نبی صلی اللہ علیہ وسلم عالم الغیب اور حاظر و ناظر نہیں

ایک وسوسہ: شیطان اگر ہر جگہ آکر لوگوں کو بہکا سکتا ہے تو کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہر جگہ حاضر و ناظر نہیں ہو سکتے؟الجواب بعون الوھاب

تمام دنیا کو بہکانے کے لئے ایک ہی شیطان متعین نہیں کیا گیا ہے بلکہ ہر انسان کے ساتھ جنوں میں سے ایک قرین (ساتھی) پیدا کیا جاتا ہے جو اسے زندگی بھر بہکاتا اور گمراہ کرتا ہے۔

جناب عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

مَا مِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ إِلَّا وَقَدْ وُكِّلَ بِهِ قَرِينُهُ مِنَ الْجِنِّ ” ، قَالُوا : وَإِيَّاكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ ، قَالَ : ” وَإِيَّايَ إِلَّا أَنَّ اللَّهَ أَعَانَنِي عَلَيْهِ ، فَأَسْلَمَ فَلَا يَأْمُرُنِي إِلَّا بِخَيْرٍ
تم میں سے ہر ایک آدمی کے ساتھ اس کا جن ساتھی مقرر کیا گیا ہے صحابہؓ کرام نے عرض کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بھی اے اللہ کے رسول؟ آپ نے فرمایا ہاں میرے ساتھ بھی مگر اللہ نے مجھےاس پر مدد فرمائی تو وہ مسلمان ہو گیا پس وہ مجھے نیکی ہی کا حکم کرتا ہے۔

(صحیح مسلم کتاب صفات المنافقین، حدیث 7108)

اور عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت میں ہے کہ “ہر انسان کے ساتھ شیطان ہے۔” (مسلم ایضا)

قرآن کریم میں اللہ رب العزت کا ارشاد پاک ہے:

قَالَ قَرِينُهُ رَبَّنَا مَا أَطْغَيْتُهُ وَلَٰكِن كَانَ فِي ضَلَالٍ بَعِيدٍ (سورۃ ق:27)

ترجمہ:

(قیامت کے دن) اس شخص کا ساتھی (شیطان) کہے گا “اے ہمارے پروردگار میں نے اسے سرکش نہیں بنایا تھا بلکہ یہ خود دور کی گمراہی میں پڑا ہوا تھا”

شیطان اعظم (ابلیس) اکیلا یہ کام نہیں کرتا بلکہ وہ دوسرے شیاطین کو اس مقصد کے لئے بھیجتا ہے تاکہ وہ لوگوں کو گمراہ کریں اور فتنہ میں مبتلا کریں۔

جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “ابلیس اپنا تخت پانی کے اوپر بچھاتا ہے پھر اپنی فوجوں (شیاطین) کو حکم دیتا ہے کہ وہ لوگوں میں جاکر انہیں گمراہ کریں اور فتنہ ڈالیں۔ ابلیس کی اس جماعت میں ادنٰی سا شیطان وہ ہے جو انتہا درجے کا فتنہ پرداز ہوتا ہے ان میں اسے ایک شیطان واپس آکر ابلیس سے کہتا ہے کہ میں نے ایسا ایسا کام کیا وہ کہتا ہے تو نے کچھ نہیں کیا اس کے بعد ایک شیطان آتا ہے اور کہتا ہے کہ میں نے ایک شخص کا پیچھا اس وقت تک نہیں چھوڑا جب تک اس کے اور اسکی بیوی کے درمیان تفرقہ نہ ڈال دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ سن کر ابلیس اس کو قریب کر لیتا ہے اور کہتا ہے کہ تو نے بہت اچھا کام کیا۔ اعمش رحمتہ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ میرا خیال ہے کہ جابر رضی اللہ عنہ (حدیث کے راوی ) نے یہ الفاظ بھی کہے “کہ ابلیس اسے سینے سے لگا لیتا ہے۔”

(صحیح مسلم ایضا، مشکوۃ المصابیح کتاب الایمان باب فی الوسوسۃ)

اس وضاحت سے معلوم ہوا کہ اکیلا ابلیس (شیاطن اعظم) یہ سارا کام نہیں کرتا بلکہ اس کے رضاکار شیطان اور لشکریہ کام سرانجام دیتے ہیں، لہذا سوال میں جو دعوٰی کیا گیا ہے وہ غلط ہے۔

رہا یہ دعوٰی کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہر جگہ حاضر و ناضر ہیں تو یہ دعوٰی بھی قرآن و احادیث کے سراسر خلاف ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہ توغیب کا علم جانتے تھے اور نہ ہی حاظر و ناظر ہیں۔ اللہ تعالٰی نے آپ کو جب اور جس وقت چاہا وحی کے زریعے اگاہ فرما دیا اور جب تک وحی نازل نہ ہوتی تو آپ اس بات سے بالکل بے خبر رہتے تھے۔

اللہ تعالٰی کا ارشاد پاک ہے:

قُلْ لَا أَقُولُ لَكُمْ عِنْدِي خَزَائِنُ اللَّهِ وَلَا أَعْلَمُ الْغَيْبَ وَلَا أَقُولُ لَكُمْ إِنِّي مَلَكٌ ۖ إِنْ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَىٰ إِلَيَّ ( سورۃ الانعام آیت 50)

ترجمہ:

آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کہہ دیجیے کہ میں تم سے یہ نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں (یعنی اللہ کے خزانوں کا مالک میں نہیں ہوں) اور نہ میں غیب جانتا ہوں اور نہ میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں۔ میں تو صرف اس وحی کی اتباع کرتا ہوں جو میری طرف کی جاتی ہے۔

اللہ تعالٰی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے علم غیب کی وحی فرما دی اور ساتھ ہی یہ بھی بیان کر دیا کہ آپ صرف وحی کے تابعدار رہیں، وحی آجانے کے بعد ہی آپ غیب کی خبریں دیتے تھے۔ لااعلم مضارع کا صیغہ ہے یعنی میں غیب نہیں جانتا، میں غیب نہیں جانوں گا (مطلب میں نہ تو اب غیب جانتا ہوں اور نہ آئندہ جان سکوں گا) نیز اللہ کے خزانوں کا بھی میں مالک نہیں ہوں، میں گنج بخش نہیں ہوں اور نہ ہی میں نوری (فرشتہ) ہوں علم غیب صرف اور صرف خاصہ رب العالمین ہے۔

اللہ تعالٰی کا فرمان ہے:

قُل لَّا يَعْلَمُ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ الْغَيْبَ إِلَّا اللَّهُ وَمَا يَشْعُرُونَ أَيَّانَ يُبْعَثُونَ ( سورۃ نمل آیت 65)

ترجمہ:

آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کہہ دیجیے کہ آسمان والوں اور زمین والوں میں کوئی بھی غیب نہیں جانتا سوائے اللہ تعالیٰ کے اور انہیں تو یہ بھی معلوم نہیں کہ وہ کب اٹھائے جائیں گے۔

عقیدہ حاظر و ناظر کے بارے میں بھی چند آیات ملاحظہ ہوں:

وَمَا كُنتَ بِجَانِبِ الْغَرْبِيِّ إِذْ قَضَيْنَا إِلَىٰ مُوسَى الْأَمْرَ وَمَا كُنتَ مِنَ الشَّاهِدِينَ، وَلَٰكِنَّا أَنشَأْنَا قُرُونًا فَتَطَاوَلَ عَلَيْهِمُ الْعُمُرُ ۚ وَمَا كُنتَ ثَاوِيًا فِي أَهْلِ مَدْيَنَ تَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِنَا وَلَٰكِنَّا كُنَّا مُرْسِلِينَ، وَمَا كُنتَ بِجَانِبِ الطُّورِ إِذْ نَادَيْنَا وَلَٰكِن رَّحْمَةً مِّن رَّبِّكَ لِتُنذِرَ قَوْمًا مَّا أَتَاهُم مِّن نَّذِيرٍ مِّن قَبْلِكَ لَعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُونَ۔ (سورۃ القصص آیات 44 تا 46)

ترجمہ: اور جب ہم نے موسٰی کی طرف حکم بھیجا تو تم (طور کی) غرب کی طرف نہیں تھے اور نہ اس واقعے کے دیکھنے والوں میں تھے۔ لیکن ہم نے (موسٰی کے بعد) کئی اُمتوں کو پیدا کیا پھر ان پر مدت طویل گذر گئی اور نہ تم مدین والوں میں رہنے والے تھے کہ ان کو ہماری آیتیں پڑھ پڑھ کر سناتے تھے۔ ہاں ہم ہی تو پیغمبر بھیجنے والے تھے۔ اور نہ تم اس وقت جب کہ ہم نے (موسٰی کو) آواز دی طور کے کنارے تھے بلکہ (تمہارا بھیجا جانا) تمہارے پروردگار کی رحمت ہے تاکہ تم اُن لوگوں کو جن کے پاس تم سے پہلے کوئی ہدایت کرنے والا نہیں آیا ہدایت کرو تاکہ وہ نصیحت پکڑیں۔

آپ چونکہ اللہ تعالٰی کے سچے نبی ہیں اس لئے اللہ تعالٰی نے گزشتہ کے واقعات آپ کو بزریعہ وحی بتا دئیے ہیں ورنہ ان واقعات کے ظہور کے وقت آپ ان مقامات پر موجود نہیں تھے۔

وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَأَنتَ فِيهِمْ ۚ وَمَا كَانَ اللَّهُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ يَسْتَغْفِرُونَ
(سورۃ الانفال آیت 33)

ترجمہ:

اور خدا ایسا نہ تھا کہ جب تک تم ان میں سے تھے انہیں عذاب دیتا۔ اور ایسا نہ تھا کہ وہ بخششیں مانگیں اور انہیں عذاب دے۔

معلوم ہوا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی کی وجہ سے لوگوں پر عذاب نہیں آ سکتا۔ اب چونکہ آپ موجود نہیں ہیں اس لئے طرح طرح کے عذاب نازل آ رہے ہیں۔

وَإِذَا كُنتَ فِيهِمْ فَأَقَمْتَ لَهُمُ الصَّلَاةَ
(سورۃ النساء آیت 103)

ترجمہ:

اور (اے پیغمبر) جب تم ان (مجاہدین کے لشکر) میں ہو اور ان کو نماز پڑھانے لگو۔۔۔۔الخ

اس آیت سے معلوم ہوا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب موجود ہوں تو آپ ہی لوگوں کو نماز پڑھائیں گے اور اب چونکہ آپ موجود نہیں ہیں اس لئے دوسرے امام لوگوں کو نماز پڑھا رہے ہیں۔

اس سلسلہ میں مزید حوالاجات کے لئے ملاحضہ فرمائیں، سورۃ یوسف آیت 102، ھود آیت 49، آل عمران آیت 44، وغیرہ ۔ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حاضر و ناظر مان لیا جائے تو پھر معراج اور ہجرت کے تمام واقعات باطل قرار پاتے ہیں۔ معراج میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے بیت المقدس تشریف لے گئے (دیکھیئے سورۃ بنی اسرآئیل آیت 1) اور پھر آپ زمین سے آسمان اور سدرۃ المنتھی تک تشریف لے گئے۔ (دیکھئیے سورۃ النجم آیات 13 تا 18)

یعنی جب آپ مسجد اقصی تشریف لے گئے تو پھر آپ مکہ میں موجود نہ تھے اور جب آپ آسمانوں پر تشریف لے گئے تو زمین پر موجود نہ تھے اسی طرح جب آپ مدینہ تشریف لے گئے تو آپ مکہ مکرمہ میں موجود نہ تھے حالانکہ مشرکین مکہ آپ کو سرگرمی سے تلاش کر رہے تھے۔ تو معلوم ہوا کہ حاظر و ناظر کا عقیدہ اہل اسلام کا نہیں بلکہ چودھویں صدی کے مشرکین کا ایجاد کردہ ہے۔ ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

تنبیہ:

(شیطان مردود کے علم وغیرہ کا ذکر، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کرنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی گستاخی ہے۔ اللہ تعالٰی اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی گستاخی سے ہر مسلمان کو بچائے۔ آمین)

اس تحریر کو اب تک 33 بار پڑھا جا چکا ہے۔

Leave a Reply