وہ اسباب جن کی وجہ سے لوگ حق نہیں مانتے (حصہ اول)

مقدمۃ: الصوارف عن الحق

الحمد لله والصلوة و السلام على رسول الله، وبعد
بے شک اللہ عزوجل نے مخلوق کو فطرت پر تخلیق فرمایا جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿فِطْرَتَ اللهِ الَّتِيْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا﴾
”‘‘یہی فطرت الٰہی ہے جس پر اس نے لوگوں کو پیدا فرمایا۔ ’’“ [ الروم: ۳۰]
لوگوں کی سرشت میں یہ بات ودیعت کر دی گئی ہے کہ وہ حق سے محبت وارادت رکھتے ہیں۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
” دل ایک ایسی خلق (خلقت ) ہے جو حق کو پسند کرتا ہے، اسے چاہتا اور تلاش کرتا ہے۔ “
[ مجموع الفتاوي۱۰؍۸۸]
انہوں نے مزید فرمایا:
”بے شک حق فطرت میں محبوب و پسندیدہ ہے، وہ اسے سب سے زیادہ محبوب ہے اور اس میں اس کی بہت زیادہ شان و شوکت ہے اور اسے باطل کی نسبت انتہائی خوشگوار ہے کیونکہ باطل تو ایسی چیز ہے جس کی کوئی حقیقت ہی نہیں، اس لئے فطرت اسے پسند نہیں کرتی ۔“
[مجموع الفتاوي۱۶؍۳۳۸]
مزید یہ کہ وہ محبت حق کی وجہ سے نفوس میں مرکوز ہے، کیوں کہ نفوس کو معرفت حق پر پیدا کیا گیا ہے،
جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کے متعلق فرمایا:
﴿رَبُّنَا الَّذِيْ اَعْطٰي كُلَّ شَيْ ءٍ خَلْقَهٗ ثُمَّ هَدٰي﴾
” ہمارا رب وہ ہے جس نے ہر چیز کو صورت و شکل بخشی، پھر رہنمائی فرمائی۔ “ [طه: ۵۰]
جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
الإثم ما حاك فى صدرك و كرهت ان يطلع عليه الناس
”جو چیز تیرے دل میں کھٹکھے اور اس پر لوگوں کا مطلع ہو جانا تجھے ناپسند ہو تو وہ گناہ ہے۔“
[ مسلم البروالصلة والآداب، باب تفسير البروالاثم، حديث۲۵۵۳]
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے فرمایا:
”نفس میں ایسی کوئی چیز ہے جو اعتقادات وارادات میں حق کو باطل پر ترجیح دینے کا موجب بنتی ہے، اور اس بارے میں یہی کافی ہے کہ اس کی تخلیق فطرت پر کی گئی ہے۔“
[در ء تعارض العقل و النقل: ۸؍۴۶۳]
انہوں نے مزید فرمایا:
” اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اپنے بندوں کو ایسی فطرت پر پیدا فرمایا ہے جس میں حق اور اس کی تصدیق ، باطل کی معرفت اور اس کی تکذیب ، نفع مند چیز کی معرفت اور اس سے محبت اور نقصان دہ چیز سے معرفت اور اس سے بغض فطری طور پر ودیعت کر دیا گیا ہے۔“
[ در ء تعارض العقل و النقل: ۸؍۴۶۳]
پس جو حق موجود ہو تو فطرت اس کی تصدیق کرتی ہے، جو حق نافع ہو تو فطرت اس کی معرفت حاصل کرتی، اس سے محبت کرتی اور اس پر مطمئن ہوتی ہے، اور یہی وہ معروف (طریقہ) ہے ، جبکہ باطل معدوم ہو تو فطرت اس کی تکذیب کرتی ہے اور فطرت اس سے بغض رکھتی ہے اور اسے ناپسند کرتی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿يَاْ مُرُهُمْ بِالْمَعْرُوْفِ وَيَنْهٰهُمْ عَنِ الْمُنْكَرِ﴾ ”وہ انہیں نیکی (کے کام کرنے ) کا حکم دیتے ہیں اور انہیں برے کاموں سے دور رکھتے ہیں۔“ [الاعراف: ۱۵۷]
اور یہ معرفت حق، اس کی ارادت و محبت کے بارے میں جو چیز مرکوز ہے اس کی تائید شاید شریعت سے ہوتی ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿ اَفَمَنْ كَانَ عَليٰ بَيِّنَةٍ مِّنْ رَّبِّهِ وَيَتْلُوْهُ شَاهد‘’ مِّنْهُ﴾
”بھلا وہ شخص جو اپنے رب کے کھلے راستے پر ہو اور اس کے پاس اللہ کی جانب سے شہادت بھی ہو۔“ [هود: ۱۷]
پس البينة سے ”وحی“ مراد ہے جسے اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا۔ جبکہ شاهد سے فطرت مستقیمہ اور عقل صریح کا شاہد مراد ہے۔
[تيسير الكريم الرحمن: ص۳۷۹]
علامہ عبدالرحمن السعدی نے فرمایا:
” پس دین، اس حکمت کا دین ہے جو ہر چیز میں درست بات کی معرفت اور اس پر عمل کرنا اور حق کی معرفت اور حق پر عمل کرنا ہے۔“
[ تيسير اللطيف المنان: ص۵۰]
اور نفوس جب فطرت پر باقی و قائم رہتے ہیں تو وہ صرف حق تلاش کرتے ہیں، جبکہ حق ایسا واضح اور بین ہے جس میں کسی قسم کا ابہام نہیں۔
سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ”بے شک حق پر نور ہوتا ہے۔“
[ مستدرك حاكم۴؍۴۶۰،]
اور انہوں نے فرمایا: یہ حدیث امام بخاری اور امام مسلم رحمہما اللہ کی شرط پر ہے۔
نیز امام ذہبی نے ان کی موافقت کی ہے۔
سیدنا عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ پہلے یہودی تھے، پس جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت فرما کر مدینہ تشریف لائے اور انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کی تو فوراً جان گئے کہ اپ کا چہرہ کسی صادق شخصیت کا (ہی) چہرہ ہے۔ (سیدنا) عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو (بعض) لوگ آپ کے قریب نہیں آتے تھے اور میں بھی انہی میں سے تھا، لیکن جب آپ کا چہرہ مبارک دیکھا تو میں نے پہچان لیا کہ آپ کا چہرہ مبارک کسی کذاب شخص کا چہرہ نہیں ، میں نے آپ کو پہلی مرتبہ یہ فرماتے ہوئے سنا: افشو السلام و اطعموا الطعام وصلو الارحام، وصلو و الناس نيام تدخلو الجنة بسلام’’
”سلام پھیلاؤ ، کھانا کھلاؤ، صلہ رحمی کرو اور نماز (تہجد) پڑھو جبکہ لوگ سو رہے ہوں اور تم سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہو جاؤ گے۔“
[ مسند احمد: ۵؍۴۵۱ح۲۴۱۹۳، ترمذي ، صفة القيامة، باب: ۱۱، حديث رقم: ۲۴۸۴وقال: ‘‘هذاحديث حسن غريب من هذاالوجه’’]
اور اللہ عزوجل مخلوق پر حجت قائم کرنے، انبیاء علیہم السلام مبعوث کرنے اور ظہورِ حق کے ساتھ ساتھ اپنی حکمت سے جسے چاہتا ہے گمراہ کر دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ہدایت عطا فرما دیتا ہے۔ بندے پر واجب ہے کہ وہ فطرت سے التزام رکھے اور ایسے اسباب سے بچے جو اسے حق سے روکیں اور اس سے دور کریں، اور جب کوئی صارف (دور کرنے والا) اسے حق سے دور کرے اور وہ شخص پھر حق کی طرف پلٹ آئے اور اس سے التزام کر لے (یعنی چمٹ جائے) ، تو یہ اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں پر بہت بڑا انعام و احسان ہے کہ بندہ حق سے محبت رکھتا ہو، اسے اختیار کرتاہو اور اسے تلاش کر کے اس کے ساتھ التزام رکھتا ہو۔
ابو محمد ابن حزم رحمہ اللہ نے فرمایا:
”اللہ تعالیٰ کا بندے پر سب سے بڑا انعام و احسان یہ ہے کہ وہ اسے عدل و حق کا خوگر اور ان کی محبت و ایثار سے مانوس کر دے۔“
[ مداواة النفوس ص۳۱]
لزوم حق کا یہ سبب ہے کہ ان اسباب کی معرفت حاصل کی جائے جو اتباع حق سے روکتے ہیں، لہذا حق سے دور کرنے والے اسباب کے متعلق چند گزارشات پیش خدمت ہیں۔ پس انہیں پہچاننے اور ان سے بچنے کی کوشش کرنی چاہیئے، میں اللہ عزوجل سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ ہمیں اہل حق اور داعیان حق بنا دے، اور ضلالت و گمراہی میں آگے بڑھنے والے اسباب و طرق سے ہمیں بچائے۔
اس بات کی طرف اشارہ کرنا مناسب ہو گا کہ میں نے اس کے بیان کرنے اور اکٹھا کرنے میں کسی خاص معنی کو مدنظر نہیں رکھا جو سوء قصد، جہل اور ظلم کی طرف راجع ہو۔ والله اعلم

اس تحریر کو اب تک 7 بار پڑھا جا چکا ہے، جبکہ صرف آج 1 بار یہ تحریر پڑھی گئی ہے۔

Leave a Reply