گھوڑاحلال ہے!

گھوڑا حلال ہے، کیونکہ :
➊ سیدہ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں :
نحرنافرساعلي وعهدرسول الله صلى الله عليه وسلم فأكلناه۔
”ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں گھوڑا ذبح کیا، پھر اس کوکھا لیا۔“ [صحيح البخاري : 829/2، ح : 5519، صحيح مسلم 150/2، ح : 1942]

❀ سنن نسائی [4426، وسندہ صحيح] کی روایت میں ہے :
ونحن بالمدينة، فأكلناه . ”ہم اس وقت مدینہ میں تھے، پھر ہم نے اسے کھایا۔“

◈ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ [701۔ 477ھ] یہ روایت ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں :
فهذه ادل وأقوي و أثبت، و إلى ذلك صار جمهور العلماء، مالك، والشافعي، و أحمد، و اصحابهم، و اكثر السلف والخلف۔
”یہ حدیث زیادہ بہتر دلیل، زیادہ قوی اور زیادہ ثابت ہے، جمہور علمائے کرام، جیسے امام مالک، امام شافعی، امام احمد اور ان کے اصحاب رحمۃ اللہ علیہم اسی طرف گئے ہیں اور اکثر سلف و خلف کایہی مذہب ہے۔“ [تفسيرابن كثير : 34/4، بتحقيق عبدالرزاق المهدي]

➋ سیدنا جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
إن رسول الله صلى الله عليه وسلم نهي يوم خيبرعن لحوم الحمرالأهلية، وأذن فى لحوم الخيل .
”بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کے دن گھریلو گدھوں کے گوشت سے منع فرما دیا اور گھوڑوں کے گوشت کھانے کی اجازت فرمائی۔“ [صحيح البخاري : 829/2، ح : 5520، صحيح مسلم : 150/2، ح : 1941]
◈ علامہ سندھی حنفی اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں :
”یہ حدیث گھوڑے کے گوشت کے حلال ہونے پردلالت کرتی ہے، جمہورکا یہی مذہب ہے۔“ [حاشية السندي على سنن النسائي : 201/7]

➌ امام عطاءبن ابی رباح رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
رايت أصحاب المسجد، أصحاب ابن الزبير ياكلون الفرس والبرذون قال : و أخبرني أبو الزبير أنه سمع جابر بن عبدالله يقول : أكلنا زمن خيبر الخيل و حمير الوحش، و نهانا النبى صلى الله عليه و سلم عن أكل الحمار۔
”میں نے اس مسجد والوں، یعنی (صحابی رسول) سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کے اصحاب کو دیکھا ہے کہ وہ عربی اور عجمی گھوڑا کھاتے تھے، نیز مجھے ابوالزبیر نے بتایا کہ انہوں نے سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کو یہ بیان کرتے ہوئے سنا کہ ہم خیبر کے زمانے میں گھوڑے اور وحشی (جنگلی) گدھے کھاتے تھے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں گھریلو گدھوں کو کھانے سے منع فرمایا تھا۔“ [مصنف عبدالرزاق : 8837، وسندہ صحيح، صحيح مسلم : 150/2، ح : 1941]

➍ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں :
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گھریلو گدھوں کے گوشت کھانے سے منع فرمایا اور گھوڑے کے گوشت کو کھانے کا فرمایا۔“ [المعجم الكبيرللطبراني : 1282، سنن الدارقطني : 290/1، 1941، وسندہ حسن]
◈ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس کی سند کو ”قوی“ کہا ہے۔ [فتح الباري لابن حجر : 650/9]
◈ حافظ ہیشمی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
”اس کے ساری راوی صحیح بخاری کے راوی ہیں، سوائے محمد بن عبید المحاربی کے اور وہ ثقہ ہے۔“ [مجمع الزاوائد : 47/5]

➎ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا کہتی ہیں :
كان لنا فرس على عهد رسول الله صلى الله عليه و سلم، فأرارادت أن تموت، فذبحنها، فاكلناها۔
”رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں ہمارا ایک گھوڑا تھا، وہ مرنے لگا تو ہم نے اسے ذبح کر لیا، پھر اس کو کھا لیا۔“ [سنن الدارقطني : 289/4، ح : 3739، وسندہ حسن]

➏ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں :
ذبحنا فرسا على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم فأكلنا نحن و أهل بيته۔
”ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ مبارک میں گھوڑا ذبح کیا، پھر ہم نے بھی اسے کھایا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت نے بھی۔“ [سنن الدارقطني : 289/4، ح : 3741، حسن]

➐ امام ابراہیم بن یزید النخعی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں :
نحر أصحاب عبدالله فرسا، فقسموه بينهم۔
”سیدنا عبداللہ (بن مسعود رضی اللہ عنہ) کے شاگردوں نے گھوڑا ذبح کیا، پھر اسے آپس میں تقسیم کر لیا۔“ [مصنف ابن ابي شيبة : 256/8، وسندہ صحيح]

➑ نیز فرماتے ہیں :
إن الأسود كل لحم الفرس
”امام اسودبن یزیدتابعی رحمہ اللہ نے گھوڑے کا گوشت کھایا۔“ [مصنف ابن ابي شيبة : 256/8، وسندہ صحيح]

➒ امام حکم بن عتیبہ بیان کرتے ہیں :
إن شريحا أكل لحم فرس
”امام شریح رحمہ اللہ نے گھوڑے کا گوشت کھایا۔“ [مصنف ابن ابي شيبة : 256/8، وسندہ صحيح]

➓ عبداللہ بن عون کہتے ہیں :
سالت محمد عن لحوم الخيل، فلم يربها بأسا۔
”میں نے امام محمد بن سیرین تابعی رحمہ اللہ سے گھوڑوں کے گوشت کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے اس میں کوئی حرج خیال نہیں کیا۔“ [مصنف ابن ابي شيبة : 257/8، وسندہ صحيح]

⓫ امام حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
”گھوڑے کے گوشت کو کھانے میں کوئی حرج نہیں۔“ [مصنف ابن ابي شيبة : 257/8، وسندهٗ صحيح]
↰ ان صحیح احادیث و آثار سے ثابت ہوا کہ گھوڑا حلال ہے۔ ان احادیث کے بارے میں :
◈ امام طحاوی حنفی رحمہ اللہ ( 238۔ 321ھ) کا ارشاد بھی سن لیں :
فذهب قوم إلى هذه الآثار، فأجازوا أكل لحوم الخيل، و ممن ذهب إلى ذٰلك أبو يوسف و محمد رحمهما الله، و احتحبو بذلك بتواتر الآثار فى ذلك و تظاهرها، ولو كان ذلك مأخوذا من طريق النظر لما كان بين الخيل الأهلية فرق، و لكن الآثار عن رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا صحت و تواترت أولي أن يقال بها من النظر، ولا سيما إذ قد أخبر جابر بن عبدالله رضى الله عنه فى حديث أن رسول الله صلى الله عليه وسلم اباح لهم لحوم الخيل فى وقت منعه الايا هم من لحوم الحمر الأهلية، فدل ذلك على اختلاف حكم لحومهما۔
”ایک گروہ کا مذہب ان آثار کے مطابق ہے، لہٰذا انہوں نے گھوڑوں کے گوشت کو حلال قرار دیا ہے، ان لوگوں میں سے ابویوسف اور محمد بن الشیبانی رحمہ اللہ علیہما بھی ہیں، ان لوگوں نے ان آثار کے متواتر و متظاہر ہونے کی وجہ سے استدلال کیا ہے، اگر یہ معاملہ عقل و قیاس سے طے کیا گیا ہوتا تو گھریلو گھوڑوں اور گھریلو گدھوں میں کوئی فرق نہ ہوتا۔ لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث جب صحیح ثابت ہو جائیں اور تواتر کو پہنچ جائیں تو قیاس کرنے سے ان پر عمل کرنا اولیٰ ہے، خصوصاً جب سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے ایک حدیث میں بتایا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے گھوڑے کے گوشت کو اسی وقت حلال قرار دیا تھا، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے گھریلو گدھے کے گوشت سے منع کیا تھا، اس سے معلوم ہوا کہ ان دونوں کے گوشت میں فرق ہے۔“ [شرح معاني الاثار للطحاوي 210/4]
جو لوگ گھوڑے کو حرام یا مکروہ کہتے ہیں، ان کے دلائل کا مختصر تحقیقی جائزہ پیش خدمت ہے :
دلیل نمبر ➊

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرمان باری تعالیٰ ﴿وَالْخَيْلَ وَالْبِغَالَ وَالْحَمِيرَ لِتَرْكَبُوهَا وَزِينَةً وَيَخْلُقُ مَا لَا تَعْلَمُونَ﴾ [16-النحل:8]
کے بارے میں فرماتے ہیں : ”یہ سواری کے لیے ہیں۔“
اور فرمان باری تعالیٰ ﴿وَالْأَنْعَامَ خَلَقَهَا لَكُمْ فِيهَا دِفْءٌ وَمَنَافِعُ وَمِنْهَا تَأْكُلُونَ﴾ [16-النحل:5]
کے بارے میں فرمایا : هذا للاكل ”یہ کھانے کے لیے ہیں۔“ [تفسير الطبري : 173/17]

تبصرہ :
یہ قول سخت ترین ”ضعیف“ ہے، کیونکہ :
◈ محمد بن حمید الرازی ”ضعیف“ راوی ہے۔ [تقريب التهذيب : 5834]
◈ ابواسحاق راوی مدلس اور مختلط ہے۔
◈ اس میں ”رجل مبہم“ بھی موجود ہے۔

[ب] تفسیرالطبری [173/17]

تبصرہ :
اس کی سند بھی ”ضعیف“ ہے، کیونکہ :
اس میں یحیٰی بن ابی کثیر راوی مدلس ہے۔

[ج] تفسیر الطبری [173/17]

تبصرہ :
اس کی سند بھی ”ضعیف“ ہے، کیونکہ :
◈ سفیان بن وکیع راوی جمہور کے نزدیک ”ضعیف“ ہے۔
◈ ابن ابی لیلیٰ راوی جمہور کے نزدیک ”ضعیف“ اور ”سی ءالحفظ“ ہے۔

[‍‍و] تفسير الطبري [173/17]

تبصرہ :
اس قول کی سند بھی ”ضعیف“ ہے، کیونکہ :
◈ قیس بن ربیع راوی جمہور کے نزدیک ”ضعیف“ ہے۔
◈ ابن ابی لیلیٰ ”ضعیف“ اور ”سی ءالحفظ“ ہے۔
↰ معلوم ہوا کہ سید نا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے یہ قول جمیع سندوں سے ”ضعیف“ ہے۔

فائدہ نمبر ①

امام حکم بن عتیبہ تابعی کہتے ہیں کہ گھوڑے کی حرمت کتاب اللہ سے ثابت ہے، اس پر یہ آیت کریمہ پیش کی۔ [تفسير الطبري : 173/17، وسندہ صحيح]

فائدہ نمبر ②

امام مجاہد تابعی رحمہ اللہ سے گھوڑے کے گوشت کے بارے میں سوال ہوا تو آپ نے یہ آیت کریمہ تلاوت کی، گویا آپ نے اس کے گوشت کو مکروہ خیال کیا۔ [مصنف ابن ابي شيبة : 259/8، وسندہ صحيح]

فائدہ نمبر ③

اما م مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
احسن ما سمعت فى الخيل والبغال والحمير أنها لا تؤكل
”سب سے بہترین بات جو میں نے گھوڑوں اور خچروں کے بارے میں سنی ہے کہ ان کو کھایا نہیں جائے گا۔“ پھر آپ رحمہ اللہ نے یہ آیت پڑھی۔
[مشكل الآثار للطحاوي : 8/73۔ 57، وسندہ صحيح]

↰ لیکن اس آیت سے گھوڑے کے گوشت کا حرام ہونا یا مکروہ ہونا محل نظر ہے، جیسا کہ :
◈ امام طبری رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
والصواب من اقول فى ذلك عندنا ما قاله اهل القول الثاني۔۔۔۔ و فى إجماع الجميع على أن ركوب ما قال تعالىٰ ذكره : (و منها تاكلون) جائز حلال غير حرام، دليل واضح على أن أكل ما قال : (لتر كبوها) جائز حلال غير حرام الا بما نص على تحريمه أو وضع على تحريمه دلالة من كتاب أو وحي إ لي رسول الله صلى الله عليه وسلم فأما بهذه الآية فلا يحرم أكل شيء، وقد وضع الدلالة على تحريم لحوم الحمر الأ هلية بوحيه إ لي رسول الله صلى الله عليه وسلم و على البغال بما قد بينا فى كتابنا، كتاب الأطعمة بما أغني عن اعادته فى هذا الموضع من مواضع البيان عن تحريم ذلك، و إ نما ذكرنا ليدل على أنه لا وجه لقول من استدل بهذه الآية على انه لا وجه لقول من استدل بهذه الآية على تحريم لحم الفرس۔۔۔۔
”اس بارے میں ہمارے نزدیک دوسرے قول والوں کی بات درست ہے (یعنی گھوڑا حلال ہے)۔۔۔ اس لیے کہ تمام مسلمانوں کا اس بات پر اجماع ہے کہ جن جانوروں کا گوشت کھایا جاتا ہے، ان پر سواری کرنا جائز ہے، حرام نہیں، یہ واضح دلیل ہے کہ جن جانوروں کو سواری کے لیے پیدا کیا گیا ہے، ان کو کھانا بھی حلال و جائزہے، سوائے ان چیزوں کے، جن کی حرمت پر کتاب و سنت میں نص قائم کر دی گئی ہو۔ رہی یہ آیت کریمہ تو اس سے کسی چیز کی حرمت ثابت نہیں ہوتی۔ گھریلو گدھوں اور خچروں کی حرمت پر دلالت وحی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے کر دی گئی ہے، جس کی وضاحت ہم اپنی کتاب، الاطعمہ میں کر چکے ہیں، جس کا اعادہ کرنے کی ہمیں ضرورت نہیں، کیونکہ یہ مقام اس کی حرمت بیان کرنے کا نہیں۔ یہ باتیں جو ہم نے کی ہیں، وہ صرف یہ بتانے کے لیے کی ہیں کہ گھوڑے کی حرمت پر اس آیت کریمہ سے استدلال کرنے کی کوئی تک نہیں۔۔۔“ [تفسيرالطبري : 173/17]

◈ حافظ قرطبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
الصحيح الذى يدل عليه النظر والخبر جواز اكل الحوم الخيل، و أن الآية والحديث لا حجة فيهما لازمة، أما الآية فلا دليل فيها على تحريم الخيل إذ لو دلت عليه لدلت على تحريم لحوم الحمر، والسورة مكية، و أى حاجة كان إلى تجديد تحريم لحوم الحمر عام خيبر و قد ثبت فى الأخبار تحليل الخيل على ما يأتي، و ايضا لما ذكر تعالىٰ الأ نعام ذكر الأغلب من منافعها و أ هم ما فيها، و هو حمل الأ ثقال والأكل، ولم يذكر الركوب ولا الحرث بها قال الله تعالىٰ : الذى جعل لكم الانعام لتركبوا منها و منها تاكلون۔ و قال فى الخيل : لتركبوها وزينة۔ فذكر أيضا أغلب منافعها والمقصود منها، ولم يذكر حمل الأ ثقال عليها، وقد تحمل كما هو مشاهد فلذلك لم يذكر الأكل، و قد بينه عليه السلام، الذى جعل إ ليه بيان ما أنزل عليه ما ياتي، ولا يلزم من كونها خلقت للركوب والزينة الاتؤكل، فهذه البقرة قد أ نطقها خالقها الذى أنطق كل شيء، فقالت إنما خلقت للحرث، فيلزم من علل أن الخيل لا تؤكل البقر لأنها خلقت للحرث، و قد أجمع المسلمون على جواز أكلها، فكذلك الخيل بالسنة الثابتة فيها۔
”صحیح بات جس پر عقل ونقل دلیل ہیں، وہ یہ ہے کہ گھوڑے کا گوشت حلال ہے نیز اس آیت اور حدیث میں ایسی کوئی دلیل نہیں۔ رہی بات آیت کی تو اس میں دلیل اس لیے نہیں کہ یہ آیت مکی ہے، اگر یہ آیت حرمت پر دلالت کرتی ہوتی تو خیبر والے سال دوبارہ حرمت بیان کرنے کی کیا ضرورت تھی ؟ پھر احادیث میں گھوڑے کی حلت ذکر ہو گئی ہے، جیسا کہ ہم بیان کریں گے۔ اسی طرح جب اللہ تعالیٰ نے جانوروں کے فوائد بیان کیے ہیں تو اہم اور اغلب فوائد، یعنی کھانا اور بوجھ اٹھانا، بیان کیے ہیں، سواری اور ہل چلانے وغیرہ والے فوائد صراحت سے بیان نہیں کیے، حالانکہ ان پر کبھی سواری اور ہل چلانے کا کام بھی لیا جاتا ہے۔ فرمان باری تعالیٰ ہے :
﴿الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَنْعَامَ لِتَرْكَبُوا مِنْهَا وَمِنْهَا تَأْكُلُونَ﴾ [40-غافر:79]
”اللہ وہ ذات ہے، جس نے تمہارے لیے چوپائے بنائے ہیں، تاکہ تم ان پر سواری کرو اور کچھ کو تم کھاتے ہو۔“
گھوڑوں کے بارے میں فرمایا :
﴿لِتَرْكَبُوهَا وَزِينَةً﴾ [16-النحل:8]
”تاکہ تم ان پر سوار ہو جاؤ اور تاکہ وہ زینت کا سامان ہوں۔“
↰ یہاں بھی اللہ تعالیٰ نے گھوڑوں کے اہم اور اغلب فوائد ذکر کیے ہیں، بوجھ اٹھانے کا ذکر نہیں کیا گیا، حالانکہ ان پر کبھی بوجھ لادا جاتا ہے، جیسا کہ مشاہدہ میں آتا رہتا ہے، بالکل اسی طرح اس کو کھانے کا بھی ذکر نہیں کیا گیا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جن کے ذمہ قرآن کی وضاحت لگائی گئی ہے، انہوں نے اس کی وضاحت کی ہے، جیسا کہ آئندہ بیان ہو گا۔ گھوڑے کو سواری اور زینت کے لیے پیدا کیے جانے سے یہ لازم نہیں آتا کہ اس کا گوشت نہ کھایا جائے، یہ گائے ہے، جس کو اس ذات نے گویا کیا تھا، جس نے ہر چیز کو قوت گویائی دی ہے اور اس نے بول کر کہا تھا (جیسا کہ حدیث میں بیان ہے) کہ وہ ہل چلانے کے لیے پیدا کی گئی ہے۔ جن علتوں سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ گھوڑے کو نہیں کھایا جائے گا، ان ہی علتوں سے یہ ثابت ہو گا کہ گائے کو بھی نہیں کھایا جائے گا، کیونکہ وہ ہل چلانے کے لیے پیدا کی گئی ہے، حالانکہ مسلمانوں کا اجماع ہے کہ اس کو کھانا جائز ہے، اسی طرح گھوڑوں کے بارے میں بھی سنت ثابتہ ہے ”کہ اس کو کھاناجائز ہے“۔ [تفسيرالقرطبي : 76/10]

ایک شبہ اور اس کا ازالہ :
حافظ قرطبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
فإن قيل : الرواية عن جابر بأنهم أكلوها فى خيبر حكاية حال و قضية فى عين، فيحتمل أن يكونو ذبحو الضرورة، ولا يحتج بقضايا الأحوال، قلنا : الرواية عن جابر و إخباره بأنهم كانو يأكلون لحوم الخيل على عهد رسول الله صلى الله عليه و سلم، يزيل ذلك الحتمال، ولئن سلمناه فمعنا حديث اسماء، قالت، نحرنا فرسا على عهد رسول الله صلى الله عليه و سلم : و نحن بالمدينة، فأكلناه، رواه مسلم۔ و كل تأويل من غير ترجيع فى مقابلة النص، فإنما هو دعوي، لا يلتفت إليه، ولا يعرج عليه، وقد روي الدار قطني زيادة حسنة ترفع كل تاويل فى حديث اسماء : كان لنا فرس على عهد رسول الله صلى الله عليه و سلم أرادت أن تموت، فذبحناها، فاكلناها، فذبحها إنما كان لخوف الموت عليها، لا لغير ذلك من الأحوال۔
”اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ خیبر میں گھوڑے کو کھانے والی سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث حکایت حال ہے اور ایک خاص واقعہ ہے۔ ممکن ہے صحابہ کرام نے گھوڑے کو ضرورت کی بنا پر ذبح کیا ہو، لہٰذا مخصوص حالات میں پیش آنے والے واقعات سے دلیل نہیں لی جاتی۔ ہماری طرف سے اس کا جواب یہ ہے سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کی روایت اور یہ بیان کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے عہد مبارک میں گھوڑے کا گوشت کھاتے تھے، اس احتمال کو دور کر دیتا ہے۔ اور اگر پھر بھی اس احتمال کو تسلیم کر لیا جائے تو ہمارے پاس سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا کی حدیث موجود ہے، انہوں نے بیان کیا ہے کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانہ مبارک میں مدینہ میں ایک گھوڑا ذبح کیا، پھر اس کو کھایا، یہ صحیح مسلم کی حدیث ہے۔

نص کے مقابلے میں بغیر کسی وجہ ترجیح کے کی گئی ہر تاویل محض دعوٰی ہوتا ہے۔ جس کی طرف التفات نہیں کیا جائے گا اور اس کا کوئی اعتبار نہیں کیا جائے گا۔ امام دارقطنی رحمہ اللہ نے اس حدیث میں ایک خوبصورت زیادت بیان کی ہے، جو سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا کی حدیث میں ہونے والی ہر تاویل کو ختم کر دیتی ہے، سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا نے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے عہد مبارک میں ہمارا ایک گھوڑا تھا، وہ مرنے لگا تو ہم نے اسے ذبح کر لیا، پھر ہم نے اسے کھایا، چنانچہ اس کو ذبح کرنا صرف اس کے مرنے کے ڈر سے تھا، کسی اور وجہ سے نہ تھا۔“ [تفسير القرطبي : 76/10]

دلیل نمبر ②

سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں :
أن رسول الله صلى الله عليه و سلم نهي عن أكل لحوم الخيل والبغال والحمير، و كل ذي ناب من السباع۔
”بلاشبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے گھوڑے، خچر اور گھریلو گدھے کے گوشت اور ہر کچلی والے والے درندے کو کھانے سے منع فرمایا۔“ [مسندالامام احمد : 89/4، سنن ابي داؤد : 379، سنن ابن ماجه : 3198، شرح معاني الاثارللطحاوي : 210/4، المعجم الكبراني : 3822، سنن الدارقطني : 287/4، التمهيدلابن عبدالبر : 10/128]

تبصرہ :
یہ حدیث ”ضعیف“ ہے۔
◈ علامہ سندھی حنفی بلا رد و تردید لکھتے ہیں :
اتفق العلماء على أنه حديث ضعيف، ذكره النووي۔
”علمائے کرام کا اتفاق ہے کہ یہ حدیث ضعیف ہے، اس بات کوحافظ نووی رحمہ اللہ نے ذکرکیاہے۔“ [حاشية السندي على النسائي : 202/7]
↰ اس حدیث کی سند کا دارومدار صالح بن یحییٰ بن المقدام راوی پر ہے۔ اس کے بارے میں :
◈ امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
فیہ نظر ”اس راوی میں کلام ہے۔“ [التاريخ الكبير للبخاري : 293/4]

◈ حافظ موسیٰ بن ہارون الحمال رحمہ اللہ (214۔ 294ھ) فرماتے ہیں :
لايعرف صالح بن يحيي، ولاأبوه إلابجده، وهذا حديث ضعيف۔
”صالح بن یحیٰ اور اس کے باپ کی روایت صرف اس (صالح کے دادا مقداد بن معدیکرب رضی اللہ عنہ) سے ہی معلوم ہوئی ہے، اور یہ حدیث ضعیف ہے۔“ [سنن الدارقطني : 278/4، وسندهٗ صحيح]

◈ علامہ ابن حزم رحمہ اللہ نے اسے ”مجہول“ کہا ہے۔ [المحلي لابن حزم : 100/8]

◈ حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے بھی اسے ”مجہول“ کہا ہے۔ [ديوان الضعفاءللذهبي]

◈حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ”لین“ کہا ہے۔ [تقريب التهذيب لابن حجر : 2894]

◈ صرف امام ابن حبان رحمہ اللہ نے اسے اپنی کتاب الثقات [459/6] میں ذکر کیا ہے، نیز کہا ہے : یخطیء
↰ لٰہذا یہ راوی ”مجہول“ ہے۔

↰ اس حدیث کے بارے میں ائمہ محدثین کے مزید اقوال ملاحظہ فرمائیں :
◈ حافظ بیہقی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
الحديث غيرثابت، وإسنادہ مضطرب۔
”یہ حدیث ثابت نہیں اور اس کی سندمضطرب ہے۔“ [السنن الصغرٰي للبيهقي : 4/63-64]

◈ حافظ ابن عبدالبر رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
هذا حديث لاتقوم به حجته لضعف إسناد۔
”اس حدیث سے دلیل نہیں بنتی، کیونکہ اس کی سند ضعیف ہے۔“

◈ امام عقیلی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
إسنادهما أصلح من هذا الإسناد۔
”ان دونوں ( سیدنا جابر رضی اللہ عنہ اور اسماء رضی اللہ عنہا کی گھوڑے کی حلت والی حدیثوں) کی سند اس حدیث کی سند سے اچھی ہے۔“ [الضعفاء الكبيرللمقيلي : 206/2]

◈ علامہ ابن حزم رحمہ اللہ نے تو اسے ”موضوغ“ (من گھڑت) کہا ہے۔ [المحلي : 100/8]

◈ حافظ بغوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
إسناده ضعيف۔ ”اس کی سند ضعیف ہے۔“ [شرح السنة للبغوي : 255/11]

◈ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
حديث خالد لايصح، فقد قال أحمد : إنه حديث منكر، وقال أبوداؤد : إنه منسوخ۔
”سیدنا خالد رضی اللہ عنہ کی حدیث صحیح نہیں، امام احمد رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ یہ حدیث منکر ہے اور امام ابوداؤد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ منسوخ ہے۔“ [التلخيص الحبيرلابن حجر : 141/4]

دلیل نمبر ③

سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
فحرم رسول الله صلى الله عليه و سلم الحمرالإنسية ولحوم الخيل والبغال۔
”اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے گھریلوگدھوں کواور گھوڑوں اور خچروں کے گوشت کوحرام قراردیا ہے۔“ [مشكل الآثارللطحاوي : 3064]

تبصرہ :
یہ حدیث ”ضعیف“ ہے، کیونکہ :
◈ عکرمہ بن عمار (ثقہ ) کی روایت یحییٰ بن ابی کثیرسے مضطرب (ضعیف) ہوتی ہے، یہ روایت بھی اسی سے ہے۔
◈ امام طحاوی حنفی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
أهل الحديث يضعفون حديث عكرمة عن يحيي، ولايجعلون فيه حجة۔
”محدثین کرام نے عکرمہ کی یحییٰ سے حدیث کو ضعیف قرار دیا ہے اور وہ اس سے دلیل نہیں لیتے۔“ [مشكل الآثارللطحاوي : 3063]
◈ امام یحییٰ بن سعیدالقطان [الجرح والتعديل لابن ابي حاتم : 10/7، وسندہ صحيح] ، امام احمد بن حنبل [ايضا : وسندهٗ صحيح] ، امام ابوحاتم الرازی [ايضا] ، امام بخاری [الكامل لابن عدي : 272/5، وسندہ حسن] وغیرہم رحمہم اللہ عکرمہ کی یحییٰ بن ابی کثیر سے روایت کو مضطرب اور ”ضعیف“ کہتے ہیں۔
↰ امام یحییٰ بن ابی کثیر ”مدلس“ ہیں اور وہ ”عن“ کے ساتھ روایت کر رہے ہیں۔ سماع کی کوئی تصریح نہیں کی، لٰہذایہ روایت ”ضعیف“ ہے۔

الحاصل :
گھوڑا حلال ہے، کیونکہ اس کے حرام ہونے پر قرآن و حدیث میں کوئی ثبوت نہیں، اس کے برعکس اس کی حلت پر قوی احادیث موجود ہیں۔
◈ جناب اشرف علی تھانوی دیوبندی صاحب لکھتے ہیں :
”گھوڑے کا کھانا جائز ہے، لیکن بہتر نہیں۔“ [بهشتي زيور از تهانوي : حصه سوم، صفحه نمبر56، مسئله نمبر2]
◈ جناب مفتی کفایت اللہ دہلوی دیوبندی صاحب ایک سوال کے جواب میں لکھتے ہیں :
سوال : کن جانوروں کا جوٹھا پانی پاک ہے ؟
جواب : ”آدمی اور حلال جانوروں کا جوٹھا پانی پاک ہے، جیسے گائے، بکری، کبوتر، گھوڑا !“ [تعليم الاسلام از كفايت الله : 36]

یہ تحریر اب تک 23 لوگ پڑھ چکے ہیں، جبکہ صرف آج 1 لوگوں نے یہ تحریر پڑھی۔

Leave a Reply