پگڑ ی پر مسح سنت ہے ! 

                          تحریر: غلام مصطفےٰ ظہیر امن پوری

 پیشانی پر ہاتھ پھیرے بغیر صرف پگڑی پر مسح کرنا سنت رسول اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ثابت ہے ۔ بعض لوگ اس سے انکاری ہیں اور ان کا دعویٰ ہے کہ پگڑی پر مسح نہیں ہو سکتا۔ آئیے دونوں طرف کے دلائل کا بالاستیعاب جائزہ لیتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ اہل حق کون ہے؟

پہلے ہم اثباتی دلائل اور ان پر وارد ہونے والے اعتراضات کا تجزیہ کرتے ہیں:

دلیل نمبر ۱:

[arabic-font]

         عن عمرو بن أمیہ قال : رأیت النبی صلی اللہ علیہ وسلم یمسح علی عمامتہ و خفیہ. 

[/arabic-font]

          “سیدنا عمرو بن امیہ ضمری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ۔ آپ نے اپنی پگڑی اور دونوں موزوں پر مسح فرمایا۔ “(صحیح بخاری ح ۲۰۵)

          امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ (۲۲۳۔ ۳۱۱ ھ ) اس حدیث پر یوں تبویب کرتے ہیں:

[arabic-font]

          باب المرخصۃ فی المسح علی العمامۃ.  

[/arabic-font]

       “پگڑی پر مسح کرنے کی رخصت کا بیان ۔”   (صحیح ابن خزیمہ : ۹۱/۱، ح : ۱۸۱)

          امام ابن حبان رحمہ اللہ (م ۳۴۵ھ) فرماتے ہیں:

[arabic-font]

       ذکر الإباحۃ للمرء أن یمسح علی عمامتہ کما کان یمسح علی عمامتہ، کما کان یمسح علی خفیہ علی خفیہ سواء دون الناصیۃ.

[/arabic-font]

“اس بات کا بیان کہ آدمی کے لیے صرف اپنی پگڑی پر مسح کرنا بھی جائز ہے ، اگرچہ پیشانی پر مسح نہ بھی کرے، جیسا کہ موزوں پر مسح جائز ہے۔ (صحیح ابن حبان ۱۷۳/۴، ح ۱۳۴۳)

امام ابومحمد عبداللہ بن عبدالرحمن الدارمی رحمہ اللہ (۱۸۱۔ ۲۵۵ھ) نے یوں باب بندی کی ہے:

[arabic-font]

باب المسح علی العمامۃ.   

[/arabic-font]

        پگڑی پر مسح کا بیان۔

 نیز ان سے پوچھا گیا کہ آپ اس حدیث پر عمل کرتے ہیں ؟ تو آپ نے فرمایا جی ہاں ! اللہ کی قسم ۔ ( مسند الدارمی ۵۵۴/۱، ح ۷۳۷۰)

دلیل نمبر ۲:

[arabic-font]

        عن بلال : أن رسول اللہ ﷺ مسح علی الخفین و الخمار. 

[/arabic-font]

          “سیدنا بلال رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے اپنے موزوں اور پگڑی پر مسح فرمایا ۔” ( صحیح مسلم ح ۲۷۵)

امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ نے اس حدیث ( صحیح مسلم ۲۷۵) سے بھی صرف پگڑی پر مسح کرنا ثابت کیا ہے۔ ( صحیح ابن خزیمہ  ۹۱/۱، ح ۱۸۰ )

امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

[arabic-font]

     باب ماجاء فی المسح علی العمامۃ.

[/arabic-font]

“ان روایات کا بیان جو پگڑی پر مسح کے بارے میں وارد ہوئی ہیں۔” (جامع ترمذی ح ۱۰۱)

دلیل نمبر ۳:

[arabic-font]

        عن ثوبان قال: بعث رسول اللہ ﷺ سریۃ، فأصابھم البرد، فلما قدموا علی رسول اللہ ﷺ أمرھم أن یمسحوا علی الغصائب و التساخین. 

[/arabic-font]

          “سیدنا ثوبان  سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے ایک لشکر بھیجا، ان کو سردی لگی، جب وہ رسول اکرم ﷺ کے پاس آئے تو آپ ﷺ  نے ان کو پگڑیوں اور موزوں پر مسح کرنے کا حکم دیا۔ ” (مسند الامام احمد : ۲۷۷/۵، سنن أبی داود : ۱۴۶، وسندہ صحیح)

          اس حدیث کو امام حاکم رحمہ اللہ (۱۶۹/۱) نے “صحیح” کہا ہے اور حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے ۔ نیز جناب تقی عثمانی دیوبندی صآحب نے بھی اس کی سند کے “صحیح” ہونے کا اعتراف کیا ہے ۔        (درس ترمذی از تقی عثمانی : ۳۳۷/۱)

دلیل نمبر ۴:

[arabic-font]

        عن المغیرۃ بن شعبۃ، عن أبیہ قال : توضأالنبی ﷺ، ومسح علی الخفین، والعمامۃ. 

[/arabic-font]

          “سیدنا مغیرہ بن شعبہ  بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے وضو فرمایا اور اپنےموزوں اور پگڑی پر مسح کیا ۔ “

  (مسندالامام احمد: ۲۴۸/۴، جامع الترمذی : ۱۰۰)

          اس حدیث کو امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ (۱۵۱۴) اور امام ابن حبا ن رحمہ اللہ (۱۳۴۷) نے “صحیح ” کہاہے ۔ نیز جناب تقی عثمانی صاحب نے اس کی سند کے “صحیح” ہونے کا اعتراف کیا ہے ۔  (درس ترمذی از تقی : ۳۳۷/۱)

امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

[arabic-font]

  حدیث المغیرۃ بن شعبۃ حدیث حسن صحیح ، وھو قول غیر واحد من أھل من أصحاب النبی ﷺ، منھم أبوبکر ، و عمر، وأنس، وبہ یقول الأوزاعی، وأحمد، وإسحاق، قالوا: یمسح علی العمامۃ. 

[/arabic-font]

          “سیدنا مغیرہ بن شعبہ  کی حدیث حسن صحیح ہے ۔ بہت سے اہل علم صحابہ کرام کا یہ قول ہے ۔ ان میں سے سیدنا ابوبکر صدیق، سیدنا عمر فاروق اور سیدنا انس رضی اللہ عنہم اجمعین بھی ہیں۔ امام اوزاعی ، امام احمد بن حنبل اور امام اسحاق بن راہویہ رحمہ اللہ کا بھی یہی مذہب ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ پگڑی پر مسح کیا جاسکتا ہے ۔”

  (جامع الترمذی : تحت حدیث : ۱۰۰)

دلیل نمبر ۵:

[arabic-font]

        عن عاصم قال: رایت انس بن مالک بال، ثم توضا، ومسح علی عمامتہ، وخفیہ. 

[/arabic-font]

          “عاصم رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں : میں نے دیکھا کہ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے پیشاب کیا ، پھر وضو کیاا ور اپنی پگڑی پر اور موزوں پر مسح کیا ۔” (مصنف ابن ابی شیبہ : ۱۸۲/۱، مصنف عبدالرزاق : ۱۸۹/۱، وسندہ صحیح)

دلیل نمبر ۶:

[arabic-font]

         عن ابی غالب قال : رأیت أبا أمامۃ یمسح علی العمامۃ.

[/arabic-font]

          “ابو غالب رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے سیدنا ابوامامہ کو پگڑی پر مسح کرتے ہوئے دیکھا ۔ “

(مصنف ابن ابی شیبہ : ۲۱/۱، الاوسط لا بن المنذر : ۴۶۸/۱، وسندہ صحیح)

امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:  وسمعت الجارود بن معاذ یقول: سمعت وکیع بن الجراح یقول: إن المسح علی العمامۃ یجزئہ الاثر.

          “میں نے جارود بن معاذ کو سنا، وہ بیان کررہے تھے کہ میں نے وکیع بن جراح رحمہ اللہ کو یہ کہتے ہوئے سنا : پگڑی پر مسح کو حدیث نبوی ﷺ جائز قرار دیتی ہے ۔ ”          (جامع الترمذی ، تحت حدیث : ۱۱۰، وسندہ صحیح إلی الامام وکیع)

مخالفین کے اعتراضات

          اب ان احادیث پر احناف کے بے بنیاد اعتراضات اور ان کے جوابات ملاحظہ فرمائیں:

۱:      معلول ہونے کا اعتراض:

     جناب محمد سرفراز خان صفدر دیوبندی حیاتی صاحب (م ۱۴۳۰ھ) لکھتے ہیں:     “ابن رشد رحمہ اللہ ہدایۃ جلد ۱ص ۱۳ میں لکھتے ہیں کہ ابن عبدالبر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ روایت (مغیرہ بن شعبہ) مسح علی العمامۃ کا ٹکڑا معلول ہے ۔ اس کی معلول ہونے کی وجہ فتح الباری ج ۱ص ۲۴۷ عمدۃ القاری ج ۱ص ۸۵۴، نیل الاوطار جلد ۱ ص ۱۸۲ میں لکھی ہے کہ محدث  اصیلی نے کہا ہے کہ لفظ عمامۃ  من خطأ الاوزاعی (عمامہ کا لفظ اوزاعی کی غلطی )ہے۔ ” (خزائن السنن از صفدر : ۲۰۸/۱)

تجزیہ:

   (۱)      حافظ ابن عبدالبر رحمہ اللہ کی بات بے دلیل ہونے کی وجہ سے ناقابل التفات ہے ۔

(۲)      فتح الباری میں جہاں اصیلی کی بات نقل کی گئی ہے ، وہاں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس کا رد بھی کیا ہے جو صفدر صاحب کو نظر نہیں آیا اور انہوں نے صرف اعتراض نقل کرنے میں جلدی دکھائی ہے ۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

[arabic-font]

    وأغرب الأصیلی فیما حکاہ ابن بطال، فقال: ذکر العمامۃ فی ھذا الحدیث من خطا الاوزاعی…. وأما متابعۃ معمر فلیس فیھا ذکر العمامۃ….. وقد ذکرنا أن ابن مندۃ أخرجہ من طریق معمر باثبات ذکر الإمامۃ فیہ، وعلی تقدیر تفرد الأوزاعی بذکرھا لا یستلزم ذلک تخطئتہ، لأنھا تکون زیادۃ من ثقۃ، حافظ، غیر منافیۃ لروایۃ رفقتۃ، فتقبل، ولا توکن شاذۃ، ولا معنی لرد الروایات الصحیحۃ بھذۃ التعلیلات الواھیۃ.

[/arabic-font]

          “ابن بطال نے اصیلی سے جو اعتراض نقل کیا ہے ، اس میں اصیلی نے بڑ ی عجیب بات کی ہے ، انہوں نے کہا ہے کہ اس حدیث میں پگڑی کا ذکر اوزاعی کی خطا ہے ۔۔۔ معمر نے جو متابعت کی ہے ، اس میں پگڑی کا ذکر نہیں۔۔۔۔ حالانکہ ہم بیان کرچکے ہیں کہ ابن مندہ رحمہ اللہ کی معمر کی سند سے جو روایت بیان کی ہے  ،اس میں پگڑی کا ذکر موجود نہیں ہے ۔ اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ اوزاعی ان الفاظ کے بیان کرنے میں اکیلے ہیں تو پھر بھی اس سے ان کی غلطی لازم نہیں آئے گی، کیونکہ یہ  ثقہ و حافظ راوی کی ایسی زیادت ہے جو دوسرے راویوں کے خلاف نہیں ، لہٰذا مقبول ہوگی، شاذ نہیں ہوگی۔ ایسے بودے اعتراضات کرکے صحیح روایات کو رد کرنا فضول ہے ۔ ”       (فتح الباری لابن حجر : ۳۰۸/۱۔ ۳۰۹)

(۳)     خود صفدری صاحب نے اقرار کیا ہے کہ ترمذی کی روایت میں اوزاعی موجود ہی نہیں ، وہ خود لکھتے ہیں : “لیکن روایتِ ترمذی میں اوزاعی  رحمہ اللہ کا ذکر نہیں۔”

لیکن افسوس کی بات ہے کہ یہ لوگ جانتے بوجھتے صحیح احادیث کے خلاف ایسے بے وقعت اعتراضات نقل کرتے رہتے ہیں ۔ بھلا ایسی باتیں کتابوں میں بھرنے کا کیا فائدہ ہے ؟

          (۴)     معلول روایت تو “ضعیف” ہوتی ہے  ، جبکہ متقدمین ائمہ کرام میں سے ابن خزیمہ رحمہ اللہ،  امام ابن حبان رحمہ اللہ اور امام ترمذی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو “صحیح” کہا ہے ۔ پھر ہم ذکر کرچکے ہیں کہ جناب تقی عثمانی دیوبندی صاحب نے بھی اس کی سند کو “صحیح” تسلیم کیا ہے ۔

          (۵)      صفدر صاحب نے سیدنا مغیرہ بن شعبہ  کی حدیث میں پگڑی کے لفظ کے معلول ہونے کا تو اعتراض کیا ہے، لیکن ہم سیدنا بلال ، سیدنا عمرو بن امیہ اور سیدنا ثوبان رضی اللہ عنہم اجمعین سے بھی نبی اکرم ﷺ سے پگڑی پر مسح کا عمل اور حکم ثابت کر چکے ہیں۔ نیز صحابہ کرام کا عمل بھی پیش کیا جاچکا ہے۔ ان سب چیزوں کی موجودگی میں بھلا اس اعتراض کی کیا حیثیت رہ گئی ہے ؟

منسوخ ہونے کا دعویٰ:

               جناب تقی عثمانی دیوبندی صاحب کہتے ہیں : “امام محمد رحمہ اللہ نے مؤطا میں ایک اور طریقہ سے مسح علی العمامہ کی روایات کا جواب دیا ہے ۔وہ لکھتے ہیں: بلغنا أن المسح علی العمامۃ کان، فترک.    مولانا عبدالحئی لکھنوی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ امام محمد رحمہ اللہ کے بلاغات مسند ہیں۔ اگر یہ بات صحیح ہو تو بات بالکل ہی صاف ہوجاتی ہے اور مسح علی العمامہ کی احادیث کا بہترین جواب بن جاتا ہے  کہ مسح علی العمامہ منسوخ ہوچکا ہے ۔ ”   (درس ترمذی از تقی : ۳۳/۱، نیز دیکھیں : خزائن السنن از صفدر: ۲۰۸/۱، اعلاء السنن از ظفر تھانوی: ۵۹/۱)

تجزیہ:

۱:        نسخ کے دعویٰ کی کیا دلیل ہے؟ محض تقلید ناسدید ہی اس بے دلیل دعویٰ کا سبب بنی ہے ، کیونکہ جب اس میں کوئی تاویل کارگر ہوتی نظر نہیں آئی تو نسخ کا دعویٰ کردیا گیا ہے اور یہی مقلدین کا وطیرہ ہے ، جیساکہ شیخ الاسلام ثانی، عالم ربانی، علامہ ابن القیم رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

[arabic-font]

وقد اتخذ کثیر من الناس دعوی النسخ و الإجماع سلما إلی ابطال کثیر من السنن الثابتہ عن رسول اللہ، وھذا لیس بھین، ولا تترک لرسول اللہ سنۃ صحیحۃ ابدا بدعوی الإجماع، ولا دعوی النسخ إلی ان یوجد ناسخ صحیح صریح متأخر، نقلتہ الأئمۃ و حفظتہ، إذ محال علی الأمۃ ان تضیع الناسخ الذی یلزمھا حفظہ، وتحفظ المنسوخ الذی قد بطل العمل بہ، ولم یبق من الدین، وکثیر المولدۃ المتعصبین إذا راوا حدیثا یخالف مذھبھم یتلقونہ بالتاویل، وحملہ علی خلاف ظاھرہ ما وجدوا إلیہ سبیلا، فإذا جاءھم من ذلک ما یغلبھم فزعوا إلی دعوی الإجماع علی خلافہ، فإن راوا من الخلاف مالا یمکنھم من دعوی الإجماع فزعوا إلی القول بأنہ منسوخ، ولیست ھذہ طریق أئمۃ الإسلام، بل أئمۃ الإسلام کلھم علی خلاف ھذا الطریق، وانھم اذا وجدوا لرسول اللہ سنۃ صحیحۃ صریحۃ لم یبطلوھا بتاویل، ولا دعوی إجماع، ولا نسخ، والشافعی، واحمد بن أعظم الناس إنکارا لذلک، وباللہ التوفیق.

[/arabic-font]

          “بہت سے لوگوں نے نسخ اور اجماع کے دعویٰ کو رسول اکرم ﷺ کی بہت ساری صحیح ثابت سنتوں سے جان چھڑانے کے لئے آڑ بنایا ہوا ہے ۔ یہ کوئی کھیل تماشا نہیں۔ رسول اللہ ﷺ کی کسی ثابت شدہ سنت کو کبھی بھی محض اجماع اور نسخ کا دعویٰ کی وجہ سے نہیں چھوڑا جاسکتا ، تاآنکہ کوئی صحیح، صریح او ربعد والی ناسخ حدیث نہ مل جائے جسے ائمہ دین نے نقل اور محفوظ کیا ہوا ہے ۔ یہ ممکن نہیں کہ امت مسلمہ اس ناسخ حدیث کو ضائع کر دے ، جس کی حفاظت ضروری تھی اور اس منسوخ حدیث کو محفوظ کرتی پھرے، جس پر عمل ختم ہوگیا ہے اور وہ دین کا حصہ نہیں رہی ۔ بہت سے بعد میں آنے والے متعصب لوگوں کی یہ عادت ہے کہ جب وہ کسی ایسی حدیث کو دیکھتے ہیں جو ان کے مذہب کے خلاف ہو تو وہ اس میں تاویل کرنے کی ٹھانتے ہیں اور جہاں تک ممکن نظر آئے ، اسے غیر ظاہر معنی پر محمول کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ جب اس طرف سے بھی کوئی زبردست دلیل آجائے تو اس کے خلاف اجماع کا دعویٰ کرنے کی طرف لپکتے ہیں۔ جب اس طرح بھی کوئی ایسا اختلاف دیکھیں ، جس کی موجودگی میں دعویٔ اجماع ممکن نہ رہے تو اسے جلدی سے منسوخ کہہ دیتے ہیں۔ ائمہ اسلام کا یہ طریقہ نہ تھا، بلکہ تمام ائمہ دین اس کے خلاف تھے ۔ وہ جب رسول اللہ ﷺ کی کوئی صحیح ثابت سنت دیکھ لیتے تو اسے کوئی تاویل، دعویٔ اجماع اور دعویٔ نسخ کے ساتھ نہیں چھوڑتے تھے ۔ امام شافعی رحمہ اللہ اور امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ اس چیز کو بہت زیادہ برا کہتے تھے ۔ ”         (الصلاۃ وحکم تارکھا لابن قیم الجوزیۃ: ص ۱۴۳، طبع بیروت)

          اگر کسی حنفی بھائی کے پاس اس دعویٔ نسخ کی کوئی صحیح و صریح دلیل ہو تو اپنے غیر متعصب ہونے کی دلیل کے طورپر پیش کرے۔

۲:       رسولِ اکرم ﷺ کی وفات کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کا اس پر عمل اس دعویٔ نسخ کی قلعی کھول دیتا ہے ، اگر یہ عمل منسوخ ہوتا تو سب سے پہلے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کو معلوم ہوتا ۔

          پھر تابعین و تبع تابعین اور ائمہ دین میں سے بھی کسی نے نسخ کا دعویٰ نہیں کیا ۔ صرف جامد مقلدین کو یہ “الہام” ہوا ہے ۔

۳:       جناب عبدالحئی لکھنوی حنفی صاحب کے کہنے سے بلاغات محمد بن حسن متصل نہیں بن جائیں گی ، بلکہ بے سند ہونے کی وجہ سے علمی میدان میں وہ بے اصل اور باطل ہی ہیں۔

۴:       محدثین کے راجح قول کے مطابق تو امام مالک رحمہ اللہ اور امام زہری رحمہ اللہ کی بلاغات بھی تحقیق کی محتاج ہیں۔ کہاں ان ثقہ و ثبت ائمہ کی بلاغات ناقابل حجت اور کہاں محمد بن حسن شیبانی جیسے محدثین کے ہاں “ضعیف” راوی کے بلاغات سے احتجاج ۔

۵:       محمد بن حسن شیبانی ، محدثین اور ائمہ جرح و تعدیل کے ہاں “متروک” راوی ہیں ، لہٰذا ان کی بلاغات تو کجا ، ان کی باسند روایات کا بھی کوئی اعتبار نہیں۔

۶:       خود جناب تقی عثمانی دیوبندی صاحب کو بھی اس بات پر یقین نہیں جیساکہ ان کے الفاظ “اگر یہ بات صحیح ہو تو” سے صاف ظاہر ہے ، لیکن نہ جانے صحیح احادیث کے خلاف ایسی باتیں کیوں پیش کردی جاتی ہیں؟

ایک باطل تاویل:

          جناب محمد سرفراز خان صفدر حیاتی دیوبندی صاحب لکھتے ہیں: “عمامہ پر مسح مقدارِ ناصیہ (پیشانی پر مسح) کے بعد ہے ، چنانچہ مسلم جلد ۱ ص ۱۳۴ اور سنن کبریٰ بیہقی ج ۱ص ۵۸ میں ہے :  ومسح بناصیتا و مسح علی العمامہ او ر ترمذی ج ۱ ص ۱۵ میں ہے  : أنہ مسح علی ناصیتہ و عمامتہ. (آپﷺ نے اپنی پیشانی اور پگڑی پر مسح کیا )۔” (خزائن السنن از صفدر ۲۰۸/۱، درس ترمذی از تقی عثمانی :۳۳۱/۱، فیض الباری از کشمیری : ۳۱۴/۱)

تجزیہ:

۱:        نبی اکرم ﷺ نے زندگی میں صرف ایک دفعہ سر کا مسح نہیں  کیا، بلکہ بہت دفعہ کیا ہے ۔ سیدنا مغیرہ بن شعبہ  نے جتنے بھی طریقے رسول اکرم ﷺ سے دیکھے ان کو بیان کردیا۔  صرف پورے سر پر مسح دیکھا تو اسے ذکر کیا ، جیساکہ صحیح البخاری (۲۹۱۸، ۵۷۹۸، ۵۷۹۹) میں ہے اور صرف پگڑی پر مسح دیکھا تو اسے بھی بیان کیا ، جیسا کہ ہماری ذکر کردہ روایت ترمذی میں ہے اور پگڑی اور پیشانی دونوں پر مسح کیا تو اسے بھی بیان کیا جیساکہ صفدر صاحب کی ذکر کردہ روایت صحیح مسلم میں ہے ۔

          لہذا تینوں صورتیں سنت سے ثابت اور جائز ہیں ۔ کسی ایک کو لے کر باقی کو چھوڑ دینا کوئی علمی کارنامہ نہیں ۔ کل کو اگر کوئی شخص پگڑی کے مسح کا بالکل ہی انکار کر دے اور کہہ دے کہ پگڑی کا مسح کسی صورت نہیں ہوسکتا اور اسے منسوخ کہہ دے یا ایسی  باطل تاویلیں کرنے لگے توکیا  اس کی بات بھی مان لی جائے گی؟

۲:       صفدر صاحب نے سیدنا مغیرہ بن شعبہ  کی روایت کی بات کی ہے ، حالانکہ ہم نے سیدنا عمرو بن امیہ، سیدنا بلال اور سیدنا ثوبان رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کی احادیث بھی پیش کی ہیں ، جن سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ نے صرف پگڑی پر بھی مسح کیا ہے  ۔

۳:       حدیث کا فہم محدثین سے لیا جائے گا یا مقلدین سے ؟ محدثین کرام جن کی پوری زندگانیاں  خدمتِ حدیث میں صرف ہوئیں ، انہوں نے تو صراحت کی ہے کہ ان احادیث کی وجہ سے صرف پگڑی پر مسح کرنا درست ہے  ، جیساکہ امام ابن حبان رحمہ اللہ (م ۳۵۴ھ) فرماتے ہیں :

[arabic-font]

ومسح بناصیۃ، وفوق العمامۃ، قدتوھم من لم یحکم صناعۃ النعلم أن المسح علی العمامۃ دون الناصیۃ غیر جائز، ویجعل خبر عمرو بن أمیہ مجملا، وخبر مغیرۃ الذی ذکرناہ مفسرا لہ أن مسح النبی ﷺ علی العمامۃ کان ذلک مع الناصیۃ فوق المسح علی الناصیۃ دون العمامۃ، إذ الناصیۃ من الرأس، ولیس بحمداللہ ومنہ کذلک، بل مسح النبی ﷺ علی رأسہ فی وضونہ،ومسح علی عمامتہ دون الناصیۃ، ومسح علی ناصیۃ و عمامتہ ثلاث مرار فی ثلاثۃ مواضع مختلفۃ، فکل سنۃ یستمعل من غیر أن یکون استعمال أحدھما حتما، واستعمال الآخر مکروھا.

[/arabic-font]

          “آپﷺ کے پیشانی اور پگڑی پر مسح کرنے کے الفاظ علمی میدان میں ناپختہ کار لوگوں کو یہ وہم دلاتے ہیں کہ پیشانی پر مسح کیے بغیر پگڑی پر مسح ناجائز ہے ۔ وہ عمرو بن امیہ  کی حدیث کو مجمل قرار دے کر مغیرہ بن شعبہ کی مذکورہ  حدیث کو اس کی مفسر قرار دیتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کا پگڑی پر مسح، پیشانی پر مسح کے بعد زائد تھا، کیونکہ پیشانی سر کاحصہ ہے ، لیکن اللہ کے فضل و کرم سے بات ایسے نہیں ، بلکہ نبی اکرم ﷺ نے وضو میں اپنے پورے سر کا بھی مسح کیا ، پیشانی پر مسح کیے بغیر صرف پگڑی پر بھی مسح کیا اور پیشانی اور پگڑی دونوں پر بھی مسح کیا ۔ یہ تین الگ الگ مواقع اور مقامات تھے ، لہٰذا ہر طریقہ سنت ہے ، اس پر عمل کیا جائے گا ۔ کسی ایک طریقے پر عمل کو ضرور ی قرار دے کر دوسرے کو مکروہ نہیں کہا جاسکتا۔” (صحیح ابن حبان : ۱۷۷/۴، تحت حدیث: ۱۳۴۶)

۴:       جناب تقی عثمانی صاحب کے بقول : “صحیح یہ ہے کہ حنفیہ اور مالکیہ کے نزدیک سنتِ استیعاب بھی مسح علی العمامہ سے ادا نہیں ہوتی ۔ ” (درس ترمذی از تقی : ۳۳۷/۱)

          اگر یہ بات ایسے ہی ہے کہ پگڑی  پر مسح ایک زائد چیز ہے اور اس سے سنت استیعاب ادا نہیں ہوتی تو نبی اکرم ﷺکے اس فعل کے بارے میں کیا خیال ہے ؟

۵:       نبی اکرم ﷺکے بعد صحابہ کرام کابھی صرف پگڑی پر مسح کرنا اس بات کی بین دلیل ہے کہ یہ آپ ﷺ کی پیاری سنت ہے ۔

ایک ترکیبی مغالطہ :

      جناب محمد سرفراز خان صفدر دیوبندی صاحب لکھتے ہیں: “مولانا عثمانی فتح الملہم ج ۱ص ۳۳۴میں لکھتے ہیں کہ صاحب روح المعانی نے جلد ۲۵ ص ۱۵۲ میں  وأضلہ اللہ علی علم کو حال بنایا ہے فاعل سے بھی اور مفعول سے بھی تو اس حدیث میں بھی علی العمامہ کو حال بنائیں ۔ اس لحاظ سے معنی یہ ہوگا کہ آپ ﷺ نے مسح کیا  حال کونہ متعمما  آپ اس وقت دستار پہنے ہوئے تھے۔ پھر مسح کہاں کیا ؟ جہاں کیا جاتا ہے ، یعنی سر پر مسح کیا، چنانچہ ابوداؤد جلد ۱ص ۱۹میں روایت ہے :

[arabic-font]

فادخل یدیہ من تحت العمامۃ، فمسح مقدم رأسہ، ولم ینقض العمامۃ. انتھٰی،

[/arabic-font]

واخرجہ البیھقی فی ج ۱ص ۶۱.(وابن ماجہ ص ۴۱، ومستدرک:ج ۱ ص ۱۶۹)

مسح سر پر بغیر پگڑی اتارے کرلیا۔”

تجزیہ:  

۱:        اب ان لوگوں کا اصل چہرہ سامنے آیا ہے  کہ دارصل وہ پگڑی پر مسح کا سرے سے ہی انکار کرنا چاہتے ہیں۔خود صفدر صاحب کہہ رہے ہیں کہ علی العمامۃ کو فاعل سے حال بنایا جائے تو مطلب یہ ہوگا کہ آپﷺ نے مسح سر پر کیا۔ پگڑی کو کھولا نہیں ، بلکہ نیچے سے ہی مسح کرلیا۔ جب دیوبندی اس بات کو حق سمجھتے ہیں تو مذکورہ باطل تاویلات و دعویٰ جات  کی کیا تُک ہے ؟

۲:       محدثین کرام میں سے کسی نے بھی یہ تاویل نہیں کی ، لہٰذا عثمانی صاحب کا فہم سلف صالحین کے فہم کے مقابلے میں قابل التفات ہی نہیں۔

۳:       صاحب روح المعانی نے واقعی وأضلہ اللہ علی علم میں فاعل سے حال بنایا ہوگا، لیکن اس ترکیب سےصفدر صاحب کا مقصد حاصل نہیں ہوگا۔ صحیح بخاری کے الفاظ ہیں:

[arabic-font]

          رأیت النبی ﷺ یمسح علی عمامتہ وخفیہ.

[/arabic-font]

          “میں نے نبی اکرم ﷺ کو اپنے عمامہ اور موزوں پر مسح کرتے ہوئے دیکھا۔”

          اگر صفدر صاحب اور ان کے پیشوا عثمانی صاحب کے طریقے کے مطابق یہاں بھی حال بنائیں تو عبارت یوں ہوگی  یمسح حال کونہ متعمما ولا بسا خفیہ مسح کیا تواس وقت آپ دستار اور موزے پہنے ہوئے تھے ۔ تو کیا یہاں موزوں کے مسح کا انکار کر دیا جائے گا ۔ اگر نہیں توپھر اسی  ترکیب کے تحت پگڑی کے مسح کا انکار کیوں؟

          ظاہر بات ہے کہ جس طرح موزے پہنے ہوئے ان کے اوپر مسح کرلیا، اسی طرح پگڑی پہنے ہوئے اس کے اوپر مسح کرلیا، نیز پگڑیوں پر مسح کے بارے میں رسول اکرم ﷺ کا جوحکم ہم نے ذکر کیا ہے ، اس میں تو یہ تاویل کارگر نہیں ہوسکتی۔

۴:       سنن ابی داؤد کی جس روایت کا سہارا لے کر یہ تاویل کی گئی ہے ، وہ روایت ناقابل استدلال ہے ۔ اس پر مفصل بحث مخالفین کے دلائل میں آئے گی ۔ ان شاء اللہ !

۵:       جو صحابہ کرام پگڑی پر مسح کے قائل و فاعل تھے ، ان کو تو یہ بات سمجھ نہ آئی ۔ کیا صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین اور محدثین عظام عربی لغت کے فہم سے (معاذ اللہ) عاری تھے کہ کئی صدیوں بعد صفدر صاحب کے ممدوح جناب عثمانی صاحب کو یہ “الہام” ہوگیا ہے ۔

ایک عذر: 

      جناب محمد سرفراز صفدر دیوبندی صاحب لکھتے ہیں:

          “ہدیۃ المجتنی ص ۴۸ میں ہے کہ امام سرخسی نے مبسوط جلد ۱ص ۱۰۱ میں لکھا ہے کہ اس وقت مسح علی العمامہ کی وجہ سے تھا اور مسئلہ عذر جدا ہے ۔ چنانچہ قاضی ابوبکر ابن الاعرابی، عارضۃ الاحوذی ج ۱ ص ۱۵۳ میں لکھتے ہیں کہ زکام یا سر میں تکلیف تھی جس کی بنا پر آپ ﷺ نے مسح علی العمامہ کیا او رمستدرک حاکم جلد ۱ ص۱۶۹ میں روایت ہے کہ آپﷺ نے ایک لشکر بھیجا ۔ ان میں کچھ زخمی ہوگئے۔ انہوں نے سردی کی شکایت کی تو آپﷺ نے اجازت دی کہ عصائب (عماموں) اور تساخین (موزوں) پر مسح کرلو۔ امام حاکم رحمہ اللہ اور ذہبی رحمہ اللہ دونوں کہتے ہیں صحیح علی شرط مسلم۔ عصائب جمع عصابۃ کی ہے ، بمعنی عمائم اور صراح ص ۵۰۵ میں لکھا ہے کہ تساخین کے معنی ہیں : موزھا، لاواحد لھا من لفظھا یہ دونوں لفظ ابوداؤد ص ۱۹ میں ہیں ۔ ” (خزائن السنن از صفدر : ۲۰۹/۱)

تجزیہ:  

۱:        دیکھا آپ نے کہ پگڑی پر مسح پہلے محتمل تھا، معلول تھا، زائد تھا اور نہ جانے کیا کیا کہا گیا، صفدر صاحب نے ان کی نفی پر پورا زور صرف کیا، لیکن اب فوراً ایک رنگ اور بدل لیا ہے کہ واقعی آپﷺ نے مسح تو پگڑی پر کیا تھا، لیکن۔۔۔

          کیا یہ تضاد بیانی، دلائل سے تہی دستی اور سنت کی مخالفت پر دلیری اور بوکھلاہٹ کا منہ بولتا ثبوت نہیں ہے ۔ کیا دنیا میں کوئی ایسا شخص ہے جو قرآنِ کریم  کی کسی آیت کا انکار کرنا چاہے اور شیطان اسے کوئی نہ کوئی تاویل و توجیہ القاء نہ کرے ؟ ایسے تو ہر شخص اپنی مرضی کا دین بنا سکتا ہے !

۲:       آپﷺ کے پگڑی پر مسح کو عذر پر محمول کرنے کی کوئی دلیل نہیں ۔ کسی صحیح حدیث سے یہ ثابت نہیں کہ آپﷺ نے عذر کی وجہ سے ایسا کیا تھا۔ مدعی دلیل پیش کرے۔

۳:       آپﷺ سے پگڑی پر مسح کے ثبوت میں ایک نہیں ، کئی صحیح احادیث ہم پیش کرچکے ہیں ۔کیا ان سب مواقع پر آپﷺ کو نزلہ، زکام یا سر میں درد تھا؟

۴:       رہا لشکر والوں کو آپﷺ کا پگڑیوں پر مسح کا حکم تو اس میں اجازت عام ہے ۔ کسی صحیح حدیث سے یہ ثابت نہیں کہ آپﷺ نے صرف زخمیوں کو یہ اجازت دی تھی۔

۵:       صحابہ کرام  رضوان اللہ علیہم اجمعین کو اس بات کا علم کیوں نہ ہوا؟ تابعین اور ائمہ دین میں سے بھی کسی نے پگڑی پر مسح کا انکار کرنکے کے لئے بہانہ نہیں ڈھونڈا۔

ایک لغوی اشکال:

جناب ظفر احمد تھانوی دیوبندی صاحب لکھتے ہیں:

[arabic-font]

          اما حدیث ثوبان، فلیس فیہ دلالۃ علی المسح علی العمامۃ صراحۃ، لما فیہ من لفظ العصائب، وھو جمع عصابۃ، یطلق علی کل ما یعصب بہ سواء کان مندیلا أو خرقۃ أو عمامۃ…. فیحتمل أن یراد بھا العمائم أو الخرق المشدودۃ علی الجروح.

[/arabic-font]

          “ثوبان کی حدیث سے صراحتا پگڑی پر مسح کی کوئی دلیل نہیں، کیونکہ عصائب کا لفظ عصابۃ کی جمع ہے اور یہ لفظ ہر اس چیز پر بولا جاتاہے، جو باندھی جائے ۔ خواہ وہ رومال ہو، کپڑے کا ٹکڑا ہو یا عمامہ ہو ۔۔۔۔ لہٰذا یہاں احتمال پیدا ہوگیاہے کہ اس سے مراد پگڑیاں لی جائیں یا زخموں پر باندھنے والی پٹیاں۔”  (اعلاء السنن : ۴۵/۱)

تجزیہ:

۱:        اس کا معنیٰ اگر محتمل ہے تو محدثین کرام اور ائمہ دین نے اس کی تعیین کردی ہے ۔ امام ابوداود رحمہ اللہ اور امام ابن المنذر رحمہ اللہ وغیرہما نے صراحتا اس کا معنی پگڑیاں کیا ہے ، لہٰذا محدثین کے تعیین کے مقابلے میں مقلدین کے احتمال کی کوئی حیثیت نہیں۔

۲:       جناب محمد سرفراز خان صفدر دیوبندی صاحب نے خود اسی معنیٰ کو معین کیا ہے ۔صحیح بات کو جانتے بوجھتے بھی صحیح حدیث کے خلاف ایسی غلط باتیں نہ جانے یہ لوگ کس حوصلے کے ساتھ پیش کردیتے ہیں؟

فہم صحابہ پر اعتراض:

جناب محمد سرفراز خان صفدر دیوبندی حیاتی صاحب “تقریر ترمذی از محمود الحسن دیوبندی” سے استفادہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

          ” او أنہ سوی عمامتہ، فظن الراوی أنہ علی العمامۃ.(محصلہ تقریر الترمذی ص ۸لشیخ الھند). (یا ہوسکتا ہے کہ آپﷺ نے اپنی پگڑی مبارک کو درست کیا تو راوی (صحابی) نے سمجھا کہ آپ ﷺ نے پگڑی پر مسح کیا ہے ۔(ملخصاً از تقریر ترمذی از شیخ الہند)۔” (خزائن السنن از صفدر : ۲۰۹/۱)

تجزیہ:

۱:        کیا دیوبندیوں کا صحابہ کرام کے بارے میں یہ نظریہ ہے کہ دیکھتی آنکھوں اور سنتے کانوں بھی ان کو رسول اکرم ﷺ کے اقوال و افعال کی حقیقت سمجھ نہ آتی تھی؟ کیا یہ فہم صحابہ پر اعتراض اور انکار حدیث کا ایک دروازہ کھولنے کی سازش نہیں ہے؟ جب کوئی شخص کسی حدیث کا انکار کرنا چاہے گا ، یہ کہہ دے گا کہ روایت کرنے والے صحابی کو اس کی صحیح سمجھ نہ آئی تھی، دراصل بات یوں تھی۔۔۔۔۔

          صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بارے میں یہ سوء ظن اور اپنے نام نہاد فقہاء کی “فقہ” پر اتنا اعتماد کہ حدیث رسول کو بھی تاویلات کی نظر کردیتے ہیں۔ اللہ کے لئے دیوبندی بھائی سوچیں کہ اللہ کے ہاں کیا جواب دیں گے ؟

۲:       خود دیوبندی حضرات نے بھی اسے صحابہ کرام کی شان کے خلاف سمجھا ہے ، جیساکہ جناب انور شاہ کشمیری دیوبندی صاحب لکھتے ہیں:

[arabic-font]

          وأجاب عنہ بعض الحنفیۃ أنہ سوی عمامتہ بعد المسح و ظنہ الراوی مسحا، فعبر عن التسویۃ بالمسح علی العمامۃ، قلت: وھذا الجواب لیس بمرضی عندی، لأنہ یفضی إلی تغلیط الصحابی الذی شاھد الواقع، وحکی عند کما رأی، و معلوم أنھم من أذکیا الامۃ، کیف یمکن أن یخفی علیھم الفرق بین المسح و التسویۃ؟.

[/arabic-font]

          “بعض حنفیوں نے جواب یہ دیا ہے کہ آپﷺ نے مسح کے بعد پگڑی کو سیدھا کیا ۔راوی نے اسے مسح سمجھ لیا ۔ اس لیے پگڑی سیدھی کرنے کو مسح سے تعبیر کردیا۔ میں کہتا ہوں کہ یہ جواب میرے نزدیک صحیح نہیں ،کیونکہ یہ اس صحابی پر غلطی کا فتویٰ لگانے کی طرف لے جاتا ہے ، جو اس واقعہ کا عینی شاہد ہے اور جس نے دیکھ کر اسی طرح آگے بیان کیاہے ، اور یہ بات مسلم ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین امت کے پاکباز ترین لوگ ہیں ۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ ان سے یہ فرق بھی مخفی رہ جائے کہ آپ ﷺ نے پگڑی درست کی ہے یا مسح کیا ہے ؟” (فیض الباری للکشمیری: ۳۰۳/۱)

          جناب تقی عثمانی دیوبندی صاحب اپنے “شیخ الہند” کی اس بے تکی بات کا رد کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

          “بعض حضرات نے یہ جواب دیا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے مسحِ راس کے بعد عمامہ کو درست فرمایا ہوگا، جسے راوی نے مسح علی العمامہ سمجھ لیا، لیکن یہ جواب کمزور ہے ، کیونکہ یہ ثقہ راویوں کے فہم پر بدگمانی کی حیثیت رکھتا ہے ۔ جبکہ مسح علی العمامہ کی روایات متعدد صحابہ کرام سے مروی ہیں اور ان تمام کے بارے میں یہ خیال سوءِ ظن ہے ۔ ” (درس ترمذی از تقی : ۳۳۷/۱)

          اب ہمارے دیوبندی بھائی ہی فیصلہ کریں کہ ان کے علمائے کرام کا صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین اور دوسرے محدثین کے بارے میں بدگمانی والا رویہ حدیث کی مخالفت ہے یا موافقت؟ نیز کیا اہل حق کا یہی شیوہ ہے ؟

یہ تحریر اب تک 36 لوگ پڑھ چکے ہیں، جبکہ صرف آج 1 لوگوں نے یہ تحریر پڑھی۔

Leave a Reply