کیا امام ابو حنیفہ تابعی تھے؟

تحریر: فضیلۃ الشیخ حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ

سوال: کیا امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ تابعی تھے؟ اور کیا کسی صحابی سے ان کی ملاقات صحیح سند سے ثابت ہے؟
(صفدر نذیر ولد منظور الٰہی دکاندار بھکر)
الجواب: الحمد لله رب العالمين و الصلوة والسلام على رسوله الأمين، أما بعد:
اس مسئلے میں علمائے کرام کے درمیان سخت اختلاف ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ تابعی تھے اور بعض کہتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ تابعی نہیں تھے۔ ان دونوں گروہوں کے نظریات پر تبصرہ کرنے سے پہلے دو اہم ترین بنیادی باتیں پیشِ خدمت ہیں۔

اول: جس کتاب سے جو قول یا روایت بطورِ دلیل نقل کی جائے، اُس کی سند صحیح لذاتہ یا حسن لذاتہ ہو، ورنہ استدلال مردود ہوتا ہے۔
دوم: صحیح دلیل کے مقابلے میں تمام ضعیف اور غیر ثابت دلائل مردود ہوتے ہیں اگرچہ ان کی تعداد ہزاروں میں ہی کیوں نہ ہو۔

اس تمہید کے بعد فریقین کے نظریات پیش خدمت ہیں۔
فریق اول:
خطیب بغدادی رحمہ اللہ(متوفی ۴۶۳ھ) لکھتے ہیں کہ :
النعمان بن ثابت أبو حنيفة التيمي إمام أصحاب الرأي وفقيه أهل العراق، رأي أنس بن مالك و سمع عطاء بن أبى رباح… [تاريخ بغداد ۱۳؍۳۲۳ ، ۳۲۴ ت ۷۲۹۷ ]
”یعنی:نعمان بن ثابت، ابو حنیفہ التیمی، اہل الرائے کے امام اور عراقیوں کے فقیہ، اپ نے انس بن مالک(رضی اللہ عنہ) کو دیکھا ہے اور عطاء بن ابی رباح سے (روایات وغیرہ کو) سنا ہے۔“

بعد والے بہت سے علماء نےخطیب رحمہ اللہ کے اس قول پر اعتماد کیا ہے۔ مثلاً دیکھئے العلل المتناھیۃ لابن الجوزی [۱؍۱۲۸ح۱۹۶] بعض لوگوں نے ابن الجوزی کے قول کو دارقطنی سے منسوب کر دیا ہے، یہ بہت بڑی غلطی ہے۔ دیکھئے اللمحات [۲؍۲۹۳ ]

فریقِ دوم:
ابو الحسن الدار قطنی رحمہ اللہ (متوفی ۳۸۵ھ) سے پوچھا گیا کہ کیا ابو حنیفہ کا انس(بن مالک رضی اللہ عنہ) سے سماع (سننا) صحیح ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا: لا ولا رؤيته، لم يلحق أبو حنيفة أحدا من الصحابة [تاريخ بغداد ج ۴ص۲۰۸ت ۱۸۹۵و سنده صحيح سوالات السهمي للدارقطنيص۲۶۳ت۳۸۳، العلل المتناهية فى الأحاديث الواهية لا بن الجوزي۱؍۶۵تحت ح ۷۴ ]
نہیں، اور نہ ابو حنیفہ کا انس (رضی اللہ عنہ)کو دیکھنا ثابت ہے بلکہ ابو حنیفہ نے تو کسی صحابی سے (بھی ) ملاقات نہیں کی ہے۔
معلوم ہوا کہ خطیب بغدادی سے بہت پہلے امام دار قطنی رحمہ اللہ اس بات کا صاف صاف اعلان کر چکے ہیں کہ امام ابو حنیفہ نے نہ تو سیدنا انس رضی اللہ عنہ کو دیکھا ہے اور نہ ان سے ملاقات کی ہے۔

تنبیہ: جلیل القدر معتدل امام دار قطنی رحمہ اللہ کا سابق بیان علماہ سیوطی (متوفی ۹۱۱ھ) کی کتاب‘‘ تبییض الصحیفۃ فی مناقب الإمام أبی حنیفۃ’’ میں محرف و مبدل ہو کر چھپ گیا ہے۔ (ص ۱۰بتعلیق محمد عاشق الٰہی برنی دیوبندی)

یہ تحریف شدہ متن اصل مستند کتابوں کے مقابلے میں ہونے کی وجہ سے مردود ہے۔ ذیل اللآلی وغیرہ کی عبارات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ غلطی بذاتِ خود علامہ سیوطی کو حافظ ابن الجوزی کا کلام نہ سمجھنے کی وجہ سے لگی ہے۔ بہر حال امام دار قطنی سے ثابت شدہ قول کے مقابلے میں سیوطی و ابن الجوزی وغیر ھما کے حوالے مردود ہیں۔

ان دونوں (خطیب و دارقطنی) کے اقوال میں متقدم و اوثق ہونے کی وجہ سے دار قطنی کے قول کو ہی ترجیح حاصل ہے۔ فریقِ اول کی معرکۃ الآراء دلیل: جو لوگ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کو تابعی مانتے یا منواتے ہیں وہ ایک معرکۃ الآراء دلیل پیش کرتے ہیں۔

محمد بن سعد(کاتب الواقدی) نے (طبقات میں) کہا:
حدثنا أبو الموفق سيف بن جابر قاضي واسط قال: سمعت أبا حنيفة يقول : قدم أنس بن مالك الكوفة و نزل النخع و كان يخضب بالحمرة، قد رأيته مرارا
[عقود الجمان فى مناقب النعمان ص ۴۹، الباب الثالث و اللفظ له، تزكرة الحفاظ للذهبي۱؍۱۶۸ ت ۱۶۳، مناقب أبى حنيفة و صاحبيه أبى يوسف و محمد بن الحسن للذهبي ص ۷، ۸ ]
اس روایت کا خلاصہ یہ ہے کہ (امام ) ابو حنیفہ نے کہا کہ میں نے (سیدنا ) انس بن مالک (رضی اللہ عنہ ) کو کوفہ میں دیکھا۔

عرض ہے کہ اس روایت کا بنیادی راوی سیف بن جابر مجہول الحال ہے۔اُس کی توثیق کسی مستند کتاب میں نہیں ملی۔ [ديكهئے التكنيل بما فى تأ نيب الكوثري من الأباطيل للمعلميج ۱ص۱۷۹ت ۳۴ تبصرة الناقد ص۲۱۸ ، ۲۱۹ و اللمحات ألي مافي انوار الباري من الظلماتج۲ص۲۷۷ ]

دوسرے یہ کہ یہ روایت ابن سعد کی کتاب الطبقات میں موجود نہیں ہے۔ اسے حاکم کبیر ابو احمد محمد بن محمد بن احمد بن اسحاق(متوفی ۳۷۸ھ) نے درج ذیل سند و متن سے روایت کیا ہے۔
حدثني أبو بكر بن أبى عمر و المعدل ببخاري: حدثني أبو بكر عبدالله بن محمد بن خالد القاضي الرازي الحبال قال: حدثني عبدالله بن محمد بن عبيد القرشي المعروف بابن أبى الدنيا: نا محمد بن سعد الهاشمي صاحب الواقدي: نا أبو الموفق سيف بن جابر قاضي واسط قال: سمعت أبا حنيفة يقول: قدم أنس بن مالك الكوفة و نزل النخع و كان يخضب بالجهر (۱) قدرأيته مرارا [ كتاب الأسامي و الكنيٰ للحاكم الكبير۴؍۱۷۴باب أبى حنيفة ]
اس روایت کے راوی ابو بکر بن ابی عمر و کی توثیق نامعلوم ہے لہذا معلوم ہوا کہ یہ سند نہ تو ابن سعد سے ثابت ہے اور نہ امام ابو حنیفہ سے ثابت ہے، لہذا اسے ‘‘فإنہ صح’’ کہنا غلط ہے۔

اس کے علاوہ تابعیتِ امام ابو حنیفہ ثابت کرنے والی موضوع روایات أخبار أبی حنیفہ للصیمری و جامع المسانید للخوارزمی و کتبِ مناقب میں بکثرت موجود ہیں جن کا دارو مدار احمد بن الصلت الحمانی وگیرہ جیسے کذابین و مجہولین و مجروحین پر ہی ہے۔ ان روایات پر تفصیلی جرح کے لئے التنکیل اور اللمحات کا مطالعہ کریں۔

فریقِ دوم کی معرکۃ الآراء دلیل:
امام معتدل ابو احمد بن عدی الجرجانی رحمہ اللہ(متوفی ۳۶۵ھ) فرماتے ہیں کہ :
ثناه عبدالله بن محمد بن عبدالعزيز : حدثني محمود بن غيلان: ثنا المقرئي: سمعت أبا حنيفة يقول: ما رأيت أفضل من عطاء و عامة ما أحدثكم خطاء [الكامل ۷؍۲۴۷۳ و الطبعة الجديدة ۸؍۲۳۷و سنده صحيح ]
”ابو حنیفہ نے فرمایا : میں نے عطاء (بن ابی رباح، تابعی) سے زیادہ افضل کوئی (انسان ) نہیں دیکھا اور میں تمہیں عام طور پر جو حدیثیں بیان کرتا ہوں وہ غلط ہوتی ہیں۔ “
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ [الأسانيد الصحيحة فى أخبار الإمام أبى حنيفه قلمي ص۲۹۰ ]
عبداللہ بن محمد بن عبدالعزیز البغوی مطلقاً ثقہ ہیں ( سیر أ علام النبلاء ۱۴؍۴۵۵) جمہور محدثین نے انہیں ثقہ قرار دیا ہے۔
(الأسانید الصحیحہ ص ۱۲۴)ان پر سلیمانی و ابن عدی کی جرح مردود ہے۔ محمود بن غیلان ثقہ ہیں(تقریب التہذیب: ۲۵۱۶) ابو عبدالرحمن عبداللہ بن یزید المقرئی ثقہ فاضل ہیں۔ [تقريب التهذيب: ۳۷۱۵ ]
اس روایت کو خطیب بغدادی نے بھی عبداللہ بن محمد البغوی سے روایت کر رکھا ہے۔ [تاريخ بغداد ۱۳؍۴۶۵و سنده صحيح ]
عبداللہ بن محمد البغوی دوسری روایت میں فرماتے ہیں کہ:
حدثنا ابن المقرئي: نا أبى قال: سمعت أبا حنيفة يقول: مارأيت أفضل من عطاء و عامة ما (أ) حدثكم به خطأ [مسند على بن الجعد۲؍۷۷۷ح۲۰۶۲ ، دوسرا نسخه ۱۹۷۸و سنده صحيح ]
اس روایت کی سند بھی صحیح ہے۔
محمد بن عبداللہ بن یزید المقرئی ثقہ ہے۔ [التقريب: ۶۰۵۴]
عبد اللہ بن یزید المقرئی ثقہ فاضل ہے جیسا کہ ابھی گزرا ہے۔ ابو یحیی عبدالحمید بن عبدالرحمن الحمانی فرماتے ہیں کہ :
سمعت أبا حنيفة يقول: ما رأيت أحدا أكذب من جابر الجعفي ولا أفضل من عطاء بن أبى رباح [العلل الصغير للترمذي ص ۸۹۱ وسنده حسن، مسند على بن الجعد، رواية عبدالله البغوي ۲؍۷۷۷ ح۲۰۶۱، دوسرا نسخه: ۱۹۷۷و سنده حسن، الكامل لا بن عدي ۲؍۵۳۷، دوسرا نسخه ۲؍۳۲۷و سنده حسن، و عنه البيهقي فى كتاب القرأت خلف الإمام ص ۱۳۴ تحت ح ۳۲۱، دوسرا نسخه ص ۱۵۷تحت ح ۳۴۵وسنده حسن ]
”میں نے ابو حنیفہ کو فرماتے ہوئے سنا کہ: میں نے جابر الجعفی سے زیادہ جھوٹا کوئی نہیں دیکھا اور عطاء بن ابی رباح سے زیادہ افضل کوئی نہیں دیکھا۔“

ابو یحیی الحمانی صدوق الحدیث ہے۔ [تحرير تقريب التهذيب ۲؍۳۰۰ت۳۷۷۱] باقی سند بالکل صحیح ہے۔
ان صحیح اسانید سے معلوم ہوا کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ(صحابی رسول ) کو بالکل نہیں دیکھا، ورنہ وہ یہ کبھی نہ فرماتے کہ: میں نے عطاء (تابعی) سے افضل کوئی نہیں دیکھا’۔

یہ بات عام لوگوں کو بھی معلوم ہے کہ ہر صحابی ہر تابعی سے افضل ہوتا ہے۔ جب امام صاحب نے خود اعلان فرما دیا ہے کہ انہوں نے عطاء تابعی سے زیادہ افضل کوئی انسان نہیں دیکھا تو ثابت ہو گیا کہ انہوں نے کسی صحابی کو نہیں دیکھا ہے تفصیل کے لئے محقق اہلِ حدیث مولانا محمد رئیس ندوی حفظہ اللہ کی کتاب اللمحات پڑھ لیں۔

خلاصۃ التحقیق: امام ابو حنیفہ تابعی نہیں ہیں، کسی ایک صحابی سے بھی ان کی ملاقات ثابت نہیں ہے۔ اس سلسلے میں خطیب بغدادی وغیرہ کے اقوال مرجوح و غلط ہیں اور اسماء الرجال کے امام ابو الحسن الدار قطنی کا قول و تحقیق ہی راجح اور صحیح ہے۔

محمد بن عبدالرحمن السخاوی (متوفی ۹۰۲ھ) لکھتے ہیں کہ : ‘‘ وقسم معتدل کأحمد والدار قطنی و ابن عدي’’ اور محدثین کرام کا ایک گروہ معتدل ہے جیسے احمد، دار قطنی اور ابن عدی، یعنی یہ تینوں معتدل تھے۔ [ المتكلمون فى الرجال ص ۱۳۷ ]

حافظ ذہبی فرماتے ہیں کہ: وقسم كالبخاري و أحمد و أبى زرعة و ابن عدي معتدلون منصفون [ذكر من يعتمد قوله فى الجرح و التعديل ص ۱۵۹ ]
اور محدثین کا ایک گروہ مثلاً بخاری، احمدبن حنبل، ابو زرعہ (رازی) اور ابن عدی معتدل و منصف تھے۔

تنبیہ: حافظ ذہبی نے کتاب‘‘ الموقظہ’’ میں امام دار قطنی کو بعض اوقات متساہل قرار دیا ہے۔ [ ص۸۳ ]
یہ قول خطیب بغدادی و عبدالگنی ازدی و قاضی ابو الطیب الطبری و غیر ہم کی توثیق و ثنا کے مقابلے میں ہونے کی وجہ سے مردود ہے۔ دار قطنی، عجلی، ابن خزیمہ اور ابن الجارود کا متساہل ہونا ثابت نہیں ہے۔

اس تحریر کو اب تک 65 بار پڑھا جا چکا ہے۔

Leave a Reply