نماز میں اٹھنے کا مسنون طریقہ

تحریر: ابوسعید سلفی حفظ اللہ

سنت طریقہ ہی کیوں؟
✿ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ [2-البقرة:43]
’’ نماز قائم کرو۔“
یہ ایک اجمالی حکم ہے۔ اس کی تفصیل کیا ہے ؟ نماز کس طرح قائم ہو گی ؟ اس اجمال کی تفصیل نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم
کے اس فرمان گرامی میں موجود ہے :
صلوا كما رأيتموني أصلي
’’ نماز ایسے پڑھو، جیسے مجھے پڑھتے ہوئے دیکھا ہے۔“ [صحيح البخاري : 88/1، ح : 631]
◈ شیخ الاسلام ثانی، عالم ربانی، علامہ ابن قیم الجوزیہ رحمہ اللہ (691-751ھ) فرماتے ہیں :
إن اللہ سبحانه لا يعبد إلا بما شرعه علٰي ألسنة رسله، فإن العبادة حقه علٰي عباده، وحقه الذى أحقه هو، ورضي به، وشرعه
”اللہ تعالیٰ کی عبادت کا صرف وہی طریقہ ہے، جو اس نے اپنے رسولوں کی زبانی بیان کر دیا۔ عبادت بندوں پر اللہ تعالیٰ کا حق ہے اور اس کا حق وہی ہو سکتا ہے، جو اس نے خود مقرر کیا ہو، اس پر وہ راضی بھی ہو اور اس کا طریقہ بھی اس نے خود بیان کیا ہو۔“ [اعلام الموقعين عن رب العالمين : 1/ 344]
↰ معلوم ہوا کہ عبادت کی قبولیت تب ہو گی، جب اسے سنت طریقے سے سرانجام دیا جائے۔ سنت کا علم صرف صحیح حدیث کے ذریعے ہوتا ہے۔ جہالت اور عناد کی بنا پر ”صحیح“ احادیث کو چھوڑ کر ”ضعیف“ روایات کے ذریعے عبادات کے طریقے مقرر کرنا جائز نہیں۔
↰ چونکہ نماز بھی ایک عبادت، بلکہ ایسا ستون ہے، جس پر اسلام کی پوری عمارت کھڑی ہوتی ہے، لہٰذا اس کی ادائیگی میں بھی سنت طریقے کو ملحوظ رکھنا انتہائی ضروری ہے۔

جلسہ استراحت اور تشہد کے بعد کیسے اٹھیں ؟
نماز کی پہلی اور تیسری رکعت میں دونوں سجدوں کے بعد اگلی رکعت کے لیے اٹھنے سے پہلے تھوڑی دیر کے لیے اطمینان سے بیٹھنا جلسہ استراحت کہلاتا ہے۔ اس جلسہ کے بعد اور درمیانے تشہد کے بعد اگلی رکعت کے لیے اٹھنا ہوتا ہے۔ اس اٹھنے کا سنت طریقہ جاننا اس تحریر کا بنیادی مقصد ہے۔ ملاحظہ فرمائیں ؛
دليل نمبر
مشہور تابعی، امام، ایوب سختیانی رحمہ اللہ کا بیان ہے :
عن أبي قلابة، قال : جائ نا مالك بن الحويرث، فصلٰي بنا فى مسجدنا هٰذا، فقال : إني لـأصلي بكم، وما أريد الصلاة، ولٰكن أريد أن أريكم كيف رأيت النبى صلى اللہ عليه وسلم يصلي، قال أيوب : فقلت لأبي قلابة : وكيف كانت صلاته؟ قال : مثل صلاة شيخنا هٰذا ـ يعني عمرو بن سلمة ـ قال أيوب : وكان ذٰلك الشيخ يتم التكبير، وإذا رفع رأسه عن السجدة الثانية جلس واعتمد على الـأرض، ثم قام
’’ ابوقلابہ (تابعی ) نے بتایا : ہمارے پاس سیدنا مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ تشریف لائے، ہماری مسجد میں ہمیں نماز پڑھائی اور فرمانے لگے : میں تمہارے سامنے نماز پڑھنے لگا ہوں، حالانکہ نماز پڑھنا میرا مقصد نہیں۔ دراصل میں چاہتا ہوں کہ تمہیں یہ بتاؤں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیسے نماز پڑھا کرتے تھے۔ میں نے ابوقلابہ رحمہ اللہ سے پوچھا کہ سیدنا مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کی نماز کیسی تھی ؟ انہوں نے بتایا : ہمارے شیخ عمرو بن سلمہ رضی اللہ عنہ کی طرح۔ عمرو بن سلمہ رضی اللہ عنہ تکبیر کہتے، جب دوسرے سجدے سے سر اٹھاتے، تو بیٹھ جاتے اور زمین پر ٹک جاتے، پھر کھڑے ہوتے۔“ [صحيح البخاري : 824]
◈ امام محمد بن ادریس، شافعی رحمہ اللہ (150-204ھ) فرماتے ہیں :
وبهٰذا نأخذ، فنأمر من قام من سجود، أو جلوس فى الصلاة أن يعتمد على الـأرض بيديه معا، اتباعا للسنة، فإن ذٰلك أشبه للتواضع، وأعون للمصلي على الصلاة، وأحرٰي أن لا ينقلب، ولا يكاد ينقلب، و أى قيام قامه سوٰي هٰذا كرهته له
ہم اسی حدیث کے مطابق فتویٰ دیتے ہیں اور جو شخص نماز میں سجدے یا تشہد سے (اگلی رکعت کے لیے) اٹھے، اسے حکم دیتے ہیں کہ سنت پر عمل کرتے ہوئے وہ اپنے دونوں ہاتھوں کو زمین پر ٹیکے۔ یہ عمل عاجزی کے قریب تر ہے، نمازی کے لیے مفید بھی ہے اور گرنے سے بچنے کا ذریعہ بھی ہے۔ اس کے علاوہ اٹھنے کی کوئی بھی صورت میرے نزدیک مکروہ ہے۔ [كتاب الام : 101/1]

◈ اس حدیث پر سید الفقہاء، امیر المؤمنین فی الحدیث، امام محمد بن اسماعیل بخاری رحمہ اللہ (194 – 256 ھ) نے یہ باب قائم فرمایا ہے :
بَابُ : كَيْفَ يَعْتَمِدُ عَلَى الأَرْضِ إِذَا قَامَ مِنَ الرَّكْعَةِ:
”اس بات کا بیان کہ نمازی (پہلی اور تیسری ) رکعت سے اٹھتے ہوئے زمین کا سہارا کیسے لے گا۔“

◈ شارح صحیح بخاری، حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ (773-852ھ) امام بخاری رحمہ للہ کی مراد واضح کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
والغرض منه هنا ذكر الاعتماد على الارض عند القيام من السجود او الجلوس
”امام بخاری رحمہ اللہ کی مراد یہ ہے کہ سجدے اور تشہد سے اٹھتے ہوئے ہاتھوں کو زمین پر ٹیکنا چاہیے۔“ [ فتح الباري شرح صحيح البخاري : 303/2]

دلیل نمبر :
ازرق بن قیس تابعی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں :
رأيت ابن عمر ينهض فى الصلاة، ويعتمد علٰي يديه
میں نے سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو نماز میں اٹھتے اور اپنے دونوں ہاتھوں کا سہارا لیتے ہوئے دیکھا۔ [مصنف ابن ابي شيبه : 394/1وسنده صحيح]

دلیل نمبر :
خالد بن مہران حذا بیان کرتے ہیں :
رأيت أبا قلابة والحسن يعتمدان علٰي أيديهما فى الصلاة
”میں نے ابوقلابہ اور حسن بصری رحمها اللہ کو دیکھا کہ وہ نماز میں (اگلی رکعت کے لیے اٹھتے وقت) اپنے دونوں ہاتھوں کا سہارا لیتے تھے۔“ [مصنف ابن ابي شيبه : 395/1 وسنده صحيح ان صح سماع عبادة بن العوام من خالد]

گھٹنوں کے بل اٹھنے کا طریقہ !
بعض لوگ کہتے ہیں کہ نماز میں دو سجدوں اور تشہد کے بعد اگلی رکعت کے لیے گھٹنوں کے بل اٹھنا چاہیے۔ آئیے اختصار کے ساتھ ان کے دلائل کا علمی و تحقیقی جائزہ لیتے ہیں؛
روایت نمبر :

سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے منسوب ہے :
نهٰي رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم أن يعتمد الرجل علٰي يديه إذا نهض فى الصلاة
’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے کہ کوئی نماز میں اٹھتے وقت اپنے ہاتھوں کا سہارا لے۔“ [مسند الامام احمد : 147/2، سنن ابي داود : 992]

تبصرہ :
یہ روایت ان الفاظ کے ساتھ ’’شاذ“ ہے۔
امام عبدالرزاق رحمہ اللہ سے بیان کرنے میں محمد بن عبدالملک غزال کو غلطی لگی ہے۔ اس نے کئی ثقہ و اوثق راویوں کی مخالفت میں یہ الفاظ بیان کیے ہیں۔
◈ اسی لیے حافظ نووی رحمہ اللہ نے اس روایت کو ’’ضعیف“ اور ’’شاذ“ قرار دیا ہے۔
◈ امام بیہقی رحمہ اللہ (384-458 ھ) اس کے بارے میں فرماتے ہیں :
وهٰذا خطأ لمخالفته سائر الرواة، وكيف يكون صحيحا؟
”یہ غلطی ہے، کیونکہ اس بیان میں محمد بن عبدالملک نے باقی تمام راویوں کی مخالفت کی ہے۔ یہ صحیح کیسے ہو سکتی ہے ؟“ [معرفة السنن والآثار : 43/3]
↰ اس بات پر کئی قوی شواہد موجود ہیں کہ اس بیان میں محمد بن عبدالملک غزال کو وہم ہوا ہے، ملاحظہ فرمائیں؛
➊ امام عبدالرزاق رحمہ اللہ سے امام احمد بن حنبل، احمد بن محمد بن شبویہ، محمد بن رافع، محمد بن سہل عسکر، حسن بن مہدی اور احمد بن یوسف سلمی نے یہ روایت ان الفاظ میں بیان کی ہے :
نهي النبى صلى اللہ عليه وسلم إذا جلس الرجل فى الصلاة أن يعتمد علٰي يده اليسرٰي
”نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے کہ کوئی نماز میں بیٹھے ہوئے بائیں ہاتھ پر ٹیک لگائے۔“

➋ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہا نے ایک حدیث یوں بیان کی ہے :
إن النبى صلى اللہ عليه وسلم نهٰي رجلا، وهو جالس، معتمدا علٰي يده اليسرٰي فى الصلاة، وقال : ”إنها صلاة اليهود“
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو نماز میں بائیں ہاتھ پر ٹیک لگا کر بیٹھنے سے منع کیا اور فرمایا : یہ تو یہود کی نماز ہے۔ [المستدرك على الصحيحين
للحاكم : 1/ 272، السنن الكبريٰ للبيهقي : 2/ 136، وسنده، صحيح]

↰ امام حاکم رحمہ اللہ نے اس حدیث کو ”امام بخاری و مسلم رحمہما اللہ کی شرط پر صحیح“ قرار دیا ہے
اور حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے۔

➌ نافع تابعی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں :
راٰي عبد اللہ رجلا يصلي، ساقطا علٰي ركبتيه، متكئا علٰي يده اليسرٰي، فقال : لا تصل هٰكذا، إنما يجلس هٰكذا الذين يعذبون
”سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے ایک آدمی کو دیکھا کہ وہ نماز میں اپنے گھٹنوں کے بل گرا ہوا تھا اور اس نے اپنے بائیں ہاتھ پر ٹیک لگائی ہوئی تھی۔ انہوں نے اسے فرمایا : ایسے نماز نہ پڑھو. اس طرح تو وہ لوگ بیٹھتے ہیں، جن کو سزا دی جا رہی ہو۔“ [السنن الكبريٰ للبيهقي : 136/2، وسنده حسن]
↰ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کے ان بیانات سے بھی یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ محمد بن عبد الملک نے مذکورہ روایت بیان کرتے ہوئے غلطی کی ہے، لہٰذا ثقہ و اوثق راویوں کی بیان کردہ صحیح حدیث ہی قابل عمل ہے۔ نہ کہ ایک راوی کا وہم۔

روایت نمبر :

سیدنا وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے :
رايت النبى صلى الله عليه وسلم إذا سجد وضع ركبتيه قبل يديه، وإذا نهض رفع يديه قبل ركبتيه .
”میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا۔ آپ جب سجدہ کرتے تو اپنے گھٹنوں کو ہاتھوں سے پہلے زمین پر رکھتے اور جب اٹھتے، تو ہاتھوں کو گھٹنوں سے پہلے اٹھاتے تھے۔“ [سنن ابي داؤد: 838، سنن النسائي : 1090، سنن الترمذي: 268، و صححهٔ، سنن ابن ماجه : 883، و صححه ابن خزيمة : 629، و ابن حبان : 1909]

تبصرہ :
اس کی سند ”ضعیف“ ہے، کیونکہ اس میں شریک بن عبداللہ قاضی ”مدلس“ راوی ہیں،
انہوں نے اپنے شیخ سے سماع کی صراحت نہیں کی۔
◈ امام بیہقی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو ”ضعیف“ قرار دیا ہے۔ [السنن الكبرى : 100/2]

روایت نمبر :

سیدنا وائل بن حجر رضی اللہ عنہ ہی سے مروی ہے :
وإذا نهض نهض على ركبتيه واعتمد على فخذه
”نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب اٹھتے، تو گھٹنوں کے بل اٹھتے اور اپنی رانوں کا سہارا لیتے تھے۔“ [سنن ابي داؤد: 839، 736]

تبصرہ :
اس روایت کی سند ”انقطاع“ کی وجہ سے ”ضعیف“ ہے۔
اس کے راوی عبدالجبار بن وائل نے اپنے والد سے سماع نہیں کیا۔
◈ حافظ نووی رحمہ اللہ (631۔ 676ھ) اس حدیث کے بارے میں لکھتے ہیں :
حديث ضعيف، لأن عبد الجبار بن وائل؛ اتفق الحفاظ على أنه لم يسمع من أبيه شيئا، ولم يدركه٠
”یہ حدیث ضعیف ہے، کیونکہ محدثین کرام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ عبدالجبار بن وائل نے اپنے والد سے کوئی بھی حدیث نہیں سنی، نہ ہی اس کی اپنے والد سے (سن شعور میں) ملاقات ہے۔ “ [المجموع شرح المهذب : 446/3]

اس کی ایک متابعت بھی موجود ہے . [سنن أبى داؤد : 839، مراسيل أبى داؤد : 42]

لیکن یہ روایت بھی دو وجہ سے ”ضعیف“ ہے :
➊ کلیب بن شہاب تابعی ڈائریکٹ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کر رہے ہیں، لہذا یہ ”مرسل“ ہے اور ”مرسل“ روایت ”ضعیف“ ہی کی ایک قسم ہے۔
➋ شقیق، ابولیث راوی ”مجہول“ ہے۔
اسے امام طحاوی حنفی [شرح معاني الآثار : 255/1] ، حافظ ذہبی [ميزان الاعتدال : 279/2] اور حافظ ابن حجر [تقريب التهذيب : 2819] رحمها اللہ نے ”مجہول“ قرار دیا ہے .
لہٰذا اس کی متابعت کا کوئی اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔

روایت نمبر :

سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے منسوب ہے :
إن من السنة فى الصلاة المكتوبة؛ إذا نهض الرجل فى الركعتين الأوليين، أن لا يعتمد بيديه على الأرض، إلا أن يكون شيخا كبيرا لا يستطيع .
”یہ سنت طریقہ ہے کہ فرض نماز میں جب آدمی پہلی دو رکعتوں کے بعد اٹھے، تو زمین پر ہاتھ نہ ٹیکے۔ سوائے اس صورت کے کہ وہ بوڑھا ہو اس طرح اٹھنے کی طاقت نہ رکھتا ہو۔“ [مصنف ابن أبى شيبة : 394/1، 395]

تبصرہ :
اس کی سند ”ضعیف“ ہے، کیونکہ :
اس کا راوی عبدالرحمن بن اسحاق کوفی جمہور محدثین کرام کے نزدیک ”ضعیف“ ہے۔
◈ حافظ ابن حجررحمہ اللہ نے اسے ”ضعیف“ قرار دیا ہے۔ [تقريب التهذيب : 198، فتح الباري : 13؍523]
◈ حافظ نووی رحمہ اللہ (676-631ھ) لکھتے ہیں :
وهو ضعيف بالاتفاق
”اس راوی کے ضعیف ہونے پر محدثین کرام کا اتفاق ہے۔“ [شرح صحيح مسلم : 173/1]
یہ ”منکر الحدیث“ راوی ہے، لہٰذا یہ روایت ”ضعیف“ ہے۔

روایت نمبر :

ابراہیم بن یزید نخعی تابعی رحمہ اللہ کے بارے میں ہے :
إنه كان يكره ذٰلك إلا أن يكون شيخا كبيرا أو مريضا
”وہ بوڑھے یا مریض کے علاوہ ہاتھوں کو زمین پر ٹیک کر اٹھنے کو مکروہ سمجھتے تھے .“ [مصنف ابن ابی شیبۃ : 395/1]

تبصرہ :
اس قول کی سند ”ضعیف“ ہے، کیونکہ ہشیم بن بشیر واسطی ”مدلس“ ہیں اور انہوں نے سماع کی تصریح نہیں کی۔ ویسے بھی یہ قول نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحیح وصریح فرمان گرامی اور صحابی رسول، سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کے قیمتی عمل کے خلاف ہے، لہٰذا ناقابل التفات ہے۔

الحاصل :
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں جلسہ استراحت یا تشہد کے بعد اگلی رکعت کے لیے اٹھتے وقت دونوں ہاتھوں کا سہارا لے کر اٹھتے تھے۔ صحابی رسول سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی میں یہی طریقہ اختیار کرتے تھے۔ پھر سیدنا مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ نے بھی اسے نبوی طریقہ قرار دیا ہے۔ تابعین کرام نے ان سے یہ سنت سیکھ کر آگے منتقل کی۔ سیدنا مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے شاگرد ابوقلابہ رحمہ اللہ بھی اسی سنت کے قائل و فاعل تھے۔ ائمہ حدیث نے سیدنا مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کی اس حدیث سے یہی سمجھا، سمجھایا ہے اور اسی کو اختیار کیا ہے۔

 

اس تحریر کو اب تک 12 بار پڑھا جا چکا ہے۔

Leave a Reply