“کلامي لا ینسخ کلام اللہ” والی روایت موضوع ہے

تحریر : حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ

سوال : ایک روایت میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
كلامي لا ينسخ كلام الله، وكلام الله ينسخ كلامي، وكلام الله ينسخ بعضه بعضا
میرا کلام اللہ کے کلام کو منسوخ نہیں کرتا، اللہ کا کلام میرے کلام کو منسوخ کرتا ہے اور اللہ کے کلام کا بعض اپنے بعض کو منسوخ کرتا ہے۔ [مشكوٰة المصابيح : 195 ] کیا یہ روایت صحیح ہے ؟ تحقیق کر کے جواب دیں۔ جزاکم اللہ خیراً (ایک سائل)
الجواب : مشکوٰۃ میں یہ روایت بحوالہ (سنن) دارقطنی (145/4 ح 4233) مذکور ہے۔
اسے دارقطنی، ابن عدی [الكامل 602/2 دوسرا نسخه 443/2] اور ابن الجوزی [العلل المتناهيه 125/1 ح 190 ] نے جبرون بن واقد : حدثنا سفيان بن عيينة عن أبى الزبير عن جابر کی سند سے روایت کیا ہے۔
ابن عدی نے کہا: منكر ” یہ حدیث منکر ہے۔ “ [نيز ديكهئے ذخيرة الحفاظ : 4406 ]
حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے اس حدیث کے بارے میں کہا: موضوع [ ميزان الاعتدال 388/1 ]
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس فیصلے کو لسان المیزان میں برقرار رکھا ہے۔ [ ديكهئے للسان 94/2 ]
جبرون بن واقد کے بارے میں ذہبی نے کہا: ليس بثقة ” وہ ثقہ نہیں ہے۔“ [ ديوان الضعفاء و المتروكين : 722، المغني فى الضعفاء : 1089 ]
اور کہا: متهم فإنه روي بقلة حياء… ” یہ (وضعِ حدیث کے ساتھ) متہم ہے کیونکہ اس نے (یہ روایت ) بے حیائی سے بیان کی…۔ “ [ميزان الاعتدال 387، 388/1 ]
متهم سے مراد متهم بالوضع ہے۔ [ الشكف الحثيث عمن رمي بوضع الحديث ص 122 ]
کسی ایک محدث نے بھی اس راوی کی توثیق نہیں کی ہے۔
خلاصہ التحقیق : یہ روایت جبرون بن واقد کی وجہ سے موضوع ہے۔
وما علينا إلا البلاغ
(10 ربیع الثانی 1427؁ھ)

 

یہ تحریر اب تک 12 لوگ پڑھ چکے ہیں، جبکہ صرف آج 1 لوگوں نے یہ تحریر پڑھی۔

Leave a Reply