وتر کی مسنون رکعات

تحریر غلام مصطفٰے ظہیر امن پوری

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے نماز وتر کی ایک ، تین ، پانچ ، سات اور نو رکعات ثابت ہیں ۔
ایک رکعت نماز وتر:
ربیع بن سلیمان رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں:
سئل الشافعي عن الوتر: أيجوز أن يوتر الرجل بواحدة ، ليس قبلھا شيء؟ قال: نعم ، والّذي أختار أن أصلّي عشر ركعات ، ثمّ أوتر بواحدة ، فقلت للشافعي: فما الحجة في أن الوتر يجوز بواحدة؟ فقال: الحجة فيه السنّة و الآثار
”امام شافعی رحمہ اللہ سے وتر كے بارے ميں سوال كيا گيا كہ آدمی ایک وتر ایسے پڑھے کہ اس سے پہلے کوئی نماز نہ ہو تو کیا جائز ہے؟ فرمایا: ہاں ، جائز ہے ، لیکن میں پسند یہ کرتا ہوں کہ دس رکعات پڑھ کر پھر ایک وتر پڑھوں ۔ میں نے امام شافعی رحمہ اللہ سے پوچھا: ایک وتر جائز ہونے کی دلیل ہے؟ فرمایا: اس بارے میں سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور آثار سلف دلیل ہیں ۔“ [السنن الصغريٰ للبيهقي: 593 ، وه سندهٗ حسنٌ]
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے رات کی نماز کے بارے میں سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
صلاة الليل مثنى مثنى فإذا خشی أحدكم الصبح صلى ركعة واحدة ، توتر له ما قد صلى
”رات کی نماز دو دو رکعت ہے پھر جب کوئی صبح ہونے سے ڈرے تو ایک رکعت پڑھ لے ، وہ اس کی ساری نماز کو طاق بنا دے گی ۔“ [صحيح بخاري: 990 ، صحيح مسلم: 749]
صحیح مسلم (158/749) کی ایک روایت کے الفاظ ہیں:
ويوتر بركعة من آخر الليل
”رات كے آخری حصے میں ایک رات وتر پڑھ لے ۔“
صحیح مسلم (752 ، 753) میں سیدنا ابن عمر اور سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
الوتر ركعة من آخر الليل
”وتر رات کے آخری حصہ میں ایک رکعت کانام ہے ۔“
صحیح مسلم (159/749) کی ایک دوسری روایت کے الفاظ ہیں:
صلاة الليل مثنى مثنى فإذا رآيت أنّ الصبح يدر كك ، فاوتر بواحدة
”رات کی نماز دو ، دو رکعت ہے ، جب تو دیکھے کہ صبح ہونے کو ہے تو ایک وتر پڑھ لے ۔“
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں:
أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يصلي باليل إحدى عشرة ركعة ، يوتر منھا بواحدة ، فإذا فرغ منھا اضطجع على شقه الأيمن ، حتى يأتيه المؤذن ، فيصلی ركعتين خفيفتين
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو گیارہ رکعت پڑھتے تھے ، ان میں سے ایک وتر ادا فرماتے ، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم فارغ ہو جاتے تو اپنے دائیں پہلو پر لیٹ جاتے ، حتیٰ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مؤذن آتا ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم دو ہلکی سی رکعتیں (فجر کی سنتیں ) ادا فرماتے ۔“ [صحيح البخاري: 994 ، صحيح مسلم: 736 ، و للفظ له‘]
سیدنا ابوایو ب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکر م صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
الوتر حق فمن شاء أوتر بسبع ومن شاء أوتر بخمس ، ‏‏‏‏ ومن شاء أوتر بثلاث ومن شاء أوتر بواحدة
”وتر حق ہے ، جو چاہے سات پڑھے ، جو چاہے پانچ پڑھے ، جو چاہے تین پڑھے ، اور جو چاہے ایک پڑھے ۔“ [سنن ابي داؤد 1422 ، سنن النسائي: 1711 ، سنن ابن ماجه: 1190 ، وسندہ صحيح]
اس حدیث کو امام ابن حبان رحمہ اللہ (2410) اور حافظ ابن الملقن (البدر المنیر: 296/4) نے ”صحیح“ قرار دیا ہے ۔
امام حاکم رحمہ اللہ نے بخاری و مسلم کی شرط پر ”صحیح“ قرار دیا ہے اور حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے ۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں:
أن النبی صلى الله عليه وسلم أوتر بركعة ۔
”نبی اکر م صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک رکعت وتر ادا فرمایا ۔“ [سنن الدارقطني: 1656 ، وسندہ صحيحٌ]
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں بیان کرتے ہیں:
أوتر بركعة ۔
”آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک رکعت وتر پڑھا ۔“ [صحيح ابن حبان: 2424 ۔ وسنده صحيحٌ]
ابن ابی ملیکہ بیان کرتے ہیں کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے عشاء کے بعد ایک وتر پڑھا ۔ ان کے پاس سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کے غلام بھی موجود تھے ۔ انہوں نے آکر سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کو بتایا تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
دعه فإنه صحب رسول الله صلى الله عليه وسلم .
”ان کو چھوڑ دو ، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہے ہیں ۔“ [صحيح بخاري: 3764]
صحیح بخاری ہی کی ایک روایت (3765) میں ہے کہ ابن ابی ملیکہ نے بیان کیا کہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہماسے کہا گیا کہ امیرالمؤمنین معاویہ رضی اللہ عنہ کے متعلق آپ کیا فرماتے ہیں ، انہوں نے وتر کی نماز صرف ایک رکعت پڑھی ہے؟ انہوں نے کہا: إنه فقيه . ”وہ فقیہ ہیں ۔
عطاء بن ابی رباح رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں:
أن معاوية أوتر بركعة ، فأنكر ذلك عليه ، فسئل ابن عباس ، فقال: أصاب السنّة .
”سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے ایک وتر پڑھا ، ان پر اس چیز کا اعتراض کیا گیا ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہماسے پوچھا: گیا تو انہوں نے فرمایا: انہوں نے سنت پر عمل کیا ہے ۔“ [مصنف ابن ابي شيبة: 291/2 ، وسنده صحيحٌ]
ایک رکعت وتر سنت ہے ، فقیہ کی نشانی بھی یہی ہے کہ وہ ایک رکعت وتر کا قائل و فاعل ہوتا ہے ۔
سیدنا معاویہ اور سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہم دو جلیل القدر صحابی ایک رکعت وتر کے قائل و فاعل ہیں ۔

——————
دیگر صحابہ کرا م کا عمل
ابومجلز بیان کرتے ہیں کہ میں نے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہماسے وتر کے بارے میں پوچھا: اور کہا کہ اگر میں سفر میں ہوں تو کیا کروں؟ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
ركعة من آخر الليل .
”رات كے آخری حصے میں ایک رکعت پڑھ لو ۔“ [مصنف ابن ابي شيبة: 301/2 ، وسنده صحيحٌ]
عبدالرحمٰن تیمی بیان کرتے ہیں کہ میں نے سوچا کہ آج رات قیام اللیل پر مجھ سے کوئی سبقت نہ لے جائے گا ۔ میں اٹھا تو اپنے پیچھے ایک آدمی کی آہٹ پائی ۔ وہ سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ تھے ۔ میں ایک طرف ہٹ گیا ۔ آپ رضی اللہ عنہ آگے بڑھے ، قرآن کریم شروع کیا اور ختم کر دیا ، پھر رکوع کیا اور سجدہ کیا ۔ میں نے سوچا: شیخ بھول گئے ہیں ۔ جب آپ رضی اللہ عنہ نماز پڑھ چکے تو میں نے عرض کیا: اے امیر المؤمنین ! آپ نے ایک ہی رکعت وتر اداکی ہے ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ہاں ۔ یہ میرا وتر ہے ۔“ [شرح معاني الآثار للطحاوي: 294/1 ، سنن الدارقطني: 34/2 ، ح ، 1656-1658 ، و سنده حسنٌ]
عبداللہ بن مسلمہ بیان کرتے ہیں کہ سیدناسعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے ہمیں نماز عشاء پڑھائی ، پھر مسجد کے ایک کونے میں ایک رکعت اداکی ۔ میں آپ کے پیچھے گیا اور عرض کیا: اے ابواسحاق ! یہ کیسی رکعت ہے؟ فرمایا: وتر ، أنام عليه ۔ ”يه وتر هے ، جو پڑھ کر میں سو رہا ہوں ۔“ عمرو بن مرۃ کہتے ہیں کہ میں نے یہ بات مصعب بن سعد کو بتائی تو انہوں نے کہا: سیدناسعد رضی اللہ عنہ ایک رکعت وتر پڑھا کرتے تھے ۔ [شرح معاني الآثار للطحاوي: 295/1 ، و سنده حسنٌ]
سیدنا عبداللہ بن ثعبلہ بن صغیر رضی اللہ عنہ جن کے چہرے پر فتح مکہ کے موقع پر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ پھیرا تھا ، وہ بیان کرتے ہیں کہ سیدناسعد رضی اللہ عنہ جو کہ بدر میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک تھے ، نماز عشاء کے بعد ایک وتر پڑھا کرتے تھے ۔ اس سے زیادہ نہ پڑھتے تھے ، حتیٰ کہ رات کے وسط میں قیام کرتے تھے ۔ [معرفة السنن والآثار للبيهقي: 3142 ح“ 1390 صحيح البخاري: 6356: وسنده صحيحٌ]
نافع رحمہ اللہ ، سيدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کے بارے میں بیان کرتے ہیں:
أنه كان يوتر بركعتة
”آپ رضی اللہ عنہ ایک رکعت وتر پڑھتے تھے ۔“ [الاوسط لابن لمنذر: 179/5 ، وسنده صحيحٌ]
ابومجلز بیان کرتے ہیں کہ سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے مکہ و مدینہ کے درمیان عشاء کی نماز دو رکعت اداکی ، پھر کھڑے ہو کر ایک رکعت وتر پڑھا ۔ [الاوسط لابن لمنذر: 179/5 ، وسنده صحيحٌ]
جریر بن حازم بیان کرتے ہیں:
سألت عطاء: أوتر بركعة؟ فقال: نعم ، إن شئت ۔
”ميں نے امام عطاء بن ابی رباح رحمہ اللہ سے سوال کیا کہ کیا میں ایک رکعت وتر پڑھ لیا کروں؟ فرمایا: ہاں اگر چاہے تو پڑھ لیا کر ۔“ [مصنف ابن ابي شيبة: 292/2 ، وسنده صحيحٌ]
ابن عون بیان کرتے ہیں کہ میں نے امام محمد بن سیرین رحمہ اللہ سے پوچھا کہ اگر آدمی سو گیا اور صبح ہو گئی تو کیا صبح ہونے کے بعد وہ ایک رکعت وتر پڑھ لے؟ فرمایا:
لا أعلم به بأسا .
”ميں اس ميں كچھ حرج نہیں سمجھتا ۔“ [مصنف ابن ابي شيبة: 290/2 ، وسنده صحيحٌ]

——————
ایک تین ، پانچ اور سات وتر احناف کی نظر میں
ایک ، تین ، پانچ اور سات رکعات وتر پڑھناجائز ہیں ۔
اب ہم مقلدین کی معتبر کتب کے حوالہ جات پیش کرتے ہیں:
➊ مشہور حنفی جناب عبدالحیئ لکھنوی صاحب لکھتے ہیں:
وقد صحّ من جمع من الصحابة أنّهم أوتروا بواحدة ، دون تقدّم نفل قبلها .
”صحابہ کرام کی ایک جماعت سے یہ بات ثابت ہے کہ انہوں نے پہلے کوئی نفل پڑھے بغیر ایک رکعت وتر اداکیا ۔“ [التعليق الممجد للكنوي: 508/1]
➋ علامہ سندھی حنفی ، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہاکی حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں:
هذا صريح فى جواز الوتر بواحدة .
”یہ حدیث ایک وتر کے جائز ہونے میں واضح ہے ۔“ [حاشية السندي على النسائي: 30/2]
➌ جناب انور شاہ کشمیری دیو بندی لکھتے ہیں:
نعم ، ثابت عن بعض الصحابة بلا ريب .
”ہاں ، بعض صحابہ کرام سے بلاشک و شبہ ایک وتر پڑھنا ثابت ہے ۔“ [العرف الشذي للكشميري: 12/2]
➍ جناب عبدالشکور فاروقی لکھنوی دیو بندی لکھتے ہیں:
”یہ (صرف تین وتر پڑھنا ) مذہب امام صاحب کا ہے ۔ ان کے نزدیک ایک رکعت کی وتر جائز نہیں ۔ امام شافعی رحمہ اللہ کے نزدیک وتر میں ایک رکعت بھی جائز ہے ۔ دونوں طرف بکثرت احادیث صحیحہ موجود ہیں ۔“ [علم الفقه از عبدالشكور اللكونوي: حصه دوم: 182]

——————
تنبیہ نمبر 1:
بعض الناس پر لازم ہے کہ وہ اپنے امام سے ایک رکعت وتر کا عدم جواز بسندِ صحیح ثابت کریں ۔

——————
تنبیہ نمبر 2:
جس روایت میں تین وتر ہے ذکر ہے ، اس سے ایک یا پانچ وتر کی نفی نہیں ہوتی ۔
➎ جناب خلیل احمد سہارنپوری دیو بندی لکھتے ہیں:
وتر کی رکعت احادیث صحاح میں موجود اور سیدنا عبداللہ بن عمر اور عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم وغیرہ ما صحابہ کرام اس کے مقر اور مالک رحمہ اللہ و شافعی رحمہ اللہ و احمد رحمہ اللہ کا وہ مذہب ، پھر اس پر طعن کرنا ان سب پر طعن ہے ، کہو اب ایمان کاکیا ٹھکانہ؟ ۔ ۔ ۔ ۔“ [براهين قاطعه: ص 7]
یاد رہے کہ اس کتاب پر جناب رشید احمد گنگوہی دیو بندی کی تقریظ بھی ہے ۔
سہارنپوری دیو بندی صاحب کی عبارت سے بہت سی باتیں ثابت ہوتی ہیں ، ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ایک رکعت وتر پر طعن کرنے والے بے ایمان ہیں ۔
➏ جب بعض لوگوں نے جناب سہارنپوری کی مذکورہ بالا کتاب پر اعتراضات کئے تو ان کے ردّ جواب میں دیو بندیوں کے عقیدۂ وحدت الوجود کے امام حاجی امداد اللہ ”مکی“ دیو بندی صاحب لکھتے ہیں:
”ایسے ہی ایک وتر کی بحث میں جو آپ نے لکھا ہے کہ صاحب ”براہین“ کا اعتراض امام صاحب و صاحبین تک پہنچتا ہے ۔ یہ تو محض تعصب یاسفاہت ہے ۔ صاحب ”براہین“ اس شخص کو ردّ کرتے ہیں ، جو عموماًً ایک وتر پڑھنے والوں پر طعن کرے کیونکہ ایک وتر پڑھنے والے بعض صحابہ و ائمہ بھی ہیں ۔ حضرت امام و صاحبین نے کب ایک وتر پڑھنے والوں پر طعن کیا ہے اور کب طعن کر سکتے ہیں کہ اس طرف بھی صحابہ کبار اور ائمہ خیار ہیں ۔ صاحب ”انوار ساطعہ“ نے چونکہ بالعموم ایک وتر پڑھنے والوں کو مطعون کیا تھا ، حالانکہ ان میں صحابہ و ائمہ ہیں ۔ اس کو متنبہ کیا ہے اور اس گستاخی سے روکا ہے ۔“ یہ تحریر براھین کے آخر میں ملحق ہے: [ص: 280]
➐ اس تحریر کے ایک مقلد محشی لکھتے ہیں:
”پس معترض کا یہ کہنا کہ ”براہین“ کی عبارت سے معلوم ہوتا ہے امام صاحب و صاحبین کے ایمان کا بھی کیا ٹھکانہ ، نہایت حمق و شقاوت ہے ، کیونکہ ان حضرات نے ایک وتر پڑھنے والوں صحابہ و ائمہ کو کبھی طعن نہیں کیا اور نہ کلمات تحقیر ان حضرات کی شان میں لکھے ۔ مؤلفِ ”انوارِ ساطعہ“ نے بالعموم ایک وتر پڑھنے والوں کی نسبت کلماتِ ناشائشتہ لکھے ، اس لیے اس کو گستاخی سے روکا گیا ہے اور سمجھایا گیا ہے کہ تحقیر احادیث و تحقیر سلف میں ایمان کا ٹھکانانہیں ۔ اگر مؤلف ”انوارِ ساطعہ“ کہے کہ میری مراد صحابہ و ائمہ قائلین وترِ واحد پر اعتراض کرنانہیں تو یہ عذر گناہ بدتر از گناہ ہے ، کیونکہ اس کتاب میں بالتعمیم ایک وتر پڑھنے والوں پر اعتراض کیا ہے ۔ حکم شرعی ظاہر پر ہے اور پھر سلف ہوں یا خلف ، جس امر میں متبع حدیثِ نبوی ہیں ، اس فعل پر اعتراض نہیں ہو سکتا اور نہ اس کی تحقیر زیبا اعتراض جس پر ہے ، کسی احادیث یا اتباع ہونے کی وجہ سے ہے ، ورنہ چاہئیے کہ فرقِ باطلہ و اہلِ ہویٰ جن عقائد و اعمال میں اہلِ حق کے موافق ہیں ، ان عقائد و اعمال میں بھی اعتراض یا جائے ، پھر جب ایک وتر کے قائلین بھی صحابہ و اہل سنت ہیں تو اس فعل پر کیا اعتراض ہو سکتا ہے؟ “ [ايضاً ص ۔ 280]
➑ جناب سہارنپوری کی تائید اور مؤلف ”انوارِ ساطعہ“ کے ردّ میں مشہور مقلد جناب محمود الحسن دیو بندی لکھتے ہیں:
” (عبدالسمیع رامپوری مؤلفِ انوارِ ساطعہ نے ) وتر کی ایک رکعت پڑھنے والوں پر سخت الفاظ کے ساتھ طعن کیا ہے ۔ خیر اور تو وہی پر ان ا رونا ہے ، جو مؤلف مذکور (عبدالسمیع) کے سلف کر چکے تھے ، مگر وتر کی ایک رکعت پڑھنے والوں پر جس کے بارے میں احادیث صحاح موجود ہیں اور بعض ائمہ مثل امام شافعی و امام احمد وغیرہ رحمہ اللہ علیہم کا وہ مذہب ہے ۔ زبان درازی کرنا مؤلف مذکور کا ہی حصہ ہے ۔ یہ جدا قصہ ہے کہ علمائے حنفیہ رحمہ اللہ کا یہ مذہب بوجہ اور دلائل کے نہ ہو ، مگر فقط اس امر سے ایک دوسرے پر طعن نہیں کر سکتا ۔“ [الجهد المقل فى تنزيه المعز والمذل از محمو الحسن ديو بندي: ص 17]
➒ اشرف علی تھانوی دیو بندی صاحب کہتے ہیں:
”بعض لوگوں کے نزدیک وتر ایک رکعت ہے اور بعض کے نزدیک تین ہیں اور بعض کے نزدیک پانچ ہیں اور ان سب میں تاویل مذکور جاری ہو سکتی ہے ، مگر میرے نزدیک عمدہ طریقہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تینوں طرح ثابت ہے ۔“ [تقرير ترمذي از تهانوي: 136]
اس کتاب پر جناب تقی عثمانی دیو بندی صاحب کا مقدمہ موجود ہے ۔
➓ جناب اشرف علی تھانوی دیو بندی صاحب اپنے استاذ جناب شیخ محمد تھانوی صاحب دیو بندی سے نقل کرتے ہیں:
” (اہل حدیث ) نے وتر کی تمام احادیث میں سے ایک رکعت والی حدیث پسند کی ہے ، حالانکہ تین رکعتیں بھی آئیں ہیں ، پانچ بھی آئی ہیں ، سات بھی آئی ہیں ۔“ [قصص الاكا بر از تهانوي: 122]
تبصرہ:
جناب تھانوی صاحب کا یہ بہتان ہے کہ اہل حدیث نے ایک رکعت والی حدیث پسند کی ہے جبکہ اہل حدیث ایک رکعت کے علاوہ تین ، پانچ اور سات رکعت وتر کی احادیث کو بھی ناپسند نہیں کرتے ، بلکہ ان کے بھی قائل و فاعل ہیں ۔ والحمدلله على ذلك !
⓫ جناب احمد سعید کاظمی بریلوی لکھتے ہیں:
”یعنی علامہ کر مانی نے فرمایا کہ سیدنا قاسم بن محمد (سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پوتے ) کے قول ”إنَ كّلا“ کے معنی یہ ہیں کہ وتر ایک رکعت ، تین رکعت اور پانچ رکعت اور سات وغیرہ سب جائز ہیں ۔“ [مقالات كاظمي: حصه سوم: 488]
⓬ جناب احمد یار خان نعیمی بریلوی لکھتے ہیں:
”حضور صلی اللہ علیہ وسلم وتر ایک رکعت پڑھتے تھے ، تین یا پانچ پڑھتے تھے ، سات پڑھتے تھے تو گیارہ تیرہ رکعتیں پڑھتے تھے ۔“ [جاء الحق از نعيمي ، جلد دوم: ص 263]

اس تحریر کو اب تک 33 بار پڑھا جا چکا ہے۔

Leave a Reply