پندرہ شعبان کی رات اور مخصوص عبادات

نصف شعبان کی رات کی فضیلت میں کئی احادیث ذکر کی جاتی ہیں جن کا مفہوم یہ ہے کہ شعبان کی پندرھویں رات کو اللہ تعالیٰ آسمان دنیا پر نزول فرماتا ہے اور کلب (قبیلے) کی بکریوں کے بالوں کی تعداد سے زیاد ہ لوگوں (کے گناہوں) کو بخش دیتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ ان احادیث کی وجہ سے بہت سے لوگ اس رات کو خاص طور پر غیر معمول عبادت کرتے ہیں، اس مضمون میں ان روایات کا جائزہ پیش خدمت ہے۔◈ محدث کبیر شیخ محمد ناصر الدین الالبانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ :
يطلع الله تبارك و تعالىٰ إلى خلقه ليلة النصف من شعبان، فيغفر لجميع خلقه، إلا لمشرك أو مشاحن، حديث صحيح، روي عن جماعة من الصحابة من طرق مختلفة يشد بعضها بعضا وهم معاذ بن جبل وأبو ثعلبة الخشني وعبدالله بن عمرو وأبي موسي الأشعري وأبي هريرة وأبي بكر الصديق وعوف بن مالك و عائشة
”شعبان کی پندرھویں رات کو اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کی طرف (خاص طور پر) متوجہ ہوتا ہے پھر مشرک اور (مسلمان بھائی سے) دشمنی، بغض رکھنے والے کے سوا اپنی تمام (مسلمان) مخلوق کو بخش دیتا ہے۔“ [لسلسلة الصحيحة : 135/3 ح 1144]

① حدیث معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ

↰ اسے (امام) مکحول رحمہ اللہ نے عن مالك بن يخامر عن معاذ بن جبل رضي الله عنه کی سند سے روایت کیا ہے۔
تخریج : (یعنی یہ حدیث درج ذیل کتابوں میں اسی سند کے ساتھ موجود ہے۔ )
كتاب السنة لابن ابي عاصم [ح : 512، دوسرا نسخه : 524] صحيح ابن حبان [موارد الظمان : 1980، الاحسان : 5636] أمالي لأبي الحسن القزويني [2/4] المجلس السابع لأبي محمد الجوهري [2/3] جز ء من حديث محمد بن سليمان الربعي [217/او218/ا] الأمالي لأبي القاسم الحسيني [ق1/12] شعب الإيمان للبيهقي [382/3 ح 3833، 5/ح6628] تاريخ دمشق لابن عساكر [172/40، 75/57] الثالث والتسعين للحافظ عبدالغني المقدسي [ق2/44] صفات رب العالمين لابن أعجب [2/7، 2/129] المعجم الكبير للطبراني [108/20، 109 ح 215] والأوسط له [397/7 ح 6772] حلية الأولياء لأبي نعيم الأصبهاني [191/5]

◈ حافظ ذھبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
مكحول لم يلق مالك بن يخامر
”مکحول نے مالک بن یخامر سے ملا قات نہیں کی۔“ [الصحيحة : 3/135]

یعنی یہ روایت منقطع ہے۔
نتیجہ : یہ سند ضعیف ہے، اصول حدیث کی کتاب ”تیسیر مصطلح الحدیث“ میں لکھا ہو اہے کہ :
المنقطع ضعيف بالاتفاق بين العلماء، وذلك للجهل بحال الراوي المحذوف
علماء (محدثین) کا اس پر اتفاق ہے کہ منقطع (روایت) ضعیف ہوتی ہے، یہ اس لئے کہ اس کا محذوف راوی (ہمارے لئے) مجہول ہوتا ہے۔ [ص78]
——————
② حدیث ابی ثعلبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ

↰ اسے احوص بن حکیم نے عن مهاصر بن حبيب عن أبى ثعلبة رضي الله عنه کی سند سے روایت کیا ہے۔
تخریج : كتاب السنة لابن أبى عاصم [ح511، دوسرا نسخه ح 523] كتاب العرش لمحمد بن عثمان بن أبى شيبة [ح87 وعنده : بشر بن عمارة عن الأحوص بن حكيم عن المهاصر بن حبيب عن مكحول عن أبى ثعلبة الخ] حديث أبى القاسم الأزجي [1/67] شرح أصول اعتقاد أهل السنة و الجماعة تصنيف اللالكائي [445/3 ح 760] المعجم الكبير للطبراني [224/22 ح 593]

↰ اس کا بنیادی راوی احوص بن حکیم : جمہورمحدثین کے نزدیک ضعیف ہے۔
◈ حافظ ابن حجر نے کہا : ضعيف الحفظ [تقریب : 290]
↰ مھاصر (مھاجر) بن حبیب کی ابوثعلبہ رضی اللہ عنہ سے ملاقات ثابت نہیں ہے۔

تنبیہ : کتاب العرش میں مھاصر اور ابوثعلبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے درمیان مکحول کا واسطہ آیا ہے۔ اس کی سند میں بشر بن عمارہ ضعیف ہیں۔ [تقريب : 897]

المعجم الکبیر للطبرانی [223/22 ح 590] میں المحاربی، اس کا متابع ہے،

لیکن اس سند میں دو راوی احمد بن النضر العسکری اور محمد بن آدم المصیصی نامعلوم ہیں۔
↰ عبدالرحمٰن بن محمد المحاربی مدلس ہے۔ [طبقات المدلسين : 3832]
↰ اسے بیہقی نے دوسری سند کے ساتھ المحاربي عن الأحوص بن حكيم عن المهاجر بن حبيب عن مكحول عن أبى ثعلبة الخشني کی سند سے روایت کیا ہے [شعب الإيمان : 3832]
——————
③ حدیث عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ

اسے حسن (بن موسیٰ) نے حدثنا ابن لهيعة : حدثنا حيي بن عبدالله عن أبى عبدالرحمٰن الحبلي عن عبدالله بن عمرو کی سند سے روایت کیا ہے۔ [مسند احمد : 176/2 ح 6642]

↰ یہ روایت عبداللہ بن لھیعہ کے اختلاط کی وجہ سے ضعیف ہے۔
ابن لھیعہ کی اختلاط کے لئے دیکھئے تقریب التہذیب [3563]
اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ حسن بن موسیٰ نے ابن لھیعہ کے اختلاط سے پہلے اس سے حدیث سنی ہو۔
◈ حافظ المنذری فرماتے ہیں :
رواه أحمد ياسناد لين ”اسے احمد نے ضعیف سند کے ساتھ روایت کیا ہے۔“ [الترغيب و الترهيب 460/3 ح 4080، نيز ديكهئے 119/2 ح 1519]
◈ محدث البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ :
”رشدین بن سعد نے ابن لھیعہ کی متابعت کی ہے۔“ [حديث ابن حيويه 10/3/ا والسلسلة الصحيحة 136/3]
↰ عرض ہے کہ رشدین بن سعد بن مفلح المھری بذات خود ضعیف ہے۔ دیکھئے تقریب التہذیب [1942]
↰ لہذا یہ روایت دونوں سندوں میں ضعیف ہی ہے، حسن نہیں ہے۔
——————
④ حدیث ابی موسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ

اسے ابن لھیعہ نے عن الزبير بن سليم عن الضحاك بن عبدالرحمٰن عن أبيه قال : سمعت أبا موسيٰ۔۔۔ الخ کی سند سے روایت کیا ہے۔
تخریج : ابن ماجه [2/1390] السنة لابن أبى عاصم [510، دوسرا نسخه 522] السنة للالكائي [447/3 ح 763]

↰ اس سند میں عبدالرحمٰن بن عرزب مجہول ہے۔ [تقریب 3950]
اسی طرح زبیر بن سلیم بھی مجہول ہے۔ [تقریب 1996]
بعض کتابوں میں غلطی کی وجہ سے ربیع بن سلیمان اور بعض میں زبیر بن سلیمان چھپ گیا ہے۔
نتیجہ : یہ سند ضعیف ہے۔
تنبیہ : ابن ماجہ کی دوسری سند [1/1390] میں ابن لھیعہ کے علاوہ ولید بن مسلم : مدلس اور ضحاک بن ایمن مجہول ہے۔ [تقریب 2965]
↰ یہ سند بھی منقطع ہے، لہذا یہ سند بھی ضعیف ہے۔
——————
⑤ حدیث ابی ھریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ

↰ اسے ہشام بن عبدالرحمٰن نے الأعمش عن أبى صالح عن أبى هريرة رضي الله عنه کی سند سے روایت کیا ہے۔
تخریج : کشف الأستار عن زوائد البزار [436/2 ح 2046] والعلل المتناھیۃ لابن الجوزی [70/2 ح 921]

↰ اس کا روای ہشام بن عبدالرحمٰن نامعلوم العدالت یعنی مجہول ہے۔
حافظ ہیثمی لکھتے ہیں : ولم أعرفه ”اور میں اسے نہیں پہچانا۔“ [مجمع الزوائد 65/8]
نتیجہ : یہ سند ضعیف ہے۔
——————
⑥ حدیث ابی بکر الصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ

↰ اسے عبدالملک بن عبدالملک نے عن معصب بن أبی ذئب عن القاسم بن محمد عن أبیہ أو عمہ عن أبی بکر الصدیق رضی اللہ عنہ کی سند سے روایت کیا ہے۔
تخریج : كشف الأستار [435/2 ح 2045] كتاب التوحيد لابن خزيمة [ص136 ح 200] السنة لابن أبى عاصم [509، دوسرا نسخه 521] السنة لللالكائي [438/3، 439 ح 750] أخبار أصبهان لأبي نعيم [2/2] والبيهقي [في شعب الإيمان : 3827]

↰ اس سند میں عبدالملک بن عبدالملک پر جمہور محدثین نے جرح کی ہے۔
◈ حافظ ابن حبا ن نے کہا: منكر الحديث جدا ”یہ سخت منکر حدیثیں بیان کرنے والا ہے۔“ [كتاب المجروحين : 136/2]
◈امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا: فيه نظر یہ متروک و متہم ہے [التاريخ الكبير 424/5]
◈ امام دارقطنی نے کہا : متروك [سوالات البرقاني : 304]
↰ معصب بن أ‏بی ذئب بھی غیر موثق و غیرمعروف ہے، دیکھئے کتاب الجرح والتعدیل [307/8 ت 1418]
نتیجہ : یہ سند ضعیف ہے۔
——————
⑦ حدیث عوف بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ

↰ اس کی سند یہ ہے عن عبدالرحمٰن بن أنعم عن عبادة بن نسي عن كثير عن مرة عن عوف بن مالك رضي الله عنه
تخریج : کشف الأستار [436/2 ح 2048] والمجلس السابع لأبی محمد الجوھری [الصحيحة : 137/3]

↰ اس روایت میں عبدالرحمٰن بن زیاد بن انعم جمہور محدثین کے نزدیک ضعیف ہے۔
↰ حافظ ابن حجر نے کہا: ؟ ضعيف فى حفظه۔۔ وكان رجلا صالحا [تقريب : 3862]
——————
⑧ حدیث عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا

↰اسے حجاج بن ارطاۃ نے عن يحيي بن أبى كثير عن عروة عن عائشة رضي الله عنها کی سند سے روایت کیا ہے۔
تخریج : سنن الترمذي [106/1 ح 739] ابن ماجه [1389] احمد [238/6 ح 26546] ابن ابي شيبه [المصنف 438/10 29849] عبد بن حميد [1507] البيهقي فى شعب الإيمان [3824] والعلل المتناهية [66/2 ح 915]

◈ امام ترمذی فرماتے ہیں کہ :
”میں نے امام بخاری کو یہ فرماتے سنا کہ یہ حدیث ضعیف ہے، اسے یحییٰ (بن ابی کثیر) نے عروہ سے نہیں سنا اور نہ حجاج بن ارطاۃ نے اسے یحییٰ سے سنا ہے۔“ [الترمذي : 739]
↰ حجاج بن ارطاۃ ضعیف عندالجمہور اور مدلس راوی ہے، یحییٰ بن ابی کثیر بھی مدلس ہیں۔
نتیجہ : یہ سند ضعیف ہے، اس روایت کے تین ضعیف شواہد بھی ہیں :

اول : العلل المتناھیہ [67/2، 68 ح 917]

↰ اس میں سلیمان بن ابی کریمہ ضعیف ہے وہ منکر روایات بیان کرتا تھا، دیکھئے لسان المیزان [102/3]

دوم : العلل المتناھیہ [68/2، 69 ح 918 ]

↰ اس میں سعید بن عبدالکریم الواسطی کا ثقہ ہونا نامعلوم ہے، دیکھئے لسان المیزان [36/3]

سوم : العلل المتناھیہ [69/2 ح 919]

↰ اس میں عطاء بن عجلان کذاب و متروک ہے دیکھئے الکشف الحثیث عمن رمی بوضع الحدیث [ص 289] تقریب التہذیب [4594]
خلاصہ : خلاصہ یہ ہے کہ یہ تینوں شواہد مردود ہیں۔
——————
⑨ حدیث علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ

اسے ابن ابی سبرہ نے عن ابراهيم بن محمد عن معاوية بن عبدالله بن جعفر عن أبيه عن على بن أبى طالب رضي الله عنه کی سند سے بیان کیا ہے۔
تخریج : ابن ماجه [1388] العلل المتناهية [71/2 ح 923]

↰ اس میں ابوبکر بن ابی سبرۃ کذاب ہے دیکھئے تقریب التہذیب [7973]
نتیجہ : یہ روایت موضوع ہے۔
تنبیہ : سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اس مفہوم کی دیگر موضوع روایات بھی مروی ہیں۔ دیکھئے الموضوعات لابن الجوزی [127/2] میزان الاعتدال [120/3] واللآلی المصنوعۃ [60/2]
——————
⑩ حدیث کردوس رضی اللہ تعالیٰ عنہ

اسے عیسیٰ بن ابراھیم القرشی نے عن سلمة بن سليمان الجزري عن مروان بن سالم عن ابن كردوس عن أبيه کی سند سے بیان کیا ہے [كتاب العلل المتناهية : 71/2، 72 ح 924]

↰ اس میں عیسیٰ بن ابراھیم منکر الحدیث متروک ہے۔
مروان بن سالم متروک متہم ہے
اور سلمۃ کا ثقہ ہونا نامعلوم ہے۔
نتیجہ : یہ سند موضوع ہے۔
——————
⑪ حدیث ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ

↰ اسے صالح الشمومی نے عن عبدالله بن ضرار عن يزيد بن محمد بن أبيه محمد بن مروان عن ابن عمر رضي الله عنه کی سند سے روایت کی ہے [الموضوعات لابن الجوزي 128/2]

↰ اس سند میں صالح، عبداللہ بن ضرار، یزید اور محمد بن مروان سب نامعلوم العدالت یعنی مجہول ہیں،
◈ حافظ ابن الجوزی فرماتے ہیں کہ ”ہمیں اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ حدیث موضوع ہے۔“ [الموضوعات 129/2]
——————
⑫ حدیث محمد بن علی الباقر رحمہ اللہ

↰ اسے علی بن عاصم (ضعیف) نے عمرو بن مقدام عن جعفر بن محمد بن أبيه کی سند سے روایت کیا ہے [الموضوعات : 128/2، 129]

↰ عمرو بن ابی المقدام رافضی متروک راوی ہے۔
◈ سیوطی نے کہا: ”یہ سند موضوع ہے۔“ [الللآلي المصنوعة 59/2]
↰ علی بن عاصم سے نیچے والی سند میں بھی نظر ہے۔
——————
⑬ حدیث ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ

↰ اسے ابن عساکر نے نامعلوم رایوں کے ساتھ محمد بن حازم عن الضحاك بن مزاحم عن أبى بن كعب کی سند سے بیان کیا ہے، دیکھئے زیل الللآلی المصنوعۃ [ص 112، 113]

↰ یہ روایت منقطع ہونے کے ساتھ موضوع بھی ہے۔
——————
⑭ مکحول تابعی رحمہ اللہ کا قول

امام مکحول رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ :
إن الله يطلع على أهل الأرض فى النصف من شعبان فيغفرلهم إلا لرجلين إلا كافرا أو مشاحن
”پندرہ شعبان کو اللہ تعالیٰ زمین والوں کی طرف (خاص طور پر) متوجہ ہوتا ہے پھر وہ، کافر اور ایک دوسرے سے دشمنی رکھنے والوں کے سوا سب لوگوں کو بخش دیتا ہے۔“ [شعب الإيمان للبيهقي 381/3 ح 3830]

↰ یہ سند حسن ہے لیکن یہ حدیث نہیں ہے بلکہ امام مکحول کا قول ہے۔
معلوم ہوا کہ مکحول کے قول کو ضعیف و مجہول رایوں نے مرفوع حدیث کے طو رپر بیان کر رکھا ہے، مکحول کے قول کو مرفوع حدیث بنا دینا صحیح نہیں ہے اور اگر بنا دیا جائے تو مرسل ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے۔

خلاصہ التحقیق : پندرہ شعبان والی کوئی روایت بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین سے ثابت نہیں ہے۔

محققین کا فیصلہ :
◈ ابوبکر بن العربی (جو چوتھی صدی فقیہ تھے) لکھتے ہیں :
وليس فى ليلة النصف من شعبان حديث يعول عليه لا فى فضلها ولا فى نسخ الآجال فيها، فلا تلتفتواإليها
یعنی : ”نصف شعبان کی رات اور فضیلت کے بارے میں کوئی حدیث قابل اعتماد نہیں ہے اور اس رات کو موت کے فیصلے کی منسوخی کے بارے میں کوئی حدیث قابل اعتماد نہیں ہے، پس آپ ان (ناقابل اعتماد) احادیث کی طرف (ذرہ بھی) التفات نہ کریں۔“ [احكام القرآن 1690/4]

◈ حافظ ابن القیم لکھتے ہیں :
لا يصح منها شئي
(یعنی پندرہ شعبان کی رات کو خاص نمازوں والی روایتوں میں سے) کوئی چیز بھی ثابت نہیں ہے۔ [المنار المنيف ص 98، 99]

◈ حافظ ابن القیم مزید فرماتے ہیں کہ :
”تعجب ہے اس شخص پر، جس کو سنت کی سوجھ بوجھ ہے، وہ بھی یہ ھذیان سن کر ایسی (عجیب و غریب) نماز پڑھتا ہے (یعنی سو رکعت ایک ہزار سورہ اخلاص کے ساتھ)۔“ [ایضا ص 99]

حسن لغیرہ :
محدث کبیر شیخ البانی رحمہ اللہ نے پندرہ شعبان والی روایت کو تعدد طرق کی وجہ سے ”صحیح“ قرار دیا ہے۔

↰ حالانکہ یہ روایت ”صحیح لغیرہ“ کے درجہ تک نہیں پہنچتی، اس کی ایک سند بھی صحیح یا حسن لذاتہ نہیں ہے تو یہ کس طرح صحیح لغیرہ بن گئی ؟ بعض کہتے ہیں کہ یہ روایت حسن لغیرہ ہے، عرض ہے کہ حسن لغیرہ کی دو قسمیں ہیں :
➊ ایک ضعیف سند والی روایت بذات خود ضعیف ہے، جبکہ دوسری روایت حسن لذاتہ ہے، یہ سند اس حسن لذاتہ کے ساتھ مل کر حسن ہو گئی۔
➋ ایک ضعیف سند والی روایت بذات خود ضعیف ہے اور اس مفہوم کی دوسری ضعیف روایات موجود ہیں، بعض علماء اسے حسن لغیرہ سمجھتے ہیں حالانکہ یہ بھی ضعیف حدیث کی ایک قسم ہے۔
دلیل نمبر ① قرآن و حدیث و اجماع سے یہ قطعاً ثابت نہیں ہے کہ ضعیف ضعیف ضعیف=حسن لغیرہ کا حجت ہونا ثابت ہو۔
دلیل نمبر ② صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ایسی روایت کا حجت ہونا ثابت نہیں ہے۔
دلیل نمبر ③ تابعین کرام رحمہم اللہ سے ایسی روایت کا حجت ہونا ثابت نہیں ہے۔
دلیل نمبر ④ امام بخاری و امام مسلم رحمہم اللہ وغیرہ سے ایسی روایت کا حجت ہونا ثابت نہیں ہے۔
دلیل نمبر ⑤ امام ترمذی رحمہ اللہ کے علاوہ عام محدثین سے ایسی ”حسن لغیرہ“ روایت کا حجت ہونا ثابت نہیں ہے۔ مثلاً :
محمد بن ابی لیلیٰ ”ضعیف“ نے عن أخیہ عیسی عن الحکم عن عبدالرحمٰن بن أبی لیلیٰ عن البراء بن عازب ”ترک رفع یدین کی ایک حدیث بیان کی ہے۔ [سنن ابي داؤد : 752]
↰ اس کی سند ضعیف ہے۔ اور اس کے متعدد ضعیف شواہد ہیں مثلا دیکھئے سنن ابی داؤد [748، 749] ان تمام شواہد کے باوجود امام ابوداؤد فرماتے ہیں : هذا الحديث ليس بصحيح ”یہ حدیث نہیں ہے۔“ [ابوداؤد : 752]

عام نماز میں ایک طرف سلام پھیرنے کی کئی روایات ہیں، دیکھئے الصحیحۃ للشیخ الألبانی رحمہ اللہ [564/1۔ 566ح316] ان میں سے ایک روایت بھی صحیح یا حسن لذاتہ نہیں ہے۔
ان روایات کے بارے میں :
◈ حافظ ابن عبدالبر کہتے ہیں :
إلا أنها معلولة ولا يصححها أهل العلم بالحديث
مگر یہ سب روایات معلول (ضعیف) ہیں، علمائے حدیث انہیں صحیح قرار نہیں دیتے۔ [زاد المعادج 1 ص 259]

◈ حافظ ابن القیم رحمہ اللہ بھی فرماتے ہیں کہ :
ولكن لم يثبت عنه ذلك من وجه صحيح
لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح سند کے ساتھ یہ ثابت نہیں ہے۔ [ایضا ص 259]

دلیل نمبر ⑥ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ :
يكفي فى المناظرة تضعيف الطريق التى أبداها المناظر و ينقطع، إذا لأصل عدم ما سواها، حتي يثبت بطريق أخري، والله أعلم
”یعنی : مناظرے میں یہ کافی ہے کہ مخالف کی بیان کردہ سند کا ضعیف ہونا ثابت کر دیا جائے، وہ لاجواب ہو جائے گا کیونکہ اصل یہ ہے کہ دوسری تمام روایات معدوم (وباطل) ہیں الا یہ کہ دوسری سند سے ثابت ہو جائیں، واللہ اعلم“ [اختصار علوم الحديث ص85 نوع : 22، دوسرا نسخه 274/1، 275وعنه نقله السخاوي فى فتح المغيث 287/1 فى معرفة من تقبل روايته ومن ترد]

دلیل نمبر ⑦ ابن القطان الفاسی نے حسن لغیرہ کے بارے میں صراحت کی ہے کہ :
لا يحتج به كله بل يعمل به فى فضائل الأعمال۔۔۔۔۔ الخ
”اس ساری کے ساتھ حجت نہیں پکڑی جاتی بلکہ فضائل اعمال میں اس پر عمل کیا جاتا ہے۔“ [النكت على كتاب ابن الصلاح : 402/1]

دلیل نمبر ⑧ حافظ ابن حجر نے ابن القطان کے قول کو ”حسن قوی“ قرار دیا ہے۔ [النكت 402/1]

دلیل نمبر ⑨ حنفی و شافعی وغیرہ علماء جب ایک دوسرے پر رد کرتے ہیں تو ایسی حسن لغیرہ روایت کو حجت تسلیم نہیں کرتے مثلاً :
● کئی ضعیف سندوں والی ایک روایت من كان له إمام فقراءة الإمام له قراءة کے مفہوم والی روایت کو علامہ نووی نے ضعیف قرار دیا ہے۔ [خلاصه الاحكام ج1 ص377 ح 1173، فصل فى ضعيفه]
● کئی سندوں والی فاتحہ خلف الامام کی روایات کو نیمومی حنفی نے معلول وغیرہ قرار دے کر رد کر دیا ہے۔ دیکھئے آثار السنن [ح 356، 355، 354، 353]

دلیل نمبر ⑩ جدید دور میں بہت سے علماء کئی سندوں والی روایات، جن کا ضعف شدید نہیں ہوتا، پر جرح کر کے ضعیف و مردود قرار دیتے ہیں مثلاً
محمد بن إسحاق عن مكحول عن محمود بن الربيع عن عبادة بن الصامت والی روایت، جس میں فاتحہ خلف الامام کا ثبوت موجود ہے، کے بارے میں محدث البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ”ضعیف“۔ [تحقيق سنن ابي داؤد : 823 مطبوعة مكتبة المعارف، الرياض]
↰ حالانکہ اس روایت کے بہت سے شواہد ہیں دیکھئے کتاب القرأت للبیہقی و الکواکب الدریۃ فی وجوب الفاتحۃ خلف الامام فی الجھریۃ، ان کئی سندوں و شواہد کے باوجود شیخ البانی رحمہ اللہ اسے حسن لغیرہ [ !] تک تسلیم نہیں کرتے۔ (حالانکہ فاتحہ خلف الإمام والی روایت حسن لذاتہ اور صحیح لغیرہ ہے والحمد للہ)

خلاصہ : خلاصہ یہ ہے کہ نصف شعبان والی روایت ضعیف ہے۔
کیا ضعیف حدیث پر فضائل میں عمل کیا جا سکتا ہے ؟ اس کی تفصیل یہاں ملاحظہ کریں۔
↰ آخر میں عرض ہے کہ پندرھویں شعبان کو خاص قسم کی نماز مثلا سو [100] رکعتیں مع ہزار [1000] مرتبہ سورہ اخلاص، کسی ضعیف روایت میں بھی نہیں ہے۔ اس قسم کی تمام روایات موضوع اور جعلی ہیں۔

تنبیہ : نزول باری تعالیٰ ہر رات پچھلے پہر ہوتا ہے جیسا کہ صحیحین وغیرھما کی متواتر احادیث سے ثابت ہے، ہم اس پر ایمان لائے ہیں اور اس کی کیفیت کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کرتے ہیں، وہی بہتر جانتا ہے۔ وما علينا إلاالبلاغ

 

یہ تحریر اب تک 19 لوگ پڑھ چکے ہیں، جبکہ صرف آج 1 لوگوں نے یہ تحریر پڑھی۔

Leave a Reply