وضو اور اس کے اذکار کی بدعات اور سنت سے ان کا رد

تحریر: عمرو بن عبدالمنعم

ترجمہ: حافظ زبیر علی زئی
وضو کے سلسلے میں عوام الناس کی بدعات ، سوائے ان لوگوں کے جن پر اللہ کا رحم ہوا ہے، اور وہ ان بدعات سے بچے ہوتے ہیں۔۔۔

زبان کےساتھ وضو کی نیت

(بدعتی )کہتا ہے:‘‘میں فلاں نماز کے لئے وضو کی نیت کرتا ہوں۔۔۔’’ یہ ایسی منکر بدعت ہے جس پر کتاب و سنت سے کوئی دلیل نہیں اور نہ یہ عقل مند لوگوں کا کام ہے، بلکہ اس فعل کا مرتکب صرف وسوسہ پرست ، بیمار ذہن اور پاگل شخص ہی ہوتا ہے۔
میں اللہ کی قسم دیتے ہوئے آپ سے پوچھتا ہوں کہ آپ جب کھانے کا ارادہ کرتے ہیں تو کیا زبان سے نیت کرتے ہیں کہ : میں فلاں فلاں قسم کے ، صبح کے کھانے کی نیت کرتاہوں۔یا جب آپ قضائے حاجت کے لئے بیت الخلا میں داخل ہوتے ہیں تو کیا یہ کہتے ہیں کہ : میں چھوٹے یا بڑے پیشاب کرنے کی نیت کرتا ہوں؟ یا جب آپ اپنی بیوی سے جماع کا ارادہ کرتے ہیں تو کیا یہ کہتے ہیں کہ : میں اپنی بیوی فلاں بنت فلاں سے، نکاح کے بعد، جائز شرعی جماع کی نیت کرتا ہوں؟ ایسا کرنے والا شخص صرف پاگل و مجنوں ہی ہو سکتا ہے۔
تمام عقل مند انسانوں کا اس پر اجماع ہے کہ نیت کا مقام دل ہے(زبان نہیں) کسی چیز کے بارے میں آپ کے ارادہ کو نیت کہتے ہیں جس کے لئے آپ کو زبان کے ساتھ نیت کے تکلف کی ضرورت نہیں ۔ اور نہ ایسے الفاظ کہنے کی ضرورت ہے جو آپ کے ہونےو الے عمل کو واضح کریں۔

نبی ﷺ نے فرمایا ہے کہ :‘‘إنما الأ عمال بالنیات و إنما لکل امري مانوی۔۔۔’’ اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے اور ہر آدمی کو (مثلاً ثواب و عذاب) اس کی نیت کے مطابق ہی ملے گا۔ (صحیح بخاری کتاب الایمان باب ماجاء أن الأعمال بالنیۃ و الجسبۃ ح ۵۴ ، و صحیح مسلم ، کتاب الإمارۃ باب قولہ ﷺ إنما الأعمال بالنیۃ ح ۱۹۰۷)

یعنی اعمال وہی معتبر ہیں جن کی دل میں نیت اور عمل کے ساتھ تصدیق کی جائے۔
حدیث بالا کے باقی الفاظ اس پر دلالت کرتے ہیں کہ زبان کے ساتھ (رٹے رٹائے) الفاظ کہنے کو نیت نہیں کہتے۔

‘‘فمن کانت ھجرتہ إلی اللہ و رسولہ فھجر تہ إلی اللہ و رسولہ و من کانت ھجرتہ إلی دنیایصیبھا أو امرأۃ ینکحھا فھجرتہ إلی ماھا جر إلیہ’’ پس جس نے اللہ اور اس کے رسول کے لئے ہجرت کی تو اس کی ہجرت اللہ اور رسول کے لئے (ہی ) ہو گی۔ اور جس نے دنیا حاصل کرنے یا کسی عورت سے نکاح کرنے کے لئے ‘‘ہجرت’’ کی تو اس کی ‘‘ہجرت’’ اسی مقصد کے لئے ہو گی(نہ کہ اللہ و رسول کے لئے ) ا ب اگر کوئی نکاح یا حصولِ دنیا مثلاً خرید و فروخت ، تجارت کے لئے اپنا گھر بار چھوڑے تو اس پر اپنے بنائے ہوئے اصول کے مطابق زبان سے نیت کرنا لازم ہے لیکن ایسا نہیں ہوتااگر وہ شخص ان چیزوں میں زبان سے نیت کرنا شروع کر دے تو عقل مند لوگ اسے پاگل اور مخبوط الحواس قرار دیں گے۔

یہ بھی یاد رکھیں کہ عبادات میں اصل حرمت ہے (یعنی کوئی عبادت بغیر شرعی دلیل کے جائز نہیں بلکہ حرام ہے)اللہ آپ کو  اور مجھے اتباعِ سنت پر قائم رکھے۔بغیر کسی صحیح شرعی دلیل کے عبادات میں یہ حرمت ، جواز نہیں بنتی۔ زبان سے نیت کرنے والا شخص اگر اسے عبادت نہیں سمجھتا تو اس کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ اسے عبادت سے منسلک کر دے۔ اور اگر وہ یہ (رٹے رٹائے) الفاظ بطورِ عبادت کہتا ہے تو اس پر یہ لازم ہے کہ اس فعل کے جواز پر شرعی دلیل پیش کرے حالانکہ اس کے پاس اس فعل پر سرے سے کوئی دلیل ہے ہی نہیں۔

امام ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ : ‘‘نبی ﷺ ، وضو کے شروع میں : میں نیت کرتا ہوں رفعِ حدث کی یا نما زپڑھنے کی، وغیرہ الفاظ قطعاً نہیں کہتے تھے اور نہ آپ کے صحابہ کرام سے یہ بات ثابت ہے ۔ اس سلسلہ میں ایک حرف بھی مروی نہیں۔ نہ صحیح سند سے اور نہ ضعیف سند سے’’ (زاد المعیاد ۱؍۱۹۶)

اس بارے میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے علماء کے اقوال تفصیل سے ذکر کئے ہیں:

“علم کے ساتھ نیت انتہائی آسان ہے۔ یہ وسوسوں، (نو ساختہ) بندشوں اور (نام نہاد) زنجیروں کی محتاج نہیں۔ اسی لئے بعض علماء کہتے ہیں کہ : آدمی کو وسوسہ اس وقت ہوتا ہے جب وہ فاتر العقل یا شریعت کے بارے میں جاہل ہوتا ہے۔لوگوں نے اس بات کے بارے میں اختلاف کیا ہے کہ کیا زبان سے نیت کرنا مستحب ہے؟(امام) ابو حنیفہ ، شافعی اور احمد کے ساتھیوں  میں سے بعض یہ کہتے ہیں کہ ایسا کرنا مستحب ہے کیونکہ س طرح بات زیادہ نکھر جاتی ہے۔(امام)مالک اور احمد کے ساتھیوں میں سے ایک گروہ کا یہ کہنا ہے کہ : ایسا کرنا مستحب نہیں ہے بلکہ نیت کے لئے زبان کے ساتھ تلفظ کرنا بدعت ہے۔ کیونکہ نبی  ﷺ ، آپ کے صحابہ کرام اور تابعین سے، نماز، وضو یا روزوں میں یہ تلفظ(قطعاً) ثابت نہیں ہے۔ علماء یہ کہتے ہیں کہ کسی فعل کے بارے میں علم کے ساتھ ہی نیت حاصل ہو جاتی ہے۔ لہذا زبان کے ساتھ رٹے رٹائے الفاظ پڑھنا ، ہوس پرستی، فضول اور ہذیان ہے۔نیت انسان کے دل میں ہوتی ہے۔ (زبان کے ساتھ نیت کرنے والا) یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ نیت کا تعلق دل سے نہیں لہذا وہ اپنی زبان سے نیت حاصل کرنا چاہتا ہے۔ اور (یہ ظاہر ہے کہ ) حاصل شدہ چیز کے حصول کی ہوس تحصیل حاصل کے زمرہ میں آتی ہے۔ اس غلط عقیدہ مذکورہ کی وجہ سے بہت سے لوگ ان وسوسوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ (مجموع الفتاوی ۱۸؍۲۶۳ ، ۲۶۴)

امام بن رجب الحنبلی رحمہ اللہ اپنی کتاب جامع العلوم و الحکم (ص۴۰) میں فرماتے ہیں: ‘‘ اس مسائل میں کوئی خاص حوالہ، ہم نہ سابقہ صالحین سے پاتے ہیں اور نہ کسی امام سے’’۔

ان سطور کے تحریر کرنے کے بعد مجھے گمراہ بدعتیوں کے ایک (سردار اور ) سقافِ اُردن کے بارے میں معلوم ہوا کہ یہ  خبیث شخص اُم المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کی اُس حدیث سے نیت کے تلفظ پر استدلال کرتا ہے جس میں آیا کہ : جب نبی ﷺ نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے کھانے کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا: کوئی کھانا موجود نہیں ہے ۔ آپ ﷺ نے (یہ سن کر) فرمایا: تو میں روزہ رکھتا ہوں۔ (صحیح مسلم کتاب الصیام باب جواز صوم النافلۃ بنیۃ من النھار قبل الزوال ح ۱۱۵۴)

سقاف نے آپ ﷺ کے (ایام حج میں) اس قول سے بھی استدلال کیا ہے جس میں آپ کہہ رہے تھے:  ‘‘لبیک بعمرۃ وحج’’ اے اللہ میں حج اور عمرہ کے ساتھ لبیک کہہ رہا ہوں۔ (صحیح مسلم کتاب الحج باب اھلال النبی ﷺ وھدیہ ح ۱۲۵۱)

حالانکہ یہ استدلال مکڑی کے جالے سے بھی زیادہ کمزور ہے۔

عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث سے نیت کے تلفظ پر استدلال غلط ہے کیونکہ اس حدیث میں نبی ﷺ نے اپنے حال ( اور کیفیت ) کی خبر دی ہے نہ کہ نیت کی۔ اگر آپ لفظی نیت کرتے تو اس طرح کہتے کہ ‘‘ میں روزے کی نیت کرتا ہوں’’ یا  اس کے مشابہ کوئی بات فرماتے ۔ تلبیہ کے وقت آپ کا ‘‘ لبیک بعمرۃ و حج’’ (صحیح مسلم کتاب الحج باب  اھلال النبی ﷺ و ہدیہ ح ۱۲۵۱) کہنا بھی لفظی نیت سے کوئی تعلق نہیں رکھتا۔ ورنہ آپ یوں کہتے کہ ‘‘ میں عمرہ اور حج کا ارادہ کرتا ہوں’’ یا ‘‘ میں حج اور عمرہ کی نیت کرتا ہوں’’ ان الفاظ کا تعلق اس سنت نبوی سے ہے جو تلبیہ ( لبیک کہنے) سے ہے (نہ کہ لفظی نیت سے ) حج اور عمرہ میں لفظی نیت کے بری( اور مذموم) بدعت ہونے پر دلیل حافظ ابن رجب کا وہ قول بھی ہے جو انہوں نے ‘‘ جامع العلوم’’ (ص۲۰) میں لکھا ہے:

‘‘ابن عمر سے یہ صحیح ثابت ہے کہ انہوں نے ایک آدمی کو احرام کے وقت یہ کہتے ہوئے سنا کہ‘‘ میں حج اور عمرہ کا ارادہ کرتا ہوں’’ تو انہوں نے (ناراض ہو کر) اس سے کہا: کیا تو لوگوں کو (اپنی نیت و ارادہ کے بارے میں) بتانا چاہتا ہے(کہ تو نیکی کا بڑا کام کر رہا ہے)؟ کیا اللہ تعالیٰ تیرے دل کے بھیدوں سے واقف نہیں ہے’’ ؟ [اس قول کی سند معلوم نہیں ہے۔ ]

یہ (قول) اس بات کی دلیل ہے کہ زبان  کے ساتھ نیت کرنا مطلقاً مستحب نہیں ہے۔ بلکہ یہ اصلاً جائز بھی نہیں ہے۔ واللہ الموفق

وضو کرنے کے دوران میں بدعات

(ان) میں سے یہ بھی ہے کہ بعض لوگ ہر عضو دھونے پر لمبی لمبی دعائیں پڑھتے ہیں۔لوگوں کو اس عمل سے ڈرانے ، اس کو انتہائی کمزور اور من گھڑت ثابت کرنے کے لئے میں اس (روایت) کے الفاظ بھی ذکر کر رہا ہوں۔

من گھڑت سند  کے ساتھ انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ:میں رسول اللہ ﷺ کے پاس داخل ہوا۔ آپ کے سامنے پانی کا برتن تھا۔ آپ نے فرمایا:‘‘یا أنس! ادن مني أعلمک مقادیر الوضوء’’ اے انس، میرے قریب ہو جاؤ  میں تمہیں وضوکی مقداریں (درجے یعنی دعائیں) دکھاؤں ، میں آپ ﷺ کے قریب ہو گیا۔آپ نے جب ہاتھ دھوئے تو فرمایا: بسم اللہ و الحمد للہ ، لاحول ولا قوۃ الا باللہ جب استنجا کیا تو فرمایا: اللھم حصن لی فرجی، ویسرلی امری جب کلی کی اور ناک میں پانی ڈالا تو کہا:اللھم لقنی حجتی ولا تحرمنی رائحۃ الجنۃجب اپنا چہرہ دھویا تو فرمایا:اللھم بیض و جھی یوم تبیض الوجوہ جب کہنیوں تک ہاتھ دھو لئے تو کہا:اللھم اعطنی کتابی بیمینی جب سر کا مسح کیا تو فرمایا: اللھم تغشنا برحمتک وجنبنا عذابک جب اپنے دونوں پاؤں دھوئے تو کہا:اللھم ثبت قدمی یوم تزول فیہ الاقدامپھر نبی ﷺ نے فرمایا:‘‘اے انس!اس ذات کی قسم ہے  جس نے مجھے حق کے ساتھ بھیجا ہے۔ جو آدمی بھی وضو کے دوران یہ دعائیں پڑھتا ہے تو اس کی (ہاتھ پاؤں کی) انگلیوں سے جتنے قطرے گرتے ہیں ان کے بدلے اللہ تعالیٰ اتنے فرشتے پیدا کر دیتا ہے۔ ہر فرشتہ ستر زبانوں کےساتھ اللہ کی تسبیح بیان کرتا رہتا ہے ۔ اسے اس (بےشمار) تسبیح کا ثواب قیام کے دن ملے گا’’

میں کہتا ہوں یہ حدیث جھوٹی اور من گھڑت ہے جسے رسول اللہ ﷺ سے منسوب کر دیا گیا ہے۔ فن حدیث کے ماہر علماء نے اس حدیث کا انکار کیا ہے۔حافظ ابن حجر نے امام ابن الصلاح سے نقل کیا کہ ‘‘ اس بارے میں کوئی حدیث ثابت نہیں ہے’’ (التلخیص الحبیر ۱؍۱۱۰)

امام نووی نے کہا: ‘‘اس کی کوئی اصل نہیں ہے’’(المجموع شرح المھذب ۱؍۴۸۹)

انہوں نے اپنی دوسری کتاب ‘‘ الاذکار’’ (ص۵۷) میں فرمایا:‘‘اعضائے وضو پر دعا کے بارے میں نبی ﷺ سے کوئی (ثابت و باسند ) حدیث نہیں آئی ہے۔’’

شیخ الاسلام ابن القیم نے ‘‘ المنار المنیف’’ (ص۱۲۰) میں کہا:‘‘ اعضائے وضو پر ذکر ( اور دعاؤں) والی تمام احادیث باطل ہیں۔ ان میں سے کوئی چیز بھی ثابت نہیں ہے۔’’اور مزید کہا:‘‘وضو کے دوران اذکار(اور دعاؤں) والی ہر حدیث جھوٹی اور من گھڑت ہے ۔ ان میں سے کوئی بات بھی اللہ کے رسول ﷺ نے نہیں فرمائی اور نہ اپنی امت کو اس کی تعلیم دی ہے۔’’ (زاد لمعاد۱؍۱۹۵)

میں یہ کہتا ہوں کہ وضو کے بارے میں سنت یہ ہے کہ شروع میں‘‘بسم اللہ’’ پڑھی جائے۔ (صحیح ، سنن النسائی، الطھارۃ باب التسمیہ عند الوضوء ح ۷۸، جس حدیث میں آیا ہے کہ بسم اللہ کے بغیر وضو نہیں ہوتا وہ بھی بلحاظ سند حسن لذاتہ ہے دیکھئے تسھیل الحاجۃ فی تخریج سنن ابن ماجہ: ح ۳۹۷؍مترجم)

اس اس کے اختتام پر نبی ﷺ سے ثابت شدہ ذکر:‘‘اشھد ان لا الہ الا اللہ وحد ہ لاشریک لہ، و اشھد ان محمداً عبدہ رسولہ’’ پڑھیں۔(صحیح مسلم، الطھارۃ باب الذکر المستحب عقب الوضوء ح ۲۳۴)

وضو کی بدعات میں سے بعض لوگوں کا قول‘‘زمزم’’ بھی ہے۔

بعض لوگ لفظ‘‘زمزم’’ شروع وضو یا آخر میں پڑھتے ہیں۔ یہ عوام کی ان بدعات میں سے ہے جس کے بارے میں نہ صحیح حدیث مروی ہے اور نہ ضعیف ، نہ کسی صحابی کے فعل سے اس کی تائید ہوتی ہے اور نہ کسی تابعی کے قول سے اور نہ کسی قابل ذکر عالم یا مستند امام نے اس کے بارے میں اشارہ کیا ہے۔ باقی آئندہ، انشا ء اللہ

شذرات الذھب

امام الحکم بن عتیبہ رحمہ اللہ (المتوفی ۱۱۵ھ)فرماتے ہیں کہ :‘‘لَیْسَ اَحَدٌ‘’مِنْ خَلْقِ اللہِ اِلاَ یُؤ خَذُ مِنْ قَوْلِہِ وَیُتْرَکُ اِلَّا النَّبِیّ  صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ’’  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم (فداہ ابی وامی و روحی) کے علاوہ اللہ کی مخلوق میں کوئی بھی شخص ایسا نہیں ہے کہ جس کی بات لی اور چھوڑی نہ جا سکتی ہو۔ صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی (ایسی با برکت اور پاکیزہ ) شخصیت ہیں جن کی ہر بات لی جائے گی۔ (جامع بیان العلم و فضلہ ۲؍۹۱، دوسرا نسخہ۲؍۱۱۲، تیسرا نسخہ ۲؍۱۸۱و إسنادہ حسن لذاتہ)

امام الائمہ الحافظ الکبیر محمد بن اسحاق بن خزیمہ نیشا پوری (المتوفی ۳۱۱ ھ) فرماتے ہیں کہ:‘‘لیس لا حد مع النبی صلی اللہ علیہ وسلم قول اذا صح الخبر عنہ’’جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح حدیث آ جائے گی اس کے مقابلے میں کسی بھی شخص کی کوئی بات قابل التفات و اتباع نہیں ہو گی۔ (معرفہ علوم الحدیث للحاکم النیسا بوری ص ۸۴، دوسرا نسخہ ص ۲۸۶ ح: ۱۹۰ و إسنادہ صحیح)

امام شافعی رحمہ اللہ نے نبی ﷺ کی ایک حدیث بیان کی تو ایک آدمی نے پوچھا: کیا آپ اس حدیث پر عمل کرتے ہیں؟امام شافعی رحمہ اللہ نے (تعجب کرتے ہوئے) فرمایا:سبحان اللہ ! میں رسول اللہ ﷺ سے ایک (صحیح) حدیث بیان کروں اور اس پر عمل نہ کروں؟ اگر کسی وقت مجھے رسول اللہ ﷺ کی (صحیح) حدیث معلوم ہو جائے اور میں اس پر عمل نہ کروں تو سب گواہ رہو کہ (اس وقت) میری عقل ختم ہو چکی ہو گی (آداب الشافعی و مناقبہ لابن ابی حاتم ص ۵۰ وسندہ صحیح)یعنی امام شافعی رحمہ اللہ کے نزدیک صحیح ( و غیر معارض ) حدیث پر عمل نہ کرنے والا شخص پاگل ہے۔

اس تحریر کو اب تک 25 بار پڑھا جا چکا ہے۔

Leave a Reply