وفات النبی اور سیدنا ابوبکر

تحریر:غلام مصطفے امن پوری

صحابی رسول سیدنا سالم عبید الاشجعیؓ بیان کرتے ہیں:

رسول اللہﷺ کے مرض میں آپﷺ پر غشی طاری ہوئی، پھر افاقہ ہو گیا۔ آپﷺ نے دریافت فرمایا کہ کیا نماز کا وقت ہوگیا ہے؟ عرض کی گئی، جی ہاں! آپﷺ نے فرمایا، بلال کو حکم دو کہ وہ اذان کہیں اور ابوبکر کو حکم دو کہ وہ لوگوں کونماز پڑھائیں۔ سیدہ عائشہؓ نے عرض کی، میرے والد تو نہایت نرم دل آدمی ہیں۔ جب وہ اس جگہ (مصلی رسول) پر کھڑے ہوں گے تو رونے لگیں گے اور نماز نہ پڑھا سکیں گے، اگر آپ کسی اور کو حکم دیں تو اچھا ہو گا۔ آپﷺ غشی طاری ہوئی، پھر افاقہ ہوا تو فرمایا، بلال کو حکم دو کہ وہ اذان کہیں اور ابوبکر کو حکم دو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں، تم تو یوسف والیاں ہو۔ پھر سیدنا بلالؓ کو حکم دیا گیا، انہوں نے اذان کہی اور سیدنا ابوبکرؓ کو حکم دیا گیا، انہوں نے نماز پڑھائی۔ پھر رسول اللہﷺ نے کچھ سکون محسوس کیا تو فرمایا، میرے سہارا لینے (اور مسجد جانے) کے لیے کسی کو دیکھو۔ بریرہ اور ایک آدمی آئے۔ آپﷺ نے ان دونوں کا سہارا لیا(اور مسجد میں آگئے)، جب سیدنا ابوبکرؓ نے آپﷺ کو دیکھا تو (مصلی امانت سے) پیچھے ہٹنے لگے، آپﷺ نے ان کی طرف اشارہ فرمایا کہ وہ اپنی جگہ میں رہیں، یہاں تک کہ سیدنا ابوبکرؓ نے نمازپوری کر لی۔ پھر رسول اللہﷺ فوت ہوگئے۔ سیدنا عمرؓ نے کہا، اللہ کی قسم! میں کسی کو یہ کہتے نہیں سنوں گا کہ رسول اللہﷺ فوت ہوگئے۔ مگر اپنی تلوار سے قتل کر دوں گا اور کہا، لوگ ان پڑھ تھے، ان میں آپﷺ سے پہلے کوئی نبی نہیں تھا (جہالت ابھی باقی ہے، پھر رسول اللہﷺ کیسے فوت ہو سکتے ہیں؟)۔ لوگ سہم گئے اور انہوں نے کہا، اے سالم! تم رسول اللہﷺ کے ساتھی (سیدنا ابوبکرؓ) کے پاس جاؤ اور ان کو بلاؤ۔ میں سیدنا ابوبکرؓ کے پاس گیا، آپؓ اپنی مسجد میں تھے، میں آپؓ کے پاس روتے ہوئے اور دہشت زوہ گیا۔ جب آپؓ نے مجھے دیکھا تو پوچھنے لگے، کیا رسول اللہﷺ وفات پا گئے ہیں؟ میں نے کہا کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کہہ رہے ہیں کہ میں کسی کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا ذکر کرتے ہوئے نہیں سنوں گا، مگر اپنی اس تلوار سے اسے قتل کردوں گا۔ آپؓ نے مجھے فرمایا، چلو۔ میں آپؓ کے ساتھ چلا۔ آپؓ تشریف لائے تولوگ رسول اللہﷺ کے گھر میں داخل چکے تھے۔ آپؓ نے فرمایا، لوگو! مجھے راستہ دو! لوگوں نے آپؓ کو راستہ دے دیا۔ آپؓ آ کر رسول اللہﷺ پر جھک گئے اور آپﷺ کو بوسہ دیا، پھر قرآن کریم کی یہ آیت کریمہ تلاوت فرمائی:

[arabic-font]

(اِنَّكَ مَيِّتٌ وَّاِنَّهُمْ مَّيِّتُوْنَ)(الزمر:۳۰/۳۹)

[/arabic-font]

(اے نبی! یقیناً آپ فوت ہونے والے ہیں اور وہ کافر بھی فوت ہونے والے ہیں)، پھر لوگوں نے کہا، اے اللہ کے رسول کے ساتھی! کیا رسول اللہﷺ فوت ہو گئے ہیں؟ آپؓ نے فرمایا، ہاں! لوگوں نے یقین کر لیا کہ آپؓ سچ کہہ رہے ہیں۔ لوگوں نےکہا، اے رسول اللہﷺ کے ساتھی! کیا رسول اللہﷺ کا جنازہ پڑھا جائے گا؟ آپؓ نے فرمایا، ہاں! انہوں نے کہا، کیسے؟ فرمایا، کچھ لوگ (حجرۂ عائشہ میں) داخل ہوں گے اور اللہ اکبر کہیں گے، درود و سلام پڑھیں گے اور دعا کریں گے، پھر وہ نکل آئیں گے، پھر کچھ لوگ داخل ہوں گے اور اللہ اکبر کہیں، درود و سلام پڑھیں گے اور دعا کرکے نکل آئیں گے، یہاں تک کہ(تمام) داخل ہو جائیں گے۔ لوگوں نے کہا، اے اللہ کے رسولﷺ کے ساتھی؟ کیا رسول اللہﷺ کو دفن کیا جائے گا؟ فرمایا، ہاں! انہوں نے کہا، کہاں؟ فرمایا، اسی جگہ میں، جہاں اللہ تعالی نے ان کی روح قبض کی ہے، کیونکہ اللہ تعالی نے ان کی روح عمدہ جگہ میں قبض فرمائی ہے۔ انہوں نے جان لیا کہ آپ نے سچ فرمایا ہے۔ پھر آپؓ نے حکم دیا کہ آپﷺ کو آپ کے خاندان والے غسل دیں۔ مہاجرین مشورہ کے لیے جمع ہوئے، انہوں نے کہا، آپ ہمارے ساتھ ہمارے انصاری بھائیوں کی طرف چلیں تاکہ ہم ان کو بھی اس معاملے میں اپنے ساتھ شامل کرلیں۔ انصار نے کہا، ایک امیر ہم میں سے ایک تم میں سے ہو گا۔ اس پر سیدنا عمربن خطابؓ نے فرمایا، کس کے لیے ان تین فضائل جیسی کوئی فضیلت ہے؟ اس جیسی منقبت کس کے لیے ہے؟

[arabic-font]

(ثَانِيَ اثْنَيْنِ اِذْ هُمَا فِي الْغَارِ اِذْ يَقُوْلُ لِصَاحِبِهٖ لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰهَ مَعَنَا) (التوبہ: ۴۰/۹)

[/arabic-font]

، (آپﷺ دو میں سے دوسرے تھے، جب وہ دونوں غار میں تھے، جب آپﷺ اپنے ساتھی سے فرما رہے تھے کہ گھبراؤ نہیں، اللہ ہمارے ساتھ ہے)

 وہ دونوں کون ہیں؟ پھر آپ نے ہاتھ بڑھایا اوربیعت کی اور سب لوگوں نے اچھی اور خوبصورت بیعت کی۔

(الشمائل للترمذی:۳۹۶، مسند عبد بن حمید: ۳۶۵، السنن الکبری (کتاب الوفاۃ) للنسائی: ۴۲، المعجم الکبیر للطبرائی: ۶۵/۷، دلائل النبوۃ للبیھقی: ۲۹۹/۷، وسندہٗ صحیحٌ)

اس روایت کو امام ابن خزیمہؒ (۱۶۲۴۱،۱۵۴۱) نے ‘‘صحیح’’ کہاہے۔

حافظ ہیثمی لکھتے ہیں:

[arabic-font]

ورجالہ ثقات۔

[/arabic-font]

‘‘ اس کے راوی ثقہ ہیں۔’’

 (مجمع الزوائد: ۱۸۳/۵)

حافظ ابن حجرؒ لکھتے ہیں:

[arabic-font]

إسنادہ صحیح، رجالہ ثقات۔

[/arabic-font]

‘‘یہ سند صحیح ہے اور اس کے راوی ثقہ ہیں۔’’

(مصباح الزجاجۃ: ۱۴۶/۱،ح:۱۲۳۴)

اس تحریر کو اب تک 15 بار پڑھا جا چکا ہے۔

Leave a Reply