السلام کی قوم میں سے صالح اور نیک انسان تھے۔ جب یہ فوت ہو گئے تو ان کے پیروکاران کی قبروں پر مجاور بن کر بیٹھ گئے۔ پھر ان کی تصویریں اور مجسمے بنائے، پھر کچھ زمانہ گزرنے کے بعد ان کی عبادت شروع کر دی گئی۔ (صحیح بخاری: کتاب التفسیر) 

اس بات کی تصدیق صحیحین اور دیگر کتب حدیث کی اس روایت سے ہوتی ہے جو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مذکور ہے۔ (more…)

Continue Readingاسلام میں پکی قبروں کی حیثیت

صفوں کو سیدھا رکھنے سے متعلق احادیث

تحریر: غلام مصطفٰے ظہیر امن پوری نماز کے لیے صفوں کو سیدھاکرنا، صفوں کے درمیان فاصلہ کم رکھنا، صف میں کندھوں کو برابر رکھنا، ٹخنے سے ٹخنا ملانا اور پاؤں کے ساتھ پاؤں ملانا سنت ہے۔ صحابہ کرام اور ائمہ سلف صالحین ہمیشہ اس کےعامل رہے ہیں۔ احادیث رسول میں صف بندی کے بارے میں احکامات بڑی تاکید سے بیان ہوئے ہیں، ملاحظہ فرمائیں: ➊ سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ ایک حدیث بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں: قَالَ: أَلَا تَصُفُّونَ كَمَا تَصُفُّ الْمَلَائِكَةُ عِنْدَ رَبِّهَا؟ فَقُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ ! وَكَيْفَ تَصُفُّ الْمَلَائِكَةُ عِنْدَ رَبِّهَا؟ قَالَ: يُتِمُّونَ الصُّفُوفَ الْأُوَلَ وَيَتَرَاصُّونَ فِي الصَّفِّ . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم اس طرح کیوں صفیں نہیں بناتے جس طرح فرشتے اپنے رب کے ہاں صفیں بناتے ہیں؟ “ ہم نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول ! فرشتے اپنے رب…

Continue Readingصفوں کو سیدھا رکھنے سے متعلق احادیث

نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور علم غیب

تحریر: غلام مصطفٰے ظہیر امن پوری

 علم غیب اللہ تعالیٰ کا خاصہ ہے۔ یہ اہل سنت و الجماعت کا اتفاقی و اجماعی عقیدہ ہے۔ اس اجماعی عقیدے کے خلاف نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عالم الغیب ہونے کے نظریے کی اسلام میں قطعاً کوئی گنجائش نہیں۔ 

نصاریٰ اور روافض کا نظریہ : 
انبیا کے عالم الغیب ہونے کا عقیدہ اسلاف امت میں کسی سے بھی ثابت نہیں ، بلکہ یہ نصاریٰ اور روافض سے ماخوذ ہے، جیسا کہ:
علامہ ، عبدالرحمن بن عبداللہ ، سہیلی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
فَلِذٰلكَ كَانَ الْمسِيحُ عندھم يعلم الغيب، ويخبر بما فى غد، فلما كان ھٰذَا منْ مذھب النصاري الكذبة على الله، المدعين المحال
”اسی لیے نصاریٰ کے ہاں سیدنا عیسیٰ علیہ السلام عالم الغیب تھے اور آئندہ کی باتوں کی خبر دیتے تھے۔ جب اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھنے اور ناممکنات کا دعویٰ کرنے والے نصاریٰ کا یہ حال تھا، تو۔۔۔“ 
(الروض الأنف : 404/2، عمدة القاري للعيني الحنفي : 55/1) 

قرآنی دلیل : 
اب اس عقیدے کے متعلق قرآنی دلیل ملاحظہ فرمائیں :
ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے خطاب کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: 

(more…)

Continue Readingنبی صلی اللہ علیہ وسلم اور علم غیب

مسجد میں داخل ہوتے وقت کی دعا !

(1) سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب مسجد میں داخل ہوتے تو یہ دعا پڑھتے : أَعُوذُ بِاللَّهِ الْعَظِيمِ وَبِوَجْهِهِ الْكَرِيمِ وَسُلْطَانِهِ الْقَدِيمِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ ’’ میں شیطان مردود کے شر سے بہت عظیم اللہ، اس کے معزز چہرے اور اس کی قدیم بادشاہت کی پناہ میں آتا ہوں۔ “ (سنن ابي داود : 466، وسنده صحيح)  نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ جب کوئی یہ دعا پڑھ لے تو شیطان کہتا ہے : حفظ مني سائر اليوم ’’ یہ سارا دن مجھ سے محفوظ کر لیا گیا ہے۔ “  (2) سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ جو کوئی مسجد میں داخل ہو، وہ نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) پر سلام بھیجے اور یہ دعا پڑھے : اللَّهُمَّ افْتَحْ لِي أبْوَابَ رَحْمَتِكَ ’’ اے اللہ…

Continue Readingمسجد میں داخل ہوتے وقت کی دعا !

صحیحین میں بدعتی راوی

تحریر: ابن الحسن المحمدی


ہم راوی کے صدق و عدالت اور حفظ وضبط کو دیکھتے ہیں۔ اس کا بدعتی، مثلاً مرجی، ناصبی، قدری، معتزلی، شیعی وغیرہ ہونا مصر نہیں ہوتا۔ صحیح قول کے مطابق کسی عادل و ضابط بدعتی راوی کا داعی الی البدعہ ہونا بھی مضر نہیں ہوتا اور اس کی وہ روایت بھی قابل قبول ہوتی ہے جو ظاہراً اس کی بدعت کو تقویت دے رہی ہو۔ 

بدعت کی اقسام : 
حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے بدعت کی دو قسمیں بیان کی ہیں : 
(1) بدعت صغریٰ، (2) بدعت کبریٰ 
بدعت صغریٰ کی مثال انہوں نے تشیع سے دی ہے جبکہ بدعت کبریٰ کی مثال کامل رفض اور اس میں غلو سے دی ہے۔ 
(ميزان الاعتدال : 5/1، 6) 

انہوں نے ابان بن تغلب راوی کے بارے میں لکھا ہے : 
 شيعي جلد، لكنه صدوق، فلنا صدقه، وعليه بدعته . 
’’ یہ کٹر شیعہ لیکن سچا تھا۔ ہمیں اس کی سچائی سے سروکار ہے۔ اس کی بدعت کا وبال اسی پر ہو گا۔ “ (ميزان الاعتدال : 5/1) 

(more…)

Continue Readingصحیحین میں بدعتی راوی

بالوں کو مہندی لگانا

تحریر: شیخ محمد مالک بھنڈر
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : إِنَّ اليَهُودَ وَالنَّصَارَي لَا يَصْبُغُونَ، فَخَالِفُوهُمْ 
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’بلاشبہ یہودی اور عیسائی بالوں کو نہیں رنگتے، چنانچہ تم ان کی مخالفت کرو۔“ 
(بخاری : 5899، مسلم : 2103)

بالوں کو رنگنے کا حکم استحبابی ہے کیونکہ سیدنا ابوجحیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا : 
’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھاکہ آ پ کے یہ بال سفید تھے، ان کا اشارہ نچلے ہونٹ اور ٹھوڑی کے درمیان کے بالوں کی طرف تھا۔“ 
(بخاری : 3545، : مسلم : 3242) 

(more…)

Continue Readingبالوں کو مہندی لگانا

End of content

No more pages to load