استانی کے لئے طالبات کے کھڑا ہونے کا حکم

فتویٰ : سابق مفتی اعظم سعودی عرب شیخ ابن باز رحمہ اللہ سوال : استانی کے احترام میں طالبات کے کھڑے ہونے کا کیا حکم ہے؟ جواب : استانی یا استاذ کے لئے طلباء کا احتراماً کھڑا ہونا ناروا ہے۔ اس کا کم از کم حکم شدید کراہت ہے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: لم يكن أحد أحب إليهم يعنى الصحابة من رسول الله صلى الله عليه وسلم، ولم يكونوا يقومون له إذا دخل عليهم، لما يعلمون من كراهته لذلك [رواه الترمذي فى كتاب الأدب] ”صحابہ کرام کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر کوئی شخص محبوب نہ تھا، مگر اس کے باوجود وه لوگ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری پر کھڑے نہ ہوتے تھے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے ناپسند فرماتے ہیں۔“ اس بارے میں خود نبی…

Continue Readingاستانی کے لئے طالبات کے کھڑا ہونے کا حکم

عورتیں اور حصول تعلیم

فتویٰ : سابق مفتی اعظم سعودی عرب شیخ ابن باز رحمہ اللہ سوال : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خواتین کے لئے ایک دن مقرر فرما رکھا تھا تاکہ وہ اپنے دینی امور سے آگاہی حاصل کر سکیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کو مردوں سے پیچھے رہتے ہوئے مساجد میں حصول تعلیم کے لئے حاضر ہونے کی اجازت بھی دے رکھی تھی۔ تو اب حضرات علماء کرام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء میں ایسا کیوں نہیں کرتے؟ اگرچہ علماء نے اس بارے میں کچھ کارگزاری دکھائی ہے مگر وہ ناکافی ہے اور مزید کچھ کرنے کی ضرورت ہے جس کا ہمیں انتظار ہے۔ جواب : اس میں کوئی شک نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا عمل اپنایا اور الحمد للہ علماء کا بھی یہی معمول رہا ہے۔ خود میں نے بھی…

Continue Readingعورتیں اور حصول تعلیم

مقدس اوراق کی توہین سے کیسے بچا جائے؟

فتویٰ : سابق مفتی اعظم سعودی عرب شیخ ابن باز رحمہ اللہ سوال : قرآن مجید کی بعض آیات بعض اخبارات و رسائل پر موجود ہوتی ہیں، اسی طرح بعض کاغذات اور خطوط کی، ابتداء میں بسم الله الرحمن الرحيم لکھی ہوتی ہے، سوال یہ ہے کہ ایسے اخبارات و رسائل اور خطوط پڑھنے کے بعد ان کا کیا جائے ؟ انہیں پھاڑ دیا جائے، جلا دیا جائے یا کیا کیا جائے ؟ جواب :ایسے اخبارات و رسائل یا خطوط پڑھنے کے بعد ان کی حفاظت ضروری ہے، یا پھر انہیں جلا کر (صاف پانی میں) بہا دیا جائے یا کسی پاک جگہ میں دفن کر دیا جائے۔ مقصد یہ ہے کہ قرآنی آیات اور اسماء باری تعالیٰ کو توہین سے بچایا جائے۔ لہٰذا انہیں کوڑے کرکٹ کے ڈھیروں یا بازاروں میں پھینکنا ایسے کاغذات کے لفافے بنانا یا کھانے کے لیے دسترخوان…

Continue Readingمقدس اوراق کی توہین سے کیسے بچا جائے؟

زیارت قبر نبوی فضیلت و اہمیت، حصہ دوئم

اس تحریر کا حصہ اول یہاں ملاحضہ کیجیے
تحریر: غلام مصطفٰے ظہیر امن پوری

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کی زیارت کی فضیلت و اہمیت پر مبنی بہت سی روایات زبان زد عام ہیں۔ ان روایات کا اصول محدثین کی روشنی میں تحقیقی جائزہ پیش خدمت ہے :
روایت نمبر

سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
من زار قبري، وجبت له شفاعتي ”جو شخص میری قبر کی زیارت کرے گا، اس کے لیے میری سفارش واجب ہو جائے گی۔“ [سنن الدارقطني : 278/2، ح : 2669، شعب الإيمان للبيهقي : 490/3، ح : 5169، مسند البرار كشف الأستار : 57/2، ح 1197]

تبصرہ : اس کی سند ”ضعیف“ ہے، اس کے بارے میں :
➊ امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
فإن فى القلب منه، أنا أبرا من عهدته
”میرے دل میں اس کے بارے میں خلش ہے۔ میں اس کی ذمہ داری سے بری ہوں۔“ [لسان الميزان لابن حجر : 135/6]
◈ نیز اس روایت کو امام صاحب نے ”منکر“ بھی قرار دیا ہے۔ [أيضا]
◈ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ کی ساری بحث ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں :
ومع ما تقدم من عبارة ابن خزيمة، وكشفه عن علة هذا الخبر، لا يحسن أن يقال : أخرجه ابن خزيمة فى صحيحه إلا مع البيان.
”امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ کی عبارت بیان ہو چکی سے، نیز انہوں نے اس روایت کی علت بھی بیان کر دی ہے، اس سب کچھ کے ہوتے ہوئے یہ کہنا درست نہیں کہ اس روایت کو امام ابن خزیمہ نے اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔ ہاں ! وضاحت کر کے ایسا کہا جا سکتا ہے۔“ [ايضا]
◈ حافظ سخاوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وهو فى صحيح ابن خزيمة وأشار الي تضعيفه .
یہ روایت صحیح ابن خزیمہ میں ہے، لیکن امام صاحب نے اس کے ضعیف ہونے کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔“ [المقاصد الحسنة فى بيان كثير من الأحاديث المشتهرة على الألسنة : 1125]
➋ امام عقیلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : فيها لين ”اس میں کمزوری ہے۔“ [الضعفاء الكبير : 170/4]
➌ حافظ بیہقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : فهو منكر ”یہ روایت منکر ہے۔“ [شعب الإيمان للبيهقي : 490/3]
➍ حافظ نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : اس کی سند ”ضعیف“ ہے۔ [المجموع شرح المهذب : 272/8]
➎ حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : وهو حديث منكر ”یہ حدیث منکر ہے۔“ [تاريخ الإسلام : 212/11، وفي نسخة : 115/11]
➏ حافظ ابن عبدالہادی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
وهو مع هذا حديث غير صحيح ولا ثابت، بل هو حديث منكر عند ائمة هذا الشان. ضعيف الاسناد عندهم، لايقوم بمثله حجة، ولا يعتمد علي مثله عند الاحتجاج الا الضعفاء في هذا العلم
یہ حدیث نہ صحیح ہے نہ ثابت۔ یہ تو فن حدیث کے ائمہ کے ہاں منکر اور ضعیف الاسناد روایت ہے۔ ایسی روایت دلیل بننے کے لائق نہیں ہوتی۔ علم حدیث میں ناپختہ کار لوگ ہی ایسی روایات کو اپنی دلیل بناتے ہیں۔“ [الصارم المنكي فى الرد على السبكي، ص : 30]
➐ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں : (more…)

Continue Readingزیارت قبر نبوی فضیلت و اہمیت، حصہ دوئم

تصویریں لٹکانے اور انہیں سنبھال کر رکھنے کا حکم

فتویٰ : سابق مفتی اعظم سعودی عرب شیخ ابن باز رحمہ اللہ سوال : دیواروں پر تصویریں لٹکانے، نیز شخصی تصاویر سنبھال کر رکھنے کا کیا حکم ہے ؟ جواب : ذی روح (جاندار) اشیاء کی تصاویر لٹکانا اور انہیں سنبھال کر رکھنا ناجائز ہے، بلکہ انہیں ضائع کرنا ضروری ہے کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا تھا : لا تدع صورة الا طمستها ”ہر تصویر کو مٹا دو۔“ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ثابت ہے : ان النبى صلى الله عليه وسلم نهي عن صورة فى البيت ”کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے گھر میں تصویر سے منع فرمایا ہے۔“ تمام قسم کی یادگاری تصاویر کو تلف کرنا ضروری ہے۔ انہیں پھاڑ دیا جائے یا جلا دیا جائے، ہاں شناختی کارڈ یا پاسپورٹ وغیرہ پر چسپاں تصاویر سنبھال کر…

Continue Readingتصویریں لٹکانے اور انہیں سنبھال کر رکھنے کا حکم

خون سے غسل کرنے کا حکم

فتویٰ : سابق مفتی اعظم سعودی عرب شیخ ابن باز رحمہ اللہ

سوال : میری والدہ بیمار تھی۔ کئی ہسپتالوں میں علاج و معالجہ کے باوجود کوئی فائدہ نہ ہوا، آخر کار وہ ایک کاہن کے پاس چلی گئی۔ کاہن نے اسے بکری کے خون سے غسل کرنے کو کہا، چونکہ میری والدہ اس بارے میں شرعی حکم سے آگاہ نہ تھی لہٰذا اس نے کاھن کے حکم کی تعمیل میں خون سے غسل کر لیا۔ ہمیں بتائیے کیا اس گناہ کی پاداش میں ہم پر کوئی کفارہ ہے ؟ اگر ہے تو کتنا ؟ جَزَاكُمْ الله خيراً
جواب : کاہنوں، نجومیوں، جادوگروں اور شعبدہ باز قسم کے لوگوں کے پاس جانا اور ان سے کسی مسئلے کا حل چاہنا ناجائز ہے۔ اسی طرح ان سے کچھ دریافت کرنا اور ان کی تصدیق کرنا بھی ناجائز بلکہ کبیرہ گناہ ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
من أتى عرافا فسأله عن شيء لم تقبل له صلوة أربعين ليلة [صحیح مسلم و مسند أحمد]
”جو شخص کسی کاہن و نجومی کے پاس آئے، اس سے کچھ پوچھے تو اس کی چالیس دن کی نماز قبول نہیں ہوتی۔“
ایک جگہ یوں ارشاد ہوتا ہے :
من أتى عرافا أو كاهنا فصدقه بما يقول فقد كفر بما أنزل على محمد صلى الله عليه وسلم [سنن أربعة، مستدرك حاكم، مسند بزار، المعجم الأوسط]
”جو شخص کسی کاہن یا نجومی کے پاس آئے پھر اس کی تصدیق کرے تو اس نے شریعت محمدیہ کا انکار کیا۔ “
نیز فرمایا کہ :
ليس منا من سحر أو سحر له، أو تكهن أو تكهن له، أو تطير او تطير له، و من اتي كاهنا فصدقه بما يقول فقد كفر بما انزل على محمد [مسند بزار بإسناد جيد] (more…)

Continue Readingخون سے غسل کرنے کا حکم

بچوں کے پیٹ پر چمڑے وغیرہ کا ٹکڑا رکھنا

فتویٰ :دارالافتاء کمیٹی سوال : کیا شیرخوار یا بڑی عمر کے بچوں کے پیٹ پر کپڑے یا چمڑے وغیرہ کا ٹکڑا رکھنا جائز ہے ؟ ہم لوگ کپڑے یا چمڑے کا ٹکڑا چھوٹی بڑی عمر کے بچوں کے پیٹ پر رکھ ریتے ہیں۔ امید ہے آپ ہمیں اس بارے میں آگاہ فرمائیں گے۔ جواب : اگر بچوں کے پیٹ پر چمڑے یا کپڑے کا ٹکڑا رکھنے کا وہی مقصد ہوتا ہے جو تعویذات کا ہوتا ہے، یعنی اس سے نفع حاصل کرنے یا نقصان سے بچنا، تو یہ حرام بلکہ بعض اوقات شرک ہے، ہاں اگر ایسا کسی صحیح مقصد کے تحت کیا جائے مثلاً نیچے کی ناف کو متورم ہونے سے بچانا یا پیٹھ کو مضبوطی سے باندھنا، تو اس میں کوئی حرج نہیں۔  

Continue Readingبچوں کے پیٹ پر چمڑے وغیرہ کا ٹکڑا رکھنا

درود کی آواز

تحریر: مولانا ابوالحسن مبشر احمد ربانی

سوال : دنیا میں جہاں کہیں بھی دردو پڑھا جاتا ہے کیا اس کی آواز خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سنتے ہیں جیسا کہ ایک روات سے بھی ایسا ثابت ہوتا ہے۔
جواب : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھنے کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے :
إِنَّ اللَّـهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا [33-الأحزاب:56]
’’ بے شک اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) پر صلاۃ بھیجتے ہیں، اے ایمان والو ! تم بھی اس نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) پر صلاۃ و سلام بھیجتے رہو۔“
↰ معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی پر صلاۃ و سلام پڑھنا چاہیے۔
↰ لیکن یہ بات کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں کہ دنیا میں جہاں بھی دورد پڑھا جاتا ہو آپ صلی اللہ علیہ وسلم تک اس کی آواز پہنچ جاتی ہے یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے سنتے ہیں۔

◈ امام ابن قیم رحمہ اللہ نے صلاۃ و سلام کے متعلق جو کتاب بنام ’’ جلاء الافہام“ لکھی ہے اس میں ایک روایت ابودرداء رضی اللہ عنہ سے اس سند کے ساتھ درج کی ہے :

وعن أبي الدرداء رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم أكثروا من الصلاة علي يوم الجمعة فإنه يوم مشهود تشهده الملائكة ليس من عبد يصلي علي إلا بلغتني صوته حيث كان قلنا وبعد وفاتك قال وبعد وفاتي إن الله تعالى حرم على الأرض أن تأكل أجساد الأنبياء
’’ سیدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ جمعہ والے دن مجھ پر کثرت سے درود پڑھا کرو۔ یہ ایسا دن ہے کہ جس میں فرشتے حاضر ہو تے ہیں۔ کوئی آدمی مجھ پر درود نہیں پڑھتا مگر مجھ تک اس کی آواز پہنچ جاتی ہے وہ جہاں کہیں بھی ہو۔“ ہم نے کہا : ’’ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد بھی ؟“ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ میری وفات کے بعد بھی۔ بیشک اللہ تعالیٰ نے زمین پر انبیاء کے جسموں کو کھانا حرام کر دیا ہے۔“

تبصرہ : یہ روایت درست نہیں۔
◈ امام عراقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ان اسناده لا يصح
’’ اس کی سند صحیح نہیں۔“ [القول البديع في الصلاة علي الحبيب الشفيع ص 159]
(more…)

Continue Readingدرود کی آواز

قبر میں میت کو نبیﷺ کی صورت دکھایا جانا

تحریر: مولانا ابوالحسن مبشر احمد ربانی

سوال : حدیث میں آتا ہے کہ میت سے رسول مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق سوال کیا جاتا ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود بنفسِ نفیس قبر میں تشریف لاتے ہیں ؟
جواب : جب انسان اس دارفانی سے اپنا وقت مقررہ ختم کے قبر کی آغوش میں پہنچتا ہے تو اس سے منکر نکیر جو سوالات کرتے ہیں ان میں سے ایک سوال نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق بھی ہوتا ہے، کہا جاتا ہے : ما كنت تقول فى هذا الرجل ’’ تو اس مرد کے متعلق کیا کہتا ہے ؟“ اگر آدمی ایمانداری ہو تو اس کا صحیح جواب دیتا ہے اور اگر کافر ہو تو کہتا ہے : لا ادرى ’’ میں نہیں جانتا“۔ لیکن کسی صحیح حدیث میں یہ مذکور نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود تشریف لاتے ہیں یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صورت مبارک وہاں پیش کی جاتی ہے جسے دیکھ کر اور اشارہ کر کے فرشتے کہتے ہیں ما كنت تقول فى هذا الرجل ”تو اس مرد کے متعلق کیا کہتا ہے ؟“

◈ ملا علی قاری رحمہ اللہ نے مشکوٰۃ کی شرح مرقاۃ میں لکھا ہے :
قيل يكشف للميت حتي يري النبي صلي الله عليه وسلم وهي بشري عظيمة للمومن ان صح ذلك ولا نعلم حديثا صحيحا مرويا في ذلك
’’ کہا گیا ہے کہ میت کے لئے پردہ ہٹا دیا جاتا ہے یہاں تک کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھتا ہے۔ اگر یہ بات صحیح ہو تو مومن کے لیے بڑی خوشخبری ہے ( کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کر لیتا ہے ) لیکن ہم نہیں جانتے کہ کوئی صحیح حدیث اس بارے میں مروی ہے۔“ [مرقاة شرح مشكاة 24/1]

◈ امام جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں :
وسئل الحافظ بن حجر هل يكشف له اي للميت حتي يرى النبى صلى الله عليه وسلم فاجاب انه لم يرو هذا في حديث و انما ادعاه بعض من لا يحتج به بغير مستند سوي قوله هذا الرجل ولا حجة فيه لان الاشارة الي الحاضر في الذهن
’’ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ سے سوال کیا گیا : کیا میت کے لیے پردہ ہٹا دیا جاتا ہے حتیٰ کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھتا ہے ؟“ تو انہوں نے جواب دیا : ’’ یہ بات کہ میت کے لیے پردہ ہٹا دیا جاتا ہے اور وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھتا ہے، کسی حدیث میں مروی نہیں ہے۔ بعض لوگوں نے غیر مستند باتوں سے استدلال کیا ہے جو قابل حجت نہیں سوائے اس قول هذا الرجل کے اور اس میں اس کے متعلق کوئی دلیل نہیں۔ اس لیے کہ هذا اسم اشارہ یہاں ذہن کے لیے ہے۔“

هذا اسم اشارہ سے استدلال درست نہیں کیونکہ حضور دو قسم کا ہوتا ہے۔ ایک حضور ذہنی (تصوراتی) اور دوسرا حضور شخصی یہاں حضور ذہنی مراد ہے شخصی نہیں۔ [ مرقاة المفاتيح 1/ 370]

↰ اس کے علاوہ قرآن مجید اور کتب احادیث میں ایسی کئی مثالیں موجود ہیں کہ هذا اسم اشارہ کو بعید کے معنوں میں استعمال کیا گیا ہے اور یہ ضروری نہیں کہ جس کی طرف هذا کا اشارہ ہو وہ پاس ہی موجود ہو۔
(more…)

Continue Readingقبر میں میت کو نبیﷺ کی صورت دکھایا جانا

تعویز کیطرح بچے کے پاس چھری رکھنا

فتویٰ : سابق مفتی اعظم سعودی عرب شیخ ابن باز رحمہ اللہ سوال : بعض لوگ اپنے بچوں کو جنوں کے شر سے بچانے کے لئے ان کے پاس چھری رکھ دیتے ہیں کیا یہ کام درست ہے ؟ جواب : یہ عمل منکر ہے، چونکہ شرعاً اس کی کوئی صحیح بنیاد نہیں لہٰذا ناجائز ہے۔ اس بارے میں مشروع طریقہ یہ ہے کہ بچوں پر اس طرح دم کیا جائے جس طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا حسن اور حسین کو کیا کرتے تھے، جس کے الفاظ یہ ہیں : أعوذ بكلمات الله التامة، من كل شيطان وهامة، ومن كل عين لأمة [رواه البخاري فى كتاب الأنبياء] ”میں ہر شیطان، ہر زہریلے کیڑے اور ہر نظربد سے اللہ کے تمام کلمات کے ساتھ پناہ چاہتا ہوں۔“ نیز ان کے لئے دعا کرے کہ اللہ تعالیٰ انہیں ہر برائی سے محفوظ فرمائے۔…

Continue Readingتعویز کیطرح بچے کے پاس چھری رکھنا

نبی ﷺ کا بڑے بھائی جتنا ادب

تحریر: مولانا ابوالحسن مبشر احمد ربانی سوال : میں نے سنا ہے کہ اہل حدیث نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بڑے بھائی جتنا احترام دیتے ہیں کیا یہ درست ہے ؟ جواب : یہ بات کہ وہابی لوگ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اتنی ہی عزت کرتے ہیں جتنی بڑے بھائی کی، سراسر غلط ہے اور اس کی دلیل ہے کہ ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کا رسول مانتے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت اور اتباع کو فرض سمجھتے ہیں۔ بھلا کوئی اپنے بڑے بھائی کو بھی اللہ کا رسول مانتا ہے۔ سبحانك هذا بهتان عظيم  

Continue Readingنبی ﷺ کا بڑے بھائی جتنا ادب

قرآن سے عید میلاد النبی کا جواز

تحریر: مولانا ابوالحسن مبشر احمد ربانی

سوال : کچھ لوگ قرآن مجید کی بعض آیات سے عید میلاد کا جواز ثابت کرتے ہیں ان کی محنت کہاں تک درست ہے ؟ مہربانی فرما کر وضاحت کر دیں۔
جواب : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت، ہجرت، تبلیغ، جہاد، امت پر شفقت اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے دوسرے احوال پر مسلمان سے خوشی مطلوب ہے۔ یہ خوشی سال کے 360 دنوں میں سے صرف ایک دن یا رات تک محدود نہیں بلکہ ہر زمانے میں ہر وقت اور ہر حالت میں ہونی چاہیے۔ یہ کس قدر زیادتی ہے کہ ہم مسلمان ہو کر سال میں صرف ایک دن تو خوشی اور جشن منائیں باقی سارا سال نہ ہمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا قول و فعل یاد رہے، نہ زندگی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ نظر آئے بلکہ ہماری زندگی کا ہر پہلو یہود و نصاریٰ اور ہندوؤں کی رسم و رواج کا مظہر ہو اور سال میں صرف ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر وہ بھی غیر مسلم قوموں کی مشابہت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہ کے خلاف گزرے۔
✿ قرآن کی آیت :
قُلْ بِفَضْلِ اللَّـهِ وَبِرَحْمَتِهِ فَبِذَلِكَ فَلْيَفْرَحُوا
’’ کہہ دیجئے کہ اللہ کے فضل اور اس کی رحمت پر خوش ہو جاؤ۔ “ [10-يونس:58]
↰ اس میں فليفرحو سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت پر خوشی اور جشن منانے کا استدلال حقیقت میں تحریف قرآن ہے۔ کیونکہ فليفرحو کا معنی خوشی مناؤ کون سی لغت میں ہے ؟ بتاؤ کس مفسر یا مترجم نے لکھا ہے کہ اس کا معنی جلوس نکالو، بھنگڑے ڈالو، موسیقی بجاؤ، بیل چھکڑے، بسیں، ٹرک، ٹرالیاں سجا کر میدان میں آؤ، گنبد خضراء کا ماحول بناؤ اور اونٹوں پر بیٹھ کر گلی گلی گھومو اور شرکیہ نعتیں پڑھو۔

↰ سیدنا ابوسعید خدری، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما ہلال بن سیاف، قتادہ، زید بن اسلم اور ضحاک رحمه الله وغیرہم نے اس فضل اور رحمت کی تفسیر اسلام اور قرآن مجید کے ساتھ کی ہے جس کی تائید اس سے پہلی آیت بھی کرتے ہے۔ امام ابن جریر، امام ابن کثیر، امام بغوی، امام قرطبی، ابن عربی، اور دوسرے بہت سے مفسرین نے بھی یہی تفسیر کی ہے۔ ائمہ کی تفاسیر میں سے کسی بھی تفسیر میں نہیں ہے کہ اس رحمت سے مراد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت ہے۔ یہ واضح ہو کہ لوگوں کے لئے اصل رحمت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت اور رسالت ہے۔
(more…)

Continue Readingقرآن سے عید میلاد النبی کا جواز

مُردوں سے تبرک

فتویٰ : سابق مفتی اعظم سعودی عرب شیخ ابن باز رحمہ اللہ

سوال : ہمارے شہر میں ایک شخص فوت ہو گیا، ہم نے شہر کی عمر رسیدہ خواتین کو دیکھا کہ وہ اس کے گھر جا رہی ہیں اور میت کو کفن کے بعد کپڑے سے ڈھانپ کر عورتوں کے درمیان رکھ دیا گیا۔ جب ہم نے اس کا سبب پوچھا: تو انہوں نے کہا: ”ہم حصول برکت کے لئے ایسا کرتی ہیں۔“ ان عورتوں کے اس عمل کا کیا حکم ہے ؟ کیا یہ سنت ہے ؟
جواب : یہ عمل ناجائز بلکہ منکر ہے۔ کیونکہ کسی کے لئے مُردوں یا مقبروں سے تبرک حاصل کرنا جائز نہیں۔ اسی طرح ان سے یہ سوال کرنا کہ وہ کسی مریض کو شفا بخشیں یا فلاں حاجت پوری کر دیں تو یہ بھی ناجائز ہے۔ کیونکہ عبادت محض اللہ تعالیٰ کا حق ہے، برکت بھی اسی سے حاصل کی جائے کہ وہ بابرکت ہونے سے متصف ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشار ہے :
تَبَارَكَ الَّذِي نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلَى عَبْدِهِ لِيَكُونَ لِلْعَالَمِينَ نَذِيرًا [25-الفرقان:1]
”بابرکت ہے وہ ذات جس نے اپنے بندے (محمد صلی اللہ علیہ وسلم) پر فرقان نازل فرمایا تاکہ وہ سب جہانوں کے لئے ڈرانے والا بن جائے۔“
مزید فرمایا : (more…)

Continue Readingمُردوں سے تبرک

زیارت قبر نبوی فضیلت و اہمیت

تحریر: غلام مصطفٰے ظہیر امن پوری

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کی زیارت کی فضیلت و اہمیت پر مبنی بہت سی روایات زبان زد عام ہیں۔ ان روایات کا اصول محدثین کی روشنی میں تحقیقی جائزہ پیش خدمت ہے :
روایت نمبر

سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
من زار قبري، وجبت له شفاعتي ”جو شخص میری قبر کی زیارت کرے گا، اس کے لیے میری سفارش واجب ہو جائے گی۔“ [سنن الدارقطني : 278/2، ح : 2669، شعب الإيمان للبيهقي : 490/3، ح : 5169، مسند البرار كشف الأستار : 57/2، ح 1197]

تبصرہ : اس کی سند ”ضعیف“ ہے، اس کے بارے میں :
➊ امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
فإن فى القلب منه، أنا أبرا من عهدته
”میرے دل میں اس کے بارے میں خلش ہے۔ میں اس کی ذمہ داری سے بری ہوں۔“ [لسان الميزان لابن حجر : 135/6]
◈ نیز اس روایت کو امام صاحب نے ”منکر“ بھی قرار دیا ہے۔ [أيضا]
◈ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ کی ساری بحث ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں :
ومع ما تقدم من عبارة ابن خزيمة، وكشفه عن علة هذا الخبر، لا يحسن أن يقال : أخرجه ابن خزيمة فى صحيحه إلا مع البيان.
”امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ کی عبارت بیان ہو چکی سے، نیز انہوں نے اس روایت کی علت بھی بیان کر دی ہے، اس سب کچھ کے ہوتے ہوئے یہ کہنا درست نہیں کہ اس روایت کو امام ابن خزیمہ نے اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔ ہاں ! وضاحت کر کے ایسا کہا جا سکتا ہے۔“ [ايضا]
◈ حافظ سخاوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وهو فى صحيح ابن خزيمة وأشار الي تضعيفه .
یہ روایت صحیح ابن خزیمہ میں ہے، لیکن امام صاحب نے اس کے ضعیف ہونے کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔“ [المقاصد الحسنة فى بيان كثير من الأحاديث المشتهرة على الألسنة : 1125]
➋ امام عقیلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : فيها لين ”اس میں کمزوری ہے۔“ [الضعفاء الكبير : 170/4]
➌ حافظ بیہقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : فهو منكر ”یہ روایت منکر ہے۔“ [شعب الإيمان للبيهقي : 490/3]
➍ حافظ نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : اس کی سند ”ضعیف“ ہے۔ [المجموع شرح المهذب : 272/8]
➎ حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : وهو حديث منكر ”یہ حدیث منکر ہے۔“ [تاريخ الإسلام : 212/11، وفي نسخة : 115/11]
➏ حافظ ابن عبدالہادی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
وهو مع هذا حديث غير صحيح ولا ثابت، بل هو حديث منكر عند ائمة هذا الشان. ضعيف الاسناد عندهم، لايقوم بمثله حجة، ولا يعتمد علي مثله عند الاحتجاج الا الضعفاء في هذا العلم
یہ حدیث نہ صحیح ہے نہ ثابت۔ یہ تو فن حدیث کے ائمہ کے ہاں منکر اور ضعیف الاسناد روایت ہے۔ ایسی روایت دلیل بننے کے لائق نہیں ہوتی۔ علم حدیث میں ناپختہ کار لوگ ہی ایسی روایات کو اپنی دلیل بناتے ہیں۔“ [الصارم المنكي فى الرد على السبكي، ص : 30]
➐ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ولا يصح فى هذا الباب شیء . ”اس بارے میں کچھ بھی ثابت نہیں۔“ [التلخيص الحبير : 267/2]
◈ نیز فرماتے ہیں :
وفيه ضعف ”اس روایت میں کمزوری ہے۔“ [اتحاف المهرة : 123/9-124]
↰ اس روایت کے راوی موسیٰ بن ہلال عبدی کی توثیق ثابت نہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ محدثین کرام نے اس کو ’’ مجہول“ اور اس کی بیان کردہ روایات کو ”منکر“ قرار دیا ہے۔ ملاحظہ فرمائیں : (more…)

Continue Readingزیارت قبر نبوی فضیلت و اہمیت

End of content

No more pages to load