فرض نمازیں اور ان کی رکعات

سوال : دن رات میں کتنی نمازیں فرض ہیں ؟ قرآن وحدیث میں جواب دیں۔ [فیاض خان دامانوی، بریڈفورڈ ]

الجواب :
❀ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو یمن بھیجا تو فرمایا :
فأخبرهم أن الله فرض عليهم خمس صلوات فى يومهم وليلتهم
پس انہیں بتاؤ اللہ نے ان پر دن رات میں پانچ نمازیں فرض کی ہیں۔ [صحيح البخاري : 7372 و صحيح مسلم : 19/121]

❀ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ :
فرض الله الصلوٰة حين فرضها ركعتين ركعتين فى الحضرو السفر فأقرت صلوٰة السفر و زيد فى صلوٰة الحضر
”اللہ نے جب نماز فرض کی تو سفر و حضر (گھر اور حالت اقامت) میں دو دو رکعتیں فرض کیں پھر سفر کی نماز تو اسی طرح قائم رہی اور حضر (گھر و حالت اقامت) والی نماز میں اضافہ کر دیا گیا۔“ [صحیح البخاری : 350 و صحیح مسلم : 685/1570]

❀ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ سے دوسری روایت میں آیا ہے کہ :
فرضت الصلوٰة ركعتين ثم هاجر النبى صلى الله عليه وسلم ففرضت أربعأ و تركت صلوٰة السفر على الأوليٰ
”نماز دو (دو) رکعتیں فرض ہوئی پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت فرمائی تو چار (چار) رکعتیں فرض کر دی گئیں اور سفر کی نماز کو اس کے پہلے حال پر چھوڑ دیا گیا۔ [صحيح بخاري : 3935]

❀ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ :
فرض الله الصلوٰة على لسان نبيكم صلى الله عليه وسلم فى الحضر أربعا وفي السفر ركعتين وفي الخوف ركعة
”اللہ تعالیٰ نے تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک کے ذریعے حضر میں چار رکعتیں، سفر میں دو اور خوف میں ایک رکعت نماز فرض کی۔“ [صحيح مسلم : 687/1575]

❀ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ :
كان أول ما افترض على رسول الله صلى الله عليه وسلم الصلوٰة ركعتان ركعتان إلا المغرب فإنها كانت ثلاثا، ثم أتم الله الظهر و العصر و العشاء الآخرة أربعا فى الحضر و أقر الصلوٰة على فرضها الأول فى السفر
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر پہلے دو دو رکعتیں نماز فرض ہوئی تھی سوائے مغرب کے وہ تین رکعات فرض تھی۔ پھر اللہ نے حضر میں ظہر، عصر اور عشاء کی نماز چار (چار) کر دی اور سفر والی نماز اپنی حالت پر (دو دو سوائے مغرب کے) فرض رہی۔“ [مسند الامام احمد ج 6 ص 272 ح 26869 دوسرا نسخه : 26338 و سنده حسن لذاته ]

❀ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ سے ہی روایت ہے کہ :
فرضت صلوٰة السفر و الحضر ركعتين فلما أقام رسول الله صلى الله عليه وسلم بالمدينة زيد فى صلوٰة الحضر ركعتان ركعتان و تركت صلوٰة الفجر لطول القرأة و صلوٰة المغرب لأنها وتر النهار
”سفر اور حضر میں دو (دو) رکعتیں نماز فرض ہوئی۔ پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں اقامت اختیار کی تو حضر کی نماز میں دو دو رکعتوں کا اضافہ کر دیا گیا اور صبح کی نماز میں طول قرأت اور مغرب کی نماز کو دن کے وتر ہونے کہ وجہ سے چھوڑ دیا گیا۔“ [صحيح ابن حبان 180/4 ح 2727 دوسرا نسخه : 2738 و صحيح ابن خزيمه 71/2ح 944 و سنده حسن]
تنبیہ : اس روایت کا راوی محبوب بن الحسن بن ہلال بن ابی زینب حسن الحدیث ہے، جمہور محدثین نے اسے ثقہ و صدوق قرار دیا ہے۔

ان احادیث صحیحہ سے معلوم ہوا کہ دن رات میں پانچ نمازیں (ہر مکلف پر) فرض ہیں۔
➊ نماز فجر ➋ نماز ظہر➌ نماز عصر ➍ نماز مغرب ➎ نماز عشاء
نماز فجر اور نماز عشاء کا خاص طور پر ذکر قرآن مجید میں ہے۔ [سورة النور : 58]
ظہر کا اشارہ سورہ بنی اسرائیل میں موجود ہے۔ [آيت : 78] نیز دیکھئے : [كتاب الأم للامام الشافعي 68/1]

اجماع
↰ اس پر مسلمانوں کا اجماع ہے کہ دن رات میں پانچ نمازیں فرض ہیں۔
حافظ ابن حزم (متوفی 456؁ھ) فرماتے ہیں کہ ”اس پر اتفاق (اجماع) ہے کہ پانچ نمازیں فرض ہیں۔“
”اس پر اتفاق (اجماع) ہے کہ خوف و امن، سفر و حضر میں صبح کی نماز دو رکعتیں (فرض) ہے اور خوف و امن، سفر و حضر میں مغرب کی نماز تین رکعتیں (فرض) ہے۔ اس پر اتفاق (اجماع) ہے کہ حالت امن میں مقیم پر ظہر، عصر اور عشاء کی نمازیں چار چار رکعات (فرض) ہیں۔“ [مراتب الاجماع ص 25، 24]
ان احادیث صحیحہ سے یہ بھی ثابت ہے کہ گھر میں (حالت امن میں) صبح کی نماز دو رکعتیں، ظہر کی چار، عصر کی چار، مغرب کی تین اور عشاء کی چار رکعتیں فرض ہے۔ حالت سفر میں مغرب کے علاوہ باقی نمازیں دو دو رکعتیں فرض ہیں۔
کفار کے ساتھ جہاد کرتے وقت حالت خوف میں صبح و مغرب کے علاوہ باقی نمازیں ایک ایک رکعت فرض ہیں۔

تنبیہ بلیغ : سفر میں قصر کرنا افضل ہے لیکن قصر کے بجائے پوری نماز پڑھنا بالکل جائز ہے اور صحیح ہے جیساکہ صحیح احادیث اور آثار صحابہ سے ثابت ہے۔
امام ابوبکر محمد بن ابراہیم بن المنذر النیسابوری (متوفہ 318؁ھ) فرماتے ہیں کہ :
34 : اجماع ہے کہ نماز ظہر کا وقت زوال آفتاب ہے۔
35 : اجماع ہے کہ مغرب کی نماز غروب آفتاب کے بعد واجب ہوتی ہے۔
36 : اجماع ہے کہ نماز فجر کا وقت طلوع فجر (صبح صادق) ہے۔ [كتاب الاجماع، مترجم ص 24]

خلاصۃ التحقیق : صحیح احادیث اور اجماع سے دن رات میں مکلف پر پانچ نمازوں کا فرض ہونا ثابت ہے اور اسی طرح ان نمازوں کے اوقات اور رکعتوں کی تعداد بھی صحیح احادیث و اجماع سے ثابت ہے۔ والحمد لله (27 ذوالحجه 1426؁ه)

یہ تحریر اب تک 63 لوگ پڑھ چکے ہیں، جبکہ صرف آج 1 لوگوں نے یہ تحریر پڑھی۔

This Post Has 2 Comments

  1. Anonymous

    عشاء کی نماز کی کتنی رکعت فرض ہیں صحیح حدیث کی روشنی میں بتائیں پلیز

    1. Usman Ahmed

      سیدہ عائشہ صدیقہؓ نے فرمایا کہ :”کان أول ما افترض علی رسول اللہ ﷺ الصلوٰۃ رکعتان رکعتان إلا المغرب فإنھا کانت ثلاثاً، ثم أتم اللہ الظھر و العصر و العشاء الآخرۃ أربعاً فی الحضر و أقر الصلوٰۃ علی فرضھا الأول فی السفر” رسول اللہ ﷺ پر پہلے دو دو رکعتیں نماز فرض ہوئی تھی سوائے مغرب کے وہ تین رکعات فرض تھی۔ پھر اللہ نے حضر میں ظہر، عصر اور عشاء کی نماز چار (چار) کردی اور سفر والی نماز اپنی حالت پر (دو دو سوائے مغرب کے) فرض رہی۔ (مسند الامام احمد ج ۶ ص ۲۷۲ ح ۲۶۸۶۹ دوسرا نسخہ : ۲۶۳۳۸ و سندہ حسن لذاتہ )

Leave a Reply