نا اُمیدی گمراہ لوگوں کا شیوہ

تحریر: ابوعبداللہ

نا امیدی جائز نہیں ، کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کے بارے میں دو طریقے سے سوءِ ظن ہے:
➊ ”نا امید آدمی سمجھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ یہ کام نہیں کر سکتا ، حالانکہ وہ ہر چیز پر ہر وقت قادر ہے ۔
➋ وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کو ناقص سمجھتا ہے ، حالانکہ اللہ تعالیٰ رحیم ہے ، کسی بندے پر کسی بھی وقت رحم کر سکتا ہے ، اس کی رحمت سے نا امید آدمی گمراہ ہوتا ہے ،
چنانچہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
﴿وَمَنْ يَّقْنَطُ مِنْ رَّحْمَةِ رَبِّهٖٓ اِلَّا الضَّآلُّوْنَ﴾ [الحجر: ۵۶]
اپنے رب کی رحمت سے صرف گمراہ لوگ ہی نا امید ہوتے ہیں ۔ “
لہٰذا ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ڈر دل میں رکھنے کے ساتھ ساتھ اس کی رحمت کی امید بھی رکھی جائے ۔
نا امیدی کے دو اسباب ہیں:
➊ یہ کہ آدمی اپنی جان پر ظلم اور گناہوں پر جسارت کرتا رہے ، ان پر مصر اور قائم رہنے کا عزم کر لے ، پھر اللہ تعالیٰ کی رحمت سے امید ختم کر لے ، یہ سمجھتے ہوئے کہ اس نے رحمت کے اسباب ختم کر دئیے ہیں ، آخر کار یہ نا امیدی اس کی عادت بن جاتی ہے اور شیطان انسان سے زیادہ سے زیادہ یہی مقصد حاصل کرنا چاہتا ہے ۔
➋ یہ کہ انسان اپنے کیے ہوئے جرائم کی وجہ سے اتنا ڈر اپنے اوپر سوار کر لے کہ لاعلمی میں یہ سمجھ بیٹھے کہ اب اللہ تعالیٰ اسے معاف ہی نہیں کرے گا ، اگر چہ وہ سچی تو بہ ہی کر لے ، یوں وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس ہو جاتا ہے ۔
انسان کو چاہیے کہ وہ گناہوں پر مصر نہ رہے ، بلکہ ان کو چھوڑ کر اللہ تعالیٰ کے حضور سچی اور پکی تو بہ کر لے ، پھر یہ عقیدہ رکھے کہ تو بہ کے سبب بڑے سے بڑے گناہ بھی معاف ہو جاتے ہیں ، یہی نا امیدی کا خاتمہ ہے ۔

اس تحریر کو اب تک 15 بار پڑھا جا چکا ہے۔

Leave a Reply