جنت میں عورت کا ثواب

فتویٰ : مفتی اعظم سعودی عرب شیخ ابن جبرین حفظ اللہ

سوال : میں جب قرآن مجید کی تلاوت کرتی ہوں تو اس کی اکثر و بیشتر آیات مبارکہ میں اللہ تعالیٰ مومن مردوں کو حسین و جمیل حور و خیام کی خوشخبری دیتے نظر آتے ہیں، تو کیا عورت کیلئے آخرت میں اس کے خاوند کا نعم البدل نہیں ہے؟ اس طرح انعامات و اکرامات کے ضمن میں بھی اکثر مومن مردوں سے ہی خطاب کیا گیا ہے، تو کیا مومن عورت، مومن مرد کے مقابلے میں کم تر انعامات و اکرامات کی حق دار ہے ؟
جواب : اس میں کوئی شک نہیں کہ اخروی ثواب کی خوشخبری مرد و زن کے لئے عام ہے۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ :
أَنِّي لَا أُضِيعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِنْكُمْ مِنْ ذَكَرٍ أَوْ أُنْثَى [3-آل عمران:195]
”میں تم میں سے کسی عمل کرنے والے کے عمل کو خواہ وہ مرد ہو یا عورت ضائع نہیں کرتا۔“
دوسری جگہ ارشاد فرمایا :
مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِنْ ذَكَرٍ أَوْ أُنْثَى وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهُ حَيَاةً طَيِّبَةً [16-النحل:97]
”نیک عمل جو کوئی بھی کرے گا وہ مرد ہو یا عورت، بشرطیکہ وہ صاحب ایمان ہو تو ہم اسے ضرور پاکیزہ زندگی عطا کریں گے۔“
نیز ارشاد ہوتا ہے:
وَمَنْ يَعْمَلْ مِنَ الصَّالِحَاتِ مِنْ ذَكَرٍ أَوْ أُنْثَى وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَأُولَـئِكَ يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ [4-النساء:124]
”اور جو کوئی بھی نیک عمل کرے گا خواہ وہ مرد ہو یا عورت اس حال میں کہ وہ صاحب ایمان ہو تو ایسے لوگ جنت میں داخل ہوں گے۔“
اسی طرح ارشاد باری تعالیٰ ہے :
إِنَّ الْمُسْلِمِينَ وَالْمُسْلِمَاتِ وَالْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ وَالْقَانِتِينَ وَالْقَانِتَاتِ وَالصَّادِقِينَ وَالصَّادِقَاتِ وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِرَاتِ وَالْخَاشِعِينَ وَالْخَاشِعَاتِ وَالْمُتَصَدِّقِينَ وَالْمُتَصَدِّقَاتِ وَالصَّائِمِينَ وَالصَّائِمَاتِ وَالْحَافِظِينَ فُرُوجَهُمْ وَالْحَافِظَاتِ وَالذَّاكِرِينَ اللَّـهَ كَثِيرًا وَالذَّاكِرَاتِ أَعَدَّ اللَّـهُ لَهُمْ مَغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِيمًا [33-الأحزاب:35] (more…)

Continue Readingجنت میں عورت کا ثواب

ابتدائی مرحلہ میں عورتوں کے بچوں کو پڑھانے کے خطرات

فتویٰ : سابق مفتی اعظم سعودی عرب شیخ ابن باز رحمہ اللہ

میں نے وہ مضمون دیکھا ہے جو ”اخبار المدینہ“ نے شمارہ 3898 میں 30/2/1397ھ کو شائع کیا ہے اور یہ مضمون ”نورہ بنت عبد اللہ“ کے قلم سے اور ”آمنے سامنے“ کے زیر عنوان طبع ہوا ہے۔ خلاصہ کلام یہ کہ نورہ مذکورہ خواتین کی ایک مجلس میں جدہ ٹریننگ کالج کی پرنسپل فائزہ دباغ کے ساتھ شریک ہوئی اور اس نے بیان کیا ہے کہ فائزہ نے اس بات پر تعجب کا اظہار کیا کہ عورتیں ابتدائی مرحلہ میں اپنے بچوں کو کیوں نہیں پڑھاتیں حتی کہ وہ انہیں پانچویں جماعت تک بھی نہیں پڑھاتیں نورہ نے بھی فائزہ کی تائید کی اور ان اسباب کو بھی بیان کیا جس کی وجہ سے خواتین ابتدائی مرحلے کے پانچویں جماعت تک کے بچوں کو بھی پڑھانے کے لئے تیار نہیں ہیں۔
میں جہاں نورہ، فائزہ اور ان کی ساتھی خواتین کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے ہمارے چھوٹے بچوں کی تعلیم وتربیت اور نگہداشت کے موضوع پر اظہار خیال کیا ہے وہاں میں اس بات کی طرف توجہ مبذول کرانا بھی اپنا فرض سمجھتا ہوں کہ اس تجویز کے بہت سے نقصانات اور انتہائی خطرناک نتائج برآمد ہوں گے کہ اگر بچوں کی ابتدائی تعلیم خواتین کے سپرد کر دی جائے تو اس سے بالغ بچوں کے ساتھ خواتین کا اختلاط پیدا ہو گا کیونکہ ابتدائی تعلیم کے مرحلے ہی میں بعض بچے بالغ ہو جاتے ہیں کیونکہ بچہ جب دس سال کا ہو جائے تو وہ بلوغت کے قریب پہنچ جاتا ہے اور وہ طبعی طور پر عورتوں کی طرف مائل ہونا شروع ہو جاتا ہے کیونکہ اس عمر میں اس کے لئے یہ ممکن ہے کہ وہ شادی کرے اور وہ کچھ کرے جو مرد کرتے ہیں۔ یہاں ایک اور بات بھی قابل غور ہے کہ عورتوں کا ابتدائی مرحلے میں بچوں کو تعلیم دینا اختلاط تک پہنچائے گا اور پھر یہ اختلاط بعد کے مرحلوں تک بھی پھیل جائے گا اور یہ بلاشبہ تمام مراحل میں اختلاط کا دروازہ کھولنے کے مترادف ہے اور معلوم ہے کہ مخلوط تعلیم سے کس قدر خرابیاں اور کس قدر بھیانک نتائج ان ممالک میں پیدا ہوئے ہیں جنہوں نے اس نظام تعلیم کو اختیار کیا ہے۔ اسلامی بصیرت رکھنے والا ہر وہ شخص جسے ادلہ شرعیہ اور عصر حاضر میں امت کے حالات کا ادنی سا بھی علم ہو اور وہ ہمارے بچوں اور بچیوں کی دینی تعلیم و تربیت کا خواہاں ہو تو وہ بھی اس حقیقت کو یقیناً معلوم کرے گا۔ میری رائے میں تو شیطان یا اس کے کسی نمائندے نے مذکورہ فائزہ اور نورہ کی زبان پر یہ تجویز القاء کی ہے جو بلاشبہ ہمارے اور اسلام کے دشمنوں کو خوش کرے گی کیونکہ وہ تو ظاہر اور خفیہ طور پر ہمیشہ اس کی دعوت دیتے رہتے ہیں۔ (more…)

Continue Readingابتدائی مرحلہ میں عورتوں کے بچوں کو پڑھانے کے خطرات

دوران نماز عورت سر کا مسح کیسے کرے؟

فتویٰ : سابق مفتی اعظم سعودی عرب شیخ ابن باز رحمہ اللہ سوال : دوران وضو عورت کے سر کا مسح کرنے کی کیفیت کیا ہے؟ کیا عورت کسی مجبوری کے تحت سر کے ایک حصے کا مسح کر سکتی ہے؟ جواب : وضو کے لئے سر کے مسح کا حکم عورت کے لئے بھی وہی ہے جو مرد کے لئے ہے۔ مسح کانوں سمیت سر کے آخری حصے تک کرنا ضروری ہے۔ عورت کے بالوں کے آخری حصے تک مسح کرنا ضروری نہیں ہے۔ احادیث صحیحہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سر کے اگلے حصے سے لے کر اس کے آخر (گدی) تک کا مسح فرماتے تھے۔ اصل یہ ہے کہ شرعی احکام میں مرد و زن برابر ہیں۔ سوائے ان حکام کے جنہیں کسی شرعی دلیل کی رو سے اختصاص حاصل…

Continue Readingدوران نماز عورت سر کا مسح کیسے کرے؟

حیض و جنابت کے بعد عورت کے غسل کی کیفئت

فتویٰ : دارالافتاءکمیٹی

سوال : کیا مرد و عورت کے غسل جنابت میں کوئی فرق ہے؟ اور کیا عورت پر غسل کے لئے اپنے سر کے بال کھولنا ضروری ہیں؟ یا حدیث نبوی کی بناء پر تین لپ پانی ڈال لینا ہی کافی ہے؟ نیز غسل جنابت اور غسل حیض میں کیا فرق ہے؟
جواب : مرد و عورت کے غسل جنابت میں کوئی فرق نہیں ہے۔ اور کسی پر بھی غسل کے لئے بالوں کا کھولنا ضروری نہیں ہے، بلکہ بالوں پر تین لپ پانی ڈال کر باقی جسم کو دھو لینا کافی ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ سیدہ ام سلمیٰ رضی اللہ عنہا نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا:
إني امرأة أشد ضفر رأسى أفانقضه للحيض والجنابة؟ قال:لأ، انما يكفيك أن تحثى على رأسك ثلاث حثيات، ثم تفيضي عليك الماء فتطهري [صحيح مسلم]
”میں سخت گندھے ہوئے بالوں والی عورت ہوں، کیا انہیں غسل جنابت کے لئے کھولا کروں؟ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں، تیرے لئے یہی کافی ہو گا کہ سر پر پانی انڈیل کر غسل جنابت کر لے۔“
اگر عورت یا مرد کے جسم پر مہندی وغیرہ لگی ہو اور اس کی وجہ سے پانی جسم تک نہ پہنچ سکتا ہو تو اس کا ازالہ ضروری ہے۔ جہاں تک عورت کے غسل جنابت کا تعلق ہے تو اس صورت میں اس کے لئے بالوں کا کھولنا مختلف فیہ ہے۔ درست بات یہ ہے کہ عورت پر بالوں کا کھولنا ضروری نہیں ہے۔ کیونکہ بعض روایات میں ہے کہ سیدہ ام سلمی رضی اللہ عنھا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا:
إني امرأة أشد ضفر رأسى أفانقضه للحيض والجنابة؟ قال:لأ، انما يكفيك أن تحثى على رأسك ثلاث حثيات، ثم تفيضي عليك الماء فتطهري [صحيح مسلم] (more…)

Continue Readingحیض و جنابت کے بعد عورت کے غسل کی کیفئت

مایوسی کی حالت میں موت کی تمنا

فتویٰ : مفتی اعظم سعودی عرب الشیخ ابن عثمین رحمہ اللہ

سوال : مجھے زندگی میں ایسی مشکلات کا سامنا ہے جن کی بناء پر مجھے زندگی سے نفرت ہو گئی ہے۔ جب تنگ دلی کا شکار ہوتی ہوں تو اللہ تعالیٰ کے سامنے فریاد کرتی ہوں کہ وہ فوراً میری زندگی کا خاتمہ کر دے۔ میری اب بھی یہی آرزو ہے کیونکہ موت کے علاوہ میری مشکلات کا کوئی حل نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ایسے مایوس کن حالات میں میرے لئے موت کی تمنا کرنا حرام ہے ؟
جواب : کسی مصیبت کے پیش نظر موت کی آرزو کرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حرام اور منع کردہ اشیاء کا ارتکاب کرنا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :
لا يتمنين أحدكم الموت من ضر أصابه، فإن كان لأبد فاعلا فليقل : اللهم أحينى ما كانت الحياة خيرا لى، وتوفى ما إذا كانت الوفاة خيرا لى [رواه البخاري باب تمنى المريض الموت]
”تم میں سے کوئی شخص کسی مصیبت کی وجہ سے موت کی تمنا نہ کرے اگر اسے ضرور ہی ایسا کرنا ہے تو یوں کہہ لے : اے اللہ ! جب تک (تیرے علم میں) میرے لئے زندگی بہتر ہے مجھے زندہ رکھنا اور جب موت بہتر ہو تو مجھے موت دے دینا۔“
لہٰذا کسی بھی شخص کے لئے کسی مصیبت، تنگی یا مشکل کی وجہ سے موت کی آرزو کرنا جائز نہیں ہے ایسا شخص صبر کرئے۔ اللہ تعالیٰ سے ثواب کا طلبگار رہے اور حالات کی بہتری کے لئے اس سے امید رکھے، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
واعلم أن النصر مع الصبر، وأن الفرج مع الكرب، وأن مع العسر يسرا [رواه أحمد]
”جان لیجئیے کہ مدد صبر کے ساتھ، غموں کی دوری مصائب کے ساتھ اور آسانی تنگی کے ساتھ ہے۔“
ہر مصیبت زدہ شخص کو یقین رکھنا چاہے کہ مصائب اس کی گزشتہ خطاؤں کا کفارہ ہیں۔ بندہ مومن کو جب بھی کوئی پریشانی، غم و اندوہ یا تکلیف وغیرہ آتی ہے تو اللہ تعالیٰ اسے اس کے گناہوں کا کفارہ بنا دیتے ہیں۔ صبر و احتساب کے ساتھ ہی بندہ اس اعلیٰ و ارفع مقام پر فائز ہوتا ہے جس کے متعلق ارشار باری تعالیٰ ہے :
وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَ ٭ الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُمْ مُصِيبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّـهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ [2-البقرة:155] (more…)

Continue Readingمایوسی کی حالت میں موت کی تمنا

وضو، نماز میں زبان سے نیت

فتویٰ : سابق مفتی اعظم سعودی عرب شیخ ابن باز رحمہ اللہ سوال : وضو اور نماز کے لئے زبان سے نیت کے الفاظ کی ادائیگی کا کیا حکم ہے؟ جواب : اس کا حکم یہ ہے کہ یہ بدعت ہے، کیونکہ زبان سے نیت (کے الفاظ ادا) کرنا نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام سے ثابت نہیں ہے، لہٰذا اس کا چھوڑ دینا ضروری ہے۔ نیت کا محل دل ہے لہٰذا نیت کے الفاظ زبان پر لانے کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں۔ والله ولي التوفيق  

Continue Readingوضو، نماز میں زبان سے نیت

عورت کے جسم سے نکلنے والی رطوبت پاک یا ناپاک؟

فتویٰ : سابق مفتی اعظم سعودی عرب شیخ ابن باز رحمہ اللہ سوال : میں نے ایک عالم سے سنا کہ عورت کے جسم سے نکلنے والی رطوبت پاک ہے۔ میں نے جب سے یہ فتوی سنا نماز ادا کرنے کے لئے متاثرہ شلوار نہیں اتارتی تھی۔ عرصہ دراز کے بعد ایک دوسرے عالم سے سنا کہ ایسی رطوبت پلید ہے۔ اس بارے میں درست بات کون سی ہے؟ جواب : قبل یا دبر (آگے یا پیچھے والے حصے ) سے نکلنے والا پانی وغیرہ ناقض وضو ہے۔ وہ کپڑے یا بدن کو لگ جائے تو اسے دھونا ضروری ہے۔ اگر یہ دائمی امر ہو تو اس کا حکم استحاضہ اور سلس البول والا ہے۔ یعنی عورت کو استنجاء کرنے کے بعد ہر نماز کے لئے وضو کرنا ہوگا۔ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مستحاضہ عورت سے فرمایا تھا۔ توضئي لوقتِ…

Continue Readingعورت کے جسم سے نکلنے والی رطوبت پاک یا ناپاک؟

نماز میں اٹھنے کا مسنون طریقہ

تحریر: ابوسعید سلفی حفظ اللہ

سنت طریقہ ہی کیوں؟
✿ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ [2-البقرة:43]
’’ نماز قائم کرو۔“
یہ ایک اجمالی حکم ہے۔ اس کی تفصیل کیا ہے ؟ نماز کس طرح قائم ہو گی ؟ اس اجمال کی تفصیل نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم
کے اس فرمان گرامی میں موجود ہے :
صلوا كما رأيتموني أصلي
’’ نماز ایسے پڑھو، جیسے مجھے پڑھتے ہوئے دیکھا ہے۔“ [صحيح البخاري : 88/1، ح : 631]
◈ شیخ الاسلام ثانی، عالم ربانی، علامہ ابن قیم الجوزیہ رحمہ اللہ (691-751ھ) فرماتے ہیں :
إن اللہ سبحانه لا يعبد إلا بما شرعه علٰي ألسنة رسله، فإن العبادة حقه علٰي عباده، وحقه الذى أحقه هو، ورضي به، وشرعه
”اللہ تعالیٰ کی عبادت کا صرف وہی طریقہ ہے، جو اس نے اپنے رسولوں کی زبانی بیان کر دیا۔ عبادت بندوں پر اللہ تعالیٰ کا حق ہے اور اس کا حق وہی ہو سکتا ہے، جو اس نے خود مقرر کیا ہو، اس پر وہ راضی بھی ہو اور اس کا طریقہ بھی اس نے خود بیان کیا ہو۔“ [اعلام الموقعين عن رب العالمين : 1/ 344]
↰ معلوم ہوا کہ عبادت کی قبولیت تب ہو گی، جب اسے سنت طریقے سے سرانجام دیا جائے۔ سنت کا علم صرف صحیح حدیث کے ذریعے ہوتا ہے۔ جہالت اور عناد کی بنا پر ”صحیح“ احادیث کو چھوڑ کر ”ضعیف“ روایات کے ذریعے عبادات کے طریقے مقرر کرنا جائز نہیں۔
↰ چونکہ نماز بھی ایک عبادت، بلکہ ایسا ستون ہے، جس پر اسلام کی پوری عمارت کھڑی ہوتی ہے، لہٰذا اس کی ادائیگی میں بھی سنت طریقے کو ملحوظ رکھنا انتہائی ضروری ہے۔

جلسہ استراحت اور تشہد کے بعد کیسے اٹھیں ؟
نماز کی پہلی اور تیسری رکعت میں دونوں سجدوں کے بعد اگلی رکعت کے لیے اٹھنے سے پہلے تھوڑی دیر کے لیے اطمینان سے بیٹھنا جلسہ استراحت کہلاتا ہے۔ اس جلسہ کے بعد اور درمیانے تشہد کے بعد اگلی رکعت کے لیے اٹھنا ہوتا ہے۔ اس اٹھنے کا سنت طریقہ جاننا اس تحریر کا بنیادی مقصد ہے۔ ملاحظہ فرمائیں ؛
دليل نمبر
مشہور تابعی، امام، ایوب سختیانی رحمہ اللہ کا بیان ہے :
عن أبي قلابة، قال : جائ نا مالك بن الحويرث، فصلٰي بنا فى مسجدنا هٰذا، فقال : إني لـأصلي بكم، وما أريد الصلاة، ولٰكن أريد أن أريكم كيف رأيت النبى صلى اللہ عليه وسلم يصلي، قال أيوب : فقلت لأبي قلابة : وكيف كانت صلاته؟ قال : مثل صلاة شيخنا هٰذا ـ يعني عمرو بن سلمة ـ قال أيوب : وكان ذٰلك الشيخ يتم التكبير، وإذا رفع رأسه عن السجدة الثانية جلس واعتمد على الـأرض، ثم قام
’’ ابوقلابہ (تابعی ) نے بتایا : ہمارے پاس سیدنا مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ تشریف لائے، ہماری مسجد میں ہمیں نماز پڑھائی اور فرمانے لگے : میں تمہارے سامنے نماز پڑھنے لگا ہوں، حالانکہ نماز پڑھنا میرا مقصد نہیں۔ دراصل میں چاہتا ہوں کہ تمہیں یہ بتاؤں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیسے نماز پڑھا کرتے تھے۔ میں نے ابوقلابہ رحمہ اللہ سے پوچھا کہ سیدنا مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کی نماز کیسی تھی ؟ انہوں نے بتایا : ہمارے شیخ عمرو بن سلمہ رضی اللہ عنہ کی طرح۔ عمرو بن سلمہ رضی اللہ عنہ تکبیر کہتے، جب دوسرے سجدے سے سر اٹھاتے، تو بیٹھ جاتے اور زمین پر ٹک جاتے، پھر کھڑے ہوتے۔“ [صحيح البخاري : 824]
◈ امام محمد بن ادریس، شافعی رحمہ اللہ (150-204ھ) فرماتے ہیں :
وبهٰذا نأخذ، فنأمر من قام من سجود، أو جلوس فى الصلاة أن يعتمد على الـأرض بيديه معا، اتباعا للسنة، فإن ذٰلك أشبه للتواضع، وأعون للمصلي على الصلاة، وأحرٰي أن لا ينقلب، ولا يكاد ينقلب، و أى قيام قامه سوٰي هٰذا كرهته له
ہم اسی حدیث کے مطابق فتویٰ دیتے ہیں اور جو شخص نماز میں سجدے یا تشہد سے (اگلی رکعت کے لیے) اٹھے، اسے حکم دیتے ہیں کہ سنت پر عمل کرتے ہوئے وہ اپنے دونوں ہاتھوں کو زمین پر ٹیکے۔ یہ عمل عاجزی کے قریب تر ہے، نمازی کے لیے مفید بھی ہے اور گرنے سے بچنے کا ذریعہ بھی ہے۔ اس کے علاوہ اٹھنے کی کوئی بھی صورت میرے نزدیک مکروہ ہے۔ [كتاب الام : 101/1]
(more…)

Continue Readingنماز میں اٹھنے کا مسنون طریقہ

پہلے قعدہ میں تشہد

تحریر: ابوعبداللہ صارم حفظ اللہ

نماز کی دو رکعتیں مکمل کرنے کے بعد بیٹھنا قعدہ کہلاتا ہے۔ چار رکعتوں والی نماز میں دو قعدے ہوتے ہیں۔ پہلا دو رکعتوں کے بعد اور دوسرا چار رکعتیں مکمل کرنے کے بعد۔
قعدہ پہلا ہو یا دوسرا اس میں تشہد (التحيات۔۔۔،جس میں اللہ کی وحدانیت اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی شہادت ہوتی ہے ) پڑھا جاتا ہے۔ تشہد سے زائد مثلاً درود پڑھنا اور دُعا کرنا صرف دوسرے تشہد کے ساتھ خاص ہے یا پہلے تشہد میں بھی اس کی اجازت ہے ؟ اسی سوال کا جواب دینے کے لیے یہ تحریر قارئین کی خدمت میں پیش کی جا رہی ہے۔

ہماری تحقیق میں پہلے قعدہ میں تشہد پر اکتفا کر لیا جائے یا تشہد سے زائد بھی کچھ پڑھ لیا جائے، دونوں صورتیں جائز ہیں۔ جو لوگ کہتے ہیں کہ اگر پہلے تشہد میں درود پڑھا گیا، تو سجدۂ سہو لازم آ جائے گا، ان کی بات بے دلیل ہے، کیونکہ دونوں طریقے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ سے ثابت ہیں، ملاحظہ فرمائیں :

تشہد پر اقتصار و اکتفا :
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے اپنے شاگردوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تشہد سکھایا۔ ان کے ایک شاگرد اسود بن یزید بیان کرتے ہیں :
ثم إن كان فى وسط الصلاة؛ نهض حين يفرغ من تشهده، وإن كان فى آخرها؛ دعا بعد تشهده ما شائ اللہ أن يدعو، ثم يسلم
”آپ اگر نماز کے درمیانے تشہد میں ہوتے تو تشہد سے فارغ ہوتے ہی (اگلی رکعت کے لیے) کھڑے ہو جاتے اور اگر آخری تشہد میں ہوتے، تو تشہد کے بعد جو دعا مقدر میں ہوتی، کرتے، پھر سلام پھیرتے۔“ [مسند الإمام احمد :459/1، و سندهٔ حسن]
↰ امام الائمہ، ابن خزیمہ رحمہ اللہ (708) نے اس حدیث کو ”صحیح“ قرار دیا ہے۔
امام موصوف اس حدیث پر یوں باب قائم کرتے ہیں:
باب الاقتصار فى الجلسة الأولى على التشهد، وترك الدعاء بعد التشهد الأول.
”اس بات کا بیان کہ پہلے قعدہ میں تشہد پر اکتفا کرنا اور دعا کو ترک کرنا جائز ہے۔“ [صحيح ابن خزيمة : 708]

➋ ام المؤمنین، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے:
إن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان لا يزيد فى الركعتين على التشهد.
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دو رکعتوں کے بعد (عام طور پر) تشہد سے زیادہ نہیں پڑ ھتے تھے۔“ [ مسند أبى يعلى الموصلي: 4373، وسندہ صحيح]

تنبیھات :
➊ سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے :
كان رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم إذا جلس فى الركعتين الـأوليين، كأنه على الرضف
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب دو رکعتوں کے بعد (تشہد کے لیے بیٹھتے )، تو (بہت جلد اٹھنے کی وجہ سے ) ایسے لگتا کہ گرم پتھر پر بیٹھے ہیں۔“ [مسند احمد : 386/1، سنن ابي داود 995، سنن الترمذي : 366]
↰ اس کی سند ’’ مرسل“ ہونے کی وجہ سے ’’ ضعیف“ ہے، کیونکہ :
ابوعبیدہ کا اپنے والد سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے سماع نہیں۔
◈ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
والراجح أنه لا يصح سماعه من أبيه
”راجح بات یہی ہے کہ ابوعبیدہ کا اپنے والدِ گرامی سے سماع ثابت نہیں۔“ [تقريب التهذيب : 8231]
◈نیز فرماتے ہیں :
(more…)

Continue Readingپہلے قعدہ میں تشہد

بارش میں دو نمازوں کو جمع کر کے پڑھنا

تحریر: غلام مصطفےٰ ظہیر امن پوری

سوال : بارش میں دو نمازوں کو جمع کر کے پڑھنا کیسا ہے ؟
جواب: بارش میں دو نمازوں کو جمع کر کے پڑھنا جائز ہے، جیسا کہ :
◈ امام الائمہ، ابن خزیمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ولم يختلف علماء الحجاز ان الجمع بين الصلاتين فى المطر جائز.
”علماءِ حجاز کا اس بات پر اتفاق ہے کہ بارش میں دو نمازوں کو جمع کرنا جائز ہے۔“ [صحيح ابن خزيمة 85/2 ]
◈ سعید بن جبیر تابعی رحمہ اللہ تعلق کہتے ہیں کہ صحابی رسول سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہا نے بیان فرمایا :
جمع رسول الله صلى الله عليه وسلم بين الظهر والعصر، والمغرب والعشاء بالمدينة، فى غير خوف، ولا مطر (وفي لفظ : ولا سفر)، قلت لابن عباس : لم فعل ذلك ؟ قال : كي لا يخرج أمته .
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ میں ظہر و عصر اور مغرب و عشا کو بغیر کسی خوف اور بارش (ایک روایت میں بغیر کسی خوف اور سفر) کے جمع کیا۔ (سعید من جبیر کہتے ہیں : ) میں نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے دریافت کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کیوں کیا؟ فرمایا : اس لئے کہ آپ صلى الله عليه وسلم کی امت پر کوئی مشقت نہ ہو۔ “ [صحيح مسلم : 54/705، 50]
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما ہی کا بیان ہے :
صليت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم بالمدينة ثمانيا جميعا، وسبعا جميعا، الظهر والعصر، والمغرب والعشاء .
”میں نے مدینہ منورہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا میں ظہر و عصر کی آٹھ رکعات اور مغرب و عشا کی سات رکعات جمع کر کے پڑھیں۔ “ [ صحيح البخاري : 543، 1174، صحيح مسلم : 55/705]
◈ شیخ الاسلام، ابن تیمیہ رحمہ اللہ (661-728ھ) فرماتے ہیں :
والجمع الذى ذكره ابن عباس لم يكن بهذا ولا بهذا، وبهذا استدل أحمد به على الجمع لهذه الأمور بطريق الأولى، فإن هذا الكلام يدل على أن الجمع لهذه الأمور أولى، وهذا من باب التنبيه بالفعل، فانه اذا جمع ليرفع الحرج الحاصل بدون الخوف والمطر والسفر، فالخرج الحاصل بهذه أولى أن يرفع، والجمع لها أولى من الجمع لغيرها.
”سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے جس جمع کا ذکر کیا ہے، وہ نہ خوف کی وجہ سے تھی، نہ بارش کی وجہ سے۔ اسی حدیث سے امام احمد رحمہ اللہ نے استدلال کیا ہے کہ خوف اور بارش میں تو بالاولیٰ جمع ہو گی. اس بحث سے معلوم ہوتا ہے کہ ان امور میں نمازوں کو جمع کرنا بالاولیٰ جائز ہے۔ یہ تنبیہ بالفعل کی قبیل سے ہے . جب خوف، بارش اور سفر کے بغیر جو مشقت ہوتی ہے، اس مشقت کو ختم کرنے کے لیے دو نمازوں کو جمع کیا جا سکتا ہے، تو ان اسباب کی مشقت کو ختم کرنا تو بالاولیٰ جائز ہو گا، لہٰذا خوف، بارش اور سفر کی بنا پر نمازوں کو جمع کرنا دیگر امور کی بنا پر جمع کی نسبت زیادہ جائز ہو گا۔ [مجموع الفتاوي: 76/24 ]
◈ محدث العصر، علامہ البانی رحمہ اللہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے قول فى غير خوف ولا مطر کی شرح میں فرماتے ہیں :
فإنه يشعر أن الجمع للمطر كان معروفا فى عهدم صلى الله عليه وسلم، ولو لم يكن كذلك، لما كان ثمة فائدة من نفي المطر كسبب مبرر للجمع، فتامل
”یہ الفاظ اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں بارش کی وجہ سے نمازوں کو جمع کرنا معروف تھا۔ غور فرمائیے ! اگر ایسا نہ ہوتا، تو بارش کو جمع کے جواز کے سبب کے طور پر ذکر کرنے کا کوئی فائدہ نہیں تھا۔“ [ ارواءالغليل : 3 40 ] (more…)

Continue Readingبارش میں دو نمازوں کو جمع کر کے پڑھنا

باریک جرابوں پر مسح

فتویٰ : سابق مفتی اعظم سعودی عرب شیخ ابن باز رحمہ اللہ سوال : باریک جرابوں پر مسح کرنے کا حکم کیا ہے؟ جواب : جرابوں پر مسح کرنے کی شرط یہ ہے کہ وہ موٹی اور ڈھانپنے والی ہوں۔ باریک جرابوں پر مسح کرنا ناجائز ہے۔ کیونکہ باریک جرابوں میں ملبوس پاؤں ننگے کے حکم میں ہیں۔ والله الموفق  

Continue Readingباریک جرابوں پر مسح

خشک نجاست مضر نہیں

فتویٰ : شیخ ابن جبرین حفظ اللہ سوال : کیا خشک پیشاب کپڑوں کو ناپاک نہیں کرتا؟ یعنی ایک بچے نے زمین پر پیشاب کیا، یہ پیشاب اسی طرح زمین پر موجود رہا اور دھوئے بغیر ہی خشک ہو گیا، ایک شخص آیا اور اس خشک زمین پر بیٹھ گیا، تو کیا اس صورت میں اس کے کپڑے ناپاک ہو جائیں گے؟ جواب : خشک نجاست کا جسم یا خشک کپڑوں پر لگنا غیر مضر ہے، اسی طرح خشک ننگے پاؤں خشک باتھ میں داخل ہونا بھی غیر مضر ہے۔ نجاست صرف تر (گیلی) ہونے کی صورت میں ضرر رساں (نقصان دہ) ہوتی ہے۔  

Continue Readingخشک نجاست مضر نہیں

کپڑے پر بچے کا قے کرنا

فتویٰ : سابق مفتی اعظم سعودی عرب شیخ ابن باز رحمہ اللہ سوال : جس کپڑے پر شیر خوار بچے نے قے کر دی ہو تو اس میں نماز ادا کرنا جائز ہے؟ جواب : اگر بچہ شیر خوار ہو، کھانا وغیرہ نہ کھاتا ہو تو ایسے کپڑے پر پانی کے چھینٹے مار کر دھونا چاہیئےاس کا حکم بھی اس کے پیشاب کا سا ہے اس میں پانی کے چھینٹے مار کر اس میں نماز ادا کی جائے۔ پانی کے چھینٹے مارنے سے قبل اس میں نماز نہیں پڑھنی چاہیے۔ والله ولي التوفيق  

Continue Readingکپڑے پر بچے کا قے کرنا

وضو میں شک کا حکم

فتویٰ : سابق مفتی اعظم سعودی عرب شیخ ابن باز رحمہ اللہ سوال : جب کسی شخص کو شک پڑ جائے کہ اس کا وضو ٹوٹ گیا ہے یا نہیں، تو اس بارے میں شرعی حکم کیا ہے؟ جواب : جب کسی شخص کو وضو ٹوٹنے یا باقی رہنے کے متعلق شک ہو تو اس بارے میں اصل یہ ہے کہ طہارت اپنی حالت پر برقرار رہے گی اور شک مضر نہیں ہو گا۔ کیونکہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے شخص کے بارے میں سوال کیا گیا جو دوران نماز کچھ محسوس کرتا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لا ينصرف حتي يسمع صوتا أو يجد ريحا [رواه مسلم] ”وہ نماز سے نہ نکلے یہاں تک کہ آواز سنے یا بدبو پائے۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کے لئے واضح فرما دیا کہ…

Continue Readingوضو میں شک کا حکم

End of content

No more pages to load