سجدہِ تلاوت سنت ہے یا واجب؟

سوال :
◈ قرآن مجید میں بعض ایسی آیات ہیں جن کی تلاوت پر سجدہ کیا جاتا ہے۔ کیا یہ سجدہ تلاوت واجب ہے یا سنت ؟
◈ قرآن مجید کی مکمل تلاوت سے فارغ ہونے کے بعد اگر یہ سجدے اکٹھے بالترتیب ادا کر دئیے جائیں تو ایسا کیا کرنا جائز ہے ؟
◈ قرآن مجید میں سورہ حج کے آخر میں آیت نمبر [77] کے باہر لکھا ہوا ہے کہ السجدة عند الشافعي ”یعنی امام شافعی رحمہ اللہ کے نزدیک یہاں سجدہ تلاوت ہے۔ اس سے کیا مراد ہے ؟ قرآن مجید میں یہ شافعی و غیر شافعی والی بات کہاں سے آ گئی ہے ؟ بينوا تو جروا
الجواب :
◈ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے :
أن النبى صلى الله عليه وسلم سجد بالنجم [صحیح البخاری : 1071]
”بے شک نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے سورہ نجم پڑھی اور سجدہ کیا۔“
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ سجدہ تلاوت کرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔

سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے :
قرأت على النبى صلى الله عليه وسلم (والنجم) فلم يسجد فيها [صحیح البخاری : 1073 و صحیح مسلم : 577]
”میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سورہ نجم پڑھ کر سنائی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سجدہ نہیں کیا۔“
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ سجدہ تلاوت کرنا واجب یا ضروری نہیں ہے۔

خلیفہ راشد امیر المؤمنین عمر بن الخطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ :
فمن سجد فقد أصاب ومن لم يسجد فلا إثم عليه [صحیح البخاری : 1077]
”پس جو (تلاوت والا) سجدہ کرے تو اس نے صحیح کام کیا اور جو سجدہ نہ کرے تو اس پر کوئی گناہ نہیں ہے۔“
معلوم ہوا کہ سجدہ تلاوت واجب نہیں بلکہ سنت و مستحب ہے۔ اور یہی قول امام شافعی و امام احمد رحمها اللہ کا ہے . [سنن الترمذی ح 576]
◈ اس کا کوئی ثبوت ہمارے علم میں نہیں ہے۔
◈ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سورہ حج میں دو سجدے کرتے تھے۔ [مؤطا امام مالک ج 1 ص 206 ح 483 و سندہ صحیح]
سیدنا ابو الدرداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ سورہ حج میں دو سجدے کرتے تھے۔ [السنن الکبری للبیہقی 318/2 و سندہ صحیح]

تنبیہ :
خالد بن معدان تدلیس کے الزام سے بری ہے [الفتح المبين فى تحقيق طبقات المدلسين 2/26] اور عبدالرحمٰن بن جبیر بن نفیر نے اس کی متابعت کر رکھی ہے۔ [مصنف ابن ابی شیبہ : 11/2 ح 4289 والبیہقی 318/2]
سیدنا عمر (بن الخطاب) رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے صبح کی نماز پڑھائی تو سورہ حج میں دو سجدے کئے۔ [البيهقي 317/2 و سنده صحيح، وابن ابي شيبه 11/2 ح 4288]
ابو العالیہ (تابعی) نے کہا : سورہ حج میں دو سجدے ہیں۔ [مصنف ابن ابی شیبہ 12/2 ح 4294 و سندہ صحیح]
زر بن جیش (تابعی، قاری) اور ابو عبدالرحمٰن (قاری) دونوں سورہ حج میں دو سجدے کرتے تھے۔ [ابن ابی شیبہ 12/2 ح 4296 وسندہ حسن]

ابو اسحاق السبیعی نے کہا :
أدركت الناس منذ سبعين سنة يسجدون فى الحج سجدتين [ابن ابی شیبہ 12/2 ح 4295 و سندہ صحیح]
”میں نے ستر (70) سال سے لوگوں کو سورہ حج میں دو سجدے (ہی) کرتے پایا ہے۔“
ان روایات مذکورہ کے علاوہ دوسرے آثار بھی ہیں۔

سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا : کیا سورہ حج میں دو سجدے ہیں ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
نعم ومن لم يسجد هما فلا يقر أهما [سنن ابی داؤد : 1402 و سندہ حسن]
”ہاں ! اور جو شخص یہ دونوں سجدے نہ کرے تو وہ یہ دونوں آیتیں نہ پڑھے۔“
ابن لھیعہ نے یہ روایت اختلاط سے پہلے بیان کی ہے اور سماع کی تصریح کر دی ہے مشرح بن ھاعان حسن الحدیث ہے، دیکھئے کتاب نور العینین فی اثبات رفع الیدین [ ص 171، 172]

اس حدیث میں اس شخص کو یہ آیتیں پڑھنے سے منع کیا گیا ہے جو سورہ حج کے دوسرے سجدے کی مسنونیت سے انکار کرتا ہے۔ جس شخص کے نزدیک سجود تلاوت واجب نہیں بلکہ سنت ہیں وہ اس حدیث کا مخاطب نہیں کیونکہ وہ سورہ حج میں دونوں سجدوں کے سنت ہونے کا قائل ہے۔
اس تحقیق سے معلوم ہوا کہ قرآن مجید کے حاشیے پر السجدة عند الشافعي کے الفاظ کسی ایسے شخص نے لکھے ہیں جو اس سجدے کا منکر ہے۔
اگر لکھنا ہی ہے تو اس طرح لکھیں السجدة عند رسول الله صلى الله عليه وسلم وعنده عمر و عند عبدالله بن عمر وعند أبى الدرداء و غيرهم من الصحابة رضي الله عنهم أجمعين
یہ عام لوگوں کو بھی معلوم ہے کہ سورہ حج کے اس دوسرے سجدے سے قائلین و فاعلین، امام شافعی رحمہ اللہ کی پیدائش سے بہت پہلے گزرے ہیں۔ یاد رہے کہ اگر سجدہ تلاوت نہ بھی کیا جائے تو دلائل سابقہ کی رو سے جائز ہے لہٰذا اگر کسی نے سورہ حج کا یہ دوسرا سجدہ نہیں کیا تو یہ اس کی دلیل نہیں ہے کہ وہ اس سجدے کے جواز یا سنیت کا بھی قائل نہیں تھا۔

اس تحریر کو اب تک 33 بار پڑھا جا چکا ہے۔

Leave a Reply