نکاح سے پہلے طلاق واقع نہیں ہوتی!

نکا ح سے پہلے طلاق واقع نہیں ہوتی۔ اگر کوئی آدمی کسی عورت سے کہے کہ :
إن أنكحتك فانت طالق .
”اگر میں تجھ سے نکا ح کروں تو تجھے طلاق۔“
یا کہے کہ :
كلما نكحت امرأةفهي طالق
”میں جب بھی کسی عورت سے نکا ح کروں تو اسے طلاق۔ “
یا کہے کہ :
” اگر میں فلاح کے گھر گیا یا فلاں سے بات کی تو جس سے میں شادی کروں گا، اسے طلاق ہے۔ “
وہ گھر چلا گیا بات کر دی اور کسی عورت سے شادی کر لی تو ان سب صورتوں میں طلاق واقع نہیں ہو گی۔ بلکہ یہ طلاق باطل ہے۔
حنفی مقلدین کے نزدیک مذکورہ تمام صورتوں میں طلاق واقع ہو جاتی ہے۔، جبکہ ان کے پاس کوئی صحیح دلیل نہیں۔ محض تقلیدِ ناسدید کی بھینٹ چڑھ گئے ہیں۔ طلاق واقع نہ ہونے پر دلائل ملاحظہ فرمائیں :
دلیل نمبر ➊
فرمانِ باری تعالیٰ ہے :
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نَكَحْتُمُ الْمُؤْمِنَاتِ ثُمَّ طَلَّقْتُمُوهُنَّ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَمَسُّوهُنَّ [ 33-الأحزاب:49]
”اے ایمان والو ! جب تم مومن عورتوں سے نکا ح کرو، پھر ان کو مباشرت سے پہلے طلاق دے دو تو۔۔۔“
◈ حافظ ابنِ کثیر (773-701ھ) اس آیت کی تفسیر لکھتے ہیں :
وقد استدل ابن عباس وسعيد بن المسيب والححسن البصري وعلي بن الحسين زين العابدين، وجماعة من السلف بهذه الآية على أ ن الطلاق لا يقع إ لاإ ذاتقدمه نكا ح، لأن الله تعالىٰ قال : ﴿إِذَا نَكَحْتُمُ الْمُؤْمِنَاتِ ثُمَّ طَلَّقْتُمُوهُنَّ﴾ ، فعقب النكا ح بالطلاق، فدل، على أنه لا يصح ولا يقع قبله، وهذا مذهب الشافعي وأحمد بن حنبل وطا هٔفة كثيرة من السلف والخلف .
”سیدنا ابنِ عباس رضی اللہ عنہما، امام سعید بن مسیب، حسن بصری، علی بن حسین زین العابدین رحمہ الله اور سلف کی ایک جماعت نے اس آیت کریمہ سے یہ استدلال کیا ہے کہ طلاق اس وقت تک واقع نہیں ہوتی، جب تک اس سے پہلے نکا ح نہ ہو چکا ہو، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ”اے ایمان والو ! جب تم مومن عورتوں سے نکا ح کرو، پھر ان کو طلاق دو۔ “ اللہ تعالیٰ نے طلاق کو نکا ح کے بعد ذکر کیا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ نکا ح سے پہلے طلاق دُرست نہیں، نہ ہی ایسی طلاق واقع ہوتی ہے۔ امام شافعی رحمہ الله امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ رحمہ الله اور سلف وخلف کی ایک بڑی جماعت کا یہی مذہب ہے۔ “ [تفسير ابن كثير : 194/5 ]
ترجمان القرآن سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں :
ماقالها ابن مسعود رضى الله عنه، وإن يكن قالها، فزلة من عالم . فى الرجل ؛ إن تزوجت فلا نة فهي طالق، قال الله تبارك وتعاليٰ : يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نَكَحْتُمُ الْمُؤْمِنَاتِ ثُمَّ طَلَّقْتُمُوهُنَّ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَمَسُّوهُنَّ [ 33-الأحزاب:49] ، ولم يقل : إذا طلقتم المؤمنات ثم نكحتمو هن .
”سیدنا ابنِ مسعود نے نکا ح سے پہلے طلاق واقع ہونے کا فتویٰ نہیں دیا۔ اگر بالفرض انہوں نے ایسا کہا ہے تو یہ ایک عالم کی لغزش ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔ : ”اے ایمان والو ! جب تم مومن عورتوں سے نکا ح کرو اور پھر طلاق دے دو تو۔۔۔ “ یہ نہیں کہا: کہ جب تم مومن عورتوں کو طلاق دے دو اور پھر نکا ح کرو تو۔۔۔۔ “ [ السن الكبري للبهقي : 321/7، وسنده حسن ]

تنبیہ : سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے یہ بات ثابت نہیں۔
سنن سعید بن منصور [1003] والی روایت ابراہیم نخعی رحمہ الله کی ”تد لیس“ کی وجہ سے ”ضعیف“ ہے۔ ابراہیم نخعی کا سیدنا ابن مسعود سے سماع بھی ثابت نہیں ہے۔
مصنف عبدالرزاق [20/6] میں ان کی متابعت امام شعبی نے کی ہے، لیکن امام شعبی رحمہ الله کا بھی سیدنا ابنِ مسعود رحمہ الله سے سماع ثابت نہیں۔ [المراسيل لابن ابي حاتم : 60، السنن الكبريٰ للبيهقي : 169/7 ]
نیز اس میں امام عبدالرزاق اور امام سفیان ثوری کی ”تدلیس“ بھی موجود ہے۔
سنن سعید بن منصور [1004] والی دوسری روایت بھی ”سخت ترین ضعیف“ ہے اس میں جویبربن سعید البلخی راوی ”سخت ترین ضعیف“ ہے۔
حافظ ابنِ حجر رحمہ الله اس کے بارے میں فرماتے ہیں :
ضعيف جدا
”یہ سخت ترین ضعیف راوی ہے۔“ [ تقريب التهذيب لابن حجر : 987 ]
نیز ضحاک بن مزاحم کے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے سماع پر کوئی دلیل نہیں۔
مفسر ثعلبی رحمہ الله فرماتے ہیں :
وفي الاۤۤ ية دليل على آن الطلاق قبل النكا ح غير واقع، خص آو عم، خلافا الاهل الكوفة .
”اس آیت کریمہ میں اس بات کی دلیل موجود ہے کہ نکا ح سے پہلے طلاق واقع نہیں ہوتی، وہ خاص کی گئی ہو یا عام ہو۔ یہ بات اہل کوفہ کے خلاف ہے۔ “ [الكشف والبيان النيسابوري : 53/8 ]
مفسر ابنِ عادل رحمہ الله کہتے ہیں :
وفي هذه إلاۤ ية دليل على آن تعليق الطلاق قبل النكا ح لايصح .
”اس آیت کریمہ میں اس بات کی دلیل موجود ہے کہ نکا ح سے پہلے طلاق کو معلق کرنا دُرست نہیں۔“ [الباب فى عفوم الكتاب : 565/15 ]
یہی بات حافظ بغوی رحمہ الله [تفسير البغوي : 361/6] ، علامہ خازن [تفسير الخازن : 267/5] وغیرہ نے بھی کہی ہے۔

دلیل نمبر ➋

سیدنا عبد اللہ عمرو بن عامل رحمہ الله سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
ليس على الرجال طلاق فيما لا يملك
”جس عورت پر آدمی کی ملکیت (نکا ح) نہ ہو، اس کے بارے میں آدمی ( کی طلاق اس) پر شمار نہیں ہوتی۔ “ [ مصنف ابن ابي شيبه : 224/14، مسند الامام احمد : 189/2، سنن ابي داود : 2190، مشكل الآثار للطحاوي : 660، سنن الدارقطني : 14/4، السنن الكبريٰ للبيهقي : 318/7، وسنده حسن ]

اس کا راوی مطر الوراق جمہور محدثین کے نزدیک ”ثقہ“ ہے۔
◈ حافظ ہبی رحمہ الله اس کے بارے میں لکھتے ہیں :
ثقة تابعي . ”یہ ثقہ تابعی ہیں۔ “ [السغني للذهبي : 411/2 ]
نیز فرماتے ہیں :
حسن الحديث ”اس کی حدیث حسن ہے۔ “ [ ميزان الا عتدال للذهبي : 127/4 ]
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ رحمہ الله نے بھی اسے” ثقہ“ قرار دیا ہے۔ [فتح الباري لابن حجر : 384/9 ]
اس حدیث میں یہ الفاظ بھی ہیں :
لا يجوز طلاق ولاعناق ولا بيع ولا وفاء نذر فيما لايملك .
”جو چیز ملکیت میں نہ ہو، اس میں طلاق، آزادی بیع اور نذر کو پورا کرنا موثر نہیں ہوتا۔ “ [مسند الا مام احمد : 190/2 وسندهّ حسن ]
یہ الفاظ بھی ہیں :
من طلق مالا يملك، فلا طلاق له .
”جو شخص ایسی عورت کو طلاق دے، جو اس کی ملک (نکا ح) میں نہیں، اس کی طلاق کی کوئی چیثیت نہیں۔“ [ المستدر ك للحا كم : 300/4۔ وقال : صحيح الا سناد، السنن الكبري للبيهقي : 300/10، وسند هْ حسن ]
اس حدیث کو امام ترمذی رحمہ الله نے ”حسن صحیح “ اور امام ابن الجارود رحمہ الله (743) نے ”صحیح “ کہا ہے۔
حافظ خطابی رحمہ الله ( 388-319ھ) فرماتے ہیں :
أسعد الناس بهذا الحديث من قال بظاهره، وا جراه على عمو مه، إ ذلا حجة مع من فرق بين حال وحال، والحديث حسن .
”اس حدیث کے حوالے سے سب سے خوش بخت وہ ہے جو اس کے ظاہر کے مطابق کہتا ہے اور اس کو اس کے عموم پر رہنے دیتا ہے، کیونکہ اس شخص کے پاس کوئی دلیل نہیں جو حالات کے تحت تفریق کرتے ہیں۔ یہ حدیث حسن ہے۔ “ [ تحفة الا حوذي لعبد الرحمن المبار كپوري : 213/2 ]
جب عور ت نکاح سے پہلے آدمی کی مِلک ہی نہیں تو طلاق کیسے ٖ ؟ ایسی طلاق لغور ہو جائے گی۔ یہ کہنا باطل ہے کہ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ فی الضور طلاق واقع نہیں ہوتی، نکاح کے بعد ہو جاتی ہے یا أنت طالق (تجھے طلاق) کہنے سے تو نہیں ہوتی، یعنی جب تعلیق میں عموم ہو تو ہوتی۔ اس توجیہ کی دلیل میں امام زہری رحمہ الله کا قول [مصنف عبدالرزاق : 421/6، ح : 11475] پیش کیا جاتا ہے لیکن وہ امام عبدالرزاق رحمہ الله کی ”تدلیس“ کی وجہ سے ”ضعیف“ ہے، لہٰذا یہ توجیہ بھی ضعیف ہوئی۔ ان تمام صورتوں کے متعلق حافظ ابنِ حزم رحمہ الله فرماتے ہیں :
فكل ذلك باطل
” یہ تمام توجیہات باطل ہیں۔ “ [ المحلي لابن حزم : 205/10 ]
صحیح بات یہ ہے کہ تعلیق میں عموم ہو یا خصوصی، دونو ں حالتوں میں طلاق نہیں ہوتی، کیونکہ طلاق کا محل نہیں ہوتا۔ دونو ں حالتوں میں عورت آدمی کی مِلک نہیں ہوتی۔ لہٰذا ایسی طلاق ہر حال میں لغو باطل ہے۔ سیدنا ابنِ عباس رضی اللہ عنہما اور جمہور سلف صالحین یہی کہتے ہیں اور یہی حق و صواب ہے۔

دلیل نمبر ➌

سیدنا عبد اللہ عمرو بن عاصسے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
لا طلاق قبل النكا ح .
”نکا ح سے پہلے طلاق کی کوئی حیثیت نہیں۔ “ [المستدرك على الصحيحين للحاكم : 205-204/4، السنن الكبري للبيهقي : 317/7، وسندهْ حسن ]
یہ الفاظ بھی ہیں : ”طلاق ہوتی ہی نکا ح کے بعد ہے۔ “ [ مسند الطيالسي : ص 299، السنن الكبري للبيهقي 318/7 وسندهٰ حسن ]

امام سعید بن مسیّب تابعی رحمہ الله اس آدمی کے بارے میں فرماتے ہیں جو کہے کہ جس دن میں فلاں عورت سے شادی کروں گا، اسے طلاق :
ليس بشي ء ”یہ بے فائدہ بات ہے۔ “ [مصنف ابن ابي شيبة : 16/5، وسنده صحيح ]
امام سعید بن جبیرتابع رحمہ الله بھی ایسے شخص کے بارے میں فرماتے ہیں :
ليس بشيء إنما الطلاق بعد النكا ح
”یہ بات کچھ حیثیت نہیں رکھتی، کیونکہ طلاق تو نکا ح کے بعد ہی ہو سکتی ہے۔ “ [مصنف ابن ابي شيبة : 16/5، وسنده صحيح ]
جو آدمی کہتا ہے کہ جس سے میں نکا ح کروں گا، اسے طلاق ہے، اس شخص کو امام سعید بن جبیر رحمہ الله فرماتے ہیں :
كيف تطلق مالا تملك ؟ إنما الطلاق بعد النكا ح .
”تم اس عورت کو کیسے طلاق دو گے، جوتمہاری مِلک(نکا ح) میں نہیں۔ طلاق تو نکا ح کے بعدہی ہوتی ہے۔“ [مصنف ابن ابي شيبة : 20/5، وسنده صحيح ]

امام علی بن حسین زین العابدین رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
لاطلاق إلا بعد النكا ح . ” طلاق ہوتی ہی نکا ح کے بعد ہے۔ “ [ مصنف ابن ابي شيبة : 16/5، وسنده صحيح ]

اما م شریح رحمہ الله فرماتے ہیں :
لاطلاق إلا بعد النكا ح . ”نکا ح کے بعد ہی طلاق ہوتی ہے۔ “ [مصنف ابن ابي شيبة : 17016/5، وسنده صحيح ]
نیز امام طاؤس رحمہ الله [مصنف ابن ابي شيبه : 17/5، وسند صحيح ] ، قاسم بن عبدالرحمٰن رحمہ الله [ مصنف ابن ابي شيبه : 17/5، وسند ه صحيح ] ، محمد بن کعب رحمہ الله [مصنف ابن ابي شيبه : 17/5، وسنده حسن ] ، نافع بن جبیر رحمہ الله [مصنف ابن ابي شيبه : 17/5، وسنده حسن ] ، امام حسن بصری رحمہ الله [سنن سعيد بن منصور : 1031، وسند صحيح ] ، منصور بن زاذان رحمہ الله [سنن سعيد بن منصور : 1040، وسنده صحيح ] ، عروہ بن زبیر رحمہ الله [سنن سعيد بن منصور : 1054، وسند ه صحيح ] ، امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ رحمہ الله اور امام شافعی رحمہ الله کا یہی مذہب ہے۔

اس کے برعکس کچھ سلف کا موقف ہے کہ نکا ح سے پہلے دی گئی طلاق واقع ہو جاتی ہے۔ ان کا یہ اجتہاد قرآن و حدیث اور سیدنا ابنِ عباس اور جمہور سلف صالحین کے خلاف ہونے کی وجہ سے نا قابل التفات ہے۔

① احناف کی دلیل یہ ہے کہ قاسم بن محمد رحمہ الله سے ایسے آدمی کے بارے میں پوچھا گیا، جس نے کہا تھا کہ اگر وہ نکا ح کرے تو اس کی بیوی کو طلاق۔ امام قاسم بن محمد رحمہ الله نے فرمایا :
إن جلا جعل امرأ ه عليه كظهر أمه إ ن هو تزو جها، فامره عمر بن الخطٓاب، إن هوتزو جها لا يقربها حتي بكفر كفارة المظاهر .
”ایک آدمی نے ایک عورت کے بارے میں کہا: کہ اگر وہ اس سے نکا ح کرے تو میری ماں کی پشت کی طرح مجھ پر حرام ہے۔ سیدنا عمر بن خطاب رحمہ الله نے حکم فرمایا کہ اگر وہ اس عورت سے نکاح کرے تو ظہار کا کفارہ دینے تک اس کے قریب نہ جائے۔ “ [ليسوضا، الامام مافت : ص 515، ظهار الحر : كتاب الطلاق ]
لیکن اس کی سند ”انقطاع“ کی وجہ سے ”ضعیف“ ہے۔ قاسم بن محمد رحمہ الله کا سید نا عمر بن خطاب سے سماع نہیں ہے۔
نیز یہ بات فرمانِ الہی :
اَلَّذِيْنَ يُظاهرُوْنَ مِنْ نِسَائِهِمْ [ المجادلة : 3 ]
(وہ لوگ جو اپنی بیویوں سے اظہار کرتے ہیں۔۔۔ ) کے خلاف ہے۔
جب نکا ح سے پہلے یہ بات کہی گئی تو اس وقت وہ عورت بیوی نہیں تھی، لہٰذا اظہار واقع ہی نہیں ہوا کہ کفارہ واجب ہو۔

② دوسری دلیل یہ پیش کی جاتی ہے کہ ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن کہتے ہیں کہ ایک آدمی سیدنا عمر بن خطاب کے پاس آیا اور کہا:
كل امر لة أتزو جها، فهي طالق ثلاثا، فقال له عمر : فهو، كما فلت
” ہر وہ عورت جس سے میں شادی کروں گا، اسے تین طلاقیں۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اس سے فرمایا : جیسے تم نے کہا ہے، ویسے ہی ہو گا۔ “ [ مصنف عبدالرزاق : 421/6، ح : 11474 ]
لیکن اس کی سند ”سخت ترین ضعیف“ ہے، کیونکہ :
① اس میں امام عبدالرزاق رحمہ الله کی ”تدلیس“ ہے۔
② ابومحمد راوی کو حافظ ابنِ حزم رحمہ الله نے ”مجہول“ کہا ہے۔ [المحلي : 207/10 ]
③ اس میں یاسین بن معاذ الزیات نامی راوی باتفاق محد ثین ”ضعیف“ اور ”منکر الحدیث“ ہے۔
④ امام بخاری رحمہ اللہ رحمہ الله فرماتے ہیں کہ ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن کی سید نا عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ”منقطع“ ہوتی ہے۔ [تهذيب التهذيب لا بن حجز : 128/12 ]
یہی بات حافظ ابنِ حزم رحمہ الله نے بھی کہی ہے۔۔ [المحلي لابن حزم : 207/10 ]
حافظ ابنِ حزم رحمہ الله فرماتے ہیں۔۔ وهو قول لم يصح عن أحد من الصحابة .
”یہ ایسا قول ہے، جو کسی بھی صحابی سے ثابت نہیں ہے۔ “ [ المحلي 207/10 ]
الحاصل : نکا ح سے پہلے کسی بھی صورت میں دی گئی طلاق واقع نہیں ہوتی۔

***********
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خواب حق ہے !
سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
إن رسول الله صلى الله عليه وسلم ما رآه فى نومه وفي يقظته، فهو حق .
” رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ حالتِ نیند اور حالت ِ بیداری میں دیکھا ہے، وہ حق ہے۔ “ [ السنة لابن ابي عاصم : 13000473، وسنده صحيح]

 

یہ تحریر اب تک 33 لوگ پڑھ چکے ہیں، جبکہ صرف آج 1 لوگوں نے یہ تحریر پڑھی۔

Leave a Reply