اذان و اقامت کا مسنون طریقہ

تحریر: حافظ زبیر علی زئی

❀ سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا :
عن أنس قال : أمر بلال أن يشفع الأذان و أن يوتر الإقامة إلا الإقامة
کہ سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دیا گیا تھا کہ اذان دہری اور اقامت اکہری کہیں، مگر اقامت قد قامت الصلوٰة کے الفاظ دو بار کہیں۔ [صحيح بخاري : 85/1 ح 605 و اللفظ له، صحيح مسلم : 164/1 ح 378]

❀ اسی حدیث کی ایک دوسری سند میں آیا ہے :
أن رسول الله صلى الله عليه وسلم أمر بلا لا
بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دیا تھا۔ [سنن النسائي مع حاشية السندهي : ج1 ص 103 ح 628]

فائدہ 1 : ? اس حدیث پاک سے معلوم ہوا کہ اذان کے الفاظ درج ذیل ہیں :
الله أكبر الله أكبر، الله أكبر الله أكبر۔ أشهد أن لا إله إلا الله، أشهد أن لا إله إلا الله۔ أشهد أن محمدا رسول الله، أشهد أن محمدا رسول الله۔ حي على الصلوٰة، حي على الصلوٰة۔ حي على الفلاح، حي على الفلاح۔ الله أكبر الله أكبر۔ لا إلٰه إلا الله۔

اور اقامت کے الفاظ درج ذیل ہیں :
الله أكبر الله أكبر۔ أشهد أن لا إله إلا الله۔ أشهد أن محمدا رسول الله۔ حي على الصلوٰة۔ حي على الفلاح۔ قد قامت الصلوٰة، قد قامت الصلوٰة۔ الله أكبر الله أكبر۔ لا إلٰه إلا الله۔

فائدہ 2 : ❀ مصنف عبدالرزاق کی ایک روایت میں آیا ہے :
إن بلالا كان يثني الأذان و يثني الإقامة
”بے شک بلال رضی اللہ عنہ اذان اور اقامت دہری کہا کرتے تھے۔“
لیکن یہ حدیث بلحاظ سند ضعیف ہے۔
① اس کا راوی ابراہیم النخعی مدلس ہے۔ [كتاب المدلسين للعراقي ص 24، 35 و اسماء المدلسين للسيوطي ص 93]
اس کی یہ روایت عن کے ساتھ ہے۔ مدلس کی عن والی روایت محدثین کے علاوہ دیوبندیوں اور بریلویوں کے نزدیک بھی ضعیف ہوتی ہے۔ [ديكهئے خزائن السنن : 1/1، فتاويٰ رضويه : 245/5، 266]

② اس کا دوسرا راوی حماد بن ابی سلیمان ہے۔ [ديكهئے مصنف عبدالرزاق : 462/1 ح 1790]
حماد مذکور مدلس ہونے کے ساتھ ساتھ مختلط بھی ہے۔ [طبقات المدلسين بتحقيقي : 2/45]

◈ حافظ ہیثمی نے کہا:
ولا يقبل من حديث حماد إلا ما رواه عنه القدماء : شعبة و سفيان الثوري و الدستوائي، ومن عدا هؤلاء رووا عنه بعد الإختلاط
”حماد کی صرف وہی روایت مقبول ہے جو اس کے قدیم شاگردوں : شعبہ، سفیان ثوری اور (ہشام) الدستوائی نے بیان کی ہے، ان کے علاوہ سب لوگوں نے اس سے اختلاط کے بعد سنا ہے۔“ [مجمع الزوائد 119/1، 120]

لہٰذا معمر کی حماد مذکور سے روایت ضعیف ہے، عدم تصریح سماع کا مسئلہ علیحدہ ہے۔

فائدہ 3 : ❀ ابومحذورہ رضی اللہ عنہ کی جس روایت میں دہری اقامت کا ذکر آیا ہے اس میں اذان بھی دہری ہے یعنی چار دفعہ أشهد أن لا إلٰه إلا الله اور چار دفعہ أشهد أن محمدا رسول الله ہے۔ [سنن ابي داود : 502 و هو صحيح]
اس طریقے سے عمل کیا جائے تو صحیح ہے ورنہ دہری اذان کا استدلال کرتے ہوئے، اقامت اس حدیث سے لینا اور اذان حدیث بلال سے لینا سخت ناانصافی ہے۔

فائدہ 4 : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل صرف وہی شخص کر سکتا ہے جسے اللہ تعالیٰ توفیق عطا فرمائے ورنہ ناممکن ہے۔ آپ دیکھ لیں جو حضرات دہری اقامت کہتے ہیں وہ دہری اذان کبھی نہیں کہتے، پتہ نہیں اتباع سنت سے انہیں کیا بیر ہے ؟ اللہ تعالیٰ اتباع سنت کی توفیق عطا فرمائے۔ آمين

یہ تحریر اب تک 59 لوگ پڑھ چکے ہیں، جبکہ صرف آج 1 لوگوں نے یہ تحریر پڑھی۔

Leave a Reply