کیا ترک رفع یدین قرآن و حدیث سے ثابت ہے؟

تحریر: حافظ زبیر علی زئی

سوال : کیا ترک رفع یدین قرآن و حدیث سے ثابت ہے یا نہیں ؟

مقلدین کے ایک فتوی کے مطابق : ترک رفع یدین قرآن وحدیث سے ثابت ہے۔ رفع یدین پر ناراضگی اور ترک کا حکم۔ [1]

صریح دلائل کی روشنی میں جواب پیش فرمائیں۔
جواب : بسم الله الرحمٰن الرحيم، جواب الجواب، امابعد :
رفع یدین کی بہت سی قسمیں ہیں، مثلاً
➊ تکبیر تحریمہ والا رفع یدین۔
➋ رکوع سے پہلے اور بعد والا رفع یدین۔
➌ سجدوں والا رفع یدین۔
➍ تشہد والا رفع یدین، جیسا کہ شیعہ حضرات کرتے ہیں۔
➎ دعا میں رفع یدین۔
➏ سر اور داڑھی کھجانے کے لئے رفع یدین [ !] وغیرہ وغیرہ

↰ ”غیر اہل حدیث“ صاحب نے اپنے دعوی ”ترک رفع یدین قرآن و حدیث سے ثابت ہے“ میں یہ وضاحت نہیں کی کہ ”ترک رفع یدین“ سے ان کی کیا مراد ہے ؟ ظاہر ہے کہ علمی میدان میں مبہم اور غیر واضح دعوی کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی، ان غیر اہل حدیث صاحب کے مقابلے میں اہل حدیث کا دعوی صاف اور واضح ہے کہ :
❀ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رکوع سے پہلے اور رکوع کے بعد رفع یدین کرتے تھے۔ اس دعویٰ کی دلیل کے لئے دیکھئے [صحيح بخاري 738] و [صحيح مسلم 390/22]

❀ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (کی وفات) کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم یہ رفع یدین کرتے تھے مثلا عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ دیکھئے [صحيح البخاري 739]

❀ تابعین عظام رحمہم اللہ بھی یہی رفع یدین کرتے تھے، مثلاً
◈ محمد بن سیرین [مصنف ابن ابي شيبه : 235/1 و سنده صحيح]
◈ ابوقلابہ [ايضا و سنده صحيح]
◈ وہب بن منبہ [مصنف عبدالرزاق : 69/2 و سنده صحيح]
◈ سالم بن عبداللہ بن عمر [جزء رفع يدين للبخاري : 62 وسنده حسن]
◈ قاسم بن محمد [ايضا : 62]
◈مکحول [ايضا : 62] وغیرھم رحمها اللہ اجمعین

↰ جو عمل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم، صحابہ رضی اللہ عنہ، تابعین رحمہ اللہ نے خیر القرون میں بلا انکار و نکیر کیا ہے جس کا ترک یا نسخ کسی دلیل سے ثابت نہیں ہے لہذا اسے متروک و منسوخ قرار دینا اور ”ناراضگی“ کا دعویٰ کرنا علمی عدالت انصاف میں چنداں وزن نہیں رکھتا۔

↰ رکوع کرنے سے پہلے اور بعد والے رفع یدین کے غیر متروک و غیر منسوخ ہونے کے بہت سے دلائل ہیں دیکھئے :
● کتاب ”نور العینین فی اثباترفع یدین“ اور
● امیر المؤمنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ کا ثابت شدہ رسالہ ”جزء رفع یدین۔“

فی الحال دو اہم دلیلیں پیش خدمت ہیں، جن میں رفع یدین کا دوام ثابت ہوتا ہے۔
اول : عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نماز میں جو شخص (مسنون) اشارہ کرتا ہے تو ہر اشارے کے بدلے ہر انگلی پر ایک نیکی یا درجہ ملتا ہے۔ [المعجم الكبير للطبراني ج 17 ص 297 ح 819 وسنده حسن]
↰ اسے حافظ الہیثمی نے ”اسنادہ حسن“ قرار دیا ہے۔ [مجمع الزوائد : 103/2]
↰ یہ روایت مرفوع حکماً ہے، بلکہ مرفوعاً بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے۔ [السلسلة الصحيحة للشيخ الالباني رحمه الله 848/3 ح 3286 بحواله الفوائد لابي عثمان البحيري والديلمي 344/4]
↰ اس سے معلوم ہوا کہ رفع یدین ثواب کا کام ہے اور ہر (مسنون) رفع یدین پر دس نیکیاں ملتی ہیں اور یہ بات عام لوگوں کو بھی معلوم ہے کہ ثواب اور نیکیوں والی روایتیں منسوخ نہیں ہوئی ہیں۔ اللہ چاہتا ہے کہ اس کے بندے خوب نیکیاں کمائیں۔

دوم : ابن عمر رضی اللہ عنہ جب کسی (غیر صحابی) شخص کودیکھتے کہ رکوع سے پہلے اور بعد رفع یدین نہیں کرتا تو اسے کنکریوں سے مارتے تھے۔ [جزء رفع يدين : 15، وسنده صحيح]
↰ ظاہر ہے کہ وفات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد زمانہ تابعین کے بعض لوگوں کو مار مار کر رفع یدین کرانا اس بات کی دلیل ہے کہ رفع یدین متروک و منسوخ بالکل نہیں ہوا۔

مقلدین کی دلیل :

حدیث نمبر 1 : عن جابر بن سمرة : قال خرج علينا رسول الله صلى الله تعالىٰ عليه وآلهٖ وسلم فقال مالي اراكم رافعي ايديكم كانها اذناب خيل شمس اسكنوا فى الصلوة۔ [صحيح ج 1 ص 181، ابوداود : ج 1 ص 150، نسائي ج 1 ص 176، طحاوي شريف ج 1 ص 158، مسند احمد ج 5 ص 93 و سنده صحيح]
”سیدنا جابر رضی اللہ عنہ بن سمرہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا میں تم کو نماز میں شریر گھوڑوں کی دم کی طرح رفع یدین کرتے کیوں دیکھتا ہوں نماز میں ساکن اور مطمئن رہو۔“ [2]

↰ جابر رضی اللہ عنہ بن سمرہ والی روایت میں رکوع سے پہلے اور بعد والے رفع یدین کی صراحت نہیں ہے بلکہ بہت سے دلائل سے صاف ثابت ہے کہ یہ روایت رکوع سے پہلے اور بعد والے رفع یدین سے کوئی تعلق نہیں رکھتی، بعض دلائل درج ذیل ہیں :
① حدیث میں خود صراحت ہے کہ یہ رفع یدین تشہد میں سلام کے وقت والا تھا جیسا کہ اب بھی شیعہ حضرات کرتے ہیں۔ دیکھئے [صحيح مسلم ح 431/121، 120]
یعنی یہ حدیث شیعوں کے رد میں ہے، جسے عام دیوبندی و بریلوی اور بعض معتصب حنفی حضرات، اہل حدیث کے خلاف پیش کرنے لگے ہیں۔ شیعوں پر رد والی حدیث کو اہل حدیث کے خلاف فٹ کرنا انتہائی مذموم حرکت ہے۔
② مسند احمد میں اسی روایت میں آیا ہے کہ وهم قعود ”اور وہ بیٹھے ہوئے تھے۔“ [93/5 مختصر]
③ اس پر اجماع ہے کہ یہ روایت تشہد کے بارے میں ہے۔ [جزء رفع يدين : 37، التلخيص الحبير 221/1 ح 328]
↰ اور یہ بات عندالفریقین مسلم ہے کہ اجماع حجت ہے۔
④ محدثین کرام مثلاً امام نسائی، امام ابوداؤد وغیرھما نے اس پر سلام کے باب باندھے ہیں۔
⑤ کسی محدث نے یہ روایت ترک رفع یدین کے باب میں ذکر نہیں کی۔

مقلدین اپنے فتوی میں کہتے ہیں :

نماز تکبیر شروع ہوتی ہے اور سلام پر ختم ہوتی ہے۔ [3] اسکے اندر کسی جگہ رفع یدین کرنا خواہ وہ دوسری، تیسری، چوتھی رکعت کے شروع میں یا رکوع میں جاتے یا سر اٹھاتے وقت ہو اس رفع یدین پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ناراضگی کا اظہار فرمایا ہے اس کو جانوروں کے فعل سے تشبیہ بھی دی اس رفع یدین کو خلاف سکون بھی فرمایا اور پھر حکم دیا کہ نماز سکون سے یعنی بغیر رفع یدین کے پڑھا کرو، قرآن پاک میں نماز میں سکون کی تاکید ہے، اللہ پاک فرماتے ہیں : ”قومواللہ قانتین ”خدا کے سامنے نہایت سکون سے کھڑے ہو [4]

⑥ جو کام ہمارے پیارے نبی سیدنا محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے اسے شریر گھوڑوں کی دموں سے تشبیہ دینا انتہائی غلط اور قابل مذمت ہے۔
⑦ علماء حق نے اس حدیث کو ترک یا نسخ کے استدلال کرنے والوں پر شدید تنقید کرتے ہوئے ان کے عمل کو جہالت کی سب سے بری قسم قرار دیا ہے۔ دیکھئے [المجموع شرح المهذب 403/4]
⑧ متعدد غیر اہلحدیث علماء کرام نے اس روایت کے ساتھ نسخ رفع الیدین پر استدلال کرنے والوں پر تنقید کی ہے، مثلاً :
◈ محمود الحسن رحمہ اللہ دیوبندی فرماتے ہیں :
باقي اذناب الخيل کی روایت سے جواب دینا بروئے انصاف درست نہیں کیونکہ وہ سلام کے بارے میں ہے۔“ [الوردالشذي على جامع الترمذي ص 63، تقارير سيدنا شيخ الهند ص 65]
◈ مفتی محمد تقی عثمانی دیوبندی صاحب فرماتے ہیں کہ :
”لیکن انصاف کی بات یہ ہے کہ اس حدیث سے حنفیہ کا استدلال مشتبہ اور کمزور ہے۔“ [درس ترمذي : 36/2]
⑨ اگر اس حدیث سے مطلقا ہر رفع یدین کا نسخ یا منع ثابت کیا جاتا تو پھر حنفی، دیوبندی و بریلوی حضرات : تکبیر تحریمہ، وتر اور عیدین میں کیوں رفع یدین کرتے ہیں ؟
⑩ اس حدیث کے راویوں مثلا امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ وغیرہ میں سے ایک محدث سے بھی اس حدیث کی بنیاد پر رفع یدین کا منسوخ یا متروک قرار دیا جانا ثابت نہیں ہے۔

❀ ایک روایت میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
مابال الذين يرمون بأيديهم فى الصلوة كأنها أذناب الخيل الشمس الخ [مسند احمد 102/5 ح 21281 وسنده صحيح]
”انہیں کیا ہوگیا ہے کہ نماز میں ہاتھوں سے اشارہ کرتے ہیں گویا شریر گھوڑوں کی دمیں ہیں۔۔۔“ الخ
↰ اس سے معلوم ہوا کہ سلام کے بعد ہی نماز ختم ہوتی ہے۔

❀ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ :
مفتاح الصلوة الطهور و احرامها التكبير و انقضاء ها التسليم
”وضو نماز کی کنجی ہے اور تکبیر اس کا احرام ہے، نماز سلام سے ختم ہوتی ہے۔“ [السنن الكبري للبيهقي 6/2 وسنده صحيح]
↰ معلوم ہواکہ سلام نماز میں داخل ہے۔

مقلدین اپنے فتوی میں کہتے ہیں:

دیکھو خدا اور رسول نے نماز میں سکون کا حکم فرمایا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کے اندر رفع یدین کو سکون کے خلاف فرمایا۔

قانتين کا یہ مطلب کسی نے بھی بیان نہیں کیا کہ ”نماز میں مسنون رفع یدین نہیں کرنا چاہئے“، اس سلسلے میں ابن عباس رضی اللہ عنہما سے منسوب روایت باطل ہے، اگر قانتين کا یہی مطلب ہوتا تو پھر حنفیہ و دیوبندیہ و بریلویہ، تینوں گروہ عیدین، وتر اور تکبیر تحریمہ میں کیوں رفع یدین کرتے ہیں ؟

تنبیہ بلیغ : دیوبندی و بریلوی حضرات کا یہ دعوی ہے کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے مقلد ہیں لہذا ان لوگوں پر یہ لازم ہے کہ خود مجتہد نہ بنیں بلکہ باسند صحیح اپنے مزعوم امام سے ثابت کریں کہ انہوں نے قوموالله قانتين ”اور حدیث جابر رضی اللہ عنہ سے ترک رفع یدین یا منسوخیت رفع یدین پر استدلال کیا ہے، اگر یہ لوگ اپنے دعوی تقلید کے باوجود اپنے امام سے استدلال ثابت نہ کر سکیں تو یہ اس کی واضح دلیل ہے کہ یہ لوگ خود مجتہد بننے کی کوشش کرتے ہیں۔ صحیح حدیث میں آیا ہے کہ لوگ نماز میں باتیں کرتے تھے۔ وقوموالله قانتين ”آیت نازل ہوئی اور لوگوں کو سکوت خاموشی کا حکم دیا گیا۔ [صحيح البخاري : 4534 و صحيح مسلم : 539]

↰ یعنی اس آیت کریمہ کا تعلق رفع یدین سے نہیں ہے بلکہ ”سکوت فی الصلوۃ“ سے ہے، یاد رہے کہ دل میں، زبان میں ہلا کر پڑھنا سکوت کے منافی نہیں ہے جیسا کہ حدیث مبارکہ میں آیا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سکوت کے دوران اللهم باعدبيني الخ پڑھتے تھے [ديكهئے صحيح البخاري : 744 و صحيح مسلم : 598]

↰ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ وقومواللہ قانتین پڑھتے تھے [تفسير ابن جرير 354/2 وسنده صحيح] اور خود رکوع سے پہلے اور رکوع کے بعد رفع یدین کرتے تھے۔ [مصنف عبدالرزاق 69/2 ح 2523 و مصنف ابن ابي شيبه 235/1 ح 2431 و سنده صحيح، وجزء رفع اليدين للبخاري : 21 ومسائل احمد، رواية عبدالله : 244/1]

مقلدین اپنے فتوی میں کہتے ہیں:

حدیث نمبر 2 : قال ابن عباس الذين لا يرفعون ايديهم فى صلوتهم
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں یعنی جو نمازوں میں رفع یدین نہیں کرتے۔ [مسند امام اعظم ص 227] [5]

[5] یہ روایت ”مسند امام اعظم“ میں مجھے نہیں ملی۔
مسند امام اعظم نامی کتاب کی سند کا دارومدار عبداللہ بن محمد بن یعقوب الحارثی پر ہے دیکھئے مقدمہ مسند امام اعظم اردو [ص26] و مسند امام اعظم عربی [ص27]
یہ حارثی مذکور کذاب اور وضع حدیث میں پورا استاد تھا دیکھئے میزان الاعتدال [296/2] ولسان المیزان [349، 348/3] اور الکشف الحثیث عمن رمی بوضع الحدیث [ص 248 ت 411]
لہٰذا ”مسند امام اعظم“ کے نام سے سار ی کتاب موضوع اور من گھڑت ہے، امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اس کتاب سے بری ہیں۔ والحمدللہ

مقلدین اپنے فتوی میں کہتے ہیں:

حدیث نمبر 3: حدثنا عبدالله۔۔۔۔۔۔عن علقمة قال قال الا اصلي لكم صلوة رسول الله صلى الله عليه وسلم قال فصلي فلم يرفع يديه الامرة۔ [مسند احمد ج 1 ص 442،388] حضرت علقمہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا : کیا میں تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز پڑھ کر نہ دِکھاؤں چنانچہ آپ رضی اللہ عنہ نے نماز پڑھی اور صرف ایک مرتبہ رفع یدین کیا۔ [6]

[6] یہ روایت دووجہ سے ضعیف ہے۔
اول : سفیان ثوری مدلس ہیں۔
حنفیوں کے امام عینی رحمہ اللہ نے سفیان ثوری کے بارے میں لکھا ہے کہ :
وسفيان من المدلسين و المدلس لا يحتج بعنعنته إلا أن يثبت سماعه من طريق آخر [عمدة القاري ج3 ص 112 باب الوضوء من غير حدث]
یعنی سفیان (ثوری) مدلسین میں سے ہیں اور مدلس کا ”عن“ والی روایت حجت نہیں ہوتی الایہ کہ دوسری سند سے اس مدلس کی تصریح سماعت ثابت ہو جائے۔ سفیان ثوری ضعیف راویوں سے تدلیس کرتے تھے۔ [ديكهئے ميزان الاعتدال : 169/2 ت 3322]

◈ ابوبکر الصیر فی کتاب الدلائل میں لکھتے ہیں کہ :
كل من ظهر تدليسه عن غير الثقات لم يقبل خبره حتي يقول حدثني أو سمعت
”ہر وہ شخص جس کی غیر ثقہ سے تدلیس ظاہر ہوتو اس کی صرف وہی خبر قبول کی جائے گی جس میں وہ حدثني یا سمعت کے الفاظ کہے۔ [شرح الفية العراقي / التبصرة و التذكرة ج 1 ص 184، 185 والتأ سيس فى مسئله التدليس ص : 37مطبوعه محدث : جنوري 1996؁ء]
↰ اس سے بھی معلوم ہوا کہ سفیا ن ثوری رحمہ اللہ طبقہ ثالثہ کے مدلس ہیں۔

◈ امام حاکم رحمہ اللہ کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ حافظ ابن حبان نے لکھا ہے :
وأما المدلسون الذين هم ثقات و عدول فإنا لا نحتج بأخبارهم إلا ما بينوا السماع فيما رووامثل الثوري والأعمش وأبي إسحاق و أضرابهم
”اور وہ مدلس جو ثقہ و عادل ہیں جیسے (سفیان) ثوری، اعمش، ابواسحاق وغیرہم، تو ہم ان کی صرف انہی احادیث سے حجت پکڑتے ہیں جن میں سماع کی تصریح کرتے ہیں۔“ [الاحسان : 92/1، و نسخة محققه : 161/1]
تفصیلی بحث کے لئے نور العینین اور التأسیس پڑھ لیں۔

دوم : امام احمد، ابوحاتم الرازی، دارقطنی اور ابوداؤد وغیرہم جمہور محدثین نے اس روایت کو ضعیف قرار دیا ہے، دیکھئے میری کتاب ”نور العینین فی مسئلہ رفع الیدین“ [ طبع قدیم ص 99، 97 وطبع دوم ص 119۔ 124 و طبع سوم ص 115۔ 119] رکوع سے پہلے اور بعد والے رفع یدین کی صحیح روایات کے لئے صحیح بخاری و صحیح مسلم، صحیح ابن خزیمہ و صحیح ابن حبان اور نظم المتناثر من الحدیث المتواتر [ص 97، 96] وغیرہ کتابوں کا مطالعہ کریں۔
اللہ سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

◈ امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ :
كل ما قلت۔۔۔۔ وكان عن النبى صلى الله عليه وسلم خلاف قولي مما يصح فحدث النبى صلى الله عليه وسلم أولي، ولا تقلدوني
”میری ہر بات جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح حدیث کے خلاف ہو (چھوڑ دو) پس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سب سے زیادہ بہتر ہے اور میری تقلید نہ کرو۔“ [آداب الشافعي و مناقبه لابن ابي حاتم ص 51 وسنده صحيح]

یہ تحریر اب تک 90 لوگ پڑھ چکے ہیں، جبکہ صرف آج 1 لوگوں نے یہ تحریر پڑھی۔

Leave a Reply