نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مسلک

تحریر: مولانا ابوالحسن مبشر احمد ربانی حفظ اللہ

سوال : آج کل ہم بے شمار فرقے دیکھتے ہیں جن کا دعویٰ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ پر ہیں براہِ کرم رہنمائی فرمائیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مسلک کیا تھا ؟
جواب : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دین اسلام کی دعوت پیش کرنے والے سچے نبی و رسول تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر قسم کی فرقہ بندی سے منع کرتے تھے۔ قرآن حکیم میں کئی ایک آیات اور رسول اکر م صلی اللہ علیہ وسلم کی کئی ایک صحیح احادیث فرقہ بندی کی ممانعت پر نص قطعی ہیں۔ اسلام اتحاد و اتفاق کی دعوت دیتا ہے۔ افتراق و تشتت سے منع کرتا ہے۔ شیعہ، دیوبندی، بریلوی اور وہابی جیسے تمام فرقے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کی پیداوار ہیں۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں ایسا سوال کرنا نادانی و حماقت ہے۔ یہ بالکل اسی طرح کی بات ہے جیسے یہود و نصاریٰ نے سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے بارے میں دعویٰ کر دیا۔ یہود کہتے تھے ابراہیم علیہ السلام یہودی تھے عیسائی کہتے تھے کہ وہ عیسائی تھے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآن حکیم میں فرمایا : ’’ اے اہل کتاب ! تم ابراہیم کے بارے میں کیوں جھگڑتے ہو حالانکہ تورات اور انجیل تو ان کے بعد نازل کی گئی ہے ؟ کیا تم سمجھتے نہیں۔ “ پھر آگے فرمایا :
’’ ابراہیم (علیہ السلام ) نہ تو یہودی تھے، نہ نصرانی تھے بلکہ موحد مسلمان تھے اور وہ مشرکین میں سے نہیں تھے۔ “ [آل عمران : 65۔ 67]
امام محمد بن اسحاق، امام ابن جریر اور امام بیہقی رحمه الله نے دلائل النبوۃ میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ نجران کے نصاریٰ اور علمائے یہود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اکھٹے ہو گئے اور جھگڑنے لگے۔ علمائے یہود نے کہا: ’’ ابراہیم علیہ السلام یہودی تھے۔ “ نصاریٰ نے کہا: ’’ وہ تو نصرانی تھے۔ “ تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی اور ان کی تکذیب کی کہ تورات ابراہیم کے تقریباً ایک ہزار سال بعد نازل ہوئی اور انجیل تقریباً دو ہزار سال کے بعد تو ابرہیم علیہ السلام یہودی یا نصرانی کیسے ہو گئے ؟ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ابراہیم خلیل اللہ کی طرف نسبت کے زیادہ حق دار وہ لوگ ہیں جنہوں نے ان کے دین میں ان کی اتباع کی، محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے مہاجرین و انصار صحابہ رضی اللہ عنہ اور دیگر مسلمان۔ [تيسير الرحمان لبيا القرآن : ص/ 1851]
اس توضیح سے معلوم ہوتا ہے کہ یہودی اور عیسائی تو ابراہیم علیہ السلام کے بعد وجود میں آئے تو ان کا یہ دعویٰ مردود ہے کہ ابراہیم علیہ السلام یہودی یا عیسائی تھے۔ کیونکہ ابراہیم علیہ السلام ان کے وجود میں آنے سے پہلے ہی اس دار فانی سے رخصت ہو چکے تھے۔ بالکل اسی طرح یہ بات بھی فضول اور باطل ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم موجودہ فرقوں میں سے کسی ایک مذہب پر تھے کیونکجہ یہ فرقے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سینکڑوں سال بعد میں پیدا ہوئے۔ ان فرقوں میں سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے زیادہ قریب وہ ہو گا جو اللہ کے نبی کے لائے ہوئے دین کی اتباع و اطاعت کرتا ہو گا۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دنیا سے جاتے ہوئے اپنی امت کے لیے کتاب و سنت دو چیزیں چھوڑی ہیں، جس نے ان دونوں پر عمل کر لیا وہ راہ راست پر ہے اور حق پر قائم ہے، جس نے قرآن و حدیث سے اعراض کیا اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی نہ کی وہ گمراہ ہے اور صراطِ مستقیم سے ہٹا ہو ا۔ لہٰذا ہمیں چاہیے کہ ہم ہر طرح کی فرقہ بندی سے کنارہ کشی اختیار کرتے ہوئے کتاب و سنت پر عمل پیرا ہو جائیں اور گمراہی سے بچ جائیں۔ (آمین)

 

اس تحریر کو اب تک 12 بار پڑھا جا چکا ہے۔

Leave a Reply