کیا نماز کے دوران سلام کا جواب دینا جائز ہے؟

تحریر: غلام مُصطفٰے ظہیر امن پوری

نمازی کو سلام کہنا جائز اور صحیح ہے، حالت نماز میں سلام کا جواب کلام کر کے نہیں،بلکہ اشارے کے ساتھ دینا سنت ہے،کلام کر کے سلام کا جواب لوٹانا منسوخ ہے۔

دلیل نمبر ۱:

عن جابر،قال: ارسلنی رسول اللہ صلٰی اللہ علیہ وسلم ،و ھو منطلق الٰی بنی المصطلق ،فأتیتہ و ہو یصلٰی علی بعیرہ، فکلًمتہ ،فقال لی بیدہ ھکذا ،و أومأ زھیر أیضابیدہ نحو الارض ،و أ نا اسمعہ یقرأ ،یؤمیٔ براسہ،فلمّا فرغ  قال: ما فعلت فی الّذی أرسلتک لہ، فانّہ لم یمنعی أن أکلّمک الا أنّی کنت أصلّی ۔

سیدنا جابر بن عبداللہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے بنی مصطلق کی طرف بھیجا،میں آپ ﷺ کے پاس آیا، آپﷺ اونٹ پر (نفلی) نماز پڑھ رہے تھے،میں نے آپ پر سلام کہا ،آپ ﷺ نے ہاتھ کے اشارے سے جواب لوٹایا۔( زہیر راوی نے ہاتھ سے اشارہ کر کے دکھایا) میں نے پھر آپ ﷺ کو سلام کہا،آپ ﷺ نے پھر ہاتھ کے اشارے سے جواب دیا ( ظہیر نے اپنا ہاتھ زمین کی طرف جھکایا)، میں آپﷺ کی قرأت سن رہا تھا۔آپ ﷺ اپنے سر کے ساتھ اشارہ فرما رہے تھے۔جب آپ ﷺ فارغ ہوئے تو فرمایا، میں نے تجھے جس کام کیلئے بھیجا تھا،اس بارے میں کیا کیا؟ مجھے کلام کرنے سے صرف یہ بات روک رہی تھی،کہ میں نماز پڑھ رھا تھا۔

(صحیح بخاری:۱۲۱٧ ،صحیح مسلم : ۵٤۰واللفظ لہ)

اس حدیث سے ثابت ہوا کہ نمازی کو سلام کہنے اور اشارے سے جواب لوٹانا جائز ہے۔

دلیل نمبر ۲:

سیدنا عبداللہ بن عمررحمہ اللہ بیان کرتے ہیں::

خرج رسول اللہ صلٰی اللہ علیہ و سلّم الٰی قبأ یصلّی فیہ ،قال: فجاّتہ الأ انصار،فسلّمو علیہ و ھو ﷺ ؟ قال: فقلت للبلال: رایٔت رسو ل اللہ ﷺ یردّ علیھم حین کانو! یسلّمون علیھ،و ھو ﷺ یصلّی ؟ قال: یقول ھکذا ،و بسطہ کفّہ  ‘

‘نبی اکرم ﷺ مسجد قبا میں نماز کیلئےنکلے، انصار صحابہ آئےاور انہوں نے آپ ﷺ کو سلام کہا آپ  نماز ﷺ میں تھےسید نا ابن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے بلال رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ آپ ﷺ حالت نماز میں کس طرح جواب لوٹاتے تھے؟ اس سیدنا بلال رضی اللہ عنہ نے اپنی ہتھیلی پھیلائی۔( راوی جعفر بن عون نے اپنی ہتھیلی کا باطنی حصہ نیچےکی طرف اور اس کی پشت اوپر کی طرف کی) ’’

(سنن ابی داﺅد : ٩٢٧،سنن الترمذی : ٣٦٨،مسند الامام احمد : ٦/ ١٢وسندہ حسن)

امام ترمذی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو ‘‘حسن صحیح ’’کہا ہے امام ابن الجارود رحمہ اللّہ (٢١٥)اور حافظ نووی رحمہ اللّہ (خلاسۃ الاحکام: ١/٥٠٨) نے ‘‘صحیح ’’ قرار دیا ہے۔

دلیل نمبر٣

عن صھیب أنّہ قال: مررت برسول اللّہ ﷺو ھو یصلّی فسلّمت علیہ ،فرّد اشارہ۔ 

سیدنا صہیب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللّہ ﷺ کے پاس سے گزرا آپ    ﷺنماز پڑھ رہے تھے ،میں نے آپﷺپر سلام کہا ،نے آپﷺ نے اشارے کے ساتھ جواب دیا

(سنن ابی دائود: ٩٢٥سنن الترمذی ٣٦٧ سنن النسائی ١١٨٧مسند الامام احمد:٤/٣٣٢وسندہ صحیح)

اس حدیث کو امام ترمذی رحمہ اللہ نے ‘‘حسن ’’ کہا ہے، جبکہ امام ابن الجارود رحمہ اللہ (٢١٦)اور امام ابن حبان رحمہ اللہ نے ‘‘صحیح ’’قرار دیا ہے۔اس حدیث کا ایک شاہد ‘‘صحیح ’’سند کے ساتھ سنن النسائی (١١٨٨) سنن ابن ماجہ (١٠١٧)اور مسند الحمیدی (١٤٨)وغیرہ میں موجود ہے۔اس کو امام ابنِ خزیمہ رحمہ اللہ (٨٨٨)اورامام ابن حبان رحمہ اللہ (٢٢٥٨) نے ‘‘صحیح ’’کہا ہے۔امام حاکم رحمہ اللہ(٣/١٢) نے اسے بخاری اور مسلم کی شرط پر‘‘صحیح ’’کہا ہے،حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے۔

ان احادیث مبارکہ سے ثابت ہوا کہ نمازی کو سلام کہنا اور اس کا اشارے کے ساتھ جواب لوٹانا جائز اوردرست ہے۔

دلیل نمبر ٤:

انّ عبداللہ بن عمر علی رجل،و ھو یصلی، فسلّم علیہ فرّدّ الرجل کلاماًً ،فرجع الیہ عبداللہ بن عمر ،فقال لھ: اذا سلّم علی احد کم ،وھو یصلی ،فلا یتکلّم ولیشر بیدہ۔۔ 

‘‘سیدنا عبداللہ بن عمر ؓ ایک ادمی کے پاس سے گزرے ،وہ نماز پڑھ رہا تھا ، آپ نے اسےسلام کہا، اس نے بول کر جواب د یا،سید نا عبداللہ بن عمر ؓاس کی  طرف لوٹے اور اسے فرمایا ، جب تم میں سے کسی ایک کو سلام کہا جائے اور وہ نماز پڑھ رہا ہو تو وہ کلام نہ کرے،بلکہ اپنے ہاتھوں کے ساتھ اشارہ کر دے۔’’

(الموطا للامام مالک: ١/١٦٨، مصنف ابن ابی شیبہ : ٢/٧٤،ح : ٤٧٤٩،اسنادہ صحیح کالشمس وضوحاًً )

دلیل نمبر ٥: 

ان عطأ أنّ موسٰی بن عبداللہ بن جمیل الجمحی سلّم علی ابن عبّاس،و ھو یصلی ،فأ خذہ بیدہ۔ 

عطأ بن ابی رباح رحمہ اللّہ بیان کرتے ہیں کی موسٰی’’ بن عبداللہ بن جمیل جمحی نے سید نا ابن عباس ؓ کو سلام کہا ، آپ نماز میں تھے آپ کا ہاتھ پکڑ لیا (یہ آپ کی طرف سے سلام کا جواب تھا۔)

(الشمس الکبری للبیھقی٢/٢٥٩،مصنف ابن ابی شیبۃ : ٢/٧٣، سندہ صحیح)

 دلیل نمبر ٦

عن ابی مجلز،سٔل عن الرّجل یسلّم علیہ فی الصّلاۃ قال؛ یردّ بشق رأسہ الایمن۔:

‘‘ابو مجلز ( لاحق بن حمید تابعی ) رحمہ اللہ سےایسے نمازی کے بارے میں سوال کیا گیا ،جس کو سلام کہا جائے،آپ نے فرمایا ،وہ اپنے سر کی دائیں جانب کے ساتھ ( اشارہ کرتے ہوے) جواب لوٹائے-

 (مصنف ابن ابی شیبہ ٢/٧٣،ح: ٤٨٥،و سندہ صحیح )

امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

ان شأ أشارہ و أ مّا بالکلام فلا یردّ ۔

نمازی اگر چاہے تو اشارے سے سلام کا جواب دے دے ،لیکن زبان سے کلام کر کے جواب نہ لوٹائے

( مسائل احمد لابی داوّد : ص ٣٧،مسائل احمد لابی ھانی ١/٤٤)

تنبیہ  :

امام اسحاق بن راہویہ ،امام احمد بن حنبل اور امام سفیان الثوری رحمہم اللہ سے روایت ہے ،ان کا قول ہے:

اذا ردّ علیہ استقبل الصّلاۃ ۔ ‘‘مسائل احمد و اسحاق١/٨٣

اس قول سے ان ائمہ کی مراد یہ ہے کہ اگر کسی نمازی کو معلوم ہو کہ نماز میں زبان سے سلام کا جواب دینا ممنوع اور منسوخ ہے، اس کے باوجود ایسا کرے تو اسے نماز لوٹانی ہو گی،کیونکہ اس نے جان بوجھ کر نماز میں کلام کیا ہے،ہم بھی یہی کہتے ہیں۔

تنبیہ :

اگر حالت نماز میں جہالت کی بنا پر سلام کے جواب میں وعلیکم السلام کہہ دے تو نماز باطل نہیں ہو گی۔

اعتراض نمبر ۱ :

‘‘ حنفیہ کہتے ہیں کہ نماز میں آپ ﷺ کا اشارہ حالت نماز میں سلام کہنے کی ممانعت کے بارے میں تھا۔نہ کہ سلام کے جواب میں

(شرح معانی الاثار ١/٤٥٧)

جواب:

ان کا یہ بے دلیل قول مذ کورہ بالا احادیث ،آثار، جو حالت نماز میں اشارے سے سلام لوٹائے جانے کے بارے میں واضح ہیں، ان کے خلاف ہونے کی وجہ سے مرد ود ، باطل ہے۔

اعتراض نمبر ۲ :

عن عبداللّہ رضی اللّہ عنہ ،قال: کنت أ سلّم علی النّبی صلّی اللّہ علیہ و سلّم ،و ھو فی الصّلوۃ ،فیردّ علّی فلمّا ،رجعنا،سلّمت علیہ فلم یردّ علّی،و قال: انّ فی الصلاۃ شغلاً ‘‘

سید نا عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ میں رسول اللہ ﷺ کو حالت نماز میں سلام کہہ دیا کرتا تھا او ر آپ ﷺ مجھے جواب دے دیا کرتے تھے، یہاں تک کہ ہم نجاشی کے پاس سے واپس آئے تو میں نے آپ ﷺ کو نماز میں سلام کہا،آپ ﷺ نے جواب نہ دیا،(جب یہ بات آپ ﷺ سے پوچھی گئی تو) آپ ﷺ نے فرمایا ،نماز میں ( قرآن کی قرا ء ت، ذ کر اور دعاؤں کی) مشغولیت ہوتی ہے

( صحیح بخاری ١٢١٦،صحیح مسلم ٥٣٨)

جواب: 

یہ حدیث دلیل ہے کہ نماز میں زبان سے سلام کا جواب لوٹانا منسوخ ہے، اس سے ہاتھ کے اشارے سے سلام کا جواب لوٹانے کی نفی نہیں ہوتی، بلکہ اس کا جواز دوسری صحیح احادیث سے ثابت ہے۔

اعتراض ٣: 

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ  سے روایت ہےکہ رسول اللّہ ﷺ نے فرمایا :

لا غرار فی الصلاۃ ولا تسلیم ‘‘

نماز اور سلام میں نقصان نہیں ہے۔ ’’

( سنن ابی دائود : ٩٢٨،مسند الامام احمد:٢/٤٦١،السنن الکبری للبیھقی ٢/٢٦١،المستدرک للحاکم : ١/٢٦٤)

امام حاکم نے اس حدیث کو امام مسلم رحمہ اللہ کی شرط پر ‘‘ صحیح ’’ کہا ہے،حافط ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے۔
جواب:
یہ حدیث سفیان ثوری رحمۃاللہ علیہ کی ‘‘ تدلیس’’ کی وجہ سے ‘‘ضعیف’’ ہے،سماع کی تصریح نہیں مل سکی۔ اگر اس کو ‘‘ صحیح ’’ مان بھی لیا جائے اور یہ معنی کر بھی لیا جائے کہ نماز میں نقصان اور سلام  نہیں ہے تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ سلام بالتلفظ نہیں ہے۔ اشارے کے ساتھ سلام کا جواب تو صحیح احادیث، آثار صحابہ و تابعین سے ثابت ہے۔

اعتراض: ٤: 

سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللّہ  صلی اللہ علیہ و سلّم نے فرمایا :

من اشارۃ فی الصلاتھ اشارۃ تفہم عنہ، فلیعد لھا۔

جو آدمی اپنی نماز میں ایسا اشارہ کرے،جو اس کی طرف سمجھ لیا جائے وہ اپنی نماز دہرائے۔ ”

(سنن ابی دائود ٩٤٤،سنن الدارقطنی: ٢/٨٣،شرح معانی الآثار للطحاوی : ١/٤٥٣  )

جواب: 

یہ حدیث ”ضعیف” ہے، اس میں محمد بن اسحاق ( حسن الحدیث ،ثقہ الجمہور) مشہور ”مد لس” ہیں،جو کہ بصیغہ عن روایت کر رہے ہیں، سماع کی تصریح نہیں ملی، پھر یہ ”صحیح” احا د یث کے خلاف بھی ہے۔

اعتراض٥:

طحاوی حنفی ایک دلیل لائے ہیں کہ:

عن ابی سفیان،قال؛ سمعت جابر ارضی رضی اللّہ عنہ یقول: ما أحبّ أن أسلّم علی الرّجل ، و ھو یصلّی ،و لو سلّم علّی لرد د تّ علیہ۔

” ابو سفیان کہتے ہیں کہ میں نے سید نا جابر بن عبد اللّہ الانصاری رضی اللّہ عنہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے ، میں نمازی پر سلام کہنا پسند نہیں کرتا، لیکن اگر اس نے مجھے سلام کہہ دیا تو میں اس کا جواب لوٹاوں گا۔”

( شرح معانی الآ ثا ر للطحا وی ١/٤٥٧،اسنادہ حسن)

جناب ظفر احمد تھانوی دیوبندی کہتے ہیں کہ یہ ابو سفیان طریف السعدی ہے،جو سخت متکلم فیہ ہے۔(اعلاء اسنن ٥/٣٤)

جواب:

ہم کہتے ہیں کہ تھانوی صاحب اس راوی کے تعین میں وہم ، تخلیط کا شکار ہو گئے ہیں،یہ ابو سفیان طریف السعدی نہیں ،بلکہ ابو سفیان طلحہ بن نافع الواسطی ہے۔ جس کی جمھور نے ”توثیق ” کر رکھی ہے۔اور یہ ”حسن ” درجہ کا راوی ہے۔ طحاوی حنفی کہتے ہیں لرد دّ ت ،یعنی میں سلام کا جواب لوٹائوں گا،اس کا مطلب یہ ہے کہ نماز کے بعد لوٹائوں گا،اس پر د لیل  یہ پیش کی ہے کہ:

سأل سلیمان بن موسی عطا ٔ: اسأ لت جابرا عن الرّجل یسلّم علیک ،و انت تصلّی فقال: لا ترد علیہ حتی تقضی صلاتک ؟ فقال: نعم!

” سلیمان بن موسی بن عطأ بن ابی رباح سے سوال کیا کہ آپ نے سید نا جابر رضی اللّہ عنہ سے ایسے انسان کے بارے میں پوچھا ہے ،جو حالت نماز میں آپ پر سلام کہے اور سید نا جابر رضی اللّہ عنہ نے یہ فرمایا  تھا کہ اس پر سلام مت کہو،یہاں تک کہ نماز پوری کر لو؟اس پر عطأ بن ابی ریاح رحمہ اللہ نے فرمایا،ہاں! ( میں نے سوال کیا تھا اور انہوں نے یہ جواب دیا تھا۔ )( شرح معانی الآثار للطحا وی ١/٤٥٧)۔

لیکن یہ روایت ” ضعیف”  ہے ،اس کے ایک راوی علی بن زید کے بارے میں امام ابن یونس مصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: تکلمو فیہ۔ محدثین نے اس بارے میں کلام (جرح) کی ہے۔” (لسان المیزان لابن حجر ٣/٣٣٠) اس  جرح کے برعکس اس بارے میں کوئی ”توثیق” ثابت نہیں ہے۔

 اعتراض ٦:

جناب ظفر احمد تھانوی دیوبندی ” لسان المیزان” کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ مسلمہ بن قاسم نے اس کو ” ثقہ ” کہا ہے۔( اعلاء السنن ٥/٣٣)

 جواب

ہم کہتے ہیں کہ مسلمہ بن قاسم خود ” ضعیف” ہے۔( سیر اعلام النبلاء للذھبی:١٦/١١٠،میزان الاعتدال للذھبی،٤/١١٢)  جوشخص تھانوی صاحب کی طرح خود ‘ ضعیف” ہو ،اس کا کسی دوسرے کو ”ثقہ” کہنا کیا معنی رکھتا ہے؟ تھانوی صاحب اس روایت کے ایک دوسرے راوی ہمام کے بارے میں لکھتے ہیں کہ یہ ہمام بن منبہ ہے۔ہم کہتے ہیں کہ اس پر کیا دلیل ہے کہ یہ ہمام بن منبہ ہے؟

الحاصل

جب امام طحاوی حنفی کی بیان کردہ دلیل ” ضعیف ” ہو گئی تو ان کا بیان کردہ مفہوم ، مطلب ضعیف ہو گیا۔ لرد دّ ت سے مراد ہے میں اس کو سلام کا جواب اشارے سے لوٹائوں گا ، جیسا کہ حد یث جابر صحیح مسلم میں اور دوسری صحیح احادیث اور آثار صحابہ سے پتہ چلتا ہے۔ صحیح مسلم میں آپ صلی اللہ علیہ و سلّم نے زمین کی طرف ہاتھ سے اشارہ کیا تھا۔

اعتراض ٧:

جناب تھانوی صاحب اس پر اعتراض کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

فلو کانت ھذہ الاشارۃ لردّ السلام لکانت الی فوق ،لا الی الارض۔

اگر یہ اشارہ سلام کا جواب لوٹانے کیلئے ہوتا تو اوپر کی طرف اشارہ ہوتا نہ کہ زمین کی طرف۔”

( اعلاء السنن ٥/٣٣)

جواب:

یہ کہاں لکھا ہے کہ سلام کیلئے اشارہ اوپر کی جانب ہوتا ہے،محد ثین کا فہم مقدم ہو گا۔ محد ثین  نےاس سے وہی مسئلہ سمجھا ہے،جوہم ذ کر کر چکے ہیں کہ یہ سلام کا جواب ہی تھا۔

اعتراض ٨:

عن جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ ،قال: بعثنی رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلّم فی حاجۃ لہ ، فانطلقت ،ثمّ رجعت ،وقد قضیتھا ، فا اتیت النّبی  صلّی اللہ علیہ وسلّم فسلّمت علیہ ،فلم یردّ علیّ ،فوقع فی قلبی ما اللہ اعلم بہ ، فقلت فی نفسی : لعلّ رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلّم وجد علیّ أنّی أ بطأت علیہ ، ثمّ سلّمت علیہ ،فلم یردّ علیّ، فوقع فی قلبی أشدّ من المرّہ الأولی، ثمّ سلّمت علیہ ،فردّ علیّ ،فقال : انّما منعنی أن أردّ علیک أنّی کنت اصلّی ،و کان علی راحلتھ متوجّھا الی غیر القبلۃ۔ 

” سید نا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلّم نے مجھے کسی کام کی غرض سے بھیجا۔ میں کام مکمل کر کے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلّم کی خد مت میں حاضر ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ و سلّم کو سلام کہا ،آپ صلی اللہ علیہ و سلّم نے سلام کا جواب نہیں د یا۔ میرے غم ،حزن کا حال اللہ ہی بہتر جانتا ہے،میں نے دل میں کہا کہ شاید رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلّم تاخیر کی وجہ سے مجھ پر ناراض ہو گئے۔ د وبارہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ و سلّم کو سلام کہا ، آپ صلی اللہ علیہ و سلّم نے جواب نہ لوٹایا، میرے د ل میں پہلے سے بھی زیادہ حزن ، ملال پیدا ہوا۔ پھر میں نے آپ صلی اللہ علیہ و سلّم کے سلام پھیرنے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و سلّم کو سلام عرض کیا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلّم نے جواب ارشا د کیا اور فرمایا ، بے شک مجھے آپ کے سلام کا جواب دینے سے صرف نماز نے منع کیا تھا۔

( صحیح بخاری: ١٢١٧،صحیح مسلم : ٥٤٠)

جناب تھانوی لکھتے ہیں

فآنّہ قد صریح فی أنّہ صلی اللہ علیہ و سلّم لم یردّ علی جابر،لا اشارہ ولا لفظاًً ولو کان ردّ علیہ اشارۃ لم یقع فی قلب جابر ما وقع،فتقییدہ بالکلام غیر سدید،و أیضاٍٍ  لو کان صلی اللہ علیہ و سلّم ردّ علیہ بالاشارہ لم یحتج الی ردّ علیہ بعد الفراغ ‘کما ھو مذھب من یجیر الردّ با لاشار- ۃ،و قد ثبت أنّھ ردّ علیہ بعد ما انصرف عن صلاتھ ،و ھو الماثور من مذھب الجابر۔۔۔”

اس میں گویا صراحت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلّم  نے سید نا جابر کو نہ اشارتاًً جواب دیا تھا اور نہ ہی لفظاًً۔اگر آپ صلی اللہ علیہ و سلّم نے اشارہ سے جواب د یا ہوتا تو سید نا جابر رضی اللہ عنہ کے د ل میں غم و حزن ہوتا۔اس کو اس بات پر مقید کرنا کہ یہ سلام کا جواب با لاشارہ تھا نہ کہ بالکلام،کوئی پختہ رائے نہیں ہے۔اس طرح اگر آپ صلی اللہ علیہ و سلّم نے سلام کا جواب با لاشارہ لوٹا یا ہوتا،تو نماز سے فراغت کے بعد با لکلام سلام کا جواب لوٹانے کی کیا ضرورت تھی ؟ جو اشارہ کے ساتھ سلام کا جواب لوٹانا جائز سمجھتا ہے،وہ تو ایسا نہیں کرتا،نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلّم سے ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلّم نے سلام پھیرنے کے بعد سلام کا جواب لوٹایا۔ سید نا جابر رضی اللہ عنہ کا بھی یہی مذہب ہے۔

( اعلاء السنن : ٥/٣٣)

جواب

تھانوی صاحب کی یہ کلام حقیقت پر مبنی نہیں ہے،کیونکہ صحیح مسلم شریف کی روایت میں ہے کی نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلّم نے سید نا جابر رضی اللہ عنہ کو ہاتھ کے اشارے سے سلام کا جواب لوٹا یا ہے۔ اس سے صحیح بخاری والی روایت کا مفہوم بھی واضح ہو جاتا ہے، کیونکہ احادیث ایک دوسرے کی تفسیر کرتی ہیں۔ رہا یہ مسٔلہ کہ سید نا جابر رضی اللہ عنہ کے دل میں غم کیوں پیدا ہوا تو حافظ ابنِ حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

فیحمل فی حدیث الباب (( فلم یرّد علیّ)) أی باللفظ،، و کان جابر الم یعرف اوّلا أنّ المراد بالاشارۃ الردّ فلذلک قال:فوقع فی قلبی ما اللہ اعلم بہ،أی من الحزن ۔

“سید نا جابر رضی اللہ عنہ کا یہ کہنا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلّم نے مجھ پر جواب نہیں لوٹایا ، اس کا مطلب یہ ہے کہ با لتسلط نہیں لوٹایا، گویا کہ پہلے پہل سید نا جابر رضی اللہ عنہ کو علم نہ تھا کہ اشا رے سے مراد جواب ہے،اسی لیئے تو انہوں نے کہا کہ میرے دل میں وہ حزن و ملال پیدا ہوا ،جسے اللہ ہی جانتا ہے

( فتح الباری لابن حجر : ٣/٨٧)

تھانوی صاحب کا یہ کہنا کہ جواب نہ لوٹانے کو کلام کے ساتھ مقید کرنا پختہ رائے نہیں ہے ،صحیح مسلم کی حدیث اس کا ردّ کرتی ہے،بلکہ دیگر احادیث اور آثار بھی اس کی ترد ید کرتے ہیں۔ باقی رہا نبی اکرم  صلی اللہ علیہ و سلّم نے بعدِ نماز سلام کا جواب لوٹانے کی کیا ضرورت محسوس کی ،روایت میں واضح ہے کہ سید نا جابر رضی اللہ عنہ نے آپ کو نماز میں اور سلام پھیرنے کے بعد د ونوں کیفیتوں میں سلام کہا، حالت نماز میں آپ صلی اللہ علیہ و سلّم نے سلام کا جواب اشارہ سے اور سلام پھیرنے کے بعد زبان سے بول کر فرمایا، اتنی سی بات تھانوی صاحب کو سمجھ نہ آسکی اور وہ حدیث کی تاویل کے درپے ہو گئے۔

ظفر احمد تھانوی صاحب نے یہ ذ کر کیا ہے کہ سید نا جابر رضی اللہ عنہ کا مذھب یہ تھا کہ اگر نمازی پر سلام کہا جائے تو وہ بعدِ نماز ہی جواب دے گا،اس کے ثبوت پر جو دلیل دی ہے،وہ”ضعیف” ہے،جیسا کہ پیچھے اس کا بیان ہو چکا ہے۔ بالفرض تھانوی صاحب کی با ت درست مان بھی لی جائے تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ نمازی پر سلام کہا جا سکتا ہے،اگر وہ جواب نہ دے تو حرج نہیں ،اگر دے تو جائز ہے،وہ بھی بالاشارہ جواب دے سکتا ہے۔ کلام کر کے جواب دینا ممنوع ہے۔ ہم بھی نماز میں اشارے سے سلام کے جواب کو ضروری قرار نہیں دیتے ،بلکہ صرف جواز کے قائل ہیں۔

اعتراض ٩:

عن جابر بن سمرہ، قال: خرج علینا رسولاللہ صلّی اللہ علیہ و سلّم فقال: ما لی أراکم رافعی ایدیکم، کانّھا أدنا ب خیلاشمس؟ اسکنو فی االصّلوۃ۔

سید نا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلّی اللہ علیہ و سلّم ہمارے پاس تشریف لائےاور فرمایا،کیا بات ہے میں تمہیں دیکھ رہا ہوں کہ تم سرکش گھوڑوں کی د موں کی کی طرح اپنا ہاتھ اٹھا رہے ہو،نماز میں سکون اختیار کرو۔

( صحیح مسلم ٤٣٠)

اس بات پر علمائے کرام کا اجماع و اتفاق ہے کہ اس حدیث کا تعلق تشہد اور سلام کے ساتھ ہے،۔جیسا کہ صحیح مسلم کی دوسری حدیث سے ثابت ہے کہ  وہ نماز میں سلام پھیرتے وقت دائیں باہیں ہاتھ سے اشارہ کرتے تھے تو نبی اکرم صلّی اللہ علیہ و سلّم نے ان کو منع فرما د یا۔ نماز میں سلام کا جواب اشارے کے ساتھ لوٹانا نبی اکرم صلّی اللہ علیہ و سلّم اور صحابہ کرام سے ثابت ہے۔

اگر اس حدیث سے نماز سے سلام جواب کے بارے میں عد مِ جواز ثابت ہوتا ہے تو تقلید پرست ان احادیث کا کیا جواب دیں گے، جن میں اشارے کا ذ کر ہے۔  اگر وہ کہیں کہ اس حدیث سے نماز میں سلام با لاشارہ کی منسوخیت ثابت ہوتی ہے تو ان کا یہ قول باطل و مرد ود ہے ،جیسا کہ گزشتہ دلائل سے ثابت ہے۔ اگر وہ کہیں کہ نماز میں اشارے سے سلام کا جواب دینا سکون کے منافی ہے تو وہ خود وتروں میں اور عیدین میں رفع الید ین  کیوں کرتے ہیں؟ جو جواب ان کا ہو گا ،وہی ہمارا جواب ہو گا۔

اس تحریر کو اب تک 46 بار پڑھا جا چکا ہے۔

Leave a Reply