کیا بے وضو قرآن کریم کو ہاتھ لگایا جا سکتا ہے؟

تحریر: غلام مصطفٰے ظہیر امن پوری

سوال : کیا بے وضو قرآن کریم کو ہاتھ لگایا جا سکتا ہے ؟
جواب : قرآن مجید کو بے وضو ہاتھ میں پکڑ کر تلاوت کرنا درست نہیں۔ سلف صالحین نے قرآن و سنت کی نصوص سے یہی سمجھا ہے۔ قرآن و سنت کا وہی فہم معتبر ہے جو اسلاف امت نے لیا ہے۔ مسلک اہل حدیث اسی کا نام ہے۔ آئیے تفصیل ملاحظہ فرمائیے :

❶ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
لَا يَمَسُّهُ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ
’’ اس (قرآن کریم) کو پاک لوگ ہی چھوتے ہیں۔“ [56-الواقعة:79]
اس آیت کریمہ میں پاک لوگوں سے مراد اگرچہ فرشتے ہیں لیکن اشارۃ النص سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ انسان بھی پاک ہو کر ہی اسے تھامیں، جیسا کہ :
◈ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (661-728 ھ) فرماتے ہیں :
ھذا من باب التنبیہ والاشارۃ، اذا کانت الصحف التی فی السماء لا یمسھا الا المطھرون، فکذلک الصحف التی بایدینا من القرآن لا ینبعی ان یمسھا الا طاھر .
’’ یہ ایک قسم کی تنبیہ اور اشارہ ہے کہ جب آسمان میں موجود صحیفوں کو صرف پاک فرشتے ہی چھوتے ہ یں تو ہمارے پاس جو قرآن ہے، اسے بھی صرف پاک لوگ ہی ہاتھ لگائیں۔“ [التبیان فی اقسام القرآن لابن القیم، ص:338]

◈ علامہ طیبی اس آیت کے متعلق لکھتے ہیں :
فإن الضمير إما للقرآن، والمراد نهي الناس عن مسه إلا على الطهارة، وإما للوح، ولا نافية، ومغنى المطهرون الملائكة، فإن الحديث كشف أن المراد هو الأول، ويعضده مدح القرآن بالكرم، وبكونه ثابتا فى اللؤح المحفوظ، فيكون الحكم بكونه لا يمسه مرتبا على الوصفين المتناسبين للقرآن.
’’ ضمیر یا تو قرآن کریم کی طرف لوٹے گی یا لوح محفوظ کی طرف۔ اگرقرآن کریم کی طرف لوٹے تو مراد یہ ہے کہ لوگ اسے طہارت کی حالت میں ہی ہاتھ لگائیں۔ اگر لوح محفوظ کی طرف ضمیر لوٹے تو لا نفی کے لیے ہو گا اور پاک لوگوں سے مراد فرشتے ہوں گے۔ حدیث نبوی نے بتا دیا ہے کہ پہلی بات ہی راجح ہے۔ اس بات کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ قرآن کو کریم بھی کہا گیا ہے اور اس کا لوح محفوظ میں ہونا ثابت بھی کیا گیا ہے، اس طرح نہ چھونے کے حکم کا اطلاق قرآن کریم کی دونوں حالتوں (لوح محفوظ اور زمینی مصحف) پر ہو گا۔“ [تحفة الأحوذي لمحمد عبدالرحمن المباركفوري:137/1]

❷ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے بارے میں نافع تابعی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں :
انهٔ كان لا يمس المصحف الا و هو طاهر .
’’ آپ قرآن کریم کو صرف طہارت کی حالت میں چھوتے تھے۔“ [مصنف ابن أبى شيبة:1/2 32، وسندۂ صحيح]

❸ مصعب بن سعدبن ابی وقاص تابعی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں :
كنت أمسك المصحف على سعد بن أبى وقاص، فاحتككت، فقال لي سعد: لعلك مسست ذكرك ؟، قال : قلت : نعم، فقال : فقم، فتوضأ، فقمت، فتوضأت، ثم رجعت .
’’ میں اپنے والد سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے پاس قرآن کریم کا نسخہ پکڑے ہوئے تھا۔ میں نے جسم پر خارش کی۔ انہوں نے پوچھا: کیا تم نے اپنی شرمگاہ کو چھوا ہے ؟ میں نے عرض کی : جی ہاں، تو انہوں نے فرمایا : جاؤ اور وضو کرو۔ میں نے وضو کیا، پھر واپس آیا۔“ [الموطا للامام مالك 42/1، وسندهٔ صحيح ]

❹ غالب ابوہذیل کا بیان ہے :
امرني ابورزين (مسعود بن مالك) أن أفتح المصحف على غير وضوء، فسألت إبراهيم، فكرهه.
’’ مجھے ابورزین مسعود بن مالک اسدی نے بغیر وضو مصحف کو کھولنے کا کہا تو میں نے اس بارے میں ابراہیم نخعی تابعی رحمہ اللہ سے سوال کیا۔ انہوں نے اسے مکروہ جانا۔“ [مصنف ابن ابي شيبة : 321/2، و سندهٔ حسن]

❺ امام وکیع بن جراح رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں :
كان سفيان يكره ان يمس المصحف، وهو علٰي غير وضوء.
’’ امام سفیان تابعی رحمہ اللہ بغیر وضو کے مصحف کو چھونے کو مکروہ سمجھتے تھے۔“ [كتاب المصاحف لابن أبي داود : 740، وسندهٔ صحيح]

❻ ❼ حکم بن عتیبہ اور حماد بن ابی سلیمان دونوں تابعی ہیں۔ ان سے بے وضو، انسان کے قرآن کریم کو پکڑنے کے بارے میں پوچھا گیا تو دونوں کا فتویٰ یہ تھا :
إذا كان فى علاقة، فلا بأس به.
’’ جب قرآن کریم غلاف میں ہو تو ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں۔“ [كتاب المصاحف لابن ابي داود : 762، وسندهٔ صحيح]
یعنی بغیر غلاف کے بے وضو چھونا ان صاحبان کے ہاں بھی درست نہیں۔

❽ امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
لا يحمل المصحف بعلاقته، ولا علٰي وسادة أحد إلا وهو طاهر.
’’ قرآن پاک کو غلاف کے ساتھ یا تکیے پر رکھ کر بھی کوئی پاک شخص ہی اٹھائے۔“ [الموطا : 199/1]

❾ ❿ امام شافعی، امام احمد بن حنبل اور امام اسحاق بن راہویہ رحمها اللہ کا بھی یہی موقف تھا، جیسا کہ امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وبه قال غير واحد من أهل العلم من أصحاب النبى صلى الله عليه وسلم والتابعين، قالوا : يقرا الرجل القرآن على غير وضوء، ولا يقرا فى المصحف إلا وهو طاهر، وبه يقول سفيان الثوري، والشافعي، وأحد، وإسحاق.
’’ بہت سے اہل علم صحابہ و تابعین کا یہی کہنا ہے کہ بے وضو آدمی قرآن کریم کی زبانی تلاوت تو کر سکتا ہے، لیکن مصحف سے تلاوت صرف طہارت کی حالت میں کرے۔ امام سفیان ثوری، امام شافعی، امام احمد بن حنبل اور امام اسحاق بن راہویہ رحمها اللہ کا یہی مذہب ہے۔“ [سنن الترمذي، تحت الحديث : 146]

◈ شارح ترمذی علامہ محمد عبدالرحمٰن مبارکپوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
القول الراجح عندي قول أكثر الفقهاء، وهو الذى يقتضيه تعظيم القرآن وإكرامه، والمتبادر من لفظ الطاهر فى هذا الحديث هو المتوضي، وهو الفرد الكامل للطاهر، والله تعالى أعلم.
’’ میرے نزدیک جمہور فقہاء کا قول راجح ہے۔ قرآن کریم کی تعظیم و اکرام بھی اسی کی متقاضی ہے۔ اس حدیث میں طاہر کے لفظ کا متبادر معنی وضو والا شخص ہی ہے اور باوضو شخص ہی کامل طاہر ہوتا ہے۔ والله اعلم ![تحفة الأحوذي :137/1]

الحاصل : قرآن کریم کو بغیر وضو زبانی پڑھا جا سکتا ہے لیکن بے وضو شخص ہاتھ میں پکڑ کر اس کی تلاوت نہیں کر سکتا۔ یہی قول راجح ہے کیونکہ سلف صالحین کی تصریحات کی روشنی میں قرآن و سنت کی نصوص سے یہی ثابت ہوتا ہے۔

اس تحریر کو اب تک 30 بار پڑھا جا چکا ہے۔

Leave a Reply