وضو میں پاؤں دھونا واجب ہے

تحریر: ابن الحسن محمدی حفظ اللہ

وضو میں پاؤں دھونا واجب ہے۔ یہ اہل سنت و الجماعت کا اجماعی و اتفاقی مسئلہ ہے اور اسی پر امت کا عمل ہے۔ قرآن و سنت کے دلائل اسی پر شاہد ہیں۔ آئیے اس بارے میں اجماعِ امت اور قرآن و سنت کے دلائل فہم سلف کی روشنی میں ملاحظہ فرمائیں :
اجماعِ امت
➊ عبدالملک بن ابوسلیمان نے تابعی امام عطاء بن ابورباح رحمہ اللہ سے پوچھا:
هل علمت أحدا من أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يمسح قدميه ؟
’’کیا آپ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے کسی کو جانتے ہیں کہ وہ (ننگے ) پاؤں پر مسح کرتا ہو ؟“ تو انہوں نے فرمایا : لا، والله ! ما أعلمه . ’’ اللہ کی قسم ! میں کسی ایسے صحابی کو نہیں جانتا۔ “ [الطهور لأبي عبيد القاسم بن سلام : 357، وسنده حسن، شرح معاني الآثار للطحاوي : 34/1، وسنده صحيح]
❀ ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں :
أدركت أحدا منهم يمسح على القدمين ؟
’’ کیا آپ نے کسی صحابی کو پاؤں پر مسح کرتے دیکھا ہے ؟“ اس پر انہوں نے فرمایا : محدث . ’’ یہ صحابہ کرام کے بعد والوں کی ایجاد کردہ بدعت ہے۔ “ [مصنف ابن أبي شيبة : 19/1، وسنده حسن]

➋ امام حکم بن عتیبہ تابعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
مضت السنة من رسول الله صلى الله عليه وسلم والمسلمين، يعني بغسل القدمين .
’’ وضو میں پاؤں دھونا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کی متواتر سنت ہے۔ “ [مصنف ابن أبي شيبة : 19,18/1، وسنده حسن]

➌ امام ابن منذر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وقد أجمع عوام أهل العلم علٰي أن الذى يجب علٰي من لا خف عليه غسل القدمين إلى الكعبين، وقد ثبتت الـأخبار بذٰلك عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، وعن أصحابه .
’’ عام اہل علم کا اس بات پر اجماع ہے کہ جس شخص نے موزے نہ پہن رکھے ہوں، اس پر ٹخنوں تک پاؤں کو دھونا فرض ہے۔ اس بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث اور آپ کے صحابہ کرام کے آثار ثابت ہیں۔ “ [الأوسط فى السنن والإجماع والاختلاف : 413/1]

➍ ابن ہبیرہ (م : 560ھ) فرماتے ہیں :
واتفقوا [ أى الإمام أحمد والشافعي ومالك وأبو حنيفة] علٰي وجوب غسل الوجه كله، وغسل اليدين مع المرفقين، وغسل الرجلين مع الكعبين، ومسح الرأس .
’’ امام احمد، امام شافعی، امام مالک اور امام ابوحنیفہ سب کا اتفاق ہے کہ وضو میں پورے چہرے، کہنیوں سمیت ہاتھوں، ٹخنوں سمیت پاؤں کو دھونا اور سر کا مسح کرنا فرض ہے۔ “ [الإفصاح : 72/1]

➎ ابوبکر، ابن العربی، مالکی رحمہ اللہ (م : 543ھ) فرماتے ہیں :
هٰذه سنة، اتفق المسلمون عليها، ورٰي أئمة الـأحاديث الصحاح فيها .
’’ یہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ ہے اور مسلمانوں کا اس پر اتفاق ہے۔ محدثین کرام نے اس بارے میں صحیح احادیث روایت کی ہیں۔ “ [عارضة الأحوذي : 58/1]


➏ حافظ نووی رحمہ اللہ (676-631ھ) فرماتے ہیں :
وأجمع العلماء علٰي وجوب غسل الوجه، واليدين، والرجلين، واستيعاب جميعهما بالغسل، وانفردت الرافضة عن العلمائ، فقالوا : الواجب فى الرجلين المسح، وهٰذا خطأ منهم .
’’ وضو میں چہرے، دونوں ہاتھوں اور دونوں پاؤں کو مکمل دھونا واجب ہے، اس پر علمائے کرام کا اجماع ہے، لیکن رافضی اس مسئلے میں اہل علم سے جدا ہو گئے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ وضو میں دونوں پاؤں کا مسح واجب ہے۔ یہ ان کی خطا ہے۔ “ [شرح صحيح مسلم : 107/3]
◈ نیز فرماتے ہیں :
فذهب جمع من الفقهاء، من أهل الفتوٰي فى الـأعصار والـأمصار، إلٰي أن الواجب غسل القدمين مع الكعبين، ولا يجزئ مسحهما، ولا يجب المسح مع الغسل، ولم يثبت خلاف هٰذا عن أحد يعتد به فى الإجماع، وقالت الشيعة : الواجب مسحهما، وقال محمد بن جرير والجبائي، رأس المعتزلة، : يتخير بين المسح والغسل .
’’ ہر دور اور ہر علاقے کے اہل فتویٰ فقہائے کرام کے ایک جم غفیر کا مذہب ہے کہ وضو میں ٹخنوں سمیت پاؤں کو دھونا فرض ہے، ان کا مسح کافی نہیں ہو گا، نیز مسح اور غسل بیک وقت فرض نہیں۔ اس کے خلاف کوئی بات کسی بھی ایسے عالم سے ثابت نہیں جس کو اجماع کے انعقاد میں کوئی حیثیت دی جاتی ہو۔ اس کے برعکس شیعہ کا کہنا ہے کہ دونوں پاؤں کا مسح کرنا فرض ہے، جبکہ محمد بن جریر اور معتزلہ کے سرغنہ جبائی کا کہنا ہے کہ وضو کرنے والے کو اختیار ہے کہ وہ پاؤں پر مسح کر لے یا ان کو دھو لے۔ “ [شرح صحيح مسلم : 129/3]

تنبیہ بلیغ :
اس عبارت میں مذکور محمد بن جریر سے مراد سنی مفسر ابن جریر طبری رحمہ اللہ نہیں، بلکہ ابن جریر شیعہ ہے، کیونکہ سنی مفسر ابن جریر طبری رحمہ اللہ تو وضو میں پاؤں کو دھونا فرض سمجھتے تھے اور اسے فرض نہ سمجھنے والوں کا خوب ردّ بھی کرتے تھے، جیسا کہ آئندہ سطور میں ہم ان سے نقل بھی کریں گے۔ جبکہ علامہ نووی رحمہ اللہ نے اس ابن جریر کا ذکر کیا ہے، جو وضو میں پاؤں دھونے یا مسح کرنے میں اختیار کا قائل تھا۔
بعض لوگوں کو ابن جریر طبری رحمہ اللہ کی ایک عبارت سے دھوکا لگ گیا اور انہوں نے پاؤں پر مسح یا ان کو دھونے کا اختیار دینے والے ابن جریر کو سنی مفسر، ابن جریر طبری خیال کر لیا۔
اس کا ردّ کرتے ہوئے :
◈ سنی مفسر، ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
فمن العلماء من يزعم أن ابن جرير اثنان ؛ أحدهما شيعي، وإليه ينسب ذٰلك، وينزهون أبا جعفر من هٰذه الصفات، والذي عول عليه كلامه فى التفسير أنه يوجب غسل القدمين، ويوجب مع الغسل دلكهما، ولكنه عبر عن الدلك بالمسح، فلم يفهم كثير من الناس مراده جيدا، فنقلوا عنه أنه يوجب الجمع بين الغسل والمسح .
’’ بعض علمائے کرام یہ بتا دیا ہے کہ ابن جریر دو ہیں ؛ ایک شیعہ ہے اور اسی کی طرف ایسی باتیں منسوب ہیں۔ یہ اہل علم ابوجعفر (طبری رحمہ اللہ )کو ان صفات سے پاک قرار دیتے ہیں۔ وضو میں بیک وقت پاؤں دھونے اور مسح کرنے کی فرضیت کے بارے میں ان کی تفسیر کی جس عبارت کو دلیل بنایا گیا ہے، اس میں دلك (دھوتے وقت پاؤں کو) ملنے کو مسح سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اکثر لوگ ان کی اس مراد کو اچھی طرح سمجھ نہیں پائے اور ان سے یہ نقل کرنا شروع کر دیا کہ وہ وضو میں بیک وقت پاؤں کو دھونا اور ان پر مسح کرنا واجب قرار دیتے ہیں۔ “ [البداية والنهاية : 167/11]
◈ ہندوستان کے مشہور عالم، علامہ، ابوالحسن، عبیداللہ، مبارکپوری رحمہ اللہ (1414-1327ھ) وضو کے سلسلے میں اہل علم کی طرف غلط باتوں کی نسبت کے بارے میں فرماتے ہیں :
ومثله نسبة التخيير إلٰي محمد بن جرير الطبري، صاحب التاريخ الكبير والتفسير الشهير، وقد نشر رواة الشيعة هٰذه الـأكاذيب المختلقة، ورواها بعض أهل السنة، ممن لم يميز الصحيح والسقيم من الـأخبار، بلا تحقق ولا سند، واتسع الخرق على الراقع، ولعل محمد بن جرير القائل بالتخيير، هو محمد بن جرير بن رستم الشيعي، صاحب الإيضاح للمترشد فى الإمامة، لا أبوجعفر، محمد بن جرير بن غالب، الطبري الشافعي، الذى هو من أعلام أهل السنة، والمذكور فى تفسير هٰذا، هو الغسل فقط، لا المسح، ولا الجمع، ولا التخيير الذى نسبه الشيعة إليه .
’’ اسی طرح کا معاملہ امام محمد بن جریر طبری رحمہ اللہ، جو کہ تاریخ کبیر اور مشہور تفسیر کے مصنف ہیں، کی طرف اس بات کی نسبت کا ہے کہ وضو میں پاؤں دھونے اور مسح کرنے میں اختیار ہے۔ یہ خود تراشیدہ جھوٹ شیعہ راویوں نے پھیلائے ہوئے ہیں اور صحت و سقم کی تمیز نہ رکھنے والے بعض سنی لوگوں نے ان جھوٹی باتوں کو بلاتحقیق و سند نقل کر کے بے گناہ کو مجرم قرار دے دیا ہے۔ جو محمد بن جریر وضو میں پاؤں کو دھونے یا مسح کرنے کے اختیار کا قائل ہے، وہ غالباً محمد بن جریر بن رستم شیعہ ہے، جو کہ الإيضاح للمترشد فى الإمامة نامی کتاب کا مصنف ہے، نہ کہ ابوجعفر، محمد بن جریر بن غالب، طبری، شافعی، جو کہ اہل سنت کے کبار علماء میں سے ایک ہیں۔ ان کی تفسیر میں صرف پاؤں کو دھونے کا ذکر ہے، مسح کرنے کا نہیں، نہ ہی بیک وقت دونوں کام کرنے کا۔ شیعہ نے خواہ مخواہ ان کے ذمے یہ بات لگائی ہے۔ “ [مرعاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح : 102/2]
◈ علامہ نووی رحمہ اللہ ایک مقام پر فرماتے ہیں :
فقد أجمع المسلمون علٰي وجوب غسل الرجلين، ولم يخالف فى ذٰلك من يعتد به .
’’ مسلمانوں کا وضو میں پاؤں دھونے کی فرضیت پر اجماع ہے۔ اس حوالے سے کسی ایسے عالم نے مخالفت نہیں کی، جس کی کوئی علمی حیثیت ہو۔ “ [المجموع شرح المهذب : 417/1]

➐ ابن نجیم حنفی (م : 970ھ) لکھتے ہیں :
فإن الإجماع انعقد علٰي غسلهما، ولا اعتبار بخلاف الروافض .
’’ وضو میں پاؤں کو دھونے پر اجماع ہوچکا ہے۔ رافضیوں کی مخالفت کا کوئی اعتبارنہیں۔ “ [البحر الرائق : 14/1]

فائدہ :
ابوالمحاسن، مفضل بن محمد، تنوخی، حنفی، معتزلی، شیعی (م : 442ھ) نے وضو میں پاؤں دھونے کے وجوب پر ایک رسالہ وجوب غسل القدمين بھی لکھاہے۔ [تاريخ دمشق لابن عساكر : 92/60، وسنده صحيح]
◈ مشہور فقیہ و ادیب، سلیم بن ایوب، ابوالفتح، رازی (م : 447ھ) نے بھی ’’ غسل الرجلیں“ کے عنوان سے کتاب لکھی ہے۔ [سير أعلام النبلاء للذهبي : 647/17]
◈ معروف فقیہ، علامہ، ابوالولید، باجی، مالکی (474-403ھ) نے بھی ’’ غسل الرجلیں“ نامی کتاب تصنیف کی ہے۔ [طبقات المفسرين للداودي : 210/1]

قرآنی دلیل
فرمانِ باری تعالیٰ ہے :
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلَاةِ فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ إِلَى الْمَرَافِقِ وَامْسَحُوا بِرُءُوسِكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ إِلَى الْكَعْبَيْنِ [5-المائدة:6]
’’ اے ایمان والو ! جب تم نماز کے لیے کھڑے ہونے لگو تو اپنے چہروں، کنہییوں سمیت اپنے ہاتھوں اور ٹخنوں سمیت اپنے پاؤں کو دھو لو اور اپنے سروں کا مسح کر لو۔ “
قرآنِ کریم کی اس آیت ِ کریمہ میں پاؤں کو دھونے کا حکم دیا گیا ہے۔ اس سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ وضو میں پاؤں دھونا فرض ہے۔ اس آیت کی صحیح تفسیر یہی ہے، کیونکہ :
① نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جو سب سے معتبر مفسر قرآن ہیں اور جو وحی الٰہی کی روشنی میں قرآنی آیات کی تفسیر اپنے قول و فعل اور تقریر سے فرماتے ہیں، انہوں نے وضو میں ننگے پاؤں کو دھونے ہی کی تعلیم دی ہے، ان پر مسح کرنے کی نہیں، جیسا کہ :
❀ صحابی رسول، سیدنا عمرو بن عبسہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
قلت : يا نبي الله ! أخبرني عن الوضوئ، قال : ’ما منكم من أحد يقرب وضوئ ه، ثم يتمضمض ويستنشق وينتثر، إلا خرت خطاياه من فمه وخياشيمه مع المائ، حين ينتثر، ثم يغسل وجهه، كما أمره الله تعالٰي إلا خرت خطايا وجهه من أطراف لحيته مع المائ، ثم يغسل يديه إلى المرفقين، إلا خرت خطايا يديه من أطراف أنامله، ثم يمسح رأسه، إلا خرت خطايا رأسه من أطراف شعره مع المائ، ثم يغسل قدميه إلى الكعبين، كما أمره الله عز وجل، إلا خرت خطايا قدميه من أطراف أصابعه مع المائ، ثم يقوم، فيحمد الله عز وجل، ويثني عليه بالذي هو له أهل، ثم يركع ركعتين، إلا خرج من ذنوبه، كهيئته يوم ولدته أمه‘ .
’’ میں نے عرض کیا : اے اللہ کے نبی ! مجھے وضو کے بارے میں خبر دیجیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تم میں سے کوئی جب وضو شروع کرتا ہے اور کلی کرتے ہوئے اپنے ناک میں پانی ڈالتا ہے اور جھاڑتا ہے تو پانی کے ساتھ اس کے منہ اور اس کے ناک سے گناہ جھڑ جاتے ہیں۔ پھر وہ اللہ کے حکم کے مطابق چہرہ دھوتا ہے تو اس کے چہرے کے گناہ پانی کے ساتھ اس کی ڈاڑھی کے اطراف سے گر جاتے ہیں۔ پھر وہ کنہییوں سمیت اپنے دونوں ہاتھ دھوتا ہے تو اس کی انگلیوں کے کناروں سے اس کے ہاتھوں کے گناہ گر جاتے ہیں۔ پھر وہ سر کا مسح کرتا ہے تو پانی کے ساتھ اس کے سر کے گناہ بالوں کے کناروں سے گر جاتے ہیں۔ پھر جب وہ اللہ کے حکم کے مطابق ٹخنوں سمیت اپنے پاؤں دھوتا ہے تو اس کے پاؤں کے گناہ پانی کے ساتھ پاؤں کی انگلیوں کے کناروں سے گر جاتے ہیں۔ پھر وہ کھڑ اہوتا ہے، اللہ کی شان کے لائق اس کی حمد و ثناکرتا ہے، پھر دو رکعتیں ادا کرتا ہے تو اس کے (باقی ماندہ ) گناہ (بھی ) نکل جاتے ہیں، بالکل اس دن کی طرح، جس دن اس کی ماں نے اسے جنم دیا تھا۔ “ [مسند الإمام أحمد : 112/4، صحيح مسلم : 832، صحيح ابن خزيمة : 165]
اس صحیح حدیث سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے وضو میں پاؤں کے دھونے کا حکم دیا ہے۔ وہ حکم کہاں ہے ؟ اسی آیت ِ کریمہ ہی میں تو ہے۔
◈ امام بیہقی رحمہ اللہ اس حدیث کے بارے میں فرماتے ہیں :
وفي ذٰلك دلالة علٰي أن الله تعالٰي أمر بغسلهما .
’’ یہ حدیث بتاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے وضو میں پاؤں کو دھونے کا حکم فرمایا ہے۔ “ [السنن الكبرٰي للبيهقي : 68/1]
◈ خاتمۃ المفسر ین، حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وفيه : ’ثم يغسل قدميه، كما أمره الله‘، فدل علٰي أن القرآن يأمر بالغسل .
’’ اس حدیث میں مذکور ہے کہ پھر وضو کرنے والا اللہ کے حکم کے مطابق اپنے پاؤں کو دھوئے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآنِ کریم پاؤں کو دھونے کا حکم دیتا ہے۔ “ [تفسير القرآن العظيم : 495/2]
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے عمل مبارک سے بھی پاؤں کو دھونے ہی کی تعلیم دی ہے اور زندگی میں کبھی بھی ننگے پاؤں پر مسح نہیں فرمایا۔ اس پر تفصیلی بات آئندہ آگے ہو گی۔
جو لوگ کہتے ہیں کہ وارجلكم إلى الكعبين ميں وارجلكم کو زبر کی بجائے زیر سے پڑھتے ہوئے اس کا عطف برء وسكم پر کریں گے اور جس طرح سر کا مسح کیا جاتا ہے، اسی طرح پاؤں پر بھی مسح کیا جائے گا، ان کا ردّ اس حدیث سے ہو جاتا ہے۔
زبر پڑھیں یا زیر، دونوں قرأتیں صحیح ہیں، لیکن دونوں صورتوں میں معنی پاؤں کو دھونے ہی کا ہو گا، کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کے لیے یہ بیان کر دیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پاؤں کو دھونے کا حکم فرمایا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے فعل مبارک سے بھی یہی ثابت کیا ہے۔ حدیث ہی قرآن کی سب سے معتبر تفسیر و تشریح ہے۔
◈ علامہ ماوردی (450-364ھ ) لکھتے ہیں :
غسل الرجلين فى الوضوئ مجمع عليه بنص الكتاب والسنة، وفرضها عند كافة الفقهائ الغسل دون المسح .
’’ وضو میں پاؤں کو دھونا کتاب و سنت کی نصوص سے ثابت ہے اور اس پر اجماع ہے۔
تمام فقہاء کرام کے نزدیک پاؤں کا فرض ان کو دھونا ہے، نہ کہ ان کا مسح کرنا۔ “ [الحاوي الكبير : 148/1]
◈ علامہ کاسانی، حنفی (م : 587ھ) لکھتے ہیں :
وقد ثبت بالتواتر أن النبى صلى الله عليه وسلم غسل رجليه فى الوضوئ، لا يجحده مسلم، فكان قوله وفعله بيان المراد بالـآية .
’’ یہ بات تواترسے ثابت ہو چکی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو میں اپنے پاؤں مبارک دھوئے۔ کوئی مسلمان اس کا انکار نہیں کر سکتا۔ چنانچہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا قول و فعل، قرآنِ کریم کی آیت ِ مبارکہ کی تفسیر ہے۔ “ [بدائع الصنائع : 6/1]
◈ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
هٰذه الآية الكريمة دالة علٰي وجوب غسل الرجلين، مع ما ثبت بالتواتر من فعل رسول الله صلى الله عليه وسلم، علٰي وفق ما دلت هٰذه الآية الكريمة، وهم مخالفون لذٰلك كله، وليس لهم دليل صحيح فى نفس الـأمر، وللٰه الحمد .
’’ یہ آیت ِ کریمہ وضو میں پاؤں دھونے کے وجوب پر دلالت کرتی ہے، پھرتواتر کے ساتھ اس آیت ِ کریمہ کے موافق رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فعل مبارک بھی ثابت ہو گیا ہے۔ رافضی لوگ ان سب دلائل کی مخالفت کرتے ہیں، حالانکہ ان کے پاس اس مسئلے میں کوئی بھی صحیح دلیل نہیں، وللہ الحمد !۔ “ [تفسير ابن كثير : 497/2]
◈ شارحِ صحیح بخاری، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وقد تواترت الـأخبار عن النبى صلى الله عليه وسلم فى صفة وضوئه، أنه غسل رجليه، وهو المبين لأمر الله، وقد قال فى حديث عمرو بن عبسة، الذى رواه ابن خزيمة وغيره مطولا فى فضل الوضوئ، : ’ثم يغسل قدميه، كما أمره الله‘ .
’’ وضو کے بیان میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے متواتر احادیث مروی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں پاؤں دھوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی حکم الٰہی کی وضاحت کرتے ہیں۔ سیدنا عمرو بن عبسہ رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ لمبی حدیث، جسے امام ابن خزیمہ وغیرہ نے وضو کی فضیلت میں بیان کیا ہے، اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ پھر وہ اپنے دونوں پاؤں کو دھوئے، جیسا کہ اسے اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے۔ “ [فتح الباري : 266/1]

زبر والی قرأت !
سیدنا ابن عباس عکرمہ رضی اللہ عنہما کے بارے میں بیان کرتے ہیں :
إنه قرأ : (وارجلكم)، يعني : رجع الـأمر إلى الغسل .
’’ انہوں نے زبر کے ساتھ پڑھا، یعنی اس آیت میں پاؤں کو دھونے کا حکم ہے۔ “ [مصنف ابن أبي شيبة : 19/1، وسنده صحيح]
◈ امام مجاہد رحمہ اللہ تابعی فرماتے ہیں :
رجع القرآن إلى الغسل، وقرأ : {وارجلكم}، ونصبها .
’’ قرآنِ کریم کا حکم دھونے کی طرف لوٹتا ہے، انہوں نے نصب کے ساتھ پڑھا۔ “ [شرح معاني الآثار للطحاوي : 40/1، وسنده صحيح]
◈ امام ضحاک بن مزاحم تابعی رحمہ اللہ نے اس آیت ِ کریمہ کو زبر کے ساتھ پڑھا اور فرمایا :
اغسلوها غسلا . ’’ پاؤں کو اچھی طرح دھوؤ۔ “ [تفسير الطبري : 194/8، وسنده صحيح]
◈ عروہ بن زبیر تابعی رحمہ اللہ سے مروی ہے :
إنه قرأها بذٰلك (وارجلكم)، وقال : عاد إلى الغسل .
’’ انہوں نے زبر کے ساتھ پڑھا اور فرمایا : اس کا عطف دھونے پر ہے۔ “ [الطهور للإمام القاسم بن سلام : 359، وسنده صحيح]
◈ امام مالک رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کہ اسے زبر کے ساتھ پڑھنا ہے یا زیر کے ساتھ ؟ تو فرمایا :
إنما هو الغسل، وليس بالمسح، لا تمسح الـأرجل، إنما تغسل .
’’ جیسے بھی پڑھاجائے، مراد دھونا ہی ہے، مسح کرنا نہیں۔ پاؤں پر مسح نہیں ہو گا، بلکہ ان کو دھویا ہی جائے گا۔ “ پھر آپ سے پوچھا گیاکہ جو پاؤں پر مسح کر لے، کیا اس کا وضو ہو جائے گا ؟ تو فرمایا : نہیں۔ [تفسير الطبري : 194/8، وسنده صحيح]
◈ مقرئ مدینہ، تلمیذ نافع، مشہور مجود و نحوی، عیسیٰ بن میناء، قالون رحمہ اللہ کہتے ہیں :
قرأت علٰي نافع بن عبد الرحمٰن بن أبي نعيم القارئ هٰذه القرائ ة غير مرة، نذكر فيها : {برئ وسكم وارجلكم} مفتوحة .
’’ میں نے امام و قاری، نافع بن عبدالرحمٰن بن ابونعیم کے پاس کئی مرتبہ یہ قرأت پڑھی۔ ہم اس میں زبر کے ساتھ یوں پڑھتے تھے۔ برئ وسكم وارجلكم . [السنن الكبرٰي للبيهقي : 71/1، وسنده حسن]
◈ امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ونحن نقرأها : {برئ وسكم وارجلكم} علٰي معنٰي : اغسلوا وجوهكم، وأيديكم، وأرجلكم، وامسحوا برؤوسكم .
’’ ہم اسے زبر کے ساتھ پڑھتے ہیں اور معنی یہ ہوتا ہے کہ اپنے چہروں، ہاتھوں اور پاؤں کو دھوؤ اور سروں کا مسح کرو۔ “ [كتاب الأم : 42/1]
◈ امام، اسماعیل بن عبدالرحمٰن، سدی کبیر رحمہ اللہ اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں :
فيقول : اغسلوا وجوهكم، واغسلوا أرجلكم، وامسحوا برؤوسكم، فهٰذا من التقديم والتأخير .
’’ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اپنے چہروں اور
پاؤں کو دھوؤ اور اپنے سروں کا مسح کرو۔ یہ تقدیم و تاخیر کے قبیل سے ہے۔ “ [تفسير الطبري : 192/8، وسنده حسن]
◈ امام ابن منذر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وبالقراء ة الـأولٰي نقرأها (وارجلكم)، والدليل علٰي صحة هٰذه القراء ة الـأخبار الثابتة عن نبي الله صلى الله عليه وسلم، الدالة علٰي ذٰلك، وهو أنه غسل رجليه، وفي غسله رجليه دليل علٰي صحة ما قلنا، لأنه المبين عن الله، وعن معنٰي ما أراد بقوله : (وارجلكم) .
’’ ہم پہلی (زبر والی ) قرأت کے ساتھ ہی پڑھتے ہیں۔ اس قرأت کے صحیح ہونے کی دلیل اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت شدہ وہ احادیث ہیں، جن میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاؤں دھونے کا ذکر ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا پاؤں دھونا ہمارے مؤقف کے صحیح ہونے کی بھی دلیل ہے، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی اللہ تعالیٰ کی طرف سے وضاحت کرنے والے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی مراد بتانے والے ہیں۔ “ [الأوسط فى السنن والإجماع والاختلاف : 412/1]
◈ سنی امام، ابوجعفر، محمد بن جریر، طبری رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
اختلفت القرائ فى قرائ ة ذٰلك، فقرأه جماعة من قرائ الحجاز والعراق : (وارجلكم إلى الكعبين) نصبا، فتأويله : إذا قمتم إلى الصلاة، فاغسلوا وجوهكم، وأيديكم إلى المرافق، وأرجلكم إلى الكعبين، وامسحوا برئ وسكم، وإذا قرئ كذٰلك، كان من المؤخر الذى معناه التقديم، وتكون الـأرجل منصوبة عطفا على الـأيدي، وتأول قارئ وا ذٰلك كذٰلك : أن الله جل ثناؤه إنما أمر عباده بغسل الـأرجل، دون المسح بها .
’’ قراءِ کرام اس مقام کی قرأت میں مختلف ہوئے ہیں۔ حجاز اور عراق کے قرائے کرام کی ایک جماعت نے اسے نصب کے ساتھ پڑھا ہے۔ اس کی تفسیر یہ ہو گی کہ جب تم نماز کے لیے کھڑے ہونے لگو تو پہلے اپنے چہروں، کہنیوں سمیت ہاتھوں اور ٹخنوں سمیت پاؤں کو دھولو، نیز اپنے سروں کا مسح کر لو۔ جب اسے نصب کے ساتھ پڑھا جائے گا تو یہ لفظًا مؤخر اور معناً مقدم ہو گا۔ أيدي (ہاتھوں ) پر عطف کی بنا پر أرجل (پاؤں )کو منصوب پڑھا جائے گا۔ زبر کے ساتھ پڑھنے والوں نے تفسیر یہ کی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو وضو میں پاؤں کو دھونے کا حکم فرمایا ہے، مسح کا نہیں۔ “ [تفسير الطبري : 188/8]

زیر والی قرأت اور اس کی صحیح تفسیر
زیر والی قرأت بھی اگرچہ ثابت ہے، لیکن اس سے بھی پاؤں دھونے کی نفی نہیں ہوتی، بلکہ اس کی صحیح تفسیر بھی پاؤں کو دھونے ہی کی ہے، جیسا کہ :
❀ صحابی رسول، سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
نزل القرآن بالمسح، والسنة الغسل .
’’ قرآن تو مسح کے الفاظ میں نازل ہوا اور سنت پاؤں کو دھونا ہے۔ “ [تفسير الطبري : 195/8، وسنده حسن]
مراد یہ ہے کہ قرآنِ کریم میں سر کے مسح پر عطف کرتے ہوئے وارجلكم کہا گیا، یعنی پاؤں پر مسح کا حکم دیا گیا، لیکن اس مسح کا صحیح معنی دھونا ہے، جیسا کہ قولی و فعلی صورت میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے ثابت ہے۔
مسح کا معنی دھونا کیسے ہو سکتا ہے ؟ عربی زبان میں مسح دھونے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ عربی دان لوگ اس بات سے بخوبی آگاہ ہیں۔ نزال بن سبرہ تابعی رحمہ اللہ کی بیان کردہ ایک صحیح حدیث، جو ہم آئندہ ذکر کریں گے، میں مسح دھونے کے معنی میں مستعمل ہے، نیز خود اس قول کے قائل، سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کا عمل یہی بتاتا ہے، جیسا کہ :
◈ مشہور تابعی، حمید طویل بیان کرتے ہیں :
إن أنسا كان يغسل قدميه ورجليه، حتٰي يسيل الماء .
’’ سیدنا انس رضی اللہ عنہ اپنے پاؤں کو اتنا دھوتے کہ پانی بہنے لگتا۔ “ [مصنف ابن أبي شيبة : 18/1، الأوسط لابن المنذر : 414/1، وسنده صحيح]
◈ نیز حمید طویل یہ بھی بیان کرتے ہیں :
قال موسي بن أنس لأنس، ونحن عنده : يا أبا حمزة ! إن الحجاج خطبنا بالـأهواز، ونحن معه، فذكر الطهور، فقال : اغسلوا وجوهكم وأيديكم وامسحوا برئ وسكم وأرجلكم، وإنه ليس شيئ من ابن آدم أقرب إلٰي خبثه من قدميه، فاغسلوا بطونهما وظهورهما وعراقيبهما، فقال أنس : صدق الله، وكذب الحجاج، قال الله : {وامسحوا برئ وسكم وارجلكم}، قال : وكان أنس إذا مسح قدميه بلهما .
’’ ہم سیدنا انس رضی اللہ عنہ کے پاس تھے تو ان کے بیٹے موسیٰ بن انس نے ان سے کہا: اے ابوحمزہ ! ہم حجاج کے ساتھ اہواز میں تھے، اس نے ہمیں خطبہ دیا اور طہارت کا ذکر کرتے ہوئے کہا: تم اپنے چہروں اور ہاتھوں کو دھوؤ اور اپنے سروں اور پاؤں کا مسح کرو۔ ابن آدم کے پاؤں سے زیادہ اس کی کوئی چیز اس کی خباثت کے قریب نہیں، لہٰذا تم اپنے پاؤں کی نچلی طرف، اوپر والی جانب اور ان کی ایڑھیاں اچھی طرح دھوؤ۔ یہ سن کر سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے سچ فرمایا ہے، جبکہ حجاج نے جھوٹ بولاہے۔ اللہ تعالیٰ نے تو اتنا فرمایا ہے کہ : وامسحوا برء وسكم وارجلكم تم اپنے سروں اور پاؤں کا مسح کرو۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ جب بھی اپنے پاؤں پر مسح کرتے تو انہیں بھگو لیتے۔ “ [تفسير الطبري : 195/8، وسنده صحيح]
معلوم ہوا کہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ کے نزدیک مسح والے قرآنی حکم سے مراد دھونا ہے، اسی لیے تو وہ خود اللہ کے حکم کو سنت ِ نبوی کی روشنی میں بجا لاتے ہوئے اپنے پاؤں کو دھوتے تھے۔
رہی بات حجاج کو جھوٹا کہنے کی تو سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے اسے پاؤں دھونے کا حکم دینے کی بنا پر جھوٹا نہیں کہا:، بلکہ اس کی اس خود ساختہ دلیل کو جھوٹ قرار دیا کہ انسان کے پاؤں اس کی نجاست کے زیادہ قریب ہوتے ہیں۔۔۔ اگر سیدنا انس رضی اللہ عنہ کے نزدیک پاؤں کو دھوناجھوٹ ہوتا تو وہ خود پاؤں کو کیوں دھوتے ؟ اور اسے سنت ِ رسول کیوں کہتے ؟
◈ امام ابن منذر رحمہ اللہ زیر والی قرأت کے بارے میں فرماتے ہیں :
وقد زعم بعض أهل العلم أن ليس فى قراء ة من قرأ (وارجلكم) على الخفض، ما يوجب المسح دون الغسل، لأن العرب ربما نسقت الحرف علٰي طريقة المجاور له، قال الـأعشٰي :
لقد كان فى حول ثوائ ثويته …… تقضي لبانات ويسأم سائم قال : فخفض الثوائ لمجاورته الحول، وهو فى موضع رفع، قال : ولغة معروفة لتميم قولهم (جحر ضب خرب)، قال : والخرب صفة للجحر، فخفضوه لمجاورته الضب، قال أبو بكر : وغسل رسول الله صلى الله عليه وسلم رجليه، وقوله : ’ويل للـأعقاب من النار‘، كفاية لمن وفقه الله للصواب، ودليل علٰي أن الذى يجب غسل القدمين، لا المسح عليهما، لأنه المبين عن الله معنٰي ما أراد مما فرض فى كتابه .

’’ بعض اہل علم نے بتایا ہے کہ جر (زیر) کے ساتھ پڑھنے میں بھی کوئی ایسی دلیل نہیں جو دھونے کی بجائے مسح کو ضروری قرار دے، کیونکہ عرب لوگ کبھی کبھی قریبی لفظ کی بنا پر اعراب دے دیتے ہیں، جیسے شاعر اعشیٰ نے کہا ہے : لقد كان فى حول ثوائ ثويته …… تقضي لبانات ويسأم سائم یہاں شاعر نے ثواء کو حول کے قریب ہونے کی بنا پر جر (زیر) دے دی، حالانکہ وہ محل رفع میں تھا۔ اسی طرح بنوتمیم کی معروف لغت ہے کہ : جحر ضب خرب اس جملے میں لفظ خرب لفظ جحر کی صفت ہے، لیکن انہوں نے اسے لفظ ضب کے قریب ہونے کی بنا پر جر (زیر) دے دی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو میں اپنے پاؤں مبارک دھوئے اور فرمایا کہ خشک ایڑھیوں کے لیے جہنم کی ’ویل ‘ نامی وادی ہے۔ جس شخص کو اللہ تعالیٰ نے حق قبول کرنے کی توفیق دی ہے، اس کے لیے یہی بات کافی ہے۔ یہ احادیث اس بات پر دلیل ہیں کہ وضو میں پاؤں کو دھونا ہی واجب ہے، مسح کرنا نہیں، کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہی قرآنِ کریم میں فرض کی گئی چیز کی حقیقت بیان کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر ہوئے تھے۔ “ [الأوسط فى السنن والإجماع والاختلاف : 414/1]
◈ محدث ِ اندلس، حافظ ابن عبدالبر فرماتے ہیں :
وإن كانت قد قرئت : (وارجلكم)، بالجر، فذٰلك معطوف على اللفظ، دون المعنٰي، والمعنٰي فيه الغسل، على التقديم والتأخير، فكأنه قال عز وجل : إذا قمتم إلى الصلاة فاغسلوا وجوهكم وأيديكم إلى المرافق وأرجلكم إلى الكعبين وامسحوا برؤوسكم، والقرائتان بالنصب والجر صحيحتان مستفيضتان، والمسح ضد الغسل، ومخالف له، وغير أن تبطل إحدي القراء تين بالـأخرٰي، ما وجد إلٰي تخريج الجمع بينهما سبيل، وقد وجدنا العرب تخفض بالجوار،…، فعلٰي ما ذكرنا تكون معنى القرائة بالجر النصب، ويكون الخفض على اللفظ للمجاورة، والمعني الغسل، وقد يراد بلفظ المسح الغسل عند العرب، من قولهم : تمسحت للصلاة، والمراد الغسل، ويشير إلٰي هٰذا التأويل كله قول النبى صلى الله عليه وسلم : ’ويل للـأعقاب من النار‘ .
’’ اگرچہ اسے زیر کے ساتھ بھی پڑھا گیا ہے، لیکن یہ لفظ پر عطف ہے، معنی پر نہیں۔ یہ تقدیم و تاخیر کے قبیل سے ہے اور اس کامعنی دھونا ہی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فرمان کا مطلب یہ ہے کہ جب تم نماز کے لیے کھڑے ہونے لگو تو اپنے چہروں، کہنیوں سمیت اپنے ہاتھوں اور ٹخنوں سمیت اپنے پاؤں کو دھو لو اور اپنے سروں کا مسح کر لو۔ نصب (زبر) اور جر (زیر) کے ساتھ دونوں قرأتیں صحیح اور مشہور ہیں۔ (ظاہری طور پر اگرچہ ) مسح دھونے کی ضد اور اس کے خلاف ہے، لیکن دونوں قرأتوں میں ایک کو باطل کہنا اس وقت تک جائز نہیں، جب تک دونوں کی مطابقت و موافقت کا کوئی راستہ ہو۔ ہم نے دیکھا ہے کہ عرب لوگ قرب کی بنا پر جر (زیر) دے دیتے ہیں۔۔۔ ہمارے بیان کے مطابق جر (زیر) والی قرأت کا معنی نصب (زبر) والا ہی ہے، جبکہ جر (زیر) صرف قرب کی وجہ سے لفظی طور پر ہے، چنانچہ اس کا معنی دھونا ہی ہے۔ پھر کبھی عرب لوگ مسح کا لفظ دھونے پر بول دیتے ہیں، جیسا کہ عرب کہتے ہیں : تمسحت للصلاة (میں نے نماز کے لیے مسح کیا) اور مراد (وضو میں اعضاءکو) دھونا ہوتا ہے۔ اسی معنی کی طرف نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان اشارہ کرتا ہے : ويل للـأعقاب من النار (خشک ایڑھیوں کے لیے جہنم کی وادی ’ویل ‘ہے )۔ “ [التمهيد لما فى المؤطإ من المعاني والأسانيد : 255,254/24]
◈ علامہ، محمد بن علی بن محمد، ابن ابی العز حنفی (792-731ھ) فرماتے ہیں :
ولفظ الآية لا يخالف ما تواتر من السنة، فإن المسح كما يطلق ويراد به الإصابة، كذٰلك يطلق ويراد به الإسالة، كما تقول (العرب) : تمسحت للصلاة، وفي الآية ما يدل علٰي أنه لم يرد بمسح الرجلين المسح الذى هو قسيم الغسل، بل المسح الذى الغسل قسم منه، فإنه قال : (الي الكعبين)، ولم يقل : إلى الكعاب، كما قال : (الي المرافق)، فدل علٰي أنه ليس فى كل رجل كعب واحد، كما فى كل يد مرفق واحد، بل فى كل رجل كعبان، فيكون تعالٰي قد أمر بالمسح إلى العظمين الناتئين، وهٰذا هو الغسل، فإن من يمسح المسح الخاص يجعل المسح لظهور القدمين، وجعل الكعبين فى الآية غاية يرد قولهم، فدعواهم أن الفرض مسح الرجلين إلى الكعبين، اللذين هما مجتمع الساق والقدم، عند معقد الشراك، مردود بالكتاب والسنة،…، فالسنة المتواترة تقضي علٰي ما يفهمه بعض الناس من ظاهر القرآن، فإن الرسول بين للناس لفظ القرآن ومعناه.
’’ (زیر والی قرأت کے ساتھ بھی ) آیت ِ کریمہ کے الفاظ متواتر سنت (وضو میں پاؤں کو دھونے ) کے خلاف نہیں، کیونکہ جس طرح مسح سے مراد ہاتھ لگانا ہے، اسی طرح مسح سے مراد پانی بہانا بھی ہے۔ اس سلسلے میں عربوں کا یہ قول دلیل ہے کہ تمسحت للصلاة میں نے نماز کے لیے وضو کیا۔ اس آیت ِ کریمہ میں وہ قرینہ موجود ہیں جو بتاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی مراد وہ مسح نہیں جو دھونے کے برعکس ہے، بلکہ وہ مسح مراد ہے جس کی ایک قسم دھونا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے الي الكعبين ((تثنیہ کے صیغے کے ساتھ ) دونوں ٹخنوں تک ) فرمایا ہے، إلى الكعاب ( (جمع کے صیغے کے ساتھ ) ٹخنوں تک ) نہیں فرمایا۔ جبکہ ہاتھوں کے بارے میں ( (جمع کے صیغے کے ساتھ) کہنیوں تک ) فرمایا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ جس طرح ہر ہاتھ میں ایک کہنی ہوتی ہے، اس طرح ہر پاؤں میں ایک ٹخنہ نہیں ہوتا، بلکہ ہر پاؤں میں دو ٹخنے ہوتے ہیں۔ یوں اللہ تعالیٰ نے دو ابھری ہوئی ہڈیوں تک مسح کا حکم دیا ہے اور یہ دھونے ہی سے ممکن ہے، کیونکہ خاص (خشک ) مسح تو پاؤں کی اوپر والی جانب ہی ہوتا ہے۔ اس آیت میں دونوں ٹخنوں تک مسح کا حکم رافصیوں کے دعوے کا ردّ کرتا ہے۔ ان کا دعویٰ یہ ہے کہ ان دوٹخنوں تک پاؤں کامسح فرض ہے جو تسمہ باندھنے کے مقام کے پاس پاؤں اور پنڈلی کے ملنے کی جگہ پر ہوتے ہیں، لیکن ان کا یہ دعویٰ کتاب و سنت کے دلائل کی روشنی میں مردود ہے۔۔۔ یوں سنت ِ متواترہ اس مفہوم کو غلط قرار دیتی ہے جسے بعض لوگ قرآنِ کریم کے ظاہری الفاظ سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو قرآنِ کریم کے الفاظ بھی بتائے ہیں اور ان کامعنی بھی بیان فرمایا ہے۔ “ [شرح العقيدة الطحاوية، ص : 387,386]
◈ مشہور امامِ لغت و ادب، محمد بن احمد بن ازہری (370-282ھ) لکھتے ہیں :
وهي أجود القرائ تين، لموافقتها الـأخبار الصحيحة عن النبي، عليه السلام، فى غسل الرجلين، ومن قرأ (وارجلكم) عطفها علٰي قوله : (وامسحوا برء وسكم)، وبينت السنة أن المراد بمسح الـأرجل غسلها، وذٰلك أن المسح فى كلام العرب يكون غسلا، ويكون مسحا باليد، والـأخبار جائ ت بغسل الـأرجل ومسح الرؤوس، ومن جعل مسح الـأرجل كمسح الرؤوس، خطوطا بالـأصابع، فقد خالف ما صح عن رسول الله، صلى الله عليه وسلم، أنه قال : ويل للعراقيب من النار‘ .
’’ یہ (فتح والی قرأت ) عمدہ ترین قرأت ہے، کیونکہ یہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے وضو میں پاؤں دھونے کے بارے میں مروی صحیح روایات کے موافق ہے۔ جس نے اسے زیر کے ساتھ پڑھا ہے، اس نے اسے سر کے مسح پر عطف کیا ہے۔ سنت ِ نبوی میں اس کی مراد پاؤں کو دھونے سے بیان کی گئی ہے، کیونکہ کلامِ عرب میں جس طرح مسح ہاتھ پھیرنے کے معنی میں آتا ہے، اسی طرح دھونے کے معنی میں بھی مستعمل ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سر پر مسح کرنے اور پاؤں کو دھونے کی احادیث ثابت ہیں۔ لہٰذا جو شخص پاؤں پر بھی سر کی طرح انگلیوں سے خطوط کھینچ کر مسح کرتا ہے، وہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس صحیح فرمانِ مبارک کی مخالفت کرتا ہے کہ : خشک ایڑھیوں کے لیے جہنم کی وادی ’ویل ‘ہے۔ “ [معاني القراء ات : 326/1]
◈ حافظ، اسماعیل بن عمر، ابن کثیر (774-701ھ) فرماتے ہیں :
وهٰذه قرائة ظاهرة فى وجوب الغسل، كما قال السلف .
’’ سلف کے مطابق یہ قرأت پاؤں دھونے کے وجوب میں بالکل واضح ہے۔ “ [تفسير القرآن العظيم : 490/2]
◈ مشہور شارحِ حدیث، علامہ طیبی رحمہ اللہ (م : 743ھ) فرماتے ہیں :
ذهب الشيعة إلٰي أنه يمسح على الرجلين، لقوله تعالٰي : ﴿وامسحوا برئ وسكم وارجلكم﴾ علٰي قرائ ة الجر، فإنه تعالٰي عطف الرجل على الرأس، والرأس يمسح، فكذا الرجل، قلنا : وقد قرئ بالنصب، عطفا علٰي قوله : ﴿وايديكم﴾ ، وإذا ذهب إلى المسح يبقٰي مقتضي النص غير معمول به، بخلاف العكس، فإن المسح مغمور بالغسل، علٰي أن الـأحاديث الصحيحة تواترت، معاضدة لقرائ ة النصب، فوجب تأويل القرائ ة بالكسر، وفيه وجوه ؛ أحدها العطف على الجوار، كقوله تعالٰي : ﴿عذاب يوم اليم﴾ [هود 11 : 26] ، والـأليم صفة العذاب، فأخذ إعراب اليوم للمجاورة، وقوله تعالٰي : ﴿عذاب يوم محيط﴾ [هود 11: 84] ، …..، والثاني الاستغنائ بأحد الفعلين عن الآخر، والعرب إذا اجتمع فعلان متقاربان فى المعنٰي، ولكل واحد منهما متعلق، جوزت ذكر أحد الفعلين، وعطف متعلق المحذوف علٰي متعلق المذكور، علٰي حسب ما يقتضيه لفظه، حتٰي كأنه شريكه فى أصل الفعل، كما قال الشاعر :
يا ليت ! بعلك قد غدا ……… متقلدا سيفا ورمحا
وكقول الـآخر: ……، علفتها تبنا وماء ا باردا، تقديره : علفتها تبنا، وسقيتها مائ ا باردا، ومتقلدا سيفا، وحاملا رمحا، والثالث قول الزجاج : يجوز {ارجلكم} بالخفض، علٰي معنٰي : فاغسلوا، لأن قوله تعالٰي : (الي الكعبين) قد دل عليه، لأن التحديد يفيد الغسل، كما فى قوله تعالٰي : ﴿الي المرافق﴾ ، ولو أريد المسح لم يحتج إلى التحديد، كما فى قوله : ﴿وامسحوا برئ وسكم﴾ من غير تحديد، ويطلق المسح على الغسل .

’’ رافضی شیعوں کا مذہب ہے کہ وضو میں پاؤں پر مسح کیا جائے گا۔ دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے : ﴿وامسحوا برئ وسكم وارجلكم﴾ ۔ ان کا کہنا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے رجل (پاؤں )کا عطف راس (سر) پر کیا ہے۔ لہٰذا جس طرح سر کا مسح کیا جاتا ہے، اسی طرح پاؤں کا بھی مسح کیا جائے گا۔ ہم کہتے ہیں کہ اسے ايدي (ہاتھوں ) پر عطف کرتے ہوئے نصب (زبر) کے ساتھ بھی پڑھا گیا ہے۔ جب مسح کرنے کا مذہب اپنایا جائے گا تو فرمانِ باری تعالیٰ کا تقاضا پورا نہیں ہو سکے گا۔ اس کے برعکس اگر دھویا جائے گا تو مسح پر بھی عمل ہو جائے گا۔ پھر متواتر صحیح احادیث بھی نصب (زبر) والی قرأت کی تائید کرتی ہیں۔ لہٰذا کسرہ (زیر) والی قرأت کی تاویل کرنا ضروری ہے۔ اس کی کئی صورتیں ہیں : ایک تو یہ کہ زیر کو جوار (قریبی لفظ ) کی بنا پر تسلیم کیا جائے، جیسا کہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے : ﴿عذاب يوم اليم﴾ [هود 11 : 26] ، یہاں پرلفظ اليم ، لفظ عذاب کی صفت ہے، لیکن قرب کی بنا پر اس نے اليم کا اعراب لے لیا۔ اسی طرح فرمانِ باری تعالیٰ ہے : ﴿عذاب يوم محيط﴾ [هود 11 : 84] ، اس میں لفظ محيط ، لفظ عذاب کی صفت ہے، ( لیکن اس نے قرب کی وجہ سے يوم کا اعراب قبول کر لیا)۔۔۔ دوسری صورت یہ ہے کہ دو فعلوں میں سے ایک کو حذف مان کر دوسرے پر اکتفا تسلیم کیا جائے۔ عرب لوگ ایسا کرتے رہتے ہیں کہ جب دو فعل قریب المعنی ہوں اور دونوں کے متعلق موجود ہوں تو الفاظ کے تقاضے کے مطابق وہ ان میں سے ایک کو حذف کر کے محذوف کے متعلق کو مذکور کے متعلق پر عطف کرنا جائز قرار دیتے ہیں۔ ایسی صورتوں میں یوں محسوس ہوتا ہے کہ دوسرا متعلق بھی پہلے متعلق کے ساتھ اصل فعل میں شریک تھا۔ اس کی مثال شاعر کا یہ قول ہے :
يا ليت ! بعلك قد غدا ……… متقلدا سيفا ورمحا
ایک دوسرے شاعرنے کہا ہے : علفتها تبنا وماء ا باردا،
دوسری عبارت اصل میں یوں تھی : علفتها تبنا وسقيتها ماء ا باردا . جبکہ پہلی عبارت اصل میں یوں تھی : متقلدا سيفا وحاملا رمحا . (اسی طرح اس آیت ِ کریمہ کی اصل عبارت یوں ہو گی کہ اپنے سروں کا مسح کرو اور اپنے پاؤں کو ٹخنوں سمیت دھوؤ)۔ تیسری صورت علامہ زجاج نے بیان کی ہے کہ زیر کے ساتھ پڑھنے پر یہاں دھونے کا معنی ہو گا، کیونکہ ’ٹخنوں سمیت ‘ کی قید اس پر دلالت کرتی ہے۔ جس طرح ہاتھوں میں ’کنہییوں سمیت ‘ کی قید ہے اور وہ دھوئے جاتے ہیں، اسی طرح پاؤں میں بھی ’ٹخنوں سمیت ‘ کی قید ہے، لہٰذا انہیں بھی دھویا جائے گا۔ اگر پاؤں کا مسح ہی مراد ہوتا تو کسی قید کی ضرورت نہیں تھی، جیسا کہ سر پر مسح کرنے میں کوئی قید ذکر نہیں کی گئی۔ دوسری بات یہ ہے کہ مسح کا لفظ دھونے پر بھی بولا جاتا ہے۔ “ [مرعاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح : 97/2]

حدیثی دلائل
ہم قرآنی دلیل کے ضمن میں صحابی رسول سیدنا عمرو بن عبسہ رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ یہ حدیث بیان کر چکے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پاؤں کو دھونے کا حکم دیا اور اسے اللہ تعالیٰ کا حکم قرار دیا۔
آئیے اس حوالے سے مزید احادیث ِ نبویہ ملاحظہ فرمائیں :
① سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
تخلف النبى صلى الله عليه وسلم عنا فى سفرة سافرناها، فأدركنا وقد أرهقنا العصر، فجعلنا نتوضأ ونمسح علٰي أرجلنا، فنادٰي بأعلٰي صوته : ’ويل للـأعقاب من النار‘، مرتين أو ثلاثا .
’’ ایک سفر میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے پیچھے رہ گئے۔ عین عصر کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے آ ملے۔ ہم وضو کرنے اور اپنے پاؤں پر مسح کرنے لگے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلند آواز سے دو یا تین مرتبہ پکارا : خشک ایڑھیوں کے لیے جہنم کی ’ویل ‘ نامی وادی ہے۔ “ [صحيح البخاري : 163، صحيح مسلم : 241]
② سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
إن النبى صلى الله عليه وسلم راٰي رجلا، لم يغسل عقبيه، فقال : ’ويل للـأعقاب من النار‘ .
’’ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو دیکھا کہ اس نے اپنی ایڑھیاں نہیں دھوئی تھیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : خشک ایڑھیوں کے لیے جہنم کی ’ویل ‘ نامی وادی ہے۔ “ [صحيح البخاري : 165، صحيح مسلم : 242]
❀ صحیح مسلم کے الفاظ یہ ہیں :
ويل للعراقيب من النار .
’’خشک کونچوں کے لیے جہنم کی ’ویل ‘ نامی وادی ہے۔ “
③ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے اپنے بھائی عبدالرحمٰن بن ابوبکرسے فرمایا :
أسبغ الوضوء، فإني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول : ’ويل للـأعقاب من النار‘ .
’’ وضو اچھی طرح کیا کرو، کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے کہ خشک ایڑھیوں کے لیے جہنم کی ’ویل ‘ نامی وادی ہے۔ “ [صحيح مسلم : 240]
④ سیدنا عبداللہ بن حارث بن جزء زبیدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول : ’ويل للـأعقاب، وبطون الـأقدام من النار‘ .
’’ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ خشک ایڑھیوں اور پاؤں کی خشک نچلی اطراف کے لیے جہنم کی وادی ’ویل ‘ ہے۔ “ [مسند الإمام أحمد : 191/4، المستدرك على الصحيحين للحاكم : 162/1، السنن الكبرٰي للبيهقي : 70/1، وسنده صحيح]
اس حدیث کو امام ابن خزیمہ [163] اور امام حاکم رحمہ اللہ نے ’’ صحیح“ کہا ہے۔
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ [تفسير ابن كثير : 493/2] نے اس کی سند کو ’’ صحیح“ قرار دیا ہے۔
⑤ سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول : ’ويل للـأعقاب من النار‘ .
’’ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ خشک ایڑھیوں کے لیے جہنم کی وادی ’ویل ‘ ہے۔ “ [تفسير الطبري : 205/8، وسنده صحيح]

فائدہ :
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’ويل واد فى جهنم، يهوي به الكافر أربعين خريفا، قبل أن يبلغ قعرها‘ .
’’ ویل، جہنم کی ایک وادی ہے، جس میں گرنے کے بعد پیندے تک پہنچنے میں کافر کو چالیس سال لگیں گے۔ “ [صحيح ابن حبان : 7467، المستدرك على الصحيحين للحاكم : 57/2، 596/4، وسنده حسن]
اس حدیث کو امام حاکم رحمہ اللہ نے ’’ صحیح“ قرار دیا ہے اور حافظ ذہبی رحمہ اللہ ان کی نے موافقت کی ہے۔ درّاج کی ابوالہیثم سے روایت کم ازکم ’’ حسن“ ہوتی ہے۔

خشک ایڑھیوں والی حدیث اور فقہائے کرام
ان الفاظ پر امام بخاری رحمہ اللہ نے یوں تبویب فرمائی ہے :
باب غسل الرجلين، ولا يمسح على القدمين .
’’ اس بات کا بیان کہ پاؤں کو دھویا جائے گا، ان پر مسح نہیں کیا جائے گا۔ “
◈ امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وفقه هٰذا الحديث أنه لا يجوز المسح على القدمين، إذ لم يكن عليها خفان أو جوربان .
’’ اس حدیث سے یہ بات سمجھ میں آ جاتی ہے کہ جب پاؤں پر موزے یا جرابیں نہ ہوں تو ان پر مسح کرناجائز نہیں۔ “ [سنن الترمذي، تحت الحديث : 41]
◈ امام ابن منذر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وغسل رسول الله صلى الله عليه وسلم رجليه، وقوله : ’ويل للـأعقاب من النار‘، كفاية لمن وفقه الله للصواب، ودليل علٰي أن الذى يجب غسل القدمين، لا المسح عليهما، لأنه المبين عن الله معنٰي ما أراد مما فرض فى كتابه .
’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو میں اپنے پاؤں مبارک دھوئے اور فرمایا کہ خشک ایڑھیوں کے لیے جہنم کی ’ویل ‘ نامی وادی ہے۔ جس شخص کو اللہ تعالیٰ نے حق قبول کرنے کی توفیق دی ہے، اس کے لیے یہی بات کافی ہے۔ یہ احادیث اس بات پر دلیل ہیں کہ وضو میں پاؤں کو دھونا ہی واجب ہے، مسح کرنا نہیں، کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہی قرآنِ کریم میں فرض کی گئی چیز کی حقیقت بیان کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر ہوئے تھے۔ “ [الأوسط فى السنن والإجماع والاختلاف : 415/1]
◈ امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ کی تبویب یہ ہے :
باب التغليظ فى ترك غسل بطون الـأقدام فى الوضوئ، فيه أيضا دلالة علٰي أن الماسح علٰي ظهر القدمين غير مؤد للفرض، لا كما زعمت الروافض أن الفرض مسح ظهورهما، لا غسل جميع القدمين .
’’ وضو میں پاؤں کے اندرونی حصوں کو نہ دھونے پر وعید کا بیان۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ پاؤں کے اوپر مسح کرنے والا فرض کو ادا نہیں کرتا۔ رافصیوں کا یہ خیال باطل ہے کہ وضو میں پاؤں کے اوپر مسح کرنا فرض ہے، پورے پاؤں کو دھونا فرض نہیں۔ “ [صحيح ابن خزيمة : 84/1]
◈ نیز مذکورہ حدیث پر ایک جگہ یوں تبویب کی ہے :
باب التغليظ فى ترك غسل العقبين فى الوضوئ، والدليل علٰي أن الفرض غسل القدمين لا مسحهما، إذا كانتا باديتين غير مغطيتين بالخف، أو ما يقوم مقام الخف، لا علٰي ما زعمت الروافض أن الفرض مسح القدمين لا غسلهما، إذ لو كان الماسح على القدمين مؤديا للفرض، لما جاز أن يقال لتارك فضيلة : ويل له، وقال صلى الله عليه وسلم : ’ويل للـأعقاب من النار‘، إذا ترك المتوضئ غسل عقبيه .
’’ وضو میں ایڑھیوں کو نہ دھونے پر وعید کا بیان۔ یہ حدیث اس بات پر دلیل ہے کہ جب پاؤں ننگے ہوں اور وہ موزوں وغیرہ سے ڈھکے ہوئے نہ ہوں تو وضو میں ان کو دھونا فرض ہے، نہ کہ ان پر مسح کرنا۔ اگر ان پر مسح کرنے والا فرض کی ادائیگی کر لیتا ہوتا تو (پاؤں دھونا صرف ) ایک فضیلت والا عمل (ہوتا اور اس ) کے تارک کو جہنم کی وادی کی وعید دینا جائز نہ ہوتا، جبکہ ایک وضو کرنے والے نے اپنی ایڑھیاں نہ دھوئیں تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما دیا کہ خشک ایڑھیوں کے لیے جہنم کی وادی ’ویل ‘ ہے۔ “ [صحيح ابن خزيمة : 83/1]
◈ حافظ ابن عبدالبر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
فى هٰذا الحديث من الفقه إيجاب غسل الرجلين، وفي ذٰلك تفسير لقول الله عز وجل : ﴿وأرجلكم إلى الكعبين﴾ ، وبيان أنه أراد الغسل، لا المسح .
’’ اس حدیث میں یہ فقہ ہے کہ وضو میں پاؤں دھونا فرض ہے۔ یہ حدیث فرمانِ الٰہی : وأرجلكم إلى الكعبين
کی تفسیر ہے اور واضح طور پر بتاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مراد پاؤں کو دھونا ہے، نہ کہ مسح کرنا۔ “ [التهميد لما فى المؤطإ من المعاني والأسانيد : 254/14]
◈ حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
غسل الرجلين شرع لازم، بينه لنا الرسول، اللهم صل عليه، وقال : ’ويل للـأعقاب من النار‘، وعليه الـأمة، ولا اعتبار لمن شذ .
’’ وضو میں پاؤں کو دھونا فرض ہے۔ یہ بات ہمیں ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کہہ کر بیان فرما دی ہے : خشک ایڑھیوں کے لیے جہنم کی وادی ’ویل ‘ہے۔ پوری امت کا اسی پر عمل ہے۔ امت سے بچھڑ جانے والوں کا کوئی اعتبار نہیں۔ “ [سير أعلام النبلاء : 127/4]
◈ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ووجه الدلالة من هٰذه الـأحاديث ظاهرة، وذٰلك أنه لو كان فرض الرجلين مسحهما، أو أنه يجوز ذٰلك فيهما، لما توعد علٰي تركه .
’’ ان احادیث سے استدلال بہت واضح ہے، کیونکہ اگر پاؤں پر مسح کرنا فرض ہوتا یا یہ وضو میں کافی ہوتا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نہ دھونے پر وعید نہ فرماتے۔ “ [تفسير القرآن العظيم : 494/2]
◈ شیخ الاسلام، ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وما تقوله الإمامية من أن الفرض مسح الرجلين إلى الكعبين، اللذين هما مجتمع الساق والقدم، عند معقد الشراك، أمر لا يدل عليه القرآن بوجه من الوجوه، ولا فيه عن النبى صلى الله عليه وسلم حديث يعرف، ولا هو معروف عن سلف الـأمة، بل هم مخالفون للقرآن والسنة المتواترة، ولإجماع السابقين الـأولين والتابعين لهم بإحسان .
’’ امامیہ رافصیوں نے یہ جو بات گھڑ لی ہے کہ پاؤں کا مسح کرنا فرض ہے اور وہ بھی ان ٹخنوں تک جو ان کے نزدیک پنڈلی اور پاؤں کے جوڑ کے قریب تسمیہ باندھنے والی جگہ واقع ہیں، یہ ایسی بات ہے جس پر قرآنِ کریم کسی بھی طرح دلالت نہیں کرتا، نہ اس بارے۔ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی حدیث معروف ہے، نہ یہ بات سلف ِ امت سے جانی گئی ہے۔ بلکہ اس سلسلے میں رافضی لوگ قرآنِ کریم، سنت ِ متواترہ اور سابقون اولون اور تابعین کرام کے اجماع کے مخالف ہیں۔ “ [منهاج السنة النبوية : 177/4]
⑥ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
إن رجلا توضأ، فترك موضع ظفر علٰي قدمه، فأبصره النبى صلى الله عليه وسلم، فقال : ’ارجع، فأحسن وضوئك‘، فرجع، ثم صلٰي .
’’ ایک آدمی نے وضو کیا، لیکن اپنے پاؤں پر ایک ناخن کے برابر جگہ خشک چھوڑ دی۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دیکھا تو فرمایا : واپس جاؤ اور اچھی طرح وضو کرو۔ وہ آدمی واپس گیا (دوبارہ وضو کیا)، پھر نماز پڑھی۔ “ [صحيح مسلم : 243]
⑦ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
إن رجلا جاء إلى النبى صلى الله عليه وسلم، قد توضأ، وترك علٰي قدمه موضع الظفر، فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم : ’ارجع، فأحسن وضوئك‘ .
’’ ایک شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوا، اس نے وضو کیا تھا لیکن اپنے پاؤں پر ایک ناخن کے برابر جگہ خشک چھوڑی ہوئی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا : واپس جاؤ اور اچھی طرح وضو کرو۔ “ [مسند الإمام أحمد : 146/3، مسند أبي يعلي : 2944، سنن أبي داود : 173، سنن ابن ماجه : 665، وسنده صحيح]
⑧ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک زوجہ مطہرہ بیان فرماتی ہیں :
إن رسول الله صلى الله عليه وسلم راٰي رجلا يصلي، وفي ظهر قدمه لمعة قدر الدرهم، لم يصبها المائ، فأمره رسول الله صلى الله عليه وسلم أن يعيد الوضوء .
’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا، اس کے پاؤں میں ایک درہم کے برابر خشک جگہ تھی، جہاں پانی نہیں پہنچا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے حکم فرمایا کہ وہ دوبارہ وضو کرے۔ “ [مسند الإمام أحمد : 424/3، سنن أبي داود : 175، وسنده حسن]
◈ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وهٰذا إسناد جيد قوي صحيح .
’’ یہ سند عمدہ، قوی اور صحیح ہے۔ “ [تفسير القرآن العظيم : 495/2]
⑨ سیدنا عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وضو کے بیان میں فرماتے ہیں :
ثم غسل رجليه إلى الكعبين .
’’ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ٹخنوں سمیت اپنے پاؤں مبارک دھوئے۔ “
⑩ عبد خیر تابعی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں :
أتانا علي، وقد صلٰي، فدعا بطهور، فقلنا : ما يصنع بالطهور وقد صلي، ما يريد إلا ليعلمنا، فأتي بإنائ فيه مائ وطست، فأفرغ من الإناء علٰي يمينه، فغسل يديه ثلاثا،…، فمسح برأسه مرة واحدة، ثم غسل رجله اليمنٰي ثلاثا، ورجله الشمال ثلاثا، ثم قال : (من سره أن يعلم وضوء رسول الله صلى الله عليه وسلم، فهو هٰذا ) .
’’ سیدنا علی رضی اللہ عنہ ہمارے پاس تشریف لائے، آپ نے نماز پڑھی ہوئی تھی۔ آپ نے وضو کے لیے پانی منگوایا۔ ہم نے سوچا : آپ پانی کو کیا کریں گے ؟ حالانکہ نماز تو آپ نے پڑھ رکھی ہے۔ آپ صرف ہمیں وضو سکھانا چاہتے ہیں۔ آپ کے پاس ایک پانی والا برتن اور ایک تشتری لائی گئی۔ آپ نے اپنے دائیں ہاتھ پر پانی انڈیلا اور تین مرتبہ ہاتھ دھوئے۔۔۔ پھر اپنے سر کا مسح کیا، پھر اپنے دائیں پاؤں کو تین مرتبہ دھویا، پھر اپنے بائیں پاؤں کو تین مرتبہ دھویا۔ پھر فرمایا : جو شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وضو جاننا چاہے، وہ یہ وضو دیکھ لے۔ “ [سنن أبي داود : 111، سنن النسائي : 92، وسنده صحيح]
⑪ جبیر بن نفیر رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں :
إن أبا جبير الكندي قدم علٰي رسول الله صلى الله عليه وسلم، فأمر له بوضوئ، فقال : ’توضأ يا أبا جبير!‘، فبدأ بفيه، فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم : ’لا تبدأ بفيك، فإن الكافر يبدأ بفيه‘، ودعا رسول الله صلى الله عليه وسلم بمائ، فتوضأ ثلاثا ثلاثا، ثم مسح برأسه، وغسل رجليه .
’’ ابوجبیر کندی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے وضو کا پانی منگوایا اور فرمایا : ابوجبیر ! وضو کرو، انہوں نے اپنے منہ سے شروع کیا۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : منہ سے شروع نہ کرو، کیونکہ کافر منہ سے شروع کرتے ہیں۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی منگوا کر تین تین دفعہ وضو کیا، پھر سر کا مسح فرمایا، پھر اپنے دونوں پاؤں مبارک دھوئے۔ “ [شرح معاني الآثار للطحاوي : 37/1، السنن الكبرٰي للبيهقي : 47,46/1، وصححه ابن حبان : 1089، وسنده حسن]
⑫ سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے وضو کے بارے میں ہے :
ثم غسل رجليه إلى الكعبين، ثم قال : هٰكذا كان وضوء رسول الله صلى الله عليه وسلم .
’’ پھر آپ رضی اللہ عنہ نے اپنے دونوں پاؤں کو ٹخنوں سمیت دھویا، پھر فرمایا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وضو اسی طرح تھا۔ “ [صحيح البخاري : 185، صحيح مسلم : 235]
⑬ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے وضو کے بارے میں روایت ہے :
……، ثم مسح برأسه، ثم أخذ غرفة من مائ، فرش علٰي رجله اليمنٰي، حتٰي غسلها، ثم أخذ غرفة أخرٰي، فغسل بها رجله، يعني اليسرٰي، ثم قال : هٰكذا رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم يتوضأ .
’’ آپ نے اپنے سر کا مسح کیا، پھر ایک چلو میں پانی لیا اور اسے اپنے دائیں پاؤں پر بہایا، حتی کہ اسے دھو لیا، پھر ایک اور چلو پانی کا لیا اور اس سے بایاں پاؤں دھویا۔ پھر فرمایا : میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسے ہی وضو کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ “ [مسند الإمام أحمد : 268/1، صحيح البخاري : 140]
⑭ قرشی صحابی، سیدنا مستورد بن شداد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم يدلك بخنصره ما بين أصابع رجليه .
’’ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ (وضو میں ) اپنی چھنگلی کے
ساتھ اپنے پاؤں کی انگلیوں کی درمیانی جگہ کو مل رہے تھے۔ “ [السنن الكبرٰي للبيهقي : 47,46/1، وسنده حسن]
◈ امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
إن هٰذا حديث حسن .
’’ بلاشبہ یہ حدیث حسن ہے۔ “ [أيضا]
◈ امام طحاوی حنفی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
وهٰذا لا يكون إلا فى الغسل، لأن المسح لا يبلغ فيه ذٰلك، إنما هو علٰي ظهور القدمين خاصة .
’’ ایسا (پاؤں کی انگلیوں کی درمیانی جگہ کو ملنا) صرف دھونے میں ہو سکتا ہے، کیونکہ مسح میں ایسی نوبت نہیں آتی، وہ تو صرف پاؤں کی اوپر والی جانب ہوتا ہے۔ “ [شرح معاني الآثار : 37/1]
⑮ سیدنا لقیط بن صبرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا : مجھے وضو کا طریقہ بتائیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
أسبغ الوضوء، وخلل بين الـأصابع، وبالغ فى الاستنشاق، إلا أن تكون صائما .
’’ وضو کو اچھی طرح مکمل کرو، انگلیوں کے درمیان خلال کرو، اگر روزہ نہ رکھا ہو تو ناک میں اچھی طرح پانی ڈالو۔ “ [سنن أبي داود : 142، سنن الترمذي : 38، وقال : حسن صحيح، سنن ابن ماجه : 407، وسنده حسن، وأخرجه أحمد : 211/4، وأبو داود : 143، وسنده صحيح]
↰ اس حدیث کو امام ابن خزیمہ [150] اور امام حاکم رحمہ اللہ [1054] ، امام ابن حبان رحمہ اللہ [148,147/1] نے ’’ صحیح“ کہا ہے۔ حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے امام حاکم رحمہ اللہ کی موافقت کی ہے۔
وضو میں پاؤں دھونے کے بارے میں اور بھی صحیح احادیث موجود ہیں۔ مذکورہ بالا احادیث کے بارے میں امام طحاوی حنفی رحمہ اللہ (321-238ھ)
فرماتے ہیں :
فهٰذه الـآثار قد تواترت عن رسول الله صلى الله عليه وسلم أنه غسل قدميه فى وضوئه للصلاة .
’’ یہ احادیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے متواتر ثابت ہیں کہ آپ نے نماز کے لیے وضو میں اپنے پاؤں مبارک دھوئے ہیں۔ “ [شرح معاني الاثار 37/1 ]
◈ ان احادیث کے بارے میں امام بیہقی رحمہ اللہ (458 – 384ھ) فرماتے ہیں :
فهذه الروايات اتفقت على أنه غسلها.
’’ یہ ساری احادیث اتفاقی طور پر بتا رہی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو میں پاؤں کو دھویا ہے۔ “ [السنن الكبري للبيهقي :73/1]

صحابہ و تابعین
صحابہ کرام میں سے کوئی بھی وضو میں پاؤں کو دھونے کے وجوب کی نفی نہیں کرتا تھا۔
اس کے برعکس ہم گزشتہ صفحات میں کئی ایک صحابہ کرام و تابعین عظام سے وضو میں پاؤں دھونے کا وجوب ثابت کر چکے ہیں۔ مزید ملاحظہ فرمائیں :
◈ امام مجاہد بن جبر تابعی رحمہ اللہ، سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کے بارے میں بیان کرتے ہیں :
ان كنت لاسكب عليه الماء، فيغسل رجليه.
’’ میں (وضو کے لیے ) پانی انڈیلتا اور آپ رضی اللہ عنہ اپنے دونوں پاؤں کو دھوتے۔ “ [مصنف ابن أبى شيبة:18/1، وسنده صحيح]
◈ مشہور فقیہ تابعی، ابومجلز، لاحق بن حمید رحمہ اللہ کے بارے میں ہے :
انه كان يغسل قدميه.
’’ وہ (وضو میں ) اپنے پاؤں دھوتے تھے۔ “ [مصنف ابن أبى شيبة:19/1، وسنده صحيح]
◈ سیدنا سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ کے غلام، یزید بن ابوعبید رحمہ اللہ کے بارے میں ہے :
كان يغسل قدميه.
’’ وہ اپنے پاؤں کودھوتے تھے۔ “ [مصنف ابن أبى شيبة:19/1، وسنده صحيح]

شبہات کا ازالہ
شبہ نمبر

نزال بن سبرہ تابعی رحمہ اللہ سے روایت ہے :
صلينا مع علي، رضوان الله عليه، الظهر، ثم خرجنا إلى الرحبة، قال : فدعا بإناء، فيه شراب، فأخذه، فمضمض، واستنشق، ومسح وجهه و ذراعيه و رأسهٔ وقدميه، ثم شرب فضلهٔ، و هو قائم، ثم قال : إن ناسا يكرهون أن يشربوا، وهم قيام، إن رسول الله صلى الله عليه وسلم صنع مثل ما صنعت، وقال: هذا وضوء من لم يحدث.
’’ ہم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ ظہر کی نماز ادا کی، پھر ہم رحبہ کی طرف نکلے۔ آپ نے ایک پانی والا برتن منگوایا، اس کو پکڑ کر کلی کی، ناک میں پانی ڈالا، اپنے چہرے، ہاتھوں، سر اور پاؤں کا مسح کیا، پھر وضو سے باقی بچنے والا پانی کھڑے کھڑے نوش کیا اور فرمایا : کچھ لوگ کھڑے ہو کر پانی پینے کو مکروہ سمجھتے ہیں۔ جس طرح میں نے کر کے دکھایا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بالکل ایسے ہی کیا تھا اور فرمایا : یہ اس شخص کا وضو ہے، جو بے وضو نہ ہوا ہو۔ “ [مسند الطيالسي : 22/1، ح : 148، مسند الإمام أحمد : 153/1، صحيح البخاري: 5615، سنن النسائي : 130، صحيح ابن خزيمة: 202/2، صحيح ابن حبان : 1057، والسياق لهٔ، السنن الكبري للبيهقي :75/1، و سندهٔ صحيح]

↰ یہ حدیث پاؤں پر مسح کرنے کی دلیل نہیں بن سکتی، بلکہ اس حدیث سے تو صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ یہاں مسح، غسل خفیف، یعنی ہلکا سا دھونے کے معنی میں استعمال ہوا ہے، کیونکہ اس حدیث کے جو الفاظ ہم نے ذکر کیے ہیں، ان میں پاؤں کے ساتھ ساتھ چہرے اور دونوں ہاتھوں پر بھی مسح کرنے کا بیان ہوا ہے، جبکہ اسی حدیث میں چہرے اور دونوں ہاتھوں کو دھونے کے الفاظ بھی آئے ہیں، اسی حدیث کی ایک روایت کے الفاظ ملاحظہ فرمائیں :
❀ مسند طیالسی کے الفاظ یہ ہیں :
فغسل وجهه ويديه — .
’’ آپ نے اپنے چہرے اور دونوں ہاتھوں کو دھویا۔ “
دوسری بات اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوتی ہے کہ غسل خفیف والی یہ صورت اس وقت اپنائی جا سکتی ہے، جب وضو کرنے والا پہلے ہی سے باوضو ہو اور کسی کو تعلیم دینے یا سستی ختم کرنے جیسے کسی دوسرے مقصد کے لیے دوبارہ وضو کر رہا ہو۔
◈ اس حدیث پر امام نسائی رحمہ اللہ نے یوں تبویب کی ہے :
صفة الوضوء من غير حدث.
’’ بے وضو ہوئے بغیر وضو کرنے کا طریقہ۔ “
◈ امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ نے اس حدیث پر یہ باب قائم کیا ہے :
باب ذكر الدليل على أن مسح النبى صلى الله عليه وسلم على القدمين كان، و هو طاهر، لا محدث.
’’ اس بات کی دلیل کا بیان کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پاؤں پر مسح اس وقت کیا، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم باوضو تھے، بے وضو نہیں تھے۔ “
◈ امام ابن حبان رحمہ اللہ نے اس حدیث پر ان الفاظ میں تبویب کی ہے :
ذكر العلة التى من أجلها كان يمسح على بن أبى طالب، رضوان الله عليه، رجليه فى وضوئه،
’’ اس سبب (باوضو ہونے کی حالت میں وضو کرنے ) کا بیان جس کی بنا پر سیدنا علی بن ابوطالب رضی اللہ عنہ وضو میں پاؤں پر مسح کرتے تھے۔ “
◈ امام بیہقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وفي هذا الحديث الثابت دلالة على أن الحديث الذى روي عن النبى صلى الله عليه وسلم فى المسح على الرجلين، إن صح، عنى به : وهو طاهر، غير محدث، إلا أن بعض الرواة كانه اختصر الحديث، فلم ينقل قولهٔ: هذا وضوء من لم یحدث .
’’ اس ثابت حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پاؤں پر مسح کرنا مروی ہے، اگر وہ ثابت ہو تو اس سے مراد یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایسا کرنے کے وقت باوضو تھے، بے وضو نہ تھے، لیکن بعض راویوں نے اختصار کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان نقل نہیں کیا کہ یہ اس شخص کا وضو ہے، جو بے وضو نہ ہو۔ “ [السنن الكبرى للبيهقي:75/1]

شبہ نمبر

عبد خیر تابعی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں :
رايت على بن ابي طالب، يمسح ظهور قدميه، ويقول : لو لا اني رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم مسح على ظهورهما، لظننت أن بطونهما أحق .
’’ میں نے سیدنا علی بن ابوطالب رضی اللہ عنہ کو اپنے پاؤں کے اوپر والی جانب مسح کرتے دیکھا۔ وہ فرما رہے تھے : اگر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے پاؤں کے اوپر مسح کرتے نہ دیکھتا تو سمجھ لیتا کہ پاؤں کی نچلی جانب مسح کی زیادہ ہے۔ “ [مسند الحميدي:26/1، ح : 47، و سندهٔ صحيح]

یہ حدیث ننگے پاؤں پر مسح کے بارے میں نہیں، بلکہ موزوں پر مسح کے بارے میں ہے، کیونکہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے چچا زاد بھائی سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے پاؤں کو دھونا اور اسے سنت ِ نبوی قرار دینا ہم ثابت کر چکے ہیں۔ اسی لیے بعض اہل علم نے اس حدیث کو منسوخ بھی کہا ہے، جیسا کہ :
❀ اس حدیث کو ذکر کرنے کے بعد خود امام حمیدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
إن كان على الخفين، فهو سنة، وإن كان على غير الخفين، فهو منسوخ.
’’ اگر اس حدیث میں موزوں پر مسح مراد ہے تو یہ سنت ہے اور اگر ننگے پاؤں مسح کا ذکر ہے تو یہ منسوخ ہے۔ “
◈ امام اندلس، حافظ ابن عبدالبر رحمہ اللہ اس بارے میں فرماتے ہیں :
من أهل العلم من يحمل هذا على المسح على ظهور الخفين، ويقول : مغنى ذكر القدمين ههنا أن يكونا مغيبين فى الخفين، فهذا هو المسخ الذى ثبت عن النبى صلى الله عليه وسلم فعله، وأما المسيخ على القدمين، فلا يصح عنه بوجه من الوجوه، ومن قال : إن هذا الحديث على ظاهره، جعله منسوخا بقوله صلى الله عليه وسلم : ويل للأعقاب من النار .
’’ بعض اہل علم اس حدیث کو موزوں کے اوپر مسح کرنے پر محمول کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس حدیث میں پاؤں سے مراد موزوں سے ڈھکے ہوئے پاؤں ہیں۔ یوں یہ مسح وہی ہے جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے فعلاً ثابت ہے۔ اس کے برعکس ننگے پاؤں پر مسح کرنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہیں بھی ثابت نہیں۔ جو اہل علم اس حدیث کو اس کے ظاہری معنی (ننگے پاؤں پر مسح ) پر محمول کرتے ہیں، وہ اسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کے ذریعے منسوخ قرار دیتے ہیں : ويل للاعقاب من النار (خشک ایڑھیوں کے لیے جہنم کی وادی ’ویل ‘ ہے )۔ “ [149/11]
◈ امام دارمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
هذا الحديث منسوخ بقوله : ﴿وامسحوا برء وسكم وأرجلكم إلى الكعبين﴾ .
’’ یہ حدیث اس فرمانِ باری تعالیٰ کے ذریعے منسوخ ہو گئی ہے کہ : ﴿وامسحوا برء وسكم وأرجلكم إلى الكعبين﴾ .
(تم اپنے سروں کا مسح کرو اور اپنے پاؤں کو ٹخنوں سمیت دھوؤ)۔ “ [مسند الدارمي:195/1]
صحیح بات یہی معلوم ہوتی ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث موزوں پر مسح کرنے کے بارے میں ہے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے موزوں پر مسح کرنا سیدنا علی رضی اللہ عنہ ہی نے بیان کیا ہے اور اس سلسلے میں دیگر صحابہ کرام بھی سیدنا علی رضی اللہ عنہ پر اعتماد کرتے تھے، جیسا کہ :
◈ شریح بن ہانی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں : میں موزوں پر مسح کے بارے میں سوال کرنے کے لیے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
عليك بابن أبى طالب، فاسئله، فإنه كان يسافر مع رسول الله صلى الله عليه وسلم، فسألناه، فقال: جعل رسول الله صلى الله عليه وسلم – ثلاثة أيام ولياليهن للمسافر، ويؤما وليلة للمقيم
’’ آپ ابوطالب کے بیٹے ( سیدنا علی رضی اللہ عنہ ) کے پاس چلے جائیں اور ان سے پوچھیں، کیونکہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر کیا کرتے تھے اور ہم نے انہی سے پوچھا تھا اور انہوں نے بیان کیا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسح کا وقت مسافر کے لیے تین دن اور تین راتیں، جبکہ مقیم کے لیے ایک دن اور ایک رات مقرر کیا تھا۔ “ [صحيح مسلم : 276]
یعنی سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے جو پاؤں پر مسح کی روایت بیان کی ہے، تو اس سے مراد موزوں پر مسح ہے، جیسا کہ صحیح مسلم میں ثابت ہو گیا ہے۔ رافضی شیعہ موزوں پر مسح، جو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے متواتر ثابت ہے، کے قائل نہیں ہوئے، الٹا موزوں پر مسح والی حدیث سے پاؤں پر مسح ثابت کرنے کے درپے ہو گئے ہیں۔
◈ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وقد تواترت السنة عن النبى صلى الله عليه وسلم بالمسح على الخفين، وبغسل الرجلين، والرافضية تخالف هذه السنة المتواترة.
’’ وضو میں موزوں پر مسح کرنا اور ننگے پاؤں کو دھونا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی متواتر سنت ہے، لیکن رافضی لوگ ان متواتر سنت کے مخالف ہیں۔ “ [منهاج السنة النبوية: 177/4]
◈ علامہ، محمد بن علی بن محمد، ابن ابی العز حنفی رحمہ اللہ (731-792 ھ) فرماتے ہیں :
تواترت السنة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم بالمسح على الخفين، وبغسل الرجلين، والرافضة تخالف هذه السنة المتواترة.
’’ موزوں پر مسح کرنا اور پاؤں کو دھونا، رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی متواتر سنت سے ثابت ہے، لیکن رافضی لوگ اس سنت ِ متواترہ کی مخالفت کرتے ہیں۔ “ [شرح العقيدة الطحاوية، صں:386]
◈ اسی سلسلے میں ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وقد ثبت بالتواتر عن رسول الله صلى الله عليه وسلم مشروعية المسح على الخفين، قولا منه وفعلا،—، وقد خالفت الروافض ذلك كله بلا مستند، بل بجهل وضلال، مع أنه ثابت فى صحيح مسلم، من رواية أمير المؤمنين على بن أبى طالب، رضي الله عنه.
’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تواتر کے ساتھ قولی و فعلی دونوں طرح سے موزوں پر مسح کرنا
ثابت ہے۔۔۔ لیکن رافصیوں نے اپنی جہالت و ضلالت کی بنا پر بلادلیل ان ساری احادیث
کی مخالفت کی ہے، باوجود اس کے کہ صحیح مسلم میں امیر المؤمنین سیدنا علی بن ابوطالب کی حدیث بھی اس بارے میں ثابت ہے۔ “ [تفسير القرآن العظيم : 497/2]

شبہ نمبر

افلح مولیٰ ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
أنه كان يأمر بالمسح، وكان هو يغسل قدميه، قال : فقيل له فى ذلك، كيف تأمر بالمسح؟ فقال : بئسما لي إن كان مهنأه لكم، وإثمه علي، قد رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم يفعلهٔ، ويامر به ولكنه خبب الي الوضوء.
’’ آپ رضی اللہ عنہ مسح کرنے کا حکم دیتے تھے اور خود اپنے پاؤں دھوتے تھے۔ آپ سے پوچھا گیاکہ آپ مسح کا حکم کیسے دیتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا : (اگر میں یہ مسح کا حکم اپنی طرف سے دیتا تو) یہ بات میرے لیے بہت بری ہوتی کہ تمہیں (دھونے کی بجائے مسح کی صورت میں ) اس کا فائدہ ہو جاتا اور (اپنی طرف سے حکم دینے کا ) گناہ میرے ذمے لگتا رہتا۔ میں نے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مسح کرتے دیکھا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کا حکم بھی فرماتے تھے، لیکن مجھے وضو (پاؤں دھونا) زیادہ پسند ہے۔ “ [المطالب العالية بزوائد المسانيد الثمانية لابن حجر :103، و سندهٔ صحيح]

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس کی سند کو ’’ صحیح“ قرار دیا ہے۔
یہ حدیث بھی ننگے پاؤں پر مسح کرنے کی دلیل نہیں، بلکہ اس میں موزوں پر مسح کی بات ہو رہی ہے۔ بات اتنی سی ہے کہ سیدنا ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ لوگوں کو موزوں پر مسح کا حکم دیتے تھے، لیکن خود انہیں موزے اتار کر پاؤں دھونا زیادہ پسند تھا۔

شبہ نمبر

سیدنا اوس بن ابواوس ثقفی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے :
إن رسول الله صلى الله عليه وسلم توضا ومسح على نعليه وقدميه.
’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو فرمایا اور اپنے اپنے جوتوں اور پاؤں مبارک پر مسح کیا۔ “ [سنن أبى داود: 60، الطهور للقاسم بن سلام 388]

یہ روایت ’’ ضعیف“ ہے، کیونکہ اس کے راوی عطاء عامری کی سوائے امام ابن حبان رحمہ اللہ [الثقات:202/5] کے کسی نے توثیق نہیں کی، لہٰذا یہ ’’ مجہول الحال“ ہے۔
اسے حافظ ابن قطان فاسی رحمہ اللہ نے ’’ مجہول الحال“ قرار دیا ہے۔ [بيان الوهم والإيهام : 116/4، الرقم : 1565]
◈ حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
لا يعرف إلا بابنه.
’’ یہ صرف اپنے بیٹے سے معروف ہے۔ “ [ميزان الاعتدال : 78/3]
◈ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اسے ’’ مقبول“ (مجہول الحال ) کہا ہے۔ [تقريب التهذيب : 4609]

شبہ نمبر

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے منسوب ہے کہ :
الوضوء غسلتان، ومسحتان.
’’ وضو میں دو دفعہ دھونا اور دو دفعہ مسح کرنا ہوتا ہے۔ “ [تفسير الطبري : 195/8]

اس روایت کی سند میں محمد بن قیس خراسانی نامی راوی موجود ہے، جس کی توثیق نہیں مل سکی، نیز اس میں ابن جریج رحمہ اللہ کی ’’ تدلیس“ بھی ہے۔
یہی روایت مصنف عبدالرزاق [19/1، ح:55] میں بھی موجود ہے، اس میں امام عبد الرزاق رحمہ اللہ کی ’’ تدلیس“ ہے۔

شبہ نمبر

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے وارجلكم کی تفسیر میں فرمایا :
هو المسح .
’’ اس سے مراد مسح ہے۔ “ [تفسير القران العظيم لابن كثير : 491/2]

اس کی سند علی بن زید بن جدعان ضعيف عند الجمهور کی وجہ سے ’’ ضعیف“ ہے۔

شبہ نمبر

امام حسن بصری تابعی رحمہ اللہ سے منقول ہے :
إنما هو المسح على القدمين
’’ پاؤں پر مسح ہی فرض ہے۔ “ [مصنف ابن أبى شيبة:18,17/1]

اس کی سند یونس بن عبید کی ’’ تدلیس“ کی بنا پر ’’ ضعیف“ ہے۔

شبہ نمبر

عکرمہ مولیٰ ابن عباس رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ليس على الرجلين غسل، إنما نزل فيهما المسح.
’’ پاؤں کو دھونا فرض نہیں، بلکہ ان کے بارے میں مسح کا حکم نازل ہوا ہے۔ “ [تفسير الطبري : 196/8، و سندهٔ حسن]

◈ اسی طرح امام ایوب سختیانی رحمہ اللہ نے فرمایا :
رأيت عكرمة يمسح على رجليه، وكان يقول به .
’’ میں نے عکرمہ رحمہ اللہ کو اپنے پاؤں پر مسح کرتے ہوئے دیکھا۔ وہ اس بارے میں فتویٰ بھی دیتے تھے۔ “ [مصنف ابن أبى شيبة:170/1، وسنده صحيح]
◈ نیز امام شعبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
إنما هو المسح على الرجلين، ألا ترى أنه ما كان عليه الغسل جعل عليه الغسل، وما كان عليه المسح أهمل.
’’ پاؤں پر مسح ہی فرض ہے، دیکھتے نہیں کہ جس عضو پر دھونا ضروری تھا، اس پر دھونا ضروری قرار دیا گیا اور جس پر مسح ضروری تھا، اس کو مہمل چھوڑ دیا گیا۔ “ [تفسير الطبري : 196/8، و سندهٔ صحيح]
◈ منذر ثوری رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں :
كنا مع ابن الحنفية، فأراد أن يتوضأ، وعليه خفان، فنزع خفيه، ومسح على قدميه.
’’ ہم (ابوالقاسم، محمد بن علی بن ابوطالب ) ابن حنفیہ رحمہ اللہ کے پاس تھے۔ انہوں نے
وضو کرنے کا ارادہ کیا، انہوں نے موزے پہن رکھے تھے، انہوں نے موزے اتارے اور اپنے پاؤں پر مسح کیا۔ “ [الطبقات الكبري لابن سعد: 115/5، و سندهٔ صحيح]
ان میں سے بعض اقوال موزوں پر مسح کے بارے میں ہیں اور بعض میں مسح سے مراد غسل خفیف (ہلکا سا دھونا) ہے، جیسا کہ :
◈ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
فهذه آثار غريبة جدا، وهى محمولة على أن المراد بالمسح، هو الغسل الخفيف، لما سنذكره من السنة الثابتة فى وجوب غسل الرجلين،—، ومنهم من قال : هي محمولة على مسح القدمين إذا كان عليهما الحفان…، وعلي كل تقدير، فالوا جب غسل الرجلين فرضا، لا بد منه، للآية والأحاديث التى سنوردها.
’’ یہ بہت ہی منفرد سے آثار ہیں۔ ان میں مسح سے مراد غسل خفیف (ہلکا سا دھونا) ہے، اس کی دلیل پاؤں دھونے کی فرضیت میں وہ صحیح حدیث ہے، جسے ہم ذکر کرنے والے۔۔ اور بعض اہل علم کا کہنا ہے کہ یہ (بعض ) موزے پہنے ہونے کی حالت پرمحمول ہیں۔ ان آثار سے جو بھی مراد ہو، آیت ِ کریمہ اور وہ احادیث جو ہم پیش کرنے والے ہیں، ان کی بنا پر وضو میں پاؤں کو دھونا فرض واجب ہے۔ “ [تفسير القرآن العظيم : 492,491/2]
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ کی اس بات کی تائید ان احادیث سے بھی ہوتی ہے :
❀ سیدنا تمیم بن زید مازنی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم توضأ، ومسح بالماء على لحيته ورجليه .
’’ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو وضو کرتے دیکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم
نے اپنی ڈاڑھی مبارک اور پاؤں مبارک پر پانی کے ساتھ مسح کیا (ان کو دھویا)۔ “ [مسند الإمام أحمد : 40/4، المعجم الكبير للطبراني : 60/2، واللفظ لهٔ، و سندهٔ صحيح]
امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ [201] نے اس حدیث کو ’’ صحیح“ قرار دیا ہے۔
◈ حافظ ہیثمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ورجاله موثقون . ’’ اس کے راویوں کی توثیق کی گئی ہے۔ “ [مجمع الزوائد:234/1]
◈ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
زعم ابن عبد البر أنه لا يقوم به حجة، وهو طعن مردود، ورجاله رجال الصحيح.
’’ حافظ ابن عبدالبر رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ یہ قابل حجت نہیں، لیکن ان کی یہ جرح مردود ہے اور اس حدیث کے سارے راوی صحیح بخاری کے راوی ہیں۔ “ [اتحاف المهرة:644/6]
◈ نیز فرماتے ہیں :
رجاله ثقات . ’’ اس کے راوی ثقہ ہیں۔ “ [الإصابة فى تمييز الصحابة : 490/1]
ثابت ہوا کہ لفظ مسح مشترک ہے، اس کا اطلاق دھونے پر بھی ہو جاتا ہے۔
❀ اسی طرح سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
تخلف رسول الله صلى الله عليه وسلم فى سفرة سافر ناها، فادركنا، وقد ارهقتنا صلاة العصر، ونحن نتوضا، فجعلنا نمسح على أرجلنا، فنادى بأعلي صوته : ﴿ويل للأعقاب من النار﴾ ، مرتين أو ثلاثا.
’’ ایک سفر میں رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے پیچھے رَ ہ گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب ہم سے ملے تو
عصر کی نماز کا وقت ہو چکا تھا اور ہم وضو کر رہے تھے۔ ہم پاؤں کو دھونے میں مصروف تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم
نے بلند آواز سے دو یا تین مرتبہ فرمایا : خشک ایڑھیوں کے لیے جہنم کی وادی ’ویل ‘ ہے۔ “ [مسند الإمام أحمد : 211/2، واللفظ له، صحيح البخاري:، 60 صحيح مسلم : 241]
یہ حدیث اس بات پر صریح دلیل ہے کہ مسح بمعنی غسل (دھونا) بھی مستعمل ہے۔
❀ اسی قبیل سے سیدنا رفاعہ بن رافع رضی اللہ عنہ کا بیان کردہ یہ فرمانِ رسول ہے :
فيغسل وجهه ويديه إلى المرفقين، ويمسح برأسه ورجليه إلى الكعبين .
’’ پھر وہ اپنے چہرے اور دونوں ہاتھوں کو کہنیوں سمیت دھوئے اور اپنے سر کا مسح کرے اور ٹخنوں سمیت پاؤں کو دھوئے۔ “ [سنن أبى داؤد: 858، مسند الامام احمد : 340/4، و سندهٔ صحيح، وصححه ابن الجارود 194، وابن خزيمة 545، وابن حبان 1787، و الحاكم 242/1، ووافقه الذهبي]
اس حدیث میں بھی پاؤں کے مسح سے مراد ان کو دھونا ہے، یا اس میں وضو کے اعضاء کی ترتیب کو ملحوظ رکھتے ہوئے تقدیم و تاخیر سے کام لیا گیا ہے اور پاؤں کا عطف چہرے اور ہاتھ دھونے پر ہے، نہ کہ سر کے مسح پر۔ متواتر احادیث سے اسی کی تائید ہوتی ہے۔

خلاصۂ کلام
وضو میں پاؤں کو دھونا فرض ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوری زندگی بغیر موزوں کے پاؤں پر مسح نہیں کیا، بلکہ پاؤں کو اچھی طرح دھونے کا حکم بھی فرمایا۔ دورانِ وضو پاؤں میں خشک جگہ رہ جانے پر جہنم کی وادی ’ویل ‘ کی وعیدِ شدید بھی سنائی۔ اگر وضو میں ننگے پاؤں پر بھی مسح کی گنجائش ہوتی تو اتنی وعید کیوں ہوتی ؟
قرآنِ کریم کی آیت ِ مبارکہ میں وارجلكم پر زبر پڑھیں یا زیر، دونوں صورتوں میں پاؤں دھونے ہوں گے، کیونکہ خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو میں پاؤں دھوئے اور امت کو اسی کی تعلیم دی ہے، بلکہ پاؤں دھونے ہی کو اللہ تعالیٰ کا حکم بتایا ہے۔ یہ ساری قولی و فعلی احادیث، آیت ِ قرآنی کی معتبر تفسیر ہیں۔
زبر کی قرأت کے مطابق وارجلكم کا عطف ان اعضاء پر ہے، جنہیں دھونے کا حکم دیا گیا ہے، باقی ترتیب کو ملحوظ رکھتے ہوئے سر کے مسح کے بعد پاؤں کا ذکر کیا گیا ہے۔ دراصل اس آیت ِ کریمہ میں تقدیم و تاخیر کے اسلوب سے کام لیا گیا ہے، جو کہ کلامِ عرب میں رائج ہے۔ جبکہ زیر کی قرأت میں عربی زبان کے مشہور اسلوب کے مطابق چونکہ پڑوسی لفظ ’رؤوس ‘ پر زیر تھی، اس لیے ’ارجل ‘ پر بھی زیر پڑھی گئی۔ یہ لفظی معاملہ ہے، معنوی طور پر پاؤں کا تعلق انہی اعضاء سے ہے جن کو دھونے کا حکم دیا گیا ہے۔ جمع و تطبیق کی ایک صورت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ یہ دونوں قرأتیں دو مختلف حالتوں کو ثابت کرتی ہیں۔ ننگے پاؤں ہوں تو زبر والی قرأت کے مطابق ان کو دھویا جائے گا اور اگر پاؤں پر موزے ہوں تو ان پر مسح کیا جائے گا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ِ متواترہ ان دونوں صورتوں کی تائید کرتی ہے، لیکن افسوس کہ شیعہ لوگ ان دونوں سنتوں کے منکر ہیں۔
ذرا سوچیں کہ اگر ننگے پاؤں پر مسح کرنے کا حکم ہوتا تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ضرور اس پر عمل کرتے، لیکن کسی ایک بھی صحابی سے ننگے پاؤں مسح کرنا بالکل ثابت نہیں۔ صحابہ کرام ہی نے قرآنِ کریم کی آیات ِ کریمہ کو ہم تک پہنچایا ہے اور انہی نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے وضو میں پاؤں دھونے کی قولی و فعلی تعلیم نقل کی ہے۔ پھر قرآن کو قبول کر کے اس کی خود ساختہ تفسیر کرنا اور حدیث جو قرآن کی اصلی تفسیر ہے، اس کو یکسر ردّ کرنا کیا معنی رکھتا ہے ؟
◈ اسی بارے میں علامہ، محمد بن علی بن محمد، ابن ابی العز حنفی رحمہ اللہ (731- 792ھ) فرماتے ہیں :
فيقال لهم : الذين نقلوا عن النبى صلى الله عليه وسلم الوضوء قولا وفعلا، والذين تعلموا الوضوء منه، توضئوا على عهده، وهو يراهم ويقرهم، ونقلوه إلى من بعدهم، أكثر عددا من الذين نقلوا لفظ هذه الآية، فإن جميع المسلمين كانوا يتوضئون على عهده، ولم يتعلموا الوضوء إلا منه، فإن هذا العمل لم يكن معهودا عندهم فى الجاهلية، وهم قد رأوه يتوضا ما لا يحصي عدده إلا الله تعالى، ونقلوا عنه ذكر غسل الرجلين فى ما شاء الله من الحديث، حتى نقلوا عنه من غير وجه، فى كتب الصحيح وغيرها، أنهٔ قال : ”ويل للأعقاب، وبطون الأقدام، من النار “، مع أن الفرض إذا كان مسح ظاهر القدم، كان غسل الجميع كلفة لا تدعو إليها الطباع، كما تدعو الطباع إلى طلب الرياسة والمال، فلو جاز الطعن فى توائر صفة الوضوء، لكان فى نقل لفظ آية الوضوء أقرب إلى الجواز، وإذا قالوا : لفظ الآية ثبت بالتوائر الذى لا يمكن فيه الكذب ولا الخطأ، فثبوث التواتر فى نقل الوضوء عنه أولى وأكمل.
’’ شیعہ لوگوں سے کہا جائے کہ جن صحابہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے وضو کے بارے میں قولی و فعلی احادیث بیان کی ہیں، جنہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے وضو سیکھا، آپ کے سامنے وضو کیا اور آپ نے اسے برقرار رکھا اور جنہوں نے مسنون وضو کو بعد والوں تک پہنچایا، ان کی تعداد ان صحابہ کرام کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے، جنہوں نے قرآنِ کریم کی آیت ِ وضو کے الفاظ بیان کیے ہیں۔ تمام صحابہ کرام جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات ِ مبارکہ میں وضو کرتے تھے، انہوں نے یہ وضو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی سے سیکھا تھا، کیونکہ زمانۂ جاہلیت میں اس وضو کا طریقہ موجود نہ تھا۔ صحابہ کرام نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بے شمار مرتبہ وضو کرتے ملاحظہ کیا اور بہت سی احادیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پاؤں کو دھونا نقل کیا۔ حتی کہ صحابہ کرام نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان بھی نقل کیا، جو کتب ِ صحاح وغیرہ میں بہت سی اسانید سے مروی ہے کہ : ويل للأعقاب، وبطون الأقدام، من النار (خشک ایڑھیوں کے لیے جہنم کی وادی ’ویل ‘ ہے )۔ مزید یہ کہ اگر پاؤں کے اوپر والی جانب مسح کرنا ہی فرض ہوتا تو پورے پاؤں کو دھونا ایک مشقت والا عمل ہوتا جس پر انسانی طبیعت، جو عموماً مال و ریاست کی طرف میلان رکھتی ہے، کبھی مائل نہ ہوتی، ( لہٰذا سارے مسلمانوں میں پورے پاؤں کو دھونے کا عمل رائج نہ ہوتا)۔ اگر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا وضو بیان کرنے والی متواتر احادیث پر طعن کرنا ممکن ہے تو وضو والی آیت ِ کریمہ پر طعن کرنا بالاولیٰ ممکن ہو گا۔ اگر شیعہ کہیں کہ آیت ِ کریمہ کے الفاظ ایسے تواتر سے منقول ہیں، جس میں غلطی اور جھوٹ کا احتمال نہیں تو بیانِ وضو والی احادیث میں یہ تواتر زیادہ قوی اور کامل ہے۔ [شرح العقيدة الطحاوية، ص: 387,386]
معلوم ہوا کہ دونوں قرأتیں وضو میں پاؤں کو دھونے کا ثبوت فراہم کرتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امت ِ مسلمہ اسی پر عمل کرتی رہی ہے، جیسا کہ :
◈ حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے فرمایا ہے :

وعليه عمل الأمة، ولا اعتبار بمن شذ.
’’ امت کا اسی (وضو میں پاؤں دھونے ) پر عمل ہے۔ امت سے بچھڑ جانے والوں کا کوئی اعتبار نہیں۔ “ [سير أعلام النبلاء : 127/4]
◈ شاہ ولی اللہ دہلوی حنفی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
صفة الوضوء على ما ذكره عثمان، وعلى، وعبد الله بن زيد، وغيرهم، رضي الله عنهم، عن النبى صلى الله عليه وسلم، بل تواتر عنه صلى الله عليه وسلم، وتطابق عليه الامة أن يغسل يديه قبل إدخالهما الاناء، ويتمضمض، ويستنثر، ويستنشق، فيغسل وجهه، فذراعيه الي المرفقين، احد، مما هو كالشمس فى رابعة النهار. فيمسح برأسه، فيغسل رجليه إلى الكعبين، ولا عبرة بقوم تجارت بهم الأهواء، فأنكروا غسل الرجلين متمسكين بظاهر الآية،
فإنه لا فرق عندي بين من قال بهذا القول، وبين من أنكر غزوة بذر أو

’’ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے جو وضو سیدنا عثمان، سیدنا علی، سیدنا عبداللہ بن زید، وغیرہ رضی اللہ عنہم نے نقل کیا ہے، بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے متواتر ثابت ہے اور پوری امت اس پر متفق ہے، وہ یہ ہے کہ وضو کرنے والا برتن میں ڈالنے سے پہلے دونوں ہاتھوں کو دھوئے، کلی کرے، ناک میں پانی ڈالے، ناک کو صاف کرے، پھر اپنے چہرے کو دھوئے، پھر کہنیوں سمیت دونوں بازؤں کو دھوئے، پھر اپنے سر کا مسح کرے اور پھر دونوں پاؤں کو ٹخنوں سمیت دھوئے۔ ان لوگوں کا کوئی اعتبار نہیں جنہوں نے خواہشات ِ نفسانی کی پیروی کرتے ہوئے پاؤں کو دھونے کا انکار کر دیا اور اس سلسلے میں قرآنِ کریم کے ظاہری الفاظ سے استدلال کرنے کی کوشش کی۔ میرے نزدیک ایسی باتیں کرنے والوں اور ان لوگوں میں کوئی فرق نہیں جو غزوۂ بدر و احد جیسے روزِ روشن کی طرح عیاں معاملات کا انکار کرتے ہیں۔ “ [حجة الله البالغة : 175/1]
بعض لوگ مسلمانوں کی جماعت سے خروج کرتے ہوئے وضو سے پہلے پاؤں دھوتے ہیں اور وضو کے آخر میں ان پر مسح کرتے ہیں۔ شاید وہ اپنے پاؤں کو پلید خیال کرتے ہیں۔
یہ قرآن و سنت اور اجماعِ امت کی صریح مخالفت میں بے دلیل عمل ہے۔
دُعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں قرآن و حدیث کو سلف صالحین کے فہم کے مطابق سمجھ کر اسی پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے، ہمیں حق پر قائم رکھے اور اسی پر ہمارا خاتمہ فرما دے۔ آمين يا رب العالمين

یہ تحریر اب تک 55 لوگ پڑھ چکے ہیں، جبکہ صرف آج 1 لوگوں نے یہ تحریر پڑھی۔

Leave a Reply