‏‏‏‏‏‏الصلاة خير من النوم کا جواب

تحریر :ابوالحسن المحمدی

اذان کا جواب دینا ہمارے پیارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیاری سنت ہے :

 

«عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الخُدْرِيِّ : أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : إِذَا سَمِعْتُمُ النِّدَاءَ ، فَقُولُوا مِثْلَ مَا يَقُولُ المُؤَذِّنُ»

سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”جب تم اذان سنو تو کہو اس کی مثل جو مؤذن کہتا ہے۔“ ( صحیح البخاری : 86/1، ح 611، صحیح مسلم : 166/1، ح : 383)
یہ حدیث صحیح البخاری ( 86/1) میں سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے۔

 

سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا : جب تم مؤذن کی اذان سنو تو جو وہ کہتا ہے، تم بھی کہو، پھر مجھ پر درود پڑھو۔ جس نے ایک بار مجھ پر درود پڑھا، اللہ تعالیٰ اس پر دس رحمتیں نازل کرے گا۔ اس کے بعد تم میرے لیے اللہ تعالیٰ سے ”وسیلہ“ کا سوال کرو۔ بے شک یہ جنت میں ایک منزلت ( درجہ ) ہے۔ یہ اللہ کے بندوں میں سے صرف ایک کے لائق ہے۔ میں امید کرتا ہوں کہ وہ میں ہی ہوں۔ جس نے میرے لیے ”وسیلہ“ کا سوال کیا، اس پر میری شفاعت واجب ہے۔ “ ( صحیح مسلم 166/1، ح 384)

 

ان  دو ”صحیح“ احادیث سے اذان کے جواب کا استحباب اور اجر و ثواب ثابت ہوا ہے۔ نیز ان کے عموم سے پتا چلتا ہے کہ جو کلمات مؤذن کہے، جواب میں وہی کلمات دہرائے جائیں، البتہ ایک دوسری حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ ، اور حَيَّ عَلَى الْفَلاحِ کے جواب میں ‏‏‏‏ لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ کہا جائے گا۔

 

سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”پھر جب مؤذن حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ کہے تو تم میں سے کوئی لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ کہے اور جب مؤذن ‏‏‏‏‏‏حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ کہے تو تم میں سے کوئی لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ کہے۔ “ ( صحیح مسلم 167/1، ح، 385)
ان کلمات کی استثنیٰ حدیث سے ثابت ہو گئی۔

 

بعض لوگ کہتے ہیں کہ ان کلمات کے جواب میں صَدَقْتَ وَبَرَرْتَ کہا جائے گا۔ جبکہ یہ کلمات نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے قطعاً ثابت نہیں ہیں۔

 

اس بارے میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
لا أصل لھا ”ان کلمات کی کوئی اصل نہیں۔ “ ( التلخیص الحبیر لا بن حجر 211/1)

 

جناب مولوی عاشق الٰہی بلند شہری دیوبندی صاحب لکھتے ہیں :
حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ اور ‏‏‏‏‏‏حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ کے جواب میں لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ کہے اور باقی الفاظ کے جواب میں وہی الفاظ کہے جو مؤذن سے سنے، یہ احادیث سے ثابت ہے۔ البتہ ‏‏‏‏‏‏الصَّلَاةُ خَيْرٌ مِنَ النَّوْمِ کے جواب میں کوئی خاص کلمات کہنا ثابت نہیں ہے۔ قُولْوا مِثْلَ مَا یَقُولْ (اسی طرح کہو جیسے مؤذن کہے) کا تقاضہ یہ ہے کہ جواب دینے والا بھی ‏‏‏‏‏‏الصَّلَاةُ خَيْرٌ مِنَ النَّوْمِ کہے اور اس سے اپنے نفس کو خطاب کرے اور حنفیہ شافعیہ کی کتابوں میں جو یہ لکھا ہے کہ اس کے جواب میں صَدَقْتَ وَبَرَرْتَ کہے، اس کی کوئی اصل نہیں۔ “ ( حاشیہ حصن حصین از عاشق الٰھی دیوبندی : 255 )

 

یہ تحریر اب تک 50 لوگ پڑھ چکے ہیں، جبکہ صرف آج 1 لوگوں نے یہ تحریر پڑھی۔

Leave a Reply