کیا قہقہہ لگانے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے ؟

تحریر : غلام مصطفے ظہیر امن پوری

اگر کوئی نماز میں ہنس پڑے تو نماز ہی ٹوٹے گی، وضو نہیں ٹوٹے گا، کیونکہ :
دلیل نمبر
◈ حافظ ابن المنذر (م : 318ھ) لکھتے ہیں :
أجمع أهل العلم على أن الضحك فى غير الصلاة لا ينقض الطهارة ولا يوجب وضوءا أجمعوا على أن الضحك فى الصلاة ينقض الصلاة .
”اس بات پر اہل علم کا اجماع و اتفاق ہے کہ نماز کے علاوہ ہنسنا وضو کو نہیں توڑتا، نہ ہی وضو کو واجب کرتا ہے، اس بات پر بھی اجماع ہے کہ نماز میں ہنسنا نماز کو توڑ دیتا ہے۔ “ [الاوسط لابن المنذر : 226/1 ]

دلیل نمبر
◈ عطاء بن ابی رباح بیان کرتے ہیں :
عن جابر قال؛ كان لا يرى على الذى يضحك فى الصلاة وضوءا .
”(صحابی رسول) سیدنا جابر (بن عبداللہ الانصاری) رضی اللہ عنہ نماز میں ہنسنے والے پر وضو خیال نہیں کرتے تھے۔ “ [سنن الدارقطني : 173/1، ح : 650، و سنده حسن ]

دلیل نمبر
◈ ”ہشام کہتے ہیں کہ میرے بھائی نماز میں ہنس پڑے، ان کو عروہ نے نماز دہرانے کا کہا، وضو کرنے کا نہیں کہا۔ “ [ مصنف ابن ابي شيبه : 387/1، وسنده صحيح ]

دلیل نمبر
عن عطاء فى الرجل يضحك فى الصلاة، قال؛ ان تبسم فلا ينصرف، وان قهقه استقبل الصلاة، وليس عليه وضوء .
”امام عطاء بن ابی رباح نے ایسے شخص کے بارے میں فرمایا : جو نماز میں ہنس پڑے، اگر اس نے تبسم ظاہر کیا، تو نماز نہیں توڑے گا، لیکن اگر قہقہہ لگا کر ہنسا تو نماز دہرائے گا، البتہ اس پر وضو نہیں ہے۔ “ [ مصنف ابن ابي شيبه : 387/1، وسنده صحيح ]

دلیل نمبر
◈ عبدالرحمٰن بن قاسم کہتے ہیں :
ضحكت وأنا أصلي مع أبى، فأمرني أن أعيد الصلاة .
”میں اپنے والد صاحب کے ساتھ نماز پڑھ رہا تھا کہ ہنس پڑا، انہوں نے مجھے نماز دہرانے کا حکم دیا۔ “ [ مصنف ابن ابي شيبه : 387/1، وسنده صحيح ]

دلیل نمبر
◈ محمد بن سیرین تابعی کہتے ہیں :
كانوا يأمر وننا و نحن صبيان، اذا ضحكنا فى الصلاة أن نعيد الصلاة .
” بچپن میں جب ہم نماز میں ہنس پڑتے تو (علماء) ہمیں نماز دہرانے کا حکم دیتے تھے۔ “ [مصنف ابن ابي شيبه : 388/1 وسنده صحيح ]
● امام احمد بن حنبل [مسائل احمد لابن هاني : 7/1] ، امام شافعی [الام للشافعي : 31/1 ] ، امام اسحاق بن راہویہ [مسائل احمد و اسحاق : 20/1] کا بھی یہی فتویٰ ہے۔
● امام ابوبکر ابن ابی شیبہ فرماتے ہیں :
يعيد الصلاة و لا يعيد الوضوء .
” نماز میں ہنسنے والا نماز تو دہرائے گا، لیکن وضو نہیں دہرائے گا۔ “ [مصنف ابن ابي شيبه : 388/1 ]
↰ تقلید پرست جمہور امت اور سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کی مخالفت میں کہتے ہیں کہ اگر کوئی نماز میں ہنس پڑے تو اس کا وضو ٹوٹ جاتا ہے، وہ اس کو وضو لوٹانے کا حکم دیتے ہیں، حالانکہ ان کے پاس اس بارے میں کوئی صحیح دلیل نہیں ہے۔

ہم انتہائی اختصار کے ساتھ ان کے دلائل کا محدثین کرام کے اصولوں کے مطابق جائزہ پیش کرتے ہیں :
دلیل نمبر

سیدنا ابوموسیٰ اشعری نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو نماز پڑھا رہے تھے کہ ایک شخص آیا اور مسجد میں واقع ایک گڑھے میں گر گیا، اس کی بصارت میں نقص تھا، بہت سارے لوگ نماز میں ہنس پڑے، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”جو شخص ہنسا ہے، وہ وضو بھی دوبارہ کرے گا اور نماز دہرائے گا۔“ [ المعجم الكبير للطبراني : 246/1، نصب الراية : 47/1 ]

تبصرہ :
اس کی سند ”ضعیف“ ہے،
اس میں ہشام بن حسان ”مدلس “ ہیں، جو ”عن“ سے روایت کر رہے ہیں، ثقہ مدلس کی صحیح بخاری و مسلم کے علاوہ ”عن“ والی روایت ”ضعیف “ہوتی ہے۔
——————
دلیل نمبر

ابوالعالیہ الریاحی نے کہا کہ ایک اندھا کنویں میں گر گیا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کو نماز پڑھا رہے تھے، آپ کے ساتھ نماز پڑھنے والے کچھ لوگ ہنس پڑے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”جو ہنسا ہے، وہ وضو دوبارہ کرے اور نماز بھی دہرائے۔ “ [ مصنف عبدالرزاق : 376/2، ح : 3762-3760 ]

تبصرہ :
اس کی سند ”تدلیس “ اور ”انقطاع“ کی وجہ سے ”ضعیف“ ہے۔
◈ امام ابن المنذر فرماتے ہیں :
حديث أبى العالية مرسل، والمرسل لا تقوم به الحجة .
” ابوالعالیہ کی حدیث مرسل ہے اور مرسل حدیث سے حجت قائم نہیں ہو سکتی۔ “ [ الاوسط : 228/1 ]
یاد رہے کہ دین متصل، صحیح روایات کا نام ہے۔
——————
دلیل نمبر

حسن بصری نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نماز پڑھا رہے تھے کہ ایک نابینا آدمی قبلہ کی جانب سے نماز کے ارادہ سے آیا، لوگ فجر کی نماز میں مشغول تھے، یہ نابینا ایک گڑھے میں گر گیا، کچھ لوگ ہنس پڑے، حتیٰ کہ انہوں نے قہقہہ لگا دیا، جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا : ”جس نے قہقہہ لگایا ہے، وہ وضو اور نماز دونوں کو دہرائے۔ “ [كتاب الآثار برواية محمد : 33 ]

تبصرہ :
یہ موضوع (من گھڑت) حدیث ہے، کیونکہ :
➊ یہ مرسل ہے اور مرسل روایت ”ضعیف“ ہوتی ہے۔
➋ راوی کتاب محمد بن حسن الشیبانی”کذاب“ ہے۔
➌ اس میں محمد بن حسن الشیبانی کا استاذ بالاتفاق ”ضعیف و متروک“ ہے، کسی”ثقہ“ امام سے اس کا ”ثقہ“ ہونا باسند ”صحیح“ ثابت نہیں۔
——————
دلیل نمبر

معبد سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھانے میں مشغول تھے کہ ایک نابینا آدمی نماز کے ارادے سے آیا اور ایک گڑھے میں گر گیا، کچھ لوگ ہنس پڑے، حتیٰ کہ انہوں نے قہقہہ لگا دیا، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا : ”جس نے قہقہہ لگایا ہے، وہ وضو اور نماز دونوں کو دہرائے۔“ [ سنن الدارقطني : 166/1، ح : 612 ]

تبصرہ :
یہ روایت سخت ترین ”ضعیف“ ہے، کیونکہ :
➊ اس میں ”ارسال“ ہے، معبد الجہنی تابعی ہیں، خود امام دارقطنی نے اس کو ”مرسل“ کہا ہے، جناب زیلعی حنفی نے بھی اس کو ”مرسل“ قرار دیا ہے۔ [ نصب الراية : 51/1 ]
➋ اس میں امام حسن بصری کی تدلیس ہے۔
➌ اس کی سند کا دارومدار نعمان بن ثابت پر ہے، جو بالاجماع ”مجروح “ ہیں۔
——————
دلیل نمبر

سیدنا ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”جس نے نماز میں قہقہہ لگایا، وہ وضو اور نماز دہرائے۔“ [ الكامل لابن عدي : 167/3 ]

تبصرہ :
یہ روایت بھی ”ضعیف“ ہے، کیونکہ اس میں ”انقطاع“ ہے، امام عطاء بن ابی رباح کا سیدنا ابن عمر سے سماع ثابت نہیں ہے۔
◈ امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں :
قدرآي ابن عمر و لم يسمع منه .
” یقیناً انہوں نے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کو دیکھا ہے، لیکن ان سے سماع نہیں کیا۔ “ [ المراسيل لابن أبى حاتم : 154 ]
◈ یہی بات امام علی بن مدینی رحمه الله اور امام ابوعبداللہ نے بھی فرمائی ہے۔ [ تهذيب التهذيب : 182/7 ]
نیز اس میں بقیہ بن ولید راوی اگرچہ جمہور کے نزدیک ”ثقہ“ ہیں۔ [ديكهيں : الترغيب و الترهيب للمنذري : 568/4، الكاشف للذهبي : 106/1- 107]
لیکن ”تدلیسِ تسویہ“ کے مرتکب تھے، لہٰذا سند مسلسل بالسماع ہونی چاہیے۔
◈ حافظ ابن حجر ایک دوسری روایت کے بارے میں لکھتے ہیں :
بقية صدوق، لكنه يدلس و يسوي، قد عنعنه عن شيخه و شيخ شيخه .
”بقیہ صدوق راوی ہے، لیکن تدلیس تسویہ کرتا تھا، اس نے اپنے استاذ اور استاذ کے استاذ سے بصیغہ عن روایت کی ہے۔ “ [موافقه الخبر الخبر لابن حجر : 276/1 ]
◈ حافظ ابن ملقن لکھتے ہیں :
لكن بقية رمي بتدليس التسوية، فلا ينفعه تصريحه بالتحديث .
”بقیہ پر تدلیس تسویہ کا الزام ہے، لہٰذا صرف اپنے شیخ سے سماع کی تصریح چنداں مفید نہیں۔ “ [ البدر المنير : 509/4 ]
اس روایت کے ”ضعیف“ ہونے کی ایک اور وجہ بھی ہے، امام ابن عدی اسے ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں :
و محمد الخزاعي هذا هو من مجهولي مشايخ بقية، ويقال عن بقية فى هذه الحديث عن محمد بن راشد عن الحسن، ومحمد بن راشد أيضا عن الحسن مجهول .
”اس روایت میں موجود محمد الخزاعی، بقیہ کے مجہول اساتذہ میں سے ہے، اس سند میں محمد بن راشد عن الحسن بھی بیان کیا جاتا ہے اور حسن بصری سے بیان کرنے والا محمد بن راشد بھی مجہول ہے۔ “ [ الكامل : 166-167/3 ]
◈ حافظ ابن حجر [لسان الميزان : 163/5 ] اور حافظ ذہبی [ميزان الاعتدال : 544/3، المفني : 297/2] نے اسی کو اختیار کیا ہے۔

◈ جناب ابن ترکمانی حنفی لکھتے ہیں :
ابن راشد هذا و ثقه ابن حنبل و ابن معين… [الجوهر النقي : 146/1]

ہم کہتے ہیں کہ جناب ابن ترکمانی حنفی صاحب شدید وہم و اختلاط کا شکار ہو گئے ہیں، محمد الخزاعی ”مجہول“ کو محمد بن راشد المکحولی سمجھ بیٹھے ہیں، ایک ”ثقہ“ راوی کی ”توثیق“ ایک ”مجہول“ پر تھوپ دی ہے، ابن ترکمانی کی تقلید ناسدید میں جناب ظفر احمد تھانوی دیوبندی کا اسے محمد بن راشد المکحولی کہہ کر اس روایت کو ”حسن“ قرار دینا مبنی برجہالت ہے، کیونکہ محمد بن راشد المکحولی کے اساتذہ میں کسی محدث نے بھی حسن بصری کو ذکر نہیں کیا، نہ ہی حسن بصری کے شاگردوں میں ان کا نام موجود ہے، اس لیے حافظ ذہبی رحمه الله نے لکھا ہے :
محمد بن راشد عن الحسن نكرة . ” حسن بصری سے بیان کرنے والا محمد بن راشد مجہول ہے۔ “ [ المفني : 297/2، ميزان الاعتدال : 544/3 ]
↰ ثابت ہوا کہ اس روایت میں محمد الخزاعی سے مراد محمد بن راشد المکحولی نہیں، بلکہ اور کوئی ہے، جس کے حالات نہیں مل سکے۔ ہماری بات کی تصدیق کے لئے صرف محمد بن راشد المکحولی کا حسن بصری سے سماع نہ ملنا ہی کافی تھا، محدثین کی تصریح مزید سونے پر سہاگہ ہے۔
——————
دلیل نمبر

عمران بن حصین رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
اذا قهقه أعاد الوضوء و الصلاة .
”جب کوئی (نماز میں) قہقہہ لگائے، وہ وضو اور نماز کا اعادہ کرے۔ “ [ الكامل لابن عدي : 167/3 ]

تبصرہ :
یہ سند ”موضوع“ ( من گھڑت) ہے، کیونکہ :
➊ اس میں عمرو بن عبید راوی ”متروک و کذاب“ اور ”داعی الی البدعہ “ ہے،
◈ یونس بن عبید کہتے ہیں :
كان عمرو بن عبيد يكذب فى الحديث .
یعنی : ”عمرو بن عبید حدیث میں جھوٹ بولتا تھا۔ “ [ الجرح و التعديل : 246/6 ]
◈ ابوحاتم کہتے ہیں کہ ”متروک الحدیث“ ہے۔ [الجرح و التعديل : 247/6 ]
◈ حمید کہتے ہیں :
لا تاخذ عن هذا شيئا، فانه يكذب على الحسن .
”اس سے کچھ روایت نہ کرو، کیونکہ یہ حسن بصری پر جھوٹ باندھتا ہے۔ “ [الجرح و التعديل : 246/6 و سنده حسن ]
◈ عمرو بن علی کہتے ہیں :
كان متروك الحديث، صاحب بدعة . [ الجرح و التعديل : 247/6 و سنده حسن ]
◈ نعیم بن حماد کہتے ہیں کہ میں نے امام عبداللہ بن مبارک سے پوچھا کہ محدثین کرام نے عمرو بن عبید کو کس بنا پر ”متروک“ قرار دیا ہے ؟ فرمایا، یہ بدعت کا داعی ہے۔ [الجرح و التعديل : 248/6 و سنده حسن ]
➋ اس کا دوسرا راوی عمر بن قیس المکی بھی ”متروک“ ہے۔
➌ اس میں حسن بصری کی ”تدلیس“ بھی ہے۔
——————
دلیل نمبر

عامر شعبی کہتے ہیں : ”یہ قہقہہ فتنہ ہے، ایسا انسان وضو اور نماز کااعادہ کرے گا۔ “ [ مصنف ابن ابي شيبه : 388/1 ]

تبصرہ :
اس کی سند ضعیف ہے، اس میں اشعث بن سوار نامی راوی ”ضعیف“ ہے۔ [تقريب التهذيب : 527 ]
امام مسلم نے اس سے متابعت میں روایت لی ہے، اس میں ابوخالد الاحمر ”مدلس“ بھی موجود ہے۔
——————
دلیل نمبر

ابراہیم نخعی کہتے ہیں کہ جب آدمی نماز میں ہنس پڑے تو وہ وضو اور نماز دونوں کا اعادہ کرے۔ [ مصنف ابن ابي شيبه : 288/1 ]

تبصرہ :
اس میں مغیرہ نامی راوی کا تعین مطلوب ہے، دوسری بات یہ ہے کہ یہ ابراہیم نخعی کا قول ہے، نہ قرآن ہے، نہ حدیث ہے، نہ اجماع امت ہے، آل تقلید امام ابراہیم نخعی کے مقلد یا امامابوحنیفہ کے۔
↰ لہٰذا یہ کہنا کہ نماز میں ہنسنے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے، باطل، بلکہ ابطل الا باطیل ہے، ایک باوضو انسان کا وضو اس وقت ٹوٹے گا، جب سنت یا اجماع سے دلیل قائم ہو جائے گی۔
↰ ہنسنا یا قہقہہ لگانا ان چیزوں میں سے نہیں، جن سے وضو ٹوٹ جاتا ہے مثلاً چھوٹی یا بڑی قضائے حاجت، نیند، ریح وغیرہ، ان چیزوں کے نماز کے اندر واقع ہونے سے بھی وضو ٹوٹ جاتا ہے اور نماز کے باہر بھی، لیکن جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ نماز کے اندر ہنسنے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے، ان کے نزدیک نماز کے علاوہ ہنسنے سے وضو نہیں ٹوٹتا، یہ عجیب منطق ہے !
آل تقلید یہ کہتے ہیں کہ اگر حالت نماز میں ہوا خارج ہو گئی تو وضو ٹوٹ جائے گا، نمازی دوبارہ وضو کرے، جو نماز پڑھ چکا ہو، اس پر بنیاد کرتے ہوئے باقی ادا کر لے، اگر درمیان میں کلام نہیں کی تو نماز فاسد نہیں ہو گی، اگر کلام کر لی تو نماز فاسد ہو جائے گی، ازسر نو نماز ادا کرنا ضروری ہو گی، وہی کہتے ہیں کہ اگر دوران نماز ہنسی آ جائے تو وضو اور نماز دونوں کا اعادہ ضروری ہو گا، معلوم ہوا کہ ان کے نزدیک نماز میں ہنسنا ہوا خارج کرنے سے بھی بڑاکام ہے۔
◈ جناب عبدالشکور لکھنوی فاروقی دیوبندی لکھتے ہیں :
” نابالغ کے قہقہے سے وضو نہیں ٹوٹتا، اگرچہ نماز میں ہی ہو۔ “ [علم الفقه از لكهنوي : 96 ]
◈ نیز لکھتے ہیں :
” جنازہ کی نماز اور تلاوت کے سجدہ میں قہقہہ لگانے سے وضو نہیں جاتا، بالغ ہو یا نابالغ۔ “ [علم الفقه : 96 ]
جبکہ یہ فرق شریعت مطہرہ سے ثابت نہیں، محض ان کی منہ کی باتیں ہیں۔ دیکھیں کہ یہ لوگ کس طرح اسلام کے نظام نظامت و طہارت کا سنگین مذاق اڑاتے ہیں !
یاد رہے کہ وضو ایمان میں داخل ہے، یہ بات بھی واضح ہو کہ لکھنوی صاحب نے اپنی اس کتاب کے بارے میں لکھا ہے کہ ”ہر مسئلہ میں وہی قول لکھا جائے گا، جس پر فتویٰ ہے۔ “ [ علم الفقه : 15 ]
↰ تعجب خیز بات تو یہ ہے کہ یہی لوگ کہتے ہیں کہ اگر نماز کے آخر میں سلام پھیرنے سے پہلے اتنی دیر بیٹھا، جتنی دیر میں تشہد پڑھا جاسکتا ہے، پھر جان بوجھ کر ہوا خارج کر دے یا قہقہہ لگا دے یا ہنس دے یا نماز کے منافی کوئی کام کر دے تو نماز مکمل ہو گئی۔ فيا للعجب !
اس سے بڑھ کر حیرانی اس بات پر ہے کہ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ نماز میں ہنسنے سے وضو اور نماز دونوں ٹوٹ جاتے ہیں، ان کے نزدیک اگر نماز میں کسی پر تہمت لگائی یا فحش کلام کر دی تو وضو نہیں ٹوٹے گا، مطلب صاف ظاہر ہے کہ ان کے نزدیک نماز میں ہنسنا کسی پر تہمت لگانے سے بھی بڑا جرم ہے۔

اس پر ایک مناظرہ کی روئیداد ملاحظہ فرمائیں :
البويطي يقول؛ سمعت الشافعي يقول؛ قال لي الربيع؛ أنا أشتهي أن أسمع مناظر تك و اللؤلوي، قال؛ فقلت له؛ ليس هناك، قال؛ فقال؛ أنا أشتهي ذلك، قال؛ فقلت؛ متي شئت، قال؛ فأرسل الي فحضرني رجل ممن كان يقول بقولهم، ثم رجع الي قولي، فاستتبته و أرسل الي اللؤلوي، فجاء، فأتينا بطعام، فأكلنا ولم يأكل اللؤلوي، فلما غسلنا أيديناقال له الرجل الذى كان معي؛ ما تقول فى الرجل قذف محصنة فى الصلاة ؟ قال؛ بطلت صلاته، قال؛ فما حال الطهارة ؟ قال؛ بحالها، قال؛ فقال له ؛ فما تقول فى من ضحك فى الصلاة ؟ قال؛ بطلت صلاته و طهارته، قال؛ فقلت؛ قذف المحصنات فى الصلاة أيسر من الضحاك فى الصلاة ؟ قال؛ فأخذ اللؤلوي نعله وقام، قال ؛ فقلت للفضل؛ قد قلت لك؛ ان ليس هناك .
”بویطی کہتے ہیں کہ میں نے امام ( محمد بن ادریس) الشافعی کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ مجھے فضل بن ربیع (یہ امیر المؤمنین ہارون الرشید کے دربان تھے ) نے کہا:، میں آپ کے اور (حسن بن زیاد) اللولوی (کذاب حنفی فقیہ) کے مابین مناظرہ سننا چاہتا ہوں، میں نے کہا:، وہ اس قابل نہیں، اس نے کہا کہ میں کرانا چاہتا ہوں، امام شافعی رحمه الله فرماتے ہیں کہ میں نے کہا:، آپ کب مناظرہ کرانا چاہتے ہیں ؟ پھر اس (فضل بن ربیع) نے (مناظرے کے لئے ) مجھے بلوا لیا، اسی اثنا میں ایک آدمی میرے پاس آیا جو پہلے اللولوی کا معتقد تھا، بعد میں اس نے میرا مسلک اختیار کر لیا تھا، میں نے اسے بھی اپنے ساتھ لے لیا، اس (فضل بن ربیع) نے اللولوی کو بھی بلایا، وہ آ گیا، ہمارا کھانا لایا گیا، ہم سب نے کھانا کھایا، لیکن اللولوی نے نہیں کھایا، جب ہم ہاتھ دھو رہے تھے تو میرے ایک ساتھی نے اللولوی سے پوچھاکہ آپ ایسے انسان کے بارے میں کیا کہتے ہیں، جو نماز میں کسی پاک دامن عورت پر زنا کی تہمت لگائے ؟ اس نے کہا: اس کی نماز باطل ہے، اس نے پھر پوچھا کہ اس کے وضو کا کیا بنے گا ؟ اللولوی نے کہا کہ وہ برقرار رہے گا، اس نے اللولوی سے پوچھا کہ اس شخص کے بارے میں کیا کہتے ہیں جو نماز میں ہنس پڑے ؟ اس نے جواب دیا کہ اس کا وضو اور نماز دونوں باطل ہیں، اس نے کہا کہ میں نے اللولوی سے پوچھا کہ کیا آپ کے نزدیک نماز میں پاک دامن عورت پر زنا و بدکاری کی تہمت لگانا، نماز میں ہنسنے کے مقابلے میں چھوٹا جرم ہے (کہ وہاں صرف نماز ٹوٹی اور یہاں وضو اور نماز دونوں) ؟ اس پر اللولوی نے جوتے پکڑے اور بھاگ گیا، امام شافعی رحمه الله فرماتے ہیں کہ میں نے فضل بن ربیع کو کہا کہ میں نے تو آپ کو پہلے بتایا تھا کہ یہ مناظرہ کرنے کی سکت نہیں رکھتا۔ “ [الكامل لابن عدي : 319/2 و سنده حسن ]
اس مناظرہ کے راوی ابوجعفر محمد بن زاہر النسائی کے بارے میں :
◈ امام ابوحاتم الرازی فرماتے ہیں :
لم يكن به بأس . [الجرح و التعديل : 260/7 ]
قارئین کرام ! اب آپ خود فیصلہ کریں کہ دین و ایمان کے خلاف ایسے مضحکہ خیز اور سنسنی خیز مسائل بیان کرنے والے دین کے خیر خواہ ہو سکتے ہیں ؟ شریعت کی اس مخالفت کو آپ کیا نام دیں گے ؟

 

یہ تحریر اب تک 66 لوگ پڑھ چکے ہیں، جبکہ صرف آج 1 لوگوں نے یہ تحریر پڑھی۔

Leave a Reply