گردن کا مسح بدعت ہے

                      تحریر: حافظ ابو یحییٰ نور پوری

                رسول اکرم ﷺ نے وضو کا جو طریقہ اختیار فرمایا، اس میں گردن کے مسح کا کوئی ذکر نہیں، نہ ہی آپ کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے کسی نے گردن کا مسح کیا ، لیکن اس کے باوجود تقلید پرست اسے “مستحب” کہتے ہیں، چنانچہ جناب انوارِ خورشید دیوبندی لکھتے ہیں:

                “گردن (گدی) پر مسح کرنا مستحب ہے۔”    (حدیث اور اہلحدیث : ۱۸۲)

                قارئین کرام ! آلِ تقلید کی چالاکی دیکھیں کہ جب انہوں نے گردن کے مسح کی کوئی حدیث  نہ پائی تو اکابر پرستی کا حق ادا کرتے ہوئے اپنی خلافِ سنت فقہ کو بچانے کے لئے گردن کا معنیٰ “گدی” کرنا شروع کردیا، حالانکہ ہمارا محلِ نزاع گردن کے دونوں طرف الٹے ہاتھ پھیرتے ہوئے مسح کرنا ہے ، نہ کہ سر کا مسح کرتے ہوئے گدی کو چھونا، تقلید پرست آج بھی گردن کے پہلو پر الٹے ہاتھوں سے مسح کرتے ہیں، انہیں چاہیے کہ اس عمل سے فرار اختیار نہ کریں بلکہ اسی پر ثابت قدم رہتے ہوئے اس پر کوئی ایک “صحیح” حدیث پیش کردیں، قیامت تک مہلت ہے ۔ فان لم تفعلوا ولن تفعلوا فاتقوا النار التی وقودھا الناس و الحجارۃ.

آئیے ان کے مزعومہ دلائل کا جائز ہ لیتے ہیں:

دلیل نمبر۱:

((عن ابن عمر أنّ النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال ؛ من توضا و مسح علیٰ عنقہ، وُقِی الغل یوم القیامۃ.)) (التلخیص الحبیر)

                حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی علیہ الصلوٰۃ و السلام نے فرمایا جس نے وضو کیا اور دونوں ہاتھوں سے اپنی گردن (گدی) پر مسح کیا تو وہ قیامت کے دن طوق (پہنائے جانے) سے بچا لیا جائیگا۔ (حدیث اور اھلحدیث: ۱۸۳-۱۸۲، اعلاء السنن: ۱۲۰/۱)

تبصرہ:

۱:             یہ روایت “ضعیف” ہے ، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:                بین ابن فارس و فلیح مفازۃ.

                “ابن فارس اور فلیح کے درمیان (انقطاع کا ) لمبا صحرا ہے ۔”            (التلخیص الحبیر : ۹۳/۱)

دیوبندیوں کو چاہیے کہ اس کی مکمل سند پیش کریں، اسلام محمد ﷺ کی “متصل، صحیح” احادیث کا نام ہے ،نہ کہ “منقطع اور ضعیف” روایات کا !

۲:            اس “ضعیف” روایت میں بھی ان کی مروّجہ، یعنی الٹے ہاتھوں گلے تک مسح کا کوئی ثبوت نہیں۔

دلیل نمبر ۲:

                ((عن ابن عمر أن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال ؛ من توضا ومسح یدیہ علی عنقہ أمن یوم القیٰمۃ من الغل.))  (مسند فردوس مع تسدید القوس ج ۴ ص ۴۴)

                حضرت ابن عمر ؓ سے مروی ہے کہ نبی علیہ الصلوٰۃ و السلام سے فرمایا جس نے وضو کیا اور دونوں ہاتھ اپنی گردن (گدی) پر پھیرے تو وہ قیامت کے دن طوق (پہنائے جانے) سے مامون رہے گا۔ (حدیث اور اھلحدیث : ۱۸۳ ، اعلاء السنن : ۱۲۰/۱)

تبصرہ:

                یہ بے سند ہونے کی وجہ سے مردود ہے ، بے سروپا باتوں کا دینِ حق سے کوئی تعلق ہے ؟

دلیل نمبر ۳:

                ((عن لیث عن طلحۃ بن مصرف عن أبیہ عن جدہ أنہ رآی رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم مسح مقدم رأسہ حتّٰی بلغ القذال من مقدم عنقہ (طحاوی ج ۱ص ۲۸))

                حضر ت طلحہ بن مصرف بروایت اپنے والد، اپنے داداسے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ آپ نے اپنے سر کے اگلے حصہ پر مسح کیا حتی کہ آپ (اپنے ہاتھ) سر کے آخر حصہ تک لے گئے ۔ (حدیث اور اہلحدیث : ۱۸۳ ،

اعلاء السنن : ۱۲۰-۱۲۱/۱)

تبصرہ:

۱:             اس کی سند بھی “ضعیف” ہے ، کیونکہ لیث بن ابی سلیم جمہور کےنزدیک “ضعیف” اور “مختلط” ہے ، امام احمد بن حنبل ، امام دارقطنی ، امام یحییٰ بن معین ، امام ابو حاتم الرازی ، امام ابوزرعہ الرازی ، امام نسائی ، امام ابن عدی اور جمہور محدثین نے اسے حدیث میں ناقابلِ اعتبار قرار دیا ہے ۔

                اس کے بارے میں حافظ عراقی (۸۰۶-۷۲۵) لکھتے ہیں:” ضعّفہ الجمھور.” “جمہور نے اس کو ضعیف کہا ہے ۔ ” (المغنی عن حمل الاسفار : ۱۷۸/۲، تخریج احادیث الاحیاء للحداد: ۱۶۴۸)

حافظ ہیثمی لکھتے ہیں:     وضعفہ الأکثر.             “اکثر محدثین نے اس کو ضعیف کہا ہے ۔ ”     (مجمع الزوائد : ۹۰/۱ ، ۹۱ ، ۱۷۸/۲)

حافظ ابن المقلن رحمہ اللہ لکھتے ہیں:               ضعیف عندالجمھور.     “جمہور کے نزدیک ضعیف ہے ۔” (البدر المنیر لابن المقلن: ۱۰۴/۲)

بوصیری کہتے ہیں:        ضعفہ الجمھور . “اس کو جمہور نے ضعیف کہا ہے ۔”            (زوائد ابن ماجہ : ۵۴)

حافظ ابن حجر نے اس کو “ضعیف الحفظ ” کہا  ہے ۔            (تغلیق التعلیق لا بن حجر : ۳۳۷/۲)

اب بھی دیوبندیوں کا اس کی روایات سے استدلال کرنا نہایت تعجب خیز ہے ۔

۲:            سر کا مسح کرتے ہوئے گدی تک ہاتھ لے جانا محلِ نزاع نہیں ، بلکہ آلِ تقلید کو چاہیے کہ وہ گردن کے اطراف کا مسح کرتے ہوئے دونوں ہاتھوں کو گلے تک لے جانے پر کوئی ایک حدیث پیش کردیں۔

دلیل نمبر ۴:

                ((عن طلحۃ عن أبیہ عن جدہ أنہ رآی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یمسح رأسہ حتّٰی بلغ القذال وما یلیہ من مقدم العنق بمرّۃ  (مسند احمد ج ۳ ص ۴۸۱))

                حضرت طلحہ بروایت اپنے والد، اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ آپ اپنے سر پر مسح فرما رہے ہیں یہاں تک کہ آپ (اپنے ہاتھ) سر کے آخری حصے اور اس سے متصل گردن کے اوپر کے حصہ تک ایک بار لے گئے ۔ (حدیث اور اھلحدیث : ۱۸۴۔ ۱۸۳)

تبصرہ:

                حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:                    واسنادہ ضعیف کما تقدم.

                “اس کی سند ضعیف ہے ، جیساکہ پہلے گزر چکا ہے ۔”        (التلخیص الحبیر : ۹۲/۱)

یہ بالکل سابقہ روایت ہے ، لیث بن ابی سلیم پر جرح آپ پڑھ چکے ہیں ، دیوبندی صاحب نے خوامخواہ صرف کتاب کا حجم بڑھانے کے لئے بار بار وہی خام مال لوڈ کیا ہے ، ابھی بھی ان کا دعویٰ ہے کہ ہمارے پاس بہت سے حدیثی دلائل ہیں ، یہ ہے ان کے دلائل کی حیثیت!

دلیل نمبر ۵:

                ((عن موسیٰ بن طلحۃ قال ؛ من مسح قفاہ مع رأسہ وقی الغلّ یوم القیمۃ، قلت ؛ فیحتمل أن یقال ھٰذا وان کا ن موقوفا فلہ حکم الرفع (التلخیص الحبیر ج ۹۲/۱))

                حضرت موسیٰ بن طلحہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جس نے اپنے سر کے ساتھ گردن کا بھی مسح کیا وہ قیامت کے دن طوق (پہنائے جانے) سے بچالیا جائے گا، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث اگر چہ موقوف ہے لیکن حکماً مرفوع ہے ۔” (حدیث اور اھلحدیث : ۱۸۴ ،اعلاء السنن : ۱۲۲/۱)

تبصرہ:

                اس کی سند بھی “ضعیف ” ہے ، عبدالرحمٰن بن عبداللہ المسعودی آخری عمر میں “اختلاط ” کا شکار ہوگئے تھے، عبدالرحمٰن بن مہدی جو اس روایت کو ان سے بیان کررہے ہیں ، انہوں نے “اختلاط” کے بعد ان سے روایت لی ہے ، چنانچہ ابن نمیر کہتے ہیں:

                المسعودیّ کان ثقۃً ، فلما کان بأخرۃ اختلط ، سمع منہ عبدالرحمٰن بن مھدی ویزید بن ھارون أحادیث مختلطۃً.

“مسعودی ثقہ تھا، لیکن آخری عمر میں اختلاط کاشکار ہوگیا تھا ، عبدالرحمٰن بن مہدی اور یزید بن ہارون نے اس سے اختلاط والی روایات سنی ہیں۔”       (الجرح و التعدیل : ۲۵۱/۵ ، وسندہٗ صحیح)

                یہ جرح مفسر ہے اور جرح مفسر تعدیل پر مقدم ہوتی ہے ، دوسری بات یہ ہے کہ موسیٰ بن طلحہ تابعی ہیں اور ڈائریکٹ نبیٔ اکرم ﷺ سے بیان کررہے ہیں ، اس وجہ سے یہ “مرسل” بھی ہے ،لہٰذا یہ روایت ناقابلِ حجت ہے ، اسی لیے دیوبندیوں کے حصے آئی ہے۔

دلیل نمبر ۷:

                ((حدثنی طلحۃ بن مصرف عن أبیہ عن جدہ کعب بن عمرو الیمامی أنّ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم توضأ فمضمض ثلاثا و استنشق ثلاثا یأخذ لکل واحدۃ ماء جدیدا و غسل وجھہ ثلاثافلما مسح رأسہ قال ھکذا وأومأ بیدہ من مقدم رأسہ حتی بلغ بھما الی أسفل عنقہ من قبل قفاہ (غایۃ المقصود ج ۱ ص۱۳۷))

                حضرت کعب بن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے وضو فرمایا تین مرتبہ کلی کی اور تین مرتبہ ناک میں پانی ڈالا ، ہر مرتبہ آپ نیا پانی لیتے تھے پھر تین دفعہ چہرہ کو دھویا جب آپ نے سر پر مسح کیا تو اس طرح کیا ۔ راوی نے اپنے ہاتھ سے اشارہ کرکے بتایا کہ حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام نے اپنے سر کے اگلے حصے سے (مسح شروع کیا ) یہاں تک کہ اپنے ہاتھوں کو گدی کی طرف سے گردن کے نیچے تک لے گئے ۔ (حدیث اور اھلحدیث : ۱۸۴-۱۸۵ ، اعلاء السنن : ۱۲۱/۱)

تبصرہ:

                یہ بے سند ہونے کی وجہ سے مردود و باطل اور ناقابلِ التفات ہے ، بے سند روایات جمع کرکے اسے تحقیق کا نام دینا آلِ تقلید کا ہی خاصہ ہے ۔

دلیل نمبر ۷:

                ((عن وائل بن حجر (فی حدیث طویل) فغسل وجھہ ثلثا و خلل لحیتہ و مسح باطن أذنیہ ثم أدخل خنصرہ فی داخل أذنہ لیبلغ الماء ثم مسح رقبتہ وباطن لحیتہ من فضل ماء الوجہ…. الحدیث.(معجم کبیر طبرانی : ج ۲۲ ص ۴۲))

                حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام نے اپنے چہرے کو تین مرتبہ دھویا پھر ڈاڑھی  میں خلال کیا اور کانوں کے اندر مسح فرمایا چھنگلی کان میں ڈال کر تاکہ پانی پہنچ جائے پھر آپ نے گردن (گدی) کا اور ڈاڑھی کے اندر کا مسح کیا چہرہ کے بچے ہوئے پانی سے ۔             (حدیث اور اھلحدیث : ۱۸۵ ، اعلاء السنن: ۱۲۳/۱)

تبصرہ:

۱:             اس کی سند کئی وجوۃ سے سخت “ضعیف” ہے ۔

۱٭         محمد بن حجر راوی “ضعیف” ہے ، اس کے بارے میں امام بخاریؒ فرماتے ہیں:

                فیہ بعض النظر.                          “اس میں بعض نظر ہے ۔”         (التاریخ الکبیر : ۶۹/۱)

ابو الحاکم فرماتے ہیں:

                لیس بالقویّ عندھم.                   (لسان المیزان : ۱۱۹/۵)

۲٭        سعید بن عبدالجبار کے بارے میں حافظ ابن حجر لکھتےہیں: ضعیفٌ. (تقریب التہذیب  :۲۳۴۴)

۳٭        ام یحییٰ “مجہولہ” ہے ، اس کے حالات نہیں مل سکے ، جناب ابنِ ترکمانی حنفی لکھتےہیں:

                وأم عبدالجبار ھی أم یحییٰ، لم أعرف حالھا ولا اسمھا.

                “عبدالجبار کی والدہ ہی ام یحییٰ ہے ، نہ میں اسکے حالات سے واقف ہوا ہوں اور نہ اس کے نام سے ۔”      (الجوھر النقی: ۳۰/۲)

۲:            قارئین اگر “طبرانی کبیر ” اٹھا کر اس روایت کا خود مطالعہ کریں گے تو انہوں معلوم ہوگا کہ آلِ دیوبند نے ہمارے خلاف یہ روایت پیش کرتے وقت بازارِ علم میں تاجِ خیانت مُول لیا ہے ، بلکہ یہ کہنا بھی بے جاہ نہ ہوگا کہ وہ اس میدان کے بے تاج بادشاہ بن گئے ہیں ، وہ اس طرح کہ بالکل اسی روایت کے اندر سینے پر ہاتھ باندھنے ، رکوع کو جانے اور رکوع سے سر اٹھاتے ہوئے رفع الیدین اور اونچی آواز سے آمین کہنے وغیرہ کابھی ذکر موجود ہے ، جسے دیوبندی صاحب ” الحدیث” کہہ کر بغیر ڈکار کے ہضم کرگئے ہیں، ان سے سوال ہے کہ وہ اس روایت کی روشنی میں گردن کے مسح کے ساتھ ساتھ دوسری تمام سنتوں پر عمل کیوں نہیں کرتے او رصرف گردن کے مسح کو لے کر ﴿اَفَتُؤْمِنُوْنَ بِبَعْضِ الْکِتٰبِ وَ تَکْفُرُوْنَ بِبَعْضٍ﴾ کے مصداق کیوں بنتے ہیں؟

دلیل نمبر ۸:

                ((عن وائل بن حجر (فی حدیث طویل) ثم مسح علیٰ رأسہ ثلثا و ظاھر أذنیہ ثلثا و ظاھر رقبتہ وأظنّہ قال وظاھر لحیتہ ثلثا الحدیث (کشف الاستار عن زوائد البزار ج ۱ ص ۸۴۰))

                حضرت وائل بن حجرؓسے (ایک دوسری روایت میں) مروی ہے کہ پھر حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام نے اپنےسر پر تین دفعہ مسح کیا اور کانوں کے اوپر کے حصہ پر تین دفعہ مسح کیا اور گردن کے اوپر کے حصہ (گدی) پر راوی کہتےہیں کہ میرا خیال ہے کہ حضرت وائل نے بھی فرمایا کہ حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام نے ڈاڑھی کے اوپر کے حصہ پر (بھی ) تین دفعہ مسح کیا ۔ (حدیث اور اھلحدیث : ۱۸۶-۱۸۵ ، اعلاء السنن : ۱۲۴/۱)

تبصرہ:

                یہ بالکل سابقہ روایت ہے ، آلِ دیوبند “ضعیف” روایات کو بار بار ذکر کے اپنے ناخواندہ حواریوں کو یہ طفل تسلیاں دیتے ہیں کہ ان کے پاس بہت زیادہ احادیث ہیں، اس دعوے کی حقیقت قارئین جان ہی چکے ہیں ، مزید تسلی کے لئے گزشتہ تبصرہ ملاحظہ فرمائیں۔

٭٭٭ انوارِ خورشید صاحب اپنے دلائل کی کل کائنات پیش کرنے کے بعد یوں تبصرہ کرتے ہیں:

                ((مذکورہ احادیث و آثار سے ثابت ہورہا ہے کہ دورانِ وضو گردن (گدی) پر مسح کرنا مستحب ہے ۔ حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام نے خود بھی گردن (گدی ) پر مسح فرمایا ہے اور لوگوں کو بھی گردن (گدی ) پر مسح کی ترغیب دی ہے ، لیکن ان تمام احادیث و آثار کے خلاف غیر مقلدین کاکہنا ہے کہ احادیث میں گردن پر مسح کا کوئی ذکر  ہی نہیں ۔ گردن پر مسح کرنا “احداث فی الدین ” ہے ۔  (حدیث اور اھلحدیث : ۱۸۶)

تبصرہ در تبصرہ:

                ان کے ذکر کردہ “احادیث و آثار ” کی قلعی ہم نے کھول دی ہے ، ان میں سے ایک روایت بھی پایۂ ثبوت کو نہیں پہنچ سکی ، دین “صحیح احادیث ” کا نام ہے ، نہ کہ “ضعیف و من گھڑت ” روایات کا ، اس پر طُرّہ یہ کہ ان کے ہاں مروّجہ گردن کا مسح (گردن کے پہلو پر الٹے ہاتھ پھیرنا ) تو ان “ضعیف” روایات سے بھی ثابت نہیں ہوتا ،لہٰذا نہ رسولِ کریم ﷺ نے خود گردن کا مسح فرمایا ہے اور نہ ہی لوگوں کو اس کی ترغیب دی ہے ، بلکہ یہ محض آلِ تقلید کا ایک شوشہ ہے ، ایسی بےبنیاد روایات کی مخالفت اہلحدیثوں کو چنداں مضر نہیں۔

معلوم ہوا کہ یہ عمل بدعت ہے ۔

٭٭٭ دیوبندی صاحب مزید لکھتے ہیں:

                ((یہ ہے غیر مقلدیت کا نتیجہ کہ بے دھڑک فعلِ نبیﷺ کو بدعت کہہ دیا۔ العیاذ باللہ))

تبصرہ در تبصرہ:

                یہ ہے تقلید پرستی کا انجام کہ بے دھڑک نبی ﷺ اور متبع سنت صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے غیر ثابت شدہ خود ساختہ عمل کو مستحب کہہ دیا، العیاذ باللہ !!!

                اب قارئین کرام ہی فیصلہ فرمائیں کہ ایسے عمل کو مستحب قرار دینا جو نہ رسولِ کریم ﷺ نے خود کیا ہو ، نہ صحابہ کو اس کی تعلیم دی ہو اور نہ ہی صحابہ کرام نے کیا ہو،

یہ حدیث کی موافقت ہے یا مخالفت؟

٭ ٭ ٭

یہ تحریر اب تک 51 لوگ پڑھ چکے ہیں، جبکہ صرف آج 1 لوگوں نے یہ تحریر پڑھی۔

Leave a Reply