جادو اور جنات نکالنے کی شرعی حیثیت
سوال : کیا جنوں کا وجود ہے ؟ نیز جادو کے علاج اور جنات نکالنے کی شرعی حیثیت سے آگاہ فرما دیں۔
جواب : جنوں کا وجود انبیاء علیہم السلام کی متواتر خبروں سے معلوم ہے اور یہ بھی معلوم ہے کہ وہ زندہ، ذی عقل اور ارادے کے مطابق عمل کرنے والے، نیکی کا حکم دیے گئے اور برائی سے روکے گئے ہیں۔ ان کی کوئی خاص صفت یا لمبائی چوڑائی مقرر نہیں ہے جیسا کہ بعض ملحدوں کا دعویٰ ہے۔ چونکہ جنوں کا معاملہ انبیاء علیہم السلام سے متواتر ثابت ہے اس لئے ہر خاص و عام اسے متواترہ جانتا ہے لہٰذا یہ ناممکن ہے کہ کوئی گروہ جو رسولوں کی طرف اپنی نسبت کرتا ہو اور وہ ان کے وجود کا انکار کرے۔ [مجموع الفتاويٰ 9/19، 10 ]
کتاب و سنت اور اجماع امت سے یہ بات بالکل عیاں اور ظاہر و باہر ہے کہ جنات کا وجود ہے اور یہ آگ کے شعلے سے پیدا کیے گئے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جس طرح انسانوں کی طرف رسول بنا کر مبعوث کیا گیا، اسی طرح جنات کی طرف بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے پیغمبر بن کر مبعوث ہوئے ہیں۔ جنات میں بھی نیک و بد ہر طرح کے لوگ موجود ہیں، جو ان میں شیطنت کی صفت کے حامل ہوتے ہیں، وہ انسانوں کو گمراہ کرنے کے لیے مختلف قسم کے وساوس و خطرات پیدا کرتے رہتے ہیں۔ اس صورت میں انسانوں کو تعوذ پڑھنا چاہئیے اور اللہ پاک کی پناہ پکڑنی چاہئیے۔ معاشرے میں جو عمومی صورتِ حال ہے کہ جوان لڑکیوں کو جنات کی شکایت ہوتی ہے، اکثر اوقات ہوتا یہ ہے کہ لڑکی کی پسند کی شادی والدین نہیں کرتے تو وہ جنات کے سایہ کی شکایت کرنے لگ جاتی ہے اور والدین پریشان ہو کر جنات نکالنے والے عاملوں کی طرف رجوع کرتے ہیں اور وہ آ کر جوان لڑکی کو چھوتے بھی ہیں اور رقم بھی بٹورتے ہیں۔ یہ دھندہ عروج پر ہے۔ اکثر جنات نکالنے والے زر اور زن کے پیاسے ہوتے ہیں۔ پھر وہ طرح طرح کے ڈرامے رچا کر اپنا مقصود پورا کرتے ہیں۔ جب لڑکی کی مرضی سے اس کے آشنا سے رشتہ قائم ہو جاتا ہے تو جنات کا معاملہ ختم ہو جاتا ہے۔ بعض روایات میں صراحتاً جنات کے وجودِ انسانی میں داخلے کا تذکرہ ملتا ہے۔ جیسا کہ سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے :
”ایک سفر میں میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم قضائے حاجت کے لیے نہیں جاتے تھے یہاں تک کی غائب ہو جاتے، دکھائی نہ دیتے۔ ہم ایک چٹیل میدان میں اترے، نہ اس میں درخت تھا اور نہ پہاڑ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”اے جابر ! اپنے برتن میں پانی ڈال پھر ہمارے ساتھ چل۔ “ جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم چل پڑے یہاں تک کہ ہم دکھائی نہ دیتے تھے۔ ہم ایک چٹیل میدان میں پہنچے، نہ اس میں درخت تھے اور نہ پہاڑ۔ اچانک دو درخت نظر آئے، جن کے درمیان چار ہاتھ کا فاصلہ تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”اے جابر ! اس درخت کی طرف جا اور کہہ کہ اللہ کے رسول تمہیں کہتے ہیں تو اپنے ساتھی (یعنی دوسرے درخت) کے ساتھ مل جا یہاں تک کہ میں تمہارے پیچھے (قضائے حاجت کے لیے ) بیٹھوں۔ “ جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : میں نے ایسے کہا: وہ درخت اس کی طرف پلٹ آیا۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان دونوں درختوں کے پیچھے بیٹھ گئے۔ پھر وہ دونوں اپنی جگہ کی طرف پلٹ آئے۔ ہم اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سوار ہو گئے اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان ایسے تھے گویا ہمارے اوپر پرندوں نے سایہ کیا ہوا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایک عورت آئی۔ اس کے پاس اس کا بچہ تھا، کہنے لگی : ”اے اللہ کے رسول ! بلاشبہ میرے اس بیٹے کو ہر روز تین دفعہ شیطان پکڑ لیتا ہے۔ “ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بچے کو لے لیا۔ آپ نے اسے اپنے اور کجاوے کے اگلے حصے کے درمیان بٹھا دیا، پھر فرمایا : ”اللہ کے دشمن ذلیل ہو جا، میں اللہ کا رسول ہوں، اللہ کے دشمن ذلیل ہو جا، میں اللہ کا رسول ہوں۔ “ تین مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کہا:، پھر بچہ اس عورت کے حوالے کر دیا۔ جب ہم نے اپنا سفر تمام کر لیا اور ہم اس جگہ سے گزرے تو عورت اپنے بچے سمیت ہمارے سامنے آ گئی۔ اس کے ساتھ دو مینڈھے تھے جنھیں وہ ہانک کر لا رہی تھی۔ کہنے لگی : ” اے اللہ کے رسول ! میری طرف سے ہدیہ قبول کر لیں، اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا ! اس کے بعد وہ شیطان واپس نہیں لوٹا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” ایک مینڈھا اس سے لے لو اور دوسرا اسے واپس کر دو۔ “ [ دارمي 167/1، 168، ابن أبى شيبة 490/11، 492، 11803، التمهيد
223/1، 224 دلائل النبوة لأبي نعيم 282، عبد بن حميد 1052 ]
اس روایت کی سند میں اسماعیل بن عبدالملک ہے۔ امام ابوحاتم رحمہ اللہ رازی رحمہ اللہ، امام نسائی رحمہ اللہ، امام ابن حبان رحمہ اللہ، امام ابوداؤد، امام محمد بن
عمار، امام عقیلی، امام دولابی، امام ابوالعرب القیروانی، امام ابن شاہین (رحمۃ اللہ علیہم) نے اسے ضعیف قرار دیا ہے۔ [ تهذيب الكمال 142/3، 143 ]
یعلی بن مرہ ثقفی رضی اللہ عنہ کی ایک طویل روایت میں ہے : (more…)