کیا امیر معاویہ نے سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کو زہر دیا؟

تحریر غلام مصطفٰے ظہیر امن پوری
 
نواسئہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ، گوشئہ بتول ، نوجوانان جنت کے سردار اور گلستان ِ رسالت کے پھول ، سیدنا و امامنا و محبوبنا حسن بن علی رضی اللہ عنہما کو زہر دیا گیا تھا ، جیسا کہ عمیر بن اسحاق کہتے ہیں :

«دخلت أنا ورجل على الحسن بن على نعوده ، فجعل يقول لذلك الرجل : سلنى قبل أن لا تسألنى ، قال : ما أريد أن أسألك شيئاً ، يعافيك الله ، قال : فقام فدخل الكنيف ثم خرج إلينا ، ثم قال : ما خرجت إليكم حتى لفظت طائفة من كبدی أقلبها بهذا العود ، ولقد سقيت السم مرارا ، ما شیء أشد من هذه المرة ، قال : فغدونا عليه من الغد ، فإذا هو في السوق ، قال : وجاء الحسين فجلس عند رأسه ، فقال : يا أخي ، من صاحبك ؟ قال : تريد قتله ؟ ، قال : نعم ، قال : لئن كان الذی أظن ، لله أشد نقمة ، وإن كان بريئاً فما أحب أن يقتل بریء»

’’میں اور ایک آدمی سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہما پر عیادت کے لیے داخل ہوئے۔ آپ رضی اللہ عنہما اس آدمی سے کہنے لگے : مجھ سے سوال نہ کر سکنے سے پہلے سوال کر لیں۔ اس آدمی نے عرض کیا: میں آپ سے کوئی سوال نہیں کرنا چاہتا۔ اللہ تعالیٰ آپ کو عافیت دے۔ آپ رضی اللہ عنہما کھڑے ہوئے اور بیت الخلاء گئے۔ پھر نکل کر ہمارے پاس آئے، پھر فرمایا: میں نے تمہارے پاس آنے سے پہلے اپنے جگر کا ایک ٹکڑا (پاخانے کے ذریعہ) پھینک دیا ہے۔ میں اس کو اس لکڑی کے ساتھ الٹ پلٹ کر رہا تھا۔ میں نے کئی بار زہر پیا ہے، لیکن اس دفعہ سے سخت کبھی نہیں تھا۔ راوی کہتے ہیں کہ ہم ان کے پاس اگلے دن آئے تو آپ رضی اللہ عنہما حالت ِ نزع میں تھے۔ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ آپ کے پاس آئے اور آپ کے سر مبارک کے پاس بیٹھ گئے اور کہا : اے بھائی! آپ کو زہر دینے والا کون ہے ؟ آپ رضی اللہ عنہما نے فرمایا : کیا آپ اسے قتل کرنا چاہتے ہیں؟ انہوں نے کہا : جی ہاں ! فرمایا : اگر وہ شخص وہی ہے جو میں سمجھتا ہوں تو اللہ تعالیٰ انتقام لینے میں زیادہ سخت ہے۔ اور اگر وہ بری ہے تو میں ایک بری آدمی کو قتل نہیں کرنا چاہتا۔‘‘ (مصنف ابن ابی شیبۃ : ۹۴،۹۳/۱۵، کتاب المحتضرین لابن ابی الدنیا : ۱۳۲، المستدرک للحاکم : ۱۷۶/۳، الاستیعاب لابن عبد البر : ۱۱۵/۳، تاریخ ابن عساکر : ۲۸۲/۱۳، وسندہ حسن) 

سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہما کا قاتل کون؟ روایات کا جائزہ

شیعہ حضرات کا کہنا ہے کہ سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کو سیدنا معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہمانے زہر دیا۔ یہ بے حقیقت اوربے ثبوت بات ہے ۔ شیعہ کے دلائل کا علمی وتحقیقی جائزہ پیشِ خدمت ہے:

 دلیل نمبر ۱

«قال ابن عبد البرّ : ذکر أبو زید عمر بن شبہ وأبو بکر بن أبی خیثمة قالا : حدّثنا موسی بن إسماعیل قال : حدّثنا أبو بلال عن قتادة قال : دخل الحسین علی الحسن ، فقال : یا أخی ! إنّی سقیت السمّ ثلاث مرّات ، لم أسق مثل ھذہ المرّة ، إنّی لأضع کبدی ، فقال الحسین : من سقاک یا أخی ؟ قال : ما سؤالک عن ھذا ، أترید أن تقاتلہم ؟ أکلھم إلی الله، فلمّا مات ورد البرید بموتہ علی معاویة ، فقال : یا عجبا من الحسن شرب شربۃ من عسل بماء رومة فقضی نحبہ.»

’’سیدنا حسین رضی اللہ عنہ، سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور کہا : اے بھائی ! میں نے کئی بار تین بار زہر پیا ہے، لیکن اس مرتبہ کی طرح کبھی نہیں پلایا گیا۔ میرا جگر نکلتا جا رہا ہے۔ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ نے کہا : بھائی ! آپ کو کس نے زہر پلایا ہے؟ فرمایا : اس بارے میں آپ کے سوال کا کیا مطلب ہے؟ کیا آپ ان سے لڑائی کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں ؟ میں ان کو اللہ کے سپرد کرتا ہوں۔ جب سیدنا حسن رضی اللہ عنہ فوت ہو گئے اور سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس آپ کی موت کا پیغام پہنچا تو آپ کہنے لگے : افسوس ہے کہ حسن نے رومہ کے پانی کے ساتھ شہد کا ایک جام پیا اور فوت ہو گئے۔‘‘ (الاستیعاب لابن عبد البر : ۱۱۵/۱)

تبصرہ :
اس کی سند سخت ترین ’’ضعیف‘‘ ہے۔ اس کا راوی محمد بن سلیم ابوہلال الراسبی (م
۱۶۷ھ) جمہور کے نزدیک ’’ضعیف‘‘ ہے۔ 

جارحین 
(1) امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں : 
قد احتمل حديثه إلّا أنّه يخالف في حديثه قتادة، وهو مضطرب الحديث عن قتادة.
’’اس کی حدیث بیان کی گئی ہے، لیکن یہ قتادہ سے بیان کرنے میں ثقہ راویوں کی مخالفت کرتا ہے۔ قتادہ سے اس کی حدیثیں مضطرب ہیں۔‘‘ 
(الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم : ۲۷۳/۷) 

(2) امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کہ ابوہلال راسبی کی قتادہ سے روایات کیسی ہیں؟ فرمایا : اس میں ضعف ہے، یہ راوی کچھ اچھا ہے۔‘‘ (الجرح والتعدیل : ۲۷۴/۷، وسندہٗ صحیحٌ) 

(3) امام ابنِ عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : 
هذه الأحاديث لأبی هلال عن قتادة عن أنس كلّ ذلك، أو عامّتها غير محفوظة.
’’یہ ابوہلال کی قتادہ عن انس احادیث ہیں۔ یہ سب کی سب یا اکثر غیر محفوظ ہیں۔‘‘ 
(الکامل لابن عدی : ۲۱۴/۶، وفی نسخۃ : ۲۲۲۰/۶) 

ان تینوں ائمہ کرام کی جرح مفسر ہے۔ یہ روایت بھی ابوہلال کی قتادہ سے ہے، لہٰذا ’’ضعیف‘‘ ہے۔ 

(4) امام ابنِ سعد رحمہ اللہ فرماتے ہیں : 
فيه ضعف.
’’اس میں کمزوری ہے۔‘‘ 
(الطبقات الکبرٰی لابن سعد : ۲۷۵/۷) 

(5) امام نسائی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : 
ليس بقوی. :
’’یہ قوی راوی نہیں ہے۔‘‘ 
(الضعفاء للنسائی : ۲۰۲) 

(6) امام ابوزرعہ الرازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : 
لیّن.
’’کمزور راوی ہے۔‘‘ 
(الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم : ۲۷۴/۷) 

(7) امام یزید بن زریع کہتے ہیں کہ یہ کچھ بھی نہیں۔ (الجرح والتعدیل : ۷/۲۷۳، وسندہٗ صحیحٌ) 

نیز فرماتے ہیں : 
عدلت عن أبی هلال عمدا.
’’میں جان بوجھ کر ابوہلال سے دور ہٹا ہوں۔‘‘ 
(الجرح والتعدیل : ۲۷۳/۷، وسندہٗ صحیحٌ) 

(8) امام یحییٰ بن سعید القطان اس سے روایت نہیں لیتے تھے۔ (الجرح والتعدیل : ۲۷۳/۷، وسندہٗ صحیحٌ) 

(9) امام ابنِ حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں : 
وكان أبو هلال شيخا صدوقا، إلّا أنّه كان يخطیء كثيرا من غير تعمّد، حتّی صار يرفع المراسيل، ولا يعلم، وأكثر ما كان يحدّث من حفظه، فوقع المناكير في حديثه من سوء حفظه.
’’ابوہلال سچا شیخ تھا، لیکن بغیر قصد کے بہت زیادہ غلطیاں اس سے سرزد ہوتی تھیں، یہاں تک کہ وہ انجانے میں مرسل روایات کو مرفوع بیان کرنے لگا۔ وہ اکثر اپنے حافظے سے بیان کرتا تھا، لہٰذا اس کے حافظے کی خرابی کی وجہ سے منکر روایات اس کی حدیث میں داخل ہو گئیں۔‘‘ 
(المجروحین لابن حبان : ۲۹۵/۲۔۲۹۶) 

(10) امام البزار رحمہ اللہ فرماتے ہیں : 
واحتملوا حديثه، وإن كان غير حافظ.
’’محدثین نے اس کی حدیثیں لی ہیں، اگرچہ یہ حافظے والا نہیں تھا۔‘‘ 
(مسند البزار : ۱۷۹۶) 

(11) امام ابن ابی حاتم الرازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : 
محلّه الصدق، لم يكن بذاك المتين.
’’اس کا مقام سچ والا ہے۔ زیادہ مضبوط راوی نہ تھا۔‘‘ 
(الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم : ۲۷۴/۷) 

(12) امام بخاری رحمہ اللہ نے اسے اپنی کتاب الضعفاء (۴۸۲۔۴۸۳، ۳۲۴ ) میں ذکر کیا ہے۔ 

(13) امام عقیلی رحمہ اللہ نے اسے اپنی کتاب الضعفاء الکبیر (۷۴/۴) میں ذکر کیا ہے۔ 

معدلین 

(1) امام دارقطنی رحمہ اللہ نے ثقہ کہا ہے۔ (سوالات الحاکم : ۴۶۸)
یہ قول امام دارقطنی کے اپنے ہی قول کے معارض ہے، لہٰذا ساقط ہے۔
امام دارقطنی فرماتے ہیں کہ یہ’’ ضعیف ‘‘راوی ہے۔ 
(العلل : ۴۰/۴ بحوالۃ موسوعۃ اقوال الدارقطنی) 

(2) امام ابوحاتم الرازی رحمہ اللہ سے پوچھا گیا: 
سلام بن مسكين أحبّ إليك أم أبو هلال ؟ قال : أبو هلال أشبه بالمحدثين.
’’سلام بن مسکین آپ کو زیادہ اچھے لگتے ہیں یا ابوہلال ؟ فرمایا : ابوہلال محدثین کے زیادہ قریب ہے۔‘‘ 
(الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم : ۲۷۴/۷)
یہ جمہور کی جرح کے معارض ومخالف قول ناقابل قبول ہے۔ 

(3) امام ابوحاتم الرازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : 
كان سليمان بن حرب جيّد الرأی فی أبی هلال الراسبيّ
’’سلیمان بن حرب، ابوہلال الراسبی کے بارے میں اچھی رائے رکھتے تھے۔‘‘ 
(الجرح والتعدیل : ۲۷۴/۷، وسندہٗ صحیحٌ) 

(4) امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ فرماتے ہیں : 
ليس بصاحب كتاب، ليس به بأس.
’’یہ صاحب کتاب نہ تھا۔ اس میں کوئی حرج نہیں۔‘‘ 
(الجرح والتعدیل : ۲۷۴/۷، وسندہٗ صحیحٌ)
یہ قول خود امام صاحب کے اپنے قول کے معارض ومخالف ہے، لہٰذا یہ ناقابل التفات ہے۔ 

امام صاحب خود فرماتے ہیں : 
لم يكن له كتاب، وهو ضعيف الحديث.
’’اس کے پاس کوئی کتاب نہ تھی۔ اس کی حدیث ضعیف ہے۔‘‘ 
(تاریخ ابن ابی خیثمۃ : ۲۲۰۵) 

(5) امام ابوداؤد رحمہ اللہ نے ثقہ کہا ہے۔ (تہذیب الکمال : ۱۶/۳۱۹)
یہ قول مردود ہے، کیونکہ اس کے راوی ابوعبید الآجری کے حالات نہیں مل سکے۔ 

(6) امام عبدالرحمن بن مہدی اس سے روایت لیتے تھے اور وہ غالبا ثقہ سے روایات بیان کرتے تھے۔ 

(7،8،9) امام ابن خزیمہ (۲۰۴۴) ، امام ابوعوانہ (۴۰۱۳) ، امام حاکم (۳۳۳/۴) نے اس کی حدیث کی تصحیح کر کے اس کو ثقہ قرار دیا ہے۔ 

ثابت ہوا کہ ابوہلال الراسبی البصری جمہور کے نزدیک ’’ضعیف‘‘ ہے۔ 

خصوصاً جب یہ قتادہ سے بیان کرے تو ’’ضعیف‘‘ ہوتا ہے، لہٰذا حافظ علائی رحمہ اللہ کا یہ کہنا کہ جمہور نے اس کی توثیق کی ہے (فیض القدیر للمناوی: ۳۸۱/۶) صحیح نہیں۔ 

باقی متاخرین، مثلاً حافظ ذہبی رحمہ اللہ (العبر : ۷۷/۱)، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (التلخیص : ۸۵/۳) ، حافظ ہیثمی رحمہ اللہ (مجمع الزوائد : ۱۹۷/۵)، بوصیری (مصباح الزجاجہ : ۱۵۱۸) ، علامہ قرطبی(التذکرۃ : ۳۸۳) وغیرہ کا اسے ثقہ قرار دینا متقدمین کے مقابلے میں قابل قبول نہیں۔ 

دوسری بات یہ ہے کہ اس کی سند میں قتادہ بن دعامہ مدلس ہیں، لہٰذا روایت ’’ضعیف‘‘ ہے۔ اصول یہ ہے کہ جب ثقہ مدلس بخاری ومسلم کے علاوہ بصیغۂ عن یا قال روایت بیان کرے تو وہ ’’ضعیف‘‘ ہوتی ہے۔ 

امام ابن عبدالبر رحمہ اللہ فرماتے ہیں : 
قتادة إذا لم يقل : سمعت وخولف في نقله، ولا تقوم به حجّة.
’’قتادہ جب سماع کی تصریح نہ کریں اور اپنی روایت میں ثقہ راویوں کی طرف سے مخالف کیے جائیں تو ان سے حجت نہیں لی جا سکتی۔‘‘ 
(التمہید لابن عبد البر : ۳۰۷/۳) 

تیسری بات یہ ہے کہ قتادہ بن دعامہ کا حسنین کریمین سے سماع ثابت نہیں، لہٰذا یہ قول منقطع ہے اور منقطع روایت حجت نہیں ہوتی۔ 

دلیل نمبر ۲

«وقال الهيثم بن عدی : دسّ معاوية إلی ابنة سهيل بن عمرة امرأة الحسن مأة ألف دينار علی أن تسقيه شربة بعث بها إليها ففعلت.»

’’ہیثم بن عدی نے کہا ہے کہ معاویہ ( رضی اللہ عنہ ) نے سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کی بیوی سہیل بنت عمرہ کو ایک ہزار دینا کے عوض سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کو زہر پلانے پر اکسایا۔ اس نے زہر اس کے پاس بھیجی تو اس نے ایسا کر دیا۔‘‘ (انساب الاشراف لاحمد بن یحیی البلاذری : ۵۹/۳)

تبصرہ :
یہ روایت ’’موضوع‘‘ (جھوٹ کا پلندا) ہے۔
اس کا راوی ہیثم بن عدی بالاتفاق ’’کذاب‘‘ اور ’’متروک الحدیث‘‘ ہے۔ اس لیے شیعہ شنیعہ اس کی روایات کو سینے سے لگائے بیٹھے ہیں۔

دلیل نمبر ۳

« قال الإمام ابن سعد : أنا محمّد بن عمر : نا عبدالله بن جعفر عن عبد الله بن حسن قال : كان الحسن بن علی رجلا كثير نكاح النساء ، وكنّ أقلّ ما يحظين عنده ، وكان قلّ امرأة يتزوّجها إلّا أحبّته وضنت به ، فيقال : إنّه كان سقی ، ثم أفلت ، ثم سقی فافلت ، ثمّ كانت الآخرة توفّی فيها ، فلمّا حضرته الوفاة ، قال الطبيب ، وهو يختلف إليه : هذا رجل قد قطع السم أمعاءه ، فقال الحسين : يا أبا محمّد ! خبّرنی من سقاك السمّ ، قال : ولم يا أخی ؟ قال : أقتله ، واللہ قبل أن أدفنك ، أو لا أقدر عليه ، أو يكون بأرض أتكلّف الشخوص إليه ، فقال : يا أخی ! إنّما هذه الدنيا ليال فانية دعه ، حتّی ألتقی أنا وهو عند اللہ ، فأبی أن يسمّيه ، وقد سمعت بعض من يقول : كان معاوية قد تلطّف لبعض خدمه أن يسقيه سمّا.»

’’عبداللہ بن حسن بیان کرتے ہیں کہ سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہ عورتوں سے بہت زیادہ نکاح کرتے تھے۔ عورتیں ان کے پاس بہت کم عرصہ گزار پاتیں۔ تقریباً سب عورتیں، جن سے آپ شادی کرتے، وہ آپ سے محبت کرتیں۔ کہا جاتا ہے کہ ان کو زہر پلایا گیا، لیکن وہ جانبر ہو گئے۔ پھر زہر پلایا گیا، لیکن وہ پھر جانبر ہو گئے۔ جب آخری دفعہ تھی تو وہ اس میں فوت ہو گئے۔ جب ان کی وفات کا وقت حاضر ہوا تو طبیب نے ان کی طرف آتے ہوئے کہا: یہ ایسا آدمی ہے، جس کی انتڑیاں زہر نے کاٹ دی ہیں۔ حسین رضی اللہ عنہ نے کہا : اے ابومحمد ! مجھے بتائیے کہ آپ کو زہر کس نے پلائی ہے؟ آپ رضی اللہ عنہ نے پوچھا : کیوں اے بھائی؟ حسین رضی اللہ عنہ نے کہا : اللہ کی قسم میں اسے آپ کو دفن کرنے سے پہلے قتل کر دوں گا یا اس پر قادر نہ ہو سکوں گا یا وہ ایسی زمین میں ہو گا، جہاں میرا داخل ہونا مشکل ہو گا۔ اس پر حسن رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اے میرے بھائی ! یہ دنیا چند فانی راتوں پر مبنی ہے۔ اس شخص کو چھوڑ، میں اسے اللہ کے ہاں مل لوں گا۔ یہ کہہ کر انہوں نے اس کا نام بتانے سے انکار کر دیا۔ میں نے بعض لوگوں سے سنا ہے کہ معاویہ رضی اللہ عنہ نے حسین رضی اللہ عنہ کے کسی خادم کو زہر پلانے پر ورغلایا تھا۔‘‘ (تاریخ ابن عساکر : ۲۸۲/۱۳،۲۸۳)

تبصرہ : یہ روایت سخت ترین ’’ضعیف‘‘ ہے۔
اس کا راوی محمد بن عمر الواقدی ’’کذاب‘‘ ہے۔
اس میں ایک اور علت بھی ہے۔

دلیل نمبر ۴

ابوبکر بن حفص بیان کرتے ہیں :

«توفّی الحسن بن علی وسعد بن أبی وقّاص فی أيّام بعد ما مضی من إمارة معاوية عشر سنين ، وكانو يرون أنّه سقاهما سمّا.»

’’سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہما اور سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ، معاویہ رضی اللہ عنہ کے عہد کے دس سال گزرنے کے بعد فوت ہوئے۔ لوگوں کا خیال تھا کہ معاویہ رضی اللہ عنہ نے ان دونوں کو زہر پلایا تھا۔‘‘ (مقال الطالبین لابی الفرج علی بن الحسین الاصبہانی : ص ۲۰)

تبصرہ : یہ روایت شیطان لعین نے گھڑی ہے، جو رافضیوں کے ہاتھ لگ گئی ہے۔ انہوں نے اس کو اپنے مذہب وعقیدہ پر دلیل بنا لیا ہے۔ 

(1) صاحب ِ کتاب اموی شیعہ ہے۔ اس کے بارے میں توثیق ثابت نہیں۔
اس کے شاگرد محمد بن ابی الفوارس کہتے ہیں : 

وكان قبل أن يموت اختلط.
’’یہ اپنی موت سے پہلے بدحواس ہو گیا تھا۔‘‘ 
(تاریخ بغداد للخطیب : ۳۹۸/۱۱) 

(2) اس کے راوی احمد بن عبیداللہ بن عمار کے بارے میں امام خطیب بغدادی فرماتے ہیں: 
وكان يتشيّع.
’’یہ شیعہ مذہب سے تعلق رکھتا تھا۔‘‘ 
(تاریخ بغداد : ۲۵۲/۴) 

حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : 
من رؤوس الشيعة.
’’یہ شیعہ کے سرداروں میں سے تھا۔‘‘ 
(میزان الاعتدال للذہبی : ۱۱۸/۱) 

اس کے بارے میں ادنیٰ کلمۂ توثیق بھی ثابت نہیں۔ 

(3) اس کا مرکزی راوی عیسیٰ بن مہران ہے۔ اس کے بارے میں حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : 
رافضيّ، كذّاب.
’’یہ رافضی اور بہت بڑا جھوٹا تھا۔‘‘ 
(میزان الاعتدال للذہبی : ۳۲۴/۳) 

امام ابوحاتم الرازی فرماتے ہیں کہ یہ کذاب آدمی تھا۔ (الجرح والتعدیل : ۲۹۰/۶) 

امام ابنِ عدی فرماتے ہیں : 
حدّث بأحاديث موضوعة مناكير، محترق في الرفض.
’’اس نے بہت سی من گھڑت اور منکر روایات بیان کی ہیں۔ یہ کٹر قسم کا رافضی تھا۔‘‘ 
(الکامل لابن عدی : ۲۶۰/۵) 

نیز فرماتے ہیں : 
والضعف بيّن علی حديثه
’’اس کی حدیث پر ضعف واضح ہے۔‘‘ 
(الکامل لابن عدی : ۲۶۱/۵) 

امام دارقطنی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : 
رجل سوء، ومذهب سوء.
’’آدمی بھی بُرا تھا اور اس کا مذہب بھی بُراتھا۔‘‘ 
(الضعفاء والمتروکون للدارقطنی : ۴۱۸) 

امام خطیب بغدادی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : 
كان عيسیٰ بن مهران من شياطين الرافضة ومردتهم، ووقع إليّ كتاب من تصنيفه في الطعن علی الصحابة وتضليلهم وإكفارهم وتفسيقهم، فوالله لقد قف شعري عند نظري فيه، وعظم تعجّبي ممّا أودع ذلك الكتاب من الأحاديث الموضوعة…
’’عیسیٰ بن مہران شیاطین اور لعین قسم کے رافضیوں میں سے تھا۔ مجھے اس کی تصنیفات میں سے ایک کتاب ملی، جو کہ صحابہ کرام پر طعن، ان کو گمراہ قرار دینے، ان کو فاسق کہنے اور ان کی تکفیر پر مبنی تھی۔ اللہ کی قسم ! اس کتاب کو دیکھتے ہوئے میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے اور اس کتاب میں اس نے جو من گھڑت احادیث ذکر کی تھیں، ان سے میں بڑا متعجب ہوا۔۔۔‘‘ 
(تاریخ بغداد للخطیب : ۱۶۷/۱۱) 

تنبیہ : 

لسان المیزان ( ۴۰۷/۴) میں اس کے حالات لکھتے ہوئے کسی ناسخ نے غلطی سے ”ولحقه ابن جرير“ (ابنِ جریر اس کو ملے تھے) کی بجائے ”وثّقہ ابن جریر“ (ابنِ جریر نے اسے ثقہ قرار دیا ہے) لکھ دیا ہے۔ 

اس کذاب کی روایت سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے خلاف پیش کرنا انصاف کا خون کرنے کے مترادف ہے۔ حیرانی کی بات ہے کہ یہ لوگ یوم ِ حساب سے غافل ہیں۔ کیا یہ خیال کرتے ہیں کہ صحابہ کرام کے خلاف ان کے ہاتھوں کی لکھی ہوئی تحریروں اور زبان سے نکلی ہوئی باتوں کے بارے میں کوئی پوچھ گچھ نہ ہو گی؟ 

دلیل نمبر ۵

عمیر بن اسحاق بیان کرتے ہیں :

«كنت مع الحسن والحسين في الدار ، فدخل الحسن المخرج ، ثمّ خرج ، فقال : لقد سقيت السمّ…»

’’میں حسن اور حسین رضی اللہ عنہما کے ساتھ گھر میں تھا۔ سیدنا حسن رضی اللہ عنہ دروازے میں داخل ہوئے، پھر باہر آئے اور فرمایا : میں نے زہر پیا ہے۔۔۔‘‘ (مقال الطالبین لابی الفرج الاصبہانی الشیعی الاموی : ص ۲۰)

تبصرہ :
اس من گھڑت روایت کا معنیٰ ومفہوم وہی ہے اور اس میں علتیں بھی بعینہٖ وہی ہیں، جو اس سے پہلے والی روایت میں ہیں۔
 

دلیل نمبر ۶

ابنِ جعدۃ کہتے ہیں :

«كانت جعدة بنت الأشعب بن قيس تحت الحسن بن علی ، فدسّ إليها يزيد أن سمي حسنا ، إنّی مزوّجك ، ففعلت ، فلمّا مات الحسن بعثت إليه الجعدة ، تسأل يزيد الوفاء بما وعدها ، فقال : إنّا والله لم نرضك للحسن ، فنرضاك لأنفسنا.»

’’جعدہ بنت الاشعت بن قیس سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہ کے نکاح میں تھی۔ یزید نے اسے بہلایا کہ تُو حسن کو زہر دے دے تو میں تجھ سے نکاح کر لوں گا۔ اس نے ایسا کر دیا۔ جب حسن رضی اللہ عنہ فوت ہو گئے تو جعدہ نے یزید سے اپنے وعدے کو وفا کرنے کا مطالبہ کیا۔ اس نے کہا: اللہ کی قسم ! ہم نے تجھے حسن کے لیے پسند نہیں کیا تھا، اپنے لیے کیسے کریں۔‘‘ (تاریخ ابن عساکر : ۲۸۴/۱۳، المنتظم لابن الجوزی : ۲۲۶/۵)

تبصرہ :
یہ جھوٹا قصہ ہے۔ 

(1) اس کا گھڑنے والا یزید بن عیاض بن جعدۃ اللیثی ہے۔ امام یحییٰ بن معین، امام علی بن المدینی، امام بخاری، امام مسلم، امام نسائی، امام ابنِ عدی، امام ابوزرعہ الرازی، امام ابوحاتم الرازی، امام ساجی، امام جوزجانی، امام عمرو بن علی الفلاس وغیرہم نے اسے ’’ضعیف، منکرالحدیث ‘‘ اور ’’متروک الحدیث‘‘ کے الفاظ کے ساتھ مجروح کیا ہے۔ اس کے بارے میں ادنیٰ کلمۂ توثیق بھی ثابت نہیں ہے۔ 

(2) اس کے دوسرا راوی محمد بن خلف بن المرزبان الآجری کے بارے میں متقدمین ائمہ محدثین میں سے کسی نے توثیق کا کوئی کلمہ استعمال نہیں کیا، بلکہ امام دارقطنی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: 
هو أخباری، ليّن.
’’یہ تاریخ دان تھا اور کمزور راوی تھا۔‘‘ 
(سوالات السہمی : ۱۰۴) 

لہٰذا حافظ ذہبی رحمہ اللہ (سیر اعلام النبلاء : ۲۶۴/۱۴) کا اسے صدوق قرار دینا صحیح نہیں۔

دلیل نمبر ۷

«عن أمّ موسی أنّ جعدة بنت الأشعث ابن قيس سقت الحسن السمّ ، فاشتكی منه شكاة ، قال : فكان يوضع تحته طست وترفع أخری نحوا من أربعين يوما.»

’’ام موسیٰ بیان کرتی ہیں کہ جعدۃ بنت الاشعث بن قیس نے سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کو زہر پلایا۔ اس سے آپ بیمار ہو گئے۔ آپ کے نیچے ایک برتن رکھا جاتا اور دوسرا اُٹھایا جاتا۔ تقریباً چالیس دن تک یہ معاملہ رہا۔‘‘ (تاریخ ابن عساکر : ۲۸۴/۱۳)

تبصرہ :
اس کی سند ’’ضعیف‘‘ ہے۔
یعقوب نامی راوی کا تعین درکار ہے، نیز ام ِ موسیٰ سے اس کا سماع مطلوب ہے۔
 

الحاصل :

وہ روایات جن میں سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ یا یزید کے بارے میں ہے کہ انہوں نے سیدنا حسن ابن علی رضی اللہ عنہما کو زہر دیا تھا، ان کا جھوٹا ہونا واضح ہو گیا ہے۔ ان سندوں کے علاوہ اگر کسی کے پاس کوئی سند ہے تو وہ ہمیں پیش کرے۔ ہم اس کا تجزیہ کریں گے۔ 

سند دین ہے۔ بے سند اور ’’ضعیف‘‘ روایات پیش کرنا اور ان پر اپنے عقیدہ وعمل کی بنیاد ڈالنا اہل حق کا وطیرہ نہیں۔ نیز ’’ضعیف‘‘ اور بے سروپا روایات صحابہ کرام کے خلاف پیش کرنا صحیح نہیں، کیونکہ یہ بدگمانی کے زمرہ میں آئے گا۔ بدگمانی سب سے بڑا جھوٹ ہے۔ 

دوسری بات یہ ہے کہ یہ جھوٹی روایات رافضی شیعوں کے عقیدہ کے منافی بھی ہیں، کیونکہ شیعہ مذہب کی معتبر کتابوں میں لکھا ہے: 
إنّ الأئمّة يعلمون متي يموتون، وإنّهم لا يموتون إلّا باختيارهم.
’’ائمہ جانتے ہوتے ہیں کہ کب مریں گے اور وہ اپنے اختیار ہی سے مرتے ہیں۔‘‘ 
(اصول الکافی الکلینی : ۲۵۸/۱، الفصول المہمۃ للجرالعاملی : ص ۱۵۵) 

ملا باقر مجلسی صاحب لکھتے ہیں : 
لم يكن إمام إلّا مات مقتولا أو مسموما
’’کوئی امام نہیں، مگر وہ قتل یا زہر کے ذریعے مرا ہے۔‘‘ 
(بحار الانوار للمجلسی : ۳۶۴/۴۳) 

جب ان کا عقیدہ ہے کہ ائمہ عالم الغیب ہوتے ہیں تو سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہما کو علم کیوں نہ ہو سکا کہ اس کھانے میں زہر ہے؟ 

یہ کہنا کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہما کو زہر دیا ہے، بہت بڑا جھوٹ اور اتہام ہے، کیونکہ اس سلسلہ میں جمیع روایات من گھڑت اور خود ساختہ ہیں۔ وااللہ أعلم، وعلمہ أحکم

یہ تحریر اب تک 7 لوگ پڑھ چکے ہیں، جبکہ صرف آج 1 لوگوں نے یہ تحریر پڑھی۔

Leave a Reply