نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا سایہ

تحریر: مولانا ابوالحسن مبشر احمد ربانی

سوال : ہمارے ہاں یہ مسئلہ پیدا ہو گیا ہے کہ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سایہ مبارک تھا اور کچھ اس کے برعکس بات کرتے ہیں۔ براہ مہربانی صحیح بات کی طرف رہنمائی فرما دیں۔
جواب : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ نبی اور انسان تھے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلسلہ انسانیت ہی سے پیدا کیا تھا اور انسان ہونے کے اعتبار سے یہ بات عیاں ہے کہ انسان کا سایہ ہوتا ہے۔

✿ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے :
وَلِلَّـهِ يَسْجُدُ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ طَوْعًا وَكَرْهًا وَظِلَالُهُمْ بِالْغُدُوِّ وَالْآصَالِ [13-الرعد:15]
’’ اور جتنی مخلوقات آسمانوں اور زمین میں ہیں خوشی اور ناخوشی سے اللہ تعالیٰ کے آگے سجدہ کرتی ہیں اور ان کے سائے بھی صبح و شام سجدہ کرتے ہیں۔ “

✿ ایک مقام پر فرمایا :
أَوَلَمْ يَرَوْا إِلَى مَا خَلَقَ اللَّـهُ مِنْ شَيْءٍ يَتَفَيَّأُ ظِلَالُهُ عَنِ الْيَمِينِ وَالشَّمَائِلِ سُجَّدًا لِلَّـهِ وَهُمْ دَاخِرُونَ [16-النحل:48]
’’ کیا انہوں نے اللہ کی مخلوقات میں سے کسی کو بھی نہیں دیکھا کہ اس کے سائے دائیں او بائیں سے لوٹتے ہیں۔ یعنی اللہ کے آگے عاجز ہو کر سربسجود ہوتے ہیں۔ “
↰ ان ہر دو آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ زمین و آسمان میں اللہ نے جتنی مخلوق پیدا کی ہے ان کا سایہ بھی ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی تو اللہ کی مخلوق ہیں لہذٰا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی سایہ تھا۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سائے کے متعلق کئی احادیث موجو د ہیں :
❀ سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک رات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں نماز پڑھائی اور نماز کی حالت میں اپنا ہاتھ اچانک آگے بڑھایا، مگر پھر جلدی ہی پیچھے ہٹا لیا۔ ہم نے عرض کیا : ’’ اے اللہ کے رسول ! آج آپ نے خلاف معمول نماز میں ایک نیا عمل کیا ہے۔ “ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ نہیں، بلکہ بات یہ ہے کہ میرے سامنے ابھی ابھی جنت پیش کی گئی، میں نے اس میں بہترین پھل دیکھے تو جی میں آیا کہ اس میں سے کچھ اچک لوں مگر فورا حکم ملا کہ پیچھے ہٹ جاؤ، میں پیچھے ہٹ گیا، پھر مجھ پر جہنم پیش کی گئی حتي رايت ظلي و ظلكم اس کی روشنی میں میں نے اپنا اور تمہارا سایہ دیکھا، دیکھتے ہی میں نے تمہاری طرف اشارہ کیا کہ پیچھے ہٹ جاؤ۔ “ [مستدرک حاکم 4/ 456]

❀ ایک حدیث میں ہے :
’’ سیدہ زینب اور سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہما ایک سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھیں، صفیہ رضی اللہ عنہا کے پاس ایک اونٹ تھا اور وہ بیمار ہو گیا جب کہ زینب رضی اللہ عنہ کے پاس دو اونٹ تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ تم ایک زائد اونٹ صفیہ کو دے دو۔ “ تو انہوں نے کہا: ’’ میں اس یہودیہ کو کیوں دوں “ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ناراض ہو گئے۔ تقریبا تین ماہ تک زینب کے پاس نہ گئے حتیٰ کہ زینب نے مایوس ہو کر اپنا سامان باندھ لیا۔ سیدہ زینب رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں : فبينما انا يوما بنصف النهار اذا اتا لظل رسول الله صلى الله عليه وسلم متبل ’’ اچانک دیکھتی ہوں کہ دوپہر کے وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا سایہ آ رہا تھا۔ “ [مسند احمد 6 / 132، طبقات الكبريٰ 8/ 127، مجمع الزوائد 4/ 323 ]

↰ عقلی طور پر بھی معلوم ہوتا ہے کہ سایہ مرئیہ فقط اس جسم کا ہوتا ہے جو ٹھوس ہو اور سورج کی شعاعوں کو آگے گزرنے نہ دے۔ لیکن اگر وہ جسم اتنا صاف اور شفاف ہو کہ وہ سورج کی شعاعوں کو روک ہی نہیں سکتا تو اس کا سایہ بلاشبہ نظر نہیں آتا۔ مثلاً صاف اور شفاف شیشہ اگر دھوپ میں لایا جائے تو اس کا سایہ دکھائی نہیں دیتا کیونکہ اس میں شعاعوں کو روکنے کی صلاحیت ہی نہیں ہوتی، بخلاف اس کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا جسد اطہر نہایت ٹھوس تھا، اس کی ساخت شیشے کی طرح نہیں تھی کہ جس سے سب کچھ گزر جائے۔

↰ لا محالہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سایہ تھا۔ اگر جسم اطہر کا سایہ مبارک نہ تھا تو کیا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم لباس پہنتے تو آپ کو ملبوسات کا بھی سایہ نہ تھا۔ اگر وہ کپڑے اتنے لطیف تھے کہ ان کا سایہ نہ تھا تو پھر ان کے پہننے سے ستر وغیرہ کی حفاظت کیسے ممکن ہو گی ؟

↰ منکرین سایہ یہ کہتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نور تھے اور نور کا سایہ نہیں ہوتا اور یہ بھی کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سایہ اس لیے نہیں تھا کہ اگر کسی کا آپ کے سایہ پر قدم آ جاتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین ہو جاتی، اس لیے اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سایہ پیدا ہی نہیں کیا۔ جہاں تک پہلی بات کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نور تھے اور نور کا سایہ نہیں، سراسر غلط ہے۔ نوریوں کا سایہ صحیح حدیث سے ثابت ہے۔ جب سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کے والد عبداللہ رضی اللہ عنہ غزوہ احد میں شہید ہو گئے تو ان کے اہل و عیال ان کے گرد جمع ہو گئے اور رونے لگے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
ما زالت الملائكة تظله باجنحتها حتى رفعتموه
’’ جب تک تم انہیں یہاں سے اٹھا نہیں لیتے اس وقت تک فرشتے اس پر اپنے پروں کا سایہ کیے رکھیں گے۔ “ [بخاري، كتاب الجنائز : باب الدخول على الميت بعد الموت 1244 ]

↰ اور دوسری بات بھی خلاف واقعہ ہے کیونکہ سایہ پاؤں کے نیچے آ ہی نہیں سکتا، جب کبھی کوئی شخص سائے پر پاؤں رکھے گا تو سایہ اس کے پاؤں کے اوپر ہو جائے گا نہ کہ نیچے۔ لہٰذا ان عقلی اور نقلی دلائل کے خلاف یہ بے عقلی کی اور بے سند باتیں فی الحقیقت کچھ حیثیت نہیں رکھتیں۔

 

اس تحریر کو اب تک 82 بار پڑھا جا چکا ہے۔

Leave a Reply