کاہنوں اور نجومیوں کے پاس جانا کیسا ہے؟

 فتویٰ : سابق مفتی اعظم سعودی عرب شیخ ابن باز رحمہ اللہ

سوال : میرے والد صاحب عرصہ دراز سے نفسیاتی مریض ہیں، اس دوران کئی بار ہسپتال سے بھی رجوع کیا گیا۔ لیکن بعض عزیزوں نے مشورہ دیا کہ فلاں عورت سے رابطہ قائم کریں وہ ایسے امراض کا علاج کر سکتی ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ آپ اسے صرف مریض کا نام بتائیں وہ مکمل تشخیص کے بعد علاج تجویز کر دے گی۔ کیا ہمارے لئے ایسی عورت کے پاس جانا جائز ہے ؟
جواب : اس عورت اور اس جیسی (دوسری) عورتوں کے پاس جانا اور ان کی تصدیق کرنا جائز نہیں ہے۔ کیونکہ ان کا تعلق ان کاہنوں اور نجومیوں سے ہے جو علاج کے لئے جنوں سے مدد لیتے اور علم غیب کا دعویٰ کرتے ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :
من أتى عرافا فسأله عن شيىء لم تقبل له صلوة أربعين ليلة [صحيح مسلم و مسند احمد]
”جو شخص کسی نجومی کے پاس آئے اور اس سے کسی چیز کے بارے میں دریافت کرے تو چالیس دن تک اس کی نماز قبول نہیں ہوتی۔ “
آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کا ارشاد گرامی ہے :
من أتى عرافا أو كاهنا فصدقه بما يقول فقد كفر بما أنزل على محمد صلى الله عليه وسلم [سنن أربعة، مستدرك حاكم، مسند بزار، المعجم الأوسط]
”جو شخص کسی کاہن یا نجومی کے پاس آئے اور اس کی بات کی تصدیق کرے تو اس نے اس شریعت کا انکار کیا جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کی گئی۔ “
اس مفہوم کی کئی ایک احادیث موجود ہیں۔ لہٰذا ایسے لوگوں اور ان کے پاس حاضر ہونے والوں کا انکار واجب ہے۔ ایسے لوگوں سے سوال کرنا اور ان کی تصدیق کرنا بھی ناجائز ہے۔ ایسے لوگوں کا معاملہ حکمرانوں کے سامنے پیش کرنا چاہیے، تاکہ وہ اپنے اعمال کی سزا پا سکیں۔ ایسے لوگوں کو یوں کھلا چھوڑ دینا اسلامی معاشرے کے لئے نقصان دہ ہونے کے علاوہ ناواقف اور سادہ لوح لوگوں کو دھوکہ دہی کا موجب ہے۔ یہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
من رأى منكم منكرا فليغيره بيده، فإن لم يستطع فبلسانه، فإن لم يستطع فبقلبه، وذلك أضعف الإيمان [صحيح مسلم]
”تم میں سے جو شخص برائی کو دیکھے تو اسے اپنے ہاتھ سے مٹا دے، اگر اس کی طاقت نہ ہو تو زبان سے روکے، اگر اس کی بھی طاقت نہ ہو تو اپنے دل سے اسے برا سمجھے اور یہ کمزور ترین ایمان ہے۔ “
اس میں کوئی شک نہیں کہ ایسے لوگوں کا معاملہ حکام بالا جیسے کہ گورنر، ادارہ امر بالمعروف یا عدالت کے سامنے پیش کرنا زبان سے منع کرنے کے مترادف اور نیکی و تقویٰ میں ایک دوسرے سے تعاون کےضمن میں آتا ہے۔
اللہ تعالیٰ تمام مسلمانوں کو ایسے امور کی انجام دہی کی توفیق عطا فرمائے جن میں ان کی بہتری اور ہر طرح کی برائی سے سلامتی کی ضمانت ہو (آمین)۔

 

یہ تحریر اب تک 26 لوگ پڑھ چکے ہیں، جبکہ صرف آج 1 لوگوں نے یہ تحریر پڑھی۔

Leave a Reply