جادو اور جنات نکالنے کی شرعی حیثیت

تحریر: الشیخ مبشر احمد ربانی حفظ اللہ

سوال : کیا جنوں کا وجود ہے ؟ نیز جادو کے علاج اور جنات نکالنے کی شرعی حیثیت سے آگاہ فرما دیں۔
جواب : جنوں کا وجود انبیاء علیہم السلام کی متواتر خبروں سے معلوم ہے اور یہ بھی معلوم ہے کہ وہ زندہ، ذی عقل اور ارادے کے مطابق عمل کرنے والے، نیکی کا حکم دیے گئے اور برائی سے روکے گئے ہیں۔ ان کی کوئی خاص صفت یا لمبائی چوڑائی مقرر نہیں ہے جیسا کہ بعض ملحدوں کا دعویٰ ہے۔ چونکہ جنوں کا معاملہ انبیاء علیہم السلام سے متواتر ثابت ہے اس لئے ہر خاص و عام اسے متواترہ جانتا ہے لہٰذا یہ ناممکن ہے کہ کوئی گروہ جو رسولوں کی طرف اپنی نسبت کرتا ہو اور وہ ان کے وجود کا انکار کرے۔ [مجموع الفتاويٰ 9/19، 10 ]
کتاب و سنت اور اجماع امت سے یہ بات بالکل عیاں اور ظاہر و باہر ہے کہ جنات کا وجود ہے اور یہ آگ کے شعلے سے پیدا کیے گئے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جس طرح انسانوں کی طرف رسول بنا کر مبعوث کیا گیا، اسی طرح جنات کی طرف بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے پیغمبر بن کر مبعوث ہوئے ہیں۔ جنات میں بھی نیک و بد ہر طرح کے لوگ موجود ہیں، جو ان میں شیطنت کی صفت کے حامل ہوتے ہیں، وہ انسانوں کو گمراہ کرنے کے لیے مختلف قسم کے وساوس و خطرات پیدا کرتے رہتے ہیں۔ اس صورت میں انسانوں کو تعوذ پڑھنا چاہئیے اور اللہ پاک کی پناہ پکڑنی چاہئیے۔ معاشرے میں جو عمومی صورتِ حال ہے کہ جوان لڑکیوں کو جنات کی شکایت ہوتی ہے، اکثر اوقات ہوتا یہ ہے کہ لڑکی کی پسند کی شادی والدین نہیں کرتے تو وہ جنات کے سایہ کی شکایت کرنے لگ جاتی ہے اور والدین پریشان ہو کر جنات نکالنے والے عاملوں کی طرف رجوع کرتے ہیں اور وہ آ کر جوان لڑکی کو چھوتے بھی ہیں اور رقم بھی بٹورتے ہیں۔ یہ دھندہ عروج پر ہے۔ اکثر جنات نکالنے والے زر اور زن کے پیاسے ہوتے ہیں۔ پھر وہ طرح طرح کے ڈرامے رچا کر اپنا مقصود پورا کرتے ہیں۔ جب لڑکی کی مرضی سے اس کے آشنا سے رشتہ قائم ہو جاتا ہے تو جنات کا معاملہ ختم ہو جاتا ہے۔ بعض روایات میں صراحتاً جنات کے وجودِ انسانی میں داخلے کا تذکرہ ملتا ہے۔ جیسا کہ سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے :
”ایک سفر میں میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم قضائے حاجت کے لیے نہیں جاتے تھے یہاں تک کی غائب ہو جاتے، دکھائی نہ دیتے۔ ہم ایک چٹیل میدان میں اترے، نہ اس میں درخت تھا اور نہ پہاڑ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”اے جابر ! اپنے برتن میں پانی ڈال پھر ہمارے ساتھ چل۔ “ جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم چل پڑے یہاں تک کہ ہم دکھائی نہ دیتے تھے۔ ہم ایک چٹیل میدان میں پہنچے، نہ اس میں درخت تھے اور نہ پہاڑ۔ اچانک دو درخت نظر آئے، جن کے درمیان چار ہاتھ کا فاصلہ تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”اے جابر ! اس درخت کی طرف جا اور کہہ کہ اللہ کے رسول تمہیں کہتے ہیں تو اپنے ساتھی (یعنی دوسرے درخت) کے ساتھ مل جا یہاں تک کہ میں تمہارے پیچھے (قضائے حاجت کے لیے ) بیٹھوں۔ “ جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : میں نے ایسے کہا: وہ درخت اس کی طرف پلٹ آیا۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان دونوں درختوں کے پیچھے بیٹھ گئے۔ پھر وہ دونوں اپنی جگہ کی طرف پلٹ آئے۔ ہم اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سوار ہو گئے اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان ایسے تھے گویا ہمارے اوپر پرندوں نے سایہ کیا ہوا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایک عورت آئی۔ اس کے پاس اس کا بچہ تھا، کہنے لگی : ”اے اللہ کے رسول ! بلاشبہ میرے اس بیٹے کو ہر روز تین دفعہ شیطان پکڑ لیتا ہے۔ “ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بچے کو لے لیا۔ آپ نے اسے اپنے اور کجاوے کے اگلے حصے کے درمیان بٹھا دیا، پھر فرمایا : ”اللہ کے دشمن ذلیل ہو جا، میں اللہ کا رسول ہوں، اللہ کے دشمن ذلیل ہو جا، میں اللہ کا رسول ہوں۔ “ تین مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کہا:، پھر بچہ اس عورت کے حوالے کر دیا۔ جب ہم نے اپنا سفر تمام کر لیا اور ہم اس جگہ سے گزرے تو عورت اپنے بچے سمیت ہمارے سامنے آ گئی۔ اس کے ساتھ دو مینڈھے تھے جنھیں وہ ہانک کر لا رہی تھی۔ کہنے لگی : ” اے اللہ کے رسول ! میری طرف سے ہدیہ قبول کر لیں، اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا ! اس کے بعد وہ شیطان واپس نہیں لوٹا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” ایک مینڈھا اس سے لے لو اور دوسرا اسے واپس کر دو۔ “ [ دارمي 167/1، 168، ابن أبى شيبة 490/11، 492، 11803، التمهيد
223/1، 224 دلائل النبوة لأبي نعيم 282، عبد بن حميد 1052 ]

اس روایت کی سند میں اسماعیل بن عبدالملک ہے۔ امام ابوحاتم رحمہ اللہ رازی رحمہ اللہ، امام نسائی رحمہ اللہ، امام ابن حبان رحمہ اللہ، امام ابوداؤد، امام محمد بن
عمار، امام عقیلی، امام دولابی، امام ابوالعرب القیروانی، امام ابن شاہین (رحمۃ اللہ علیہم) نے اسے ضعیف قرار دیا ہے۔ [ تهذيب الكمال 142/3، 143 ]
یعلی بن مرہ ثقفی رضی اللہ عنہ کی ایک طویل روایت میں ہے : (more…)

Continue Readingجادو اور جنات نکالنے کی شرعی حیثیت

تعدد ازواج سے متعلقہ آیات میں کوئی تعارض نہیں

فتویٰ : سابق مفتی اعظم سعودی عرب شیخ ابن باز رحمہ اللہ سوال : قرآن مجید میں تعدد ازواج کے ضمن میں ایک آیت یہ کہتی ہے : فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً [4-النساء:3 ] ”اگر تمہیں ڈر ہو کہ تم انصاف نہیں کر سکو گے تو پھر ایک ہی کافی ہے۔“ جبکہ دوسری جگہ یوں ارشاد ہے : وَلَنْ تَسْتَطِيعُوا أَنْ تَعْدِلُوا بَيْنَ النِّسَاءِ وَلَوْ حَرَصْتُمْ [4-النساء:129] ”اور تم سے یہ تو بھی نہیں ہو سکے گا کہ تم بیویوں کے درمیان پورا پورا انصاف کرو خواہ تم اس کی کتنی ہی خواہش کرو۔“ پہلی آیت میں ایک سے زیادہ عورتوں سے شادی کے لئے انصاف کرنے کو شرط قرار دیا گیا ہے، جبکہ دوسری آیت میں اس امر کی وضاحت ہے کہ قیام عدل غیر ممکن ہے۔ کیا اس کا یہ مطلب ہےکہ پہلی آیت منسوخ ہے اور نتیجتًا صرف ایک…

Continue Readingتعدد ازواج سے متعلقہ آیات میں کوئی تعارض نہیں

نعت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کی شرعی حیثیت

تحریر: مولانا ابوالحسن مبشر احمد ربانی حفظ اللہ

سوال : نعت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کی شرعی حیثیت کیا ہے ؟
جواب : نعت صفت بیان کرنے اور تعریف کرنے کو کہا جاتا ہے، ہمارے ہاں نعت کی اصطلاح نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف و توصیف کے لیے مخصوص ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نعت بیان کرنے میں کوئی حرج نہیں بلکہ یہ عمل باعث اجر و ثواب ہے مگر شرط یہ ہے کہ اس میں شرک کی آمیزش نہ ہو جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
لا تطروني كما اطرت النصارى ابن مريم فإنما انا عبده فقولوا : عبد الله ورسوله .
’’ مجھے اس طرح نہ بڑھاؤ جس طرح عیسائیوں نے عیسیٰ علیہ السلام کو بڑھا چڑھا دیا ہے میں اس کا بندہ ہوں لہٰذا یہ کہو کہ ( وہ ) اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔“ [بخاري، كتاب احاديث الانبياء : باب قول الله تعالىٰ : واذكر فى الكتاب مريم : 3445]
اس سے ثابت ہو ا کہ غیر شرکیہ نعت یا دوسرے اشعار وغیرہ بھی جائز ہیں جیسا کہ سیدنا حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کافروں کی ہجو میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے اشعار پڑھا کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں فرمایا : ’’ ان (کافروں) کی ہجو کرو، جبرئیل علیہ السلام تمہارے ساتھ ہیں۔“ [بخاري، كتاب بدء الخلق : باب ذكر الملائكة صلوات الله عليهم : 3213] (more…)

Continue Readingنعت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کی شرعی حیثیت

صالحین کو پکارنا

تالیف: الشیخ السلام محمد بن عبدالوھاب رحمہ اللہ، ترجمہ: مولانا مختار احمد ندوی حفظ اللہ

ان باتوں کا جاننا ہر مسلمان کے لیے نہایت ضروری ہے کیوں کہ ان پر زمانہ جاہلیت کے اہل کتاب اور امی عمل پیرا تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی مخالفت کی تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ کسی چیز کی خوبی اس وقت ظاہر ہوتی ہے جبکہ اس کے مقابل کی چیز سامنے ہو۔ اشیاء کی حقیقت تو ان کے اضداد ہی سے واضح ہوتی ہے۔ اس سلسلہ کی سب سے زیادہ خطرناک بات یہ سے کہ دل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی ہدایت کے بارے میں ایمان سے خالی ہو مزید برآں اگر وہ دین جاہلیت کو اچھا سمجھتا ہے اور اس پر ایمان بھی رکھتا ہو تو یہ تباہی کی انتہا ہے، اللہ تعالیٰ ا اس سے پناہ میں رکھے۔
✿ ارشاد خداوندی ہے :
وَالَّذِينَ آمَنُوا بِالْبَاطِلِ وَكَفَرُوا بِاللَّـهِ أُولَـئِكَ هُمُ الْخَاسِرُونَ [ 29-العنكبوت:52]
”اور جو لوگ باطل پر ایمان لائے اور اللہ کا انکار کیا وہی نقصان اٹھانے والے ہیں ؟“

اہل جاہلیت اللہ کی بندگی اور دعا میں صالحین کو بھی شریک کرتے تھے۔ ان کا عقیدہ تھا کہ صالحین کی اس تعظیم کو اللہ پسند کرتا سے اور اس کے ذریعہ اللہ کے یہاں وہ اپنے لئے شفاعت چاہتے تھے کیونکہ اُن کا خیال تھا کہ صالحین بھی اس کو اچھا سمجھتے ہیں جیسا کہ :
✿ سورہ زمر میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
إِنَّا أَنْزَلْنَا إِلَيْكَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ فَاعْبُدِ اللَّـهَ مُخْلِصًا لَهُ الدِّينَ ٭ أَلَا لِلَّـهِ الدِّينُ الْخَالِصُ وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاءَ مَا نَعْبُدُهُمْ إِلَّا لِيُقَرِّبُونَا إِلَى اللَّـهِ زُلْفَى إِنَّ اللَّـهَ يَحْكُمُ بَيْنَهُمْ فِي مَا هُمْ فِيهِ يَخْتَلِفُونَ [ 39-الزمر:3]
”بیشک ہم نے یہ کتاب آپ کی طرف سچائی کے ساتھ نازل کی ہے تو اللہ کی عبادت کرو دین اس کے لئے خالص کر کے۔ دیکھو خالص عبادت اللہ ہی کے لئے زیبا ہے۔ اور جن لوگوں نے اس کے سوا اور دوست بنا رکھے ہیں (وہ کہتے ہیں کہ ) ہم ان کو اس لیے پوجتے ہیں کہ ہم کو خدا کا مقرب بنا دیں۔ تو جن باتوں میں یہ اختلاف کرتے ہیں اللہ ان میں ان کا فیصلہ کر دے گا۔ “ (more…)

Continue Readingصالحین کو پکارنا

شادی کے لئے مناسب عمر

فتویٰ : سابق مفتی اعظم سعودی عرب شیخ ابن باز رحمہ اللہ سوال : عورتوں اور مردوں کے لئے شادی کی موزوں عمر کتنی ہے ؟ کیونکہ بعض دوشیزائیں اپنے سے بڑی عمر کے لوگوں سے شادی نہیں کرتیں، اسی طرح بعض نوجوان اپنے سے بڑی عمر کی عورتوں سے شادی نہیں کرتے، جواب سے آگاہ فرمائیں۔ جزاکم اللہ خیرا۔ جواب : نوجوان لڑکیوں کو میری نصیحت ہے کہ وہ اس بناء پر مرد کو مسترد نہ کریں کہ وہ ان سے دس بیس سال یا تیس سال بڑا ہے، یہ کوئی معقول عذر نہیں ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے شادی فرمائی تو اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر ترپن (53) برس تھی جبکہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا ابھی نو برس کی عمر کو پہنچ پائی تھیں۔ بڑی عمر نقصان دہ…

Continue Readingشادی کے لئے مناسب عمر

مانع حمل گولیوں کا استعمال

فتویٰ : دارالافتاءکمیٹی سوال : شادی شدہ خواتین کے لئے مانع حمل گولیاں استعمال کرنے کا کیا حکم ہے ؟ جواب : کثرت اولاد یا ان پر اخراجات کے خوف کے پیش نظر عورتوں کے لئے مانع حمل گولیوں کا استعمال ناجائز ہے۔ اور اگر عورت کے لئے حمل نقصان دہ ہو یا بچے کی ولادت اپریشن کے بغیر طبی طور پر نہ ہو سکتی ہو یا اس طرح کی کوئی اور ضرورت لاحق ہو تو ایسے حالات میں ایسی گولیوں کا استعمال جائز ہے، ہاں اگر کسی ماہر ڈاکٹر کے ذریعے معلوم ہو کہ ایسی گولیوں کا استعمال کسی اور اعتبار سے نقصان دہ ہے تو حکم تبدیل ہو جائے گا۔  

Continue Readingمانع حمل گولیوں کا استعمال

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مسلک

تحریر: مولانا ابوالحسن مبشر احمد ربانی حفظ اللہ سوال : آج کل ہم بے شمار فرقے دیکھتے ہیں جن کا دعویٰ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ پر ہیں براہِ کرم رہنمائی فرمائیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مسلک کیا تھا ؟ جواب : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دین اسلام کی دعوت پیش کرنے والے سچے نبی و رسول تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر قسم کی فرقہ بندی سے منع کرتے تھے۔ قرآن حکیم میں کئی ایک آیات اور رسول اکر م صلی اللہ علیہ وسلم کی کئی ایک صحیح احادیث فرقہ بندی کی ممانعت پر نص قطعی ہیں۔ اسلام اتحاد و اتفاق کی دعوت دیتا ہے۔ افتراق و تشتت سے منع کرتا ہے۔ شیعہ، دیوبندی، بریلوی اور وہابی جیسے تمام فرقے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کی پیداوار ہیں۔ اللہ…

Continue Readingنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مسلک

نوری ستارے والی روایت کی تحقیق

تحریر: مولانا ابوالحسن مبشر احمد ربانی حفظ اللہ سوال : تحفۃ الصلاۃ الی النبی المختار [18، 19] میں بروایت سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ مروی ہے کہ بے شک سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے جبرائیل علیہ السلام سے پوچھا: ’’ تمہاری عمر کتنی ہے ؟ “ جبرائیل علیہ السلام نے عرض کی : ’’ اے میرے آقا ! میں نہیں جانتا کہ میری عمر کتنی ہے ! ہاں، یا رسول اللہ ! حجاب رابع عرش پر ایک نوری ستارہ ستر ہزار سال بعد طلوع ہوتا تھا جس کو میں نے ستر ہزار مرتبہ دیکھا ہے۔ “ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ مجھے میرے رب کی عزت و عظمت کی قسم ! اے جبرائیل ! وہ نوری تارہ میں تھا۔ “ دریافت طلب امر یہ ہے کہ اس کے متعلق تاریخ بخاری کا حوالہ جو مذکورہ…

Continue Readingنوری ستارے والی روایت کی تحقیق

نور من نور اللہ“ والی ایک روایت کی تحقیق

تحریر: مولانا ابوالحسن مبشر احمد ربانی حفظ اللہ

سوال : جابر رضی اللہ عنہ نے ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ میرے ماں باپ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) پر قربان ہوں مجھے اس بات کی خبر دیں کہ اللہ تعالیٰ نے سب پہلے کس چیز کو پیدا کیا ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ اے جابر ! اللہ تعالیٰ نے تمام اشیاء سے پہلے تیرے نبی کا نور اپنے نور سے پیدا کیا پھر یہ نور اللہ کی قدرت سے جہاں چاہا گھومتا رہا…… الخ،“ فرمائیں کہ کیا یہ حدیث صحیح ہے ؟
جواب : محدثین کرام رحمه الله نے بڑی محنت اور جانفشانی سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث مبارکہ کو اسناد کے ساتھ جمع کیا اور اس بات کی مکمل کوشش کی کہ کوئی ایسی بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب نہ ہو جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کہی۔ کیونکہ :
❀ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :
من كذب على متعمدا فليتبوا مقعده من النار [صحيح بخاري، كتاب العلم : باب من كذب على النبى صلى الله عليه وسلم : 107]
’’ جس نے مجھ پر جان بوجھ کر جھوٹ باندھا ورہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لے۔“

❀ اور ایک اور روایت میں ہے :
من قال على مالم اقل فليتبوا مقعده من النار
’’ جس نے مجھ پر وہ بات کہی جو میں نے نہیں کہی وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لے۔“ [مسند احمد :65/1]
↰ اس لیے جو شخص بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بات منسوب کر کے بیان کرتا ہے اس کے لیے سند کی شرط لگائی گئی پھر سند کی صحت کے لیے بھی کڑی شرائط کو مدنظر رکھا گیا اور جس روایت کی کوئی سند نہیں ہوتی اسے کسی صورت بھی قبول نہیں کیا جاتا۔
(more…)

Continue Readingنور من نور اللہ“ والی ایک روایت کی تحقیق

روایت لولاک لما خلقت الا فلاک

تحریر: مولانا ابوالحسن مبشر احمد ربانی حفظ اللہ سوال : کیا یہ روایت لولاك لما خلقت الا فلاك صحیح ہے ؟ جواب : اس روایت کا مطلب ہے ”اے محمد ! اگر میں تجھے پیدا نہ کرتا تو جہانوں ہی کو پیدا نہ کرتا۔“ یہ روایت موضوع ہے جیسا کہ امام صنعانی رحمه الله نے اپنی کتاب ’’ الاحادیث الموضوعۃ : ص 52، رقم78“ میں اور علامہ عجلونی نے ’’ کشف الخفاء : 163/2“ میں اور امام شوکانی رحمه الله نے ’’ الفوائد المجموعۃ فی الاحادیث الموضوعۃ : 326“ میں ذکر کیا ہے۔ ملا علی قاری کا یہ کہنا کہ حدیث کا معنی صحیح ہے اور اس کی تائید کے لیے دیلمی کی روایت يا محمد ! لو لاك لما خلقت الجنة ولو لاك ما خلقت النار اور ابن عساکر کی روایت لولاك ما خلقت الدنيا پیش کرنا حقیقت کے خلاف ہے۔ کیونکہ…

Continue Readingروایت لولاک لما خلقت الا فلاک

بچے کے بال اور چاندی کا صدقہ !

  بچے کی ولادت کے ساتویں دن اس کے جو بال اتارے جاتے ہیں، ان کے ہم وزن چاندی صدقہ کرنا ثابت نہیں۔ اس بارے میں ایک روایت ہے کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کی ولادت باسعادت پر سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو ان کے بالوں کے برابر چاندی صدقہ کرنے کا حکم دیا تھا۔ [مصنف ابن أبى شيبه : 235/8، مسند الامام احمد : 391، 390/6، العلل لابن أبى الدنيا : 53] تبصرہ : لیکن اس روایت کی سند ’’ ضعیف“ ہے، کیونکہ : اس کا راوی عبداللہ بن محمد بن عقیل جمہور محدثین کے نزدیک ’’ ضعیف“ ہے۔  

Continue Readingبچے کے بال اور چاندی کا صدقہ !

قبر رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے اذان کی آواز

ابن الحسن محمدی

بعض لوگ یہ بیان کرتے سنائی دیتے ہیں کہ سانحۂ حرہ (63ھ) کے دوران نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک سے اذان سنائی دیتی رہی۔ کسی بھی واقعے، حادثے یا سانحے کی صحت و سقم کا پتہ اس کی سند سے لگایا جا سکتا ہے۔ محدثین کرام رحمها اللہ پر اللہ تعالیٰ رحم فرمائے، انہوں نے قرآن و سنت کی روشنی میں سند کی پرکھ کے لیے مبنی برانصاف قوانین وضع کیے، پھر راویانِ اسانید کے کوائف بھی سپرد کتب کر دئیے۔ ذخیرۂ روایات کی جانچ کا یہ انداز اسلامی ورثے کا امتیازی پہلو ہے۔ دیگر مذاہب میں اس کی مثال نہیں ملتی۔

کتب ِ حدیث ہوں یا سیرت و تاریخ، اہل علم ان میں اپنی سندیں ذکر کر کے اپنی ذمہ داری سے عہدہ برآ ہو چکے ہیں، اب یہ بعد والوں پر ہے کہ وہ ان اصول و قوانین اور راویوں کے کوائف کو مدنظر رکھتے ہوئے صحت و سقم کالحاظ کریں یا اپنے مفاد میں ملنے والی ہر روایت کو اندھا دھند پیش کرتے جائیں۔

ذیل میں سانحۂ حرہ کے دوران قبر نبوی سے اذان کے بارے میں ملنے والی روایت اپنی تمام تر سندوں اور ان پر تبصرے کے ساتھ پیش خدمت ہے۔ فیصلہ خود فرمائیں !

روایت نمبر :

سعید بن عبدالعزیز تنوخی رحمہ اللہ (م : 90ھ) بیان کرتے ہیں :
لما كان أيام الحرة لم يؤذن فى مسجد النبى صلى اللہ عليه وسلم ثلاثا، ولم يقم، ولم يبرح سعيد بن المسيب المسجد، وكان لا يعرف وقت الصلاة، إلا بهمهمة، يسمعها من قبر النبى صلى اللہ عليه وسلم .
’’ سانحۂ حرہ کے دوران تین دن تک مسجدِ نبوی میں اذان و اقامت نہیں ہوئی تھی۔ ان دنوں امام سعید بن مسیّب رحمہ اللہ مسجدِ نبوی ہی میں مقیم تھے۔ انہیں نماز کا وقت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک سے سنائی دینے والی آواز ہی سے ہوتا تھا۔ “ [مسند الدارمي : 44/1]

تبصرہ :
اس کی سند ’’ انقطاع “ کی وجہ سے ’’ ضعیف “ ہے۔
سانحۂ حرہ، اسے بیان کرنے والے راوی سعید بن عبدالعزیز تنوخی رحمہ اللہ کی پیدائش سے بہت پہلے رونما ہو چکا تھا۔ پھر سعید بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کی امام سعید بن مسیّب رحمہ اللہ سے ملاقات بھی نہیں ہوئی۔ حرہ کا واقعہ 63 ہجری میں رونما ہوا اور امام سعید بن مسیّب رحمہ اللہ 94 ہجری میں فوت ہوئے، جبکہ سعید بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کی پیدائش 90 ہجری کو ہوئی۔
پھر امام سعید بن مسیّب رحمہ اللہ مدینہ منورہ میں فوت ہوئے، جبکہ سعید بن عبدالعزیز رحمہ اللہ شام میں پیدا ہوئے۔ اب کیسے ممکن ہے کہ سعید بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے یہ روایت سعید بن مسیّب رحمہ اللہ سے خود سنی ہو ؟ انہیں کس شخص نے یہ بات بیان کی، معلوم نہیں۔ لہٰذا یہ روایت ’’ انقطاع “ کی وجہ سے ’’ ضعیف “ ہے۔

روایت نمبر :

امام ابن سعد رحمہ اللہ نے اس واقعہ کو یوں نقل کیا ہے :
أخبرنا محمد بن عمر، قال : حدثني طلحة بن محمد بن سعيد، عن أبيه، قال : كان سعيد بن المسيب أيام الحرة فى المسجد،…، قال : فكنت إذا حانت الصلاة أسمع أذانا يخرج من قبل القبر، حتٰي أمن الناس .
’’ امام سعید بن مسیّب رحمہ اللہ سانحۂ حرہ کے دنوں میں مسجدِ نبوی ہی میں مقیم تھے۔۔۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ جب بھی اذان کا وقت ہوتا، میں قبر نبوی سے اذان کی آواز سنتا۔ جب تک امن نہ ہو گیا، یہ معاملہ جاری رہا۔ “ [الطبقات الكبرٰي : 132/5]

تبصرہ : (more…)

Continue Readingقبر رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے اذان کی آواز

حجامہ (سینگی لگوانا) ایک شرعی علاج​

تحریر: حافظ ندیم ظہیر حفظ اللہ

حجامہ سے مراد پچھنے لگوانا ہے،یعنی جسم کے متاثرہ حصے سے سینگی کے ذریعے خراب و فاسد خون نکلوانا۔یہ ایسا علاج ہے جس کی طبی اہمیت سے انکار ممکن نہیں،بلکہ دورِ جدید میں سائنسی لحاظ سے بھی اسے مجرب و مفید قرار دیا گیا ہے۔ ہم نے ان سطور میں صحیح احادیث و آثار سے حجامہ (سینگی)کی شرعی حیثیت واضح کرنے کی کوشش کی ہے :
سینگی میں شفاء ہے :
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ،مُقنَّع بن سنان (تابعی) کی تیمارداری کے لئے تشریف لائے،پھر ان سے فرمایا:جب تک تم سینگی نہ لگوالو میں یہاں سے نہیں جاؤں گا،کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے :
((إن فیہ شفاء )) بلاشبہ اس میں شفاء ہے۔(صحیح بخاری :۵۶۹۷)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: شفاء تین چیزوں میں ہے :(۱) سینگی لگوانے میں (۲) شہد پینے میں (۳) اور آگ سے داغنے میں،(لیکن)میں اپنی امت کو داغنے سے منع کرتا ہوں۔(صحیح بخاری :۵۶۸۱)
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اگرتمھاری داؤں میں شفاء ہے تو سینگی لگوانے میں اور آگ سے داغنے میں ہے اور میں داغنے کو پسند نہیں کرتا۔(صحیح بخاری :۵۷۰۴)
سینگی بہترین دوا(علاج ) ہے :
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :جن چیزوں سے تم علاج کرتے ہو،اگر ان میں سے کوئی بہتر دوا ہے تو وہ سینگی لگوانا ہے۔(سنن ابی داود : ۳۸۵۷،سنن ابن ماجہ : ۳۴۷۶ وسندہ حسن )
سینگی لگوانے کے لئے قمری تاریخ کا انتخاب :
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :جو شخص (قمری مہینے کی ) سترہ،انیس اور اکیس تاریخ کو سینگی لگوائے،اسے ہر بیماری سے شفاء ہوگی۔(سنن ابی داود :۳۸۶۱وسندہ حسن)
عورتیں بھی سینگی لگواسکتی ہیں :
ام المومنین سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سینگی لگوانے کی اجازت چاہی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو طیبہ کو حکم دیا کہ انھیں سینگی لگادیں۔ (more…)

Continue Readingحجامہ (سینگی لگوانا) ایک شرعی علاج​

بوسہ دینا (چومنا) ناقض وضو نہیں

فتویٰ : شیخ محمد بن صالح عثیمین حفظ اللہ سوال : میرا خاوند گھرسے باہر جاتے وقت حتیٰ کہ نماز کے لئے مسجد جاتے وقت بھی ہمیشہ میرا بوسہ لے کر جاتا ہے۔ میں کبھی تو یہ سمجھتی ہوں کہ وہ ایسا شہوت سے کرتا ہے، اس کے وضو کے بارے میں شرعی حکم کیا ہے؟ جواب : ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا سے روایت ہے: كان النبى صلى الله عليه وسلم يقبل بعض ازواجه ثم يصلي ولا يتوضا [رواه أبوداؤد والترمذي والنسائى وابن ماجة] تحقیق نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ایک بیوی کو بوسہ دیا پھر وضو نہ کیا اور نماز (پڑھنے ) کے لئے تشریف لے گئے۔ اس حدیث میں عورت کو مس کرنے اور اس کا بوسہ لینے کی رخصت موجود ہے۔ علماء کا اس بارے میں اختلاف ہے۔ بعض کے نزدیک بوسہ بہرحال ناقض…

Continue Readingبوسہ دینا (چومنا) ناقض وضو نہیں

End of content

No more pages to load